- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/27
- 0 رائ
٣ ) تیسری دلیل:
ایسی تفسیر کے قائلین نے بہت سی احادیث اور روایات کو نقل کیاہے جوآیات کی تفسیر میں اصحاب کے درمیان اختلاف ہونے کو بیان کرتی ہے ، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصحاب قرآن کی تفسیر اپنے اجتہاد اور آراء حدسیہ کے مطابق کرتے تھے ورنہ اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا ، لہذا اصحاب میں سے کوئی ناروا تفسیر کرتا تو دوسرے اصحاب اس کو شدت سے منع کرتے تھے، نیز ہم جانتے ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی تھی(۱)
لیکن اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ ایسی دلیل دو مطلب پر مشتمل ہے :
١ ) اصحاب تفسیر کرتے تھے اور اس میں اختلاف بھی ہو چکا تھا۔
٢ ) حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی تھی۔
اصحاب کا تفسیر کرنا اور اس میں اختلاف ہونے کا لازمہ تفسیر بارای کا جواز نہیں ہے ،کیونکہ
ان کا اختلاف دو قسم کا ہے:
الف: اختلاف عملی ۔
ب: اختلاف استعماری۔
بسا اوقات علماء کے درمیان اختلاف ہونے کا سبب زمانے کے ظالم حکمرانی کی پالیسی ہے جس کی بنا اگر کوئی تفسیر کرے یا کوئی بات اسلام سے منسوب کرے تو وہ یقینا قابل مذمت اور ممنوع ہے ۔
لیکن بسا اوقات اختلاف کا سبب محققین اور مفسرین کا فہم و درک ہے اس کے بارئے میں چنانچہ پہلے بھی بیان کیا گیا اگر کوئی شخص اپنے اجتہاد کے مطابق علمی اصول و ضوابط کی روشنی میں برسوں سال مجتہدین کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد تفسیر کرے تو اس کے جواز میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کیونکہ یہ تفسیر بالرای جائز ہے، ایسی تفسیر تفسیربالرای غیر مجاز میں شامل نہیں ہے، لیکن اگر کسی نے تفسیر اپنے بالرای اور اجتہاد کی روشنی میں بغیر کسی اصول و ضوابط اور حوزہ علمیہ میں سالوں سال تلمذ کئے بغیر حزبی اور سیاسی اورمادی اہداف کے حصول کی خاطر خیالات اور گمان کی بنا پر تفسیر کی توایسی تفسیر غیر مجاز ہے، اور تفسیر بالرای حرام ہے لہذا شاید اصحاب کی تفسیر میں اختلاف ہونے کا سبب علمی اصول و ضوابط ہو نہ خیالات اور سست!۔
اور ان کے دوسرے مطلب کا جواب یہ ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے ٹھیک ہے تمام قرآن کی تفسیر نہیںکی ، لیکن تفسیر کرنے کے اصول و ضوابط کو یقینا بیان کیاہے، اور جو لوگ مکتب جعفری سے منسلک ہیں ان کی نظر میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تفسیر اور امام جعفر صادق کی تفسیر میں ان کے عقیدہ کی بنا پر کوئی فرق نہیں ہے، لہذا جو اہل بیت کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کا جانشین نہیں مانتے ان کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تفسیر نہ کرنے کی صورت میں اصحاب کی تفسیر اور نظریہ کی توجیہ اور توضیح کرنی پڑتی ہے ۔
چوتھی دلیل :
حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے کچھ اصحاب کے حق میں دعا کی ہے:” اللہم فقّہ فی الدین و علمہ التاویل” (۲ )
” پالنے والے ابن عباس کو دین میں سمجھ دار بنائے اور تاویل کو سمجھائے ”
حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے اس جملہ دعائیہ میں تأویل سے مراد اپنے نظریہ کے مطابق تفسیر کرنااور توضیح دیناہے لہذا تفسیر بالرای جائز ہے ۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس جملے کوکسی ایسے اصحاب کی شان اور حق میں فرماتے جو تفسیر کے اصول و ضوابط سے واقف نہ تھے یا حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں زانوے تلمذ نہ کرنے والے اصحاب ہوتے تو ایسا احتمال دیا جاسکتا تھا۔
