- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/27
- 0 رائ
سیوطی مرحوم نے ابن الجزری سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ قرائت قرآن کے کئی اقسام ہیں، جیسے: متواتر، مشہور، آحاد، شاذ، موضوع ،و مدرج(۱ )
لیکن قراأات قرآن کواس طرح تقسیم کرنا تقسیمات منطقی کے اصول و ضوابط سے دور نظر آتا ہے کیونکہ علوم قرآن کے مباحث میں قرائت سبعہ یا قرائت عشرہ یا قرائت اربعہ عشرہ متواترہ ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں محققین کے درمیان اختلاف ہے بعض محققین کا عقیدہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ متواتر ہے بعض کاعقیدہ یہ ہے قرأت مشہورہ ہے متواترہ نہیں ہے لہذا دیگر اقسام کی طرف تقسیم کرکے ہر قرائت کواس مباحث میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے یعنی قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچی ہے یا قرائت سبعہ فقط مشہور ہے، تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہے ۔
اس مسئلہ کے بارے میں چنانچہ پہلے بھی اشارہ کیا گیا کہ مرحوم آیۃاللہ خوئی کہ جس کے بارئے میں ہمارئے استاد محترم حضرت ایت اللہ العظمی وحید حفظہ اللہ کی تعبیر یہ ہے کہ ایت اللہ الخوی فحل الفوحل عصر ہے اور دیگر اکثر علماء تشیع اور بعض علماء اہل تسنن کا عقیدہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ ہم تک با تواتر نہیں پہونچی ہے بلکہ فقط مشہور ہے جس کی دلیل کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے، لیکن اس نظریہ کے مقابل میں اہل تسنن کے اکثر علماء تواتر کے قائل ہیں جبکہ ہمارے مذہب کے برجستہ علماء میں سے مرحوم سید محمد طباطبائی صاحب مفاتیح الاصول نے اپنی کتاب میں فرمایا قرائت سبعہ کے بارے میں تین نظریے ہیں:
الف: قرائت سبعہ عین وہی قرائت ہے جو حضرت جبرئیل نے حضرت پیغمبر اکرم کو پیش کیا تھا یہ قرائت ہم تک با تواتر پہونچی ہے،جس کے قائلین افراد ذیل ہیں :
ابن مطہر، ابن فہد محقق ثانی، شہید ثانی، حر عاملی، نیز فخر رازی نے بھی کہا ہے کہ اکثر علماء و مجتہدین اسی نظریہ کے قائل ہیں،جس کو ہم نے پہلے مفصل طور پر بیان کئے ہیں۔
ب: بعض محققین نے تفصیل دی ہے قرائت سبعہ میں سے کچھ متواترہ ہے جیسے ملک و مالک ، جبکہ مد اور تخفیف امالہ اور ہأات لفظ متواترہ نہیں ہے، اس نظریہ کو شیخ بہائی ، عضدی اور ابن حاجب وغیرہ نے بھی پسند کیا ہے ۔
ج: قرائت سبعہ چاہے ہیأت لفظ سے مربوط ہو یا جوہر لفظ، کوئی بھی قرائت متواترہ نہیں ہے. جس کے قائلین افراد ذیل ہیں :
شیخ طوسی، نجم الائمہ، جمال الدین خوانساری، سید نعمت اللہ جزائری، شیخ یوسف بحرانی، سید صدر الدین، ابن طاووس، حرفوشی، زمخشری، رازی، آیت اللہ خوئی، کے علاوہ بہت سارے دیگر علماء بھی اسی نظریہ کو پسند کئے ہیں۔(۲ )
لیکن چنانچہ ہم نے پہلے بھی مفصل بحث کر چکے ہیں کہ پہلے نظریے اور دوسرے نظریے کی صحت پر کوئی ٹھوس دلیل عقلی اور نقلی نہ ہونے کی وجہ سے تیسرے نظریے کو قبول کرنے پر مجبور ہیں جسکی صحت پر پہلے کئی روایات نبوی اور معصومین (ع) کی طرف اشارہ کرنے کے باوجود حضرت آیت اللہ العظمی خوئی و فخر رازی وغیرہ نے دلیل عقلی بھی قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔
البتہ قرائت سبعہ متواترہ نہ ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز میں قرائت سبعہ کی تلاوت جائز نہیں ہے کیونکہ طرفین کے علماء اورمجتہدین نے فتوے دیے ہیں کہ قرائت سبعہ میں سے کوئی بھی ہو نماز میں مجزی اور جائز ہے،جس کی ٹھوس دلیل آئمہ اطہار کی تائید بتایا جاتا ہے یعنی معصومین کے زمان میں قرائت سبعہ میں سے ہر ایک قرائت کے ساتھ اصحاب پیغمبر اکرم (ص) اور تابعین نماز پڑھتے تھے، معصومین بھی بخوبی اس سلسلہ سے اگاہ تھے، لیکن منع نہیں کیا، لہذا ہمارے زمانے میں قرائت سبعہ میں سے جس کی قرائت نماز میں انجام دے تو نماز صحیح ہے اور جائزہے ۔
شأن نزول کی وضاحت
قرآن کی آیات کو سبب نزول کے حوالے سے تین قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں :
الف: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کے بغیر اللہ ہی نے مصالح و مفاسد کی بنا پر نازل کیا ہے جیسے سورہ اقراء کہ سب سے پہلے نازل شدہ سورہ اور آیت بتایا جاتا ہے جس کے نزول کےلئے سوی مصالح اور مفاسد باطنی کوئی سبب خارجی نظر نہیں آتا ۔
ب: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کی وجہ سے نازل کی گئی ہےں جیسے سورہ برأۃ سورہ منافقون اور وہ آیات جو اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔
ج: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی سوال و جواب کی وجہ سے نازل ہوئی ہیں۔
اسباب نزول کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا علوم قرآن کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن کے مہم مسائل میں سے ایک شان نزول کی معرفت بتائی جاتی ہے ، لہذا بہت سے محققین نے اسباب نزول کی معرفت کی اہمیت کے بارے میں تاکید کی ہے جیسے:واحدی نے کہا آیت کی تفسیر، شأن نزول کی معرفت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
جناب ابن دقیق العبد نے کہا، شأن نزول کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا فہم قرآن اور افہام و تفہیم قرآن کیلئے بہت ضروری ہے ۔
ابن تیمیہ نے کہا: شان نزول کی معرفت اور شناخت فہم معانی قرآن کےلئے سبب ہے اس کے بغیر فہم معانی قرآن ناممکن ہے، کیونکہ سبب کے بغیر مسبب کا حاصل ہونا محال ہے ۔
لہذا شان نزول کی شناخت حاصل کرنے میں در جہ ذیل افادیت پوشیدہ ہے :
الف: فہم معانی قرآن کا سبب بنتا ہے ۔
ب: جن افراد کی شان میں آیات نازل ہوئی ہیں چاہے ان کی مذمت اور عقاب کے بارے میں ہو ںیا مدح و ثناء کے بارے میں ان کی شناخت اور معرفت حاصل ہوتی ہے، جو نئی نسلوں کےلئے بہترین عبرت ہے ۔
ج: نیز آیات اور سورے جن افراد اور اسباب کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں وہ انہیں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ جن افراد میں وہ مزیت اور اسباب موجو ہیںچاہے زمان حال میں ہو یا زمان آیندہ یا گذشتہ ہر ایک ان آیات کا مصداق بن سکتا ہے،یعنی علم اصول میںمکمل ایک بحث ہے ،کیا سبب نزول آیت اورحکم کی تخصیص کا سبب بن سکتا ہے یا نہ ،جس میںاکثر علماء اصولین کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ تخصیصی حکم او رآیت کا سبب نہیں بن سکتا ۔
چنانچہ شیخ طوسی نے سورہ آل عمران، آیت نمبر ١٩٩ کی شان نزول کو نجاشی ذکر کرنے کے بعد فرمایا: اگرچہ اس آیت کا سبب نزول نجاشی ہی ہے لیکن آیت اس کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل کتاب میں سے جو بھی ایمان لایا وہ آیت کا مصداق ہے، کیونکہ شان نزول مخصوص ایک فرد یاایک طبقہ ہونے سے ،آیت کو اس کے ساتھ مخصوص کرنا لازم نہیں ہوسکتا ۔(۳)نیز ابو القاسم ، ابو مسلم اور قاضی نے کہا آیت کا کسی خاص سبب کی وجہ نازل ہونا اس کے ساتھ مخصوص ہونے کا سبب نہیں بن سکتا بلکہ آیت کو عام پر حمل کرکے ہر وہ افراد مراد لے سکتے ہیں کہ جن میں اس کی خاصیت پائی جاتی ہے ۔(۴ )
حضرت آیت اللہ بجنوردی نے قاعدہ احسان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جب جنگ تبوک میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے مقرن کے تین فرزندوں نے جوتے مانگے توآنحضرت ؐ کے پاس جوتے نہیں تھے اس وقت یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی:” قل لااجدما احملکم علیہ”آیت انہیں تین بندوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ہر ایک
کے لئے ہر زمانے میں عبرت ہے، کیونکہ بہت ساری آیات کسی خاص مورد، اور فرد میں نازل ہوئی ہیں ، لیکن ہمارے مجتہدین اور فقہانے اس سے عموم اور شمول پر استدلال کئے ہیں۔(۵ )
سیوطی نے کتاب اتقان میں ابن تیمیہ کی بات کو نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جو بھی آیات کسی خاص دور اور شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہیںوہ انہیں کے ساتھ مخصوص نہیں کرسکتے ہیں(۶ )
ابن تیمیہ اور اس جیسے دیگر افراد کا نام لینے کا مقصدیہ نہیں ہے کہ ان کا عقیدہ مذہب حقہ کے نزدیک بھی صحیح ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ علوم قرآن کے مسائل میں سے بعض ،کسی خاص مذہب کے عقید ہ، اور اصول و ضوابط میں سے امامیہ، یا اہل حدیث ہونے کی حیثیت سے کوئی دخالت نہیں ہے بلکہ بحیثیت مسلمان ان سے بحث کی ہے ۔
لہذا آیت کی شان نزول، طرفین کی نظر میں آیت کی تخصیص اور حکم کو اسی مورد کے ساتھ مخصوص کرنے کے لئے سبب نہیں بن سکتا ۔
………………………..
حواله جات
(۱) الاتقان
( ۲ ) تبیان ج١، سعد السعود ص١٨١، شناخت قرآن ص ١٧٤ )
( ۳ ) تبیان ج٢ )
( ۴ ) شناخت قرآن ص١٩٠
( ۵ ) قواعد الفقہیہ ،ج٤،،ص٧٠ )
( ۶ ) اتقان،ج١،ص١١