جبکہ ابن عباس تاریخ اسلام میں مفسر اور قاری قرآن کے لقب سے معروف ہیں، ثانیا جملہ دعائیہ سے اس مطلب کو ثابت کرنا نا انصافی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے اللہ سے دعا کی پالنے والے ان کو تاویل قرآن سے نوازے، تاویل قرآن اور تفسیر قرآن میں زمین و آسمان کا فرق ہے انشاء اللہ بعد میں ان کا فرق بھی بیان کرینگے، لغۃ اور اصطلاح کے حوالے سے دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ، ان کے درمیان عام و خاص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے لہذا اسے تفسیر بالرای کا جواز ثابت کرنا اسلامی تعلیمات کے اصول و ضوابط سے آگاہ نہ ہونے کا مترادف ہے ۔
پانچویں دلیل:
ابی جحیفہ سے بخاری نے صحیح بخاری باب جہل میں روایت کی ہے کہ ابی جحیفہ نے کہا میں نے حضرت علی (ع) سے پوچھا کیا قرآن کے علاوہ کوئی وحی ہے ؟ اما م علی (ع) نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شکافت کیا اور نطفہ سے انسان بنایا، ہم سوی قرآن جو اللہ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کیا نہیں جانتے ، اس روایت کا جواب یہ ہے کہ تفسیر بالرای کے قائلین نے اس روایت کے کس جملے سے استدلال کیاہے، معلوم نہیں ہے کیا قرآن کے علاوہ کوئی وحی نہ ہونے کا لازمہ قرآن میںتفسیر بالرّای کا جواز ہے؟ کیا امام علی جیسے اصحاب کے فہم و درک کو تفسیر بالراّی کہا جاتا ہے؟ اگر اس کو تفسیر بالرای کہا جائے تو اول و دوم کے فہم و دردک کو کیا کہناچاہیے؟ جو قیاس اور استحسان کو رواج دینے میں پیشا پیش تھے، انہیں لوگوں نے اپنی بات کی تائید کے لئے غزالی کی بات کو نقل کیاہے، غزالی نے کہا، تاویل قرآن میں سماع کی شرط قرار دینا غلط ہے بلکہ ہر ایک کو اپنے فہم و درک کے اعتبار سے قرآن سے استنباط کرنا چاہیے.(۳)
لیکن اس تائید کا جواب یہ ہے کہ غزالی کی کیا حیثیت ہے کہ اس کی بات کو تفسیر بالرای کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے تائید قرار دیں کیا وہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین ہیں کیا وہ صحابی رسول (ص)خدا ہیں ،کیا وہ تابعین میں سے ہیں، ایسے افراد تاریخ میں بہت ہیں جو اجتہاد درمقابل نص کے شکار ہوئے ہیںکہ جس کو تمام مسلمانوں کے عقیدہ کی بنا پر حرام سمجھا جاتا ہے رجوع کیجئے ۔(۴ )
لہذا کوئی ٹھوس دلیل نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ تفسیر بالرای جو کسی اصول وضوابط کے بغیر خطیب یا مفکر کی حیثیت سے بغیر کسی تحقیق اور تحصیل علوم دینی کے فقط مادی اہداف اوراغراض ومقاصد کی بنا پر کرنا حرام ہے جس کو شریعت اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے”من فسّر القرآن برأیہ فیتبوا مقعدہ فی النار”(۵ )
” اگر کوئی بغیر کسی اصول و ضوابط کے اپنے خیالات کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے تو اس کی جایگاہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ”
تفسیر قرآن کرنے کے لئے برسوں سال تعلیمات اسلامی کی تحصیل کرنے کی ضرورت ہے ، آئمہ معصومین (ع) نے آیات کی کیسی تفسیر کی ہے اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
علامہ طباطبائی، صدر المتالہین، مرحوم حضرت ایت اللہ خوئی، فیض کاشانی، وغیرہ جیسے افراد کی نظر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، یعنی تفسیر قرآن کرنے کے لئے، سولہ موضوعات پر صاحب نظر ہونے کی ضرورت ہے ایک دو کیسٹوں یا روزناموں کا مطالعہ کرنے سے مفسر قرآن نہیں بن سکتا ہے، ایسی تفسیر سننا اور کرنا دونوں حرام ہے۔
اگرچہ حکم واقعی اور مقصود الہی کے مطابق بھی آئے کیونکہ ایسی تفسیر خیالات اور قیاس و گمان اور استحسان کی روشنی میں کی گئی ہے کہ جس کو شریعت میں منع کیا گیا ہے، چاہے ڈاکٹر اور پروفیسر ہوں یا نہ، چنانچہ ہمارے دور میں اسلام اور کتاب و سنت کی نابودی کے لئے ایسے مفسرین کو استعمار کی مدد اور تعاون سے ذرائع ابلاغ اور جریدوں میں مشہور کیا جارہا ہے تاکہ اپنے اہداف کے حصول کے وقت کام آئے۔
حواله جات
( ۱ ) شناخت قرآن، ص٢٠٧
( ۲ ) شناخت قرآن ص٢٠٧
( ۳ ) احیاء العلوم،ص١٨١ )
( ۴ ) مقدمہ مرأۃ العقول ج١ علامہ عسکری )
( ۵ ) شناخت قرآن ص٢٠٩ا