- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/28
- 0 رائ
تحریف قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے علماء اور محققین اور مکاتب فکر حضرات نے کہاہے کہ تحریف قرآن کے مسئلہ کو علوم قرآن کے مسائل میں مرکزیت حاصل ہے، لہذا تحریف قرآن کے موضوع پر ہی مکمل کتابیں تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں ،لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریف قرآن کے اقسام اور اس کے بارے میں مکاتب فکر کے نظریات کی طرف فقط اشارہ کرنے پر اکتفاء کروں گا۔
تحریف قرآن کو علماء اورمکاتب فکر نے تین قسمون میں تقسیم کیاہے :
١۔ تحریف زیادی۔
٢۔ تحریف کمی۔
٣۔ تحریف تبدیلی۔
الف: تحریف اضافی و زیادی: یعنی جو قرآن آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود ہے اس کی کچھ آیات پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ قرآن کریم میں سے نہیں ہیں بلکہ بعد میں اضافہ کیا گیاہے، ایسی تحریف کے مسلمانوں میں سے فقط دو گروہ قائل ہوئے ہیں۔
١۔عجاردہ: یعنی وہ لوگ جو عبدالکریم عجرد کی پیروکار ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ یوسف قرآن کا جزء نہ تھا بلکہ بعد میں اضافہ کیا گیا ہے ۔
٢۔ابن مسعود کی طرف بھی اس تحریف کی نسبت دی گئی ہے کہ وہ معتقد ہے کہ سورہ معوذتین کو قرآن کا جزء نہیں سمجھتے ہیں۔
ایسے نظریے کو تمام مسلمان باالاتفاق باطل سمجھتے ہیں اور صحیح نہ ہونے کو ضروریات دین اسلام میں سے قرار دیتے ہیں۔
ب: تحریف کمی: یعنی جو قرآن ہمارے درمیان موجود ہے اس میں کچھ آیات یا کچھ الفاظ اس قرآن سے حذف اورکم کئے گئے ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کی گئی تھی۔
ایسی تحریف کے اہل تسنن کے کچھ علما ء قائل ہوئے ہیں جبکہ ہمارئے علماء کاموقف من البدوی الی الان یہ رہا ہے کہ ایسی تحریف قرآن میں واقع نہیں ہوئی ہے ۔
چنانچہ فضل بن شاذان کو امامیہ کے قرن سوم کے مصنفین اور علماء میں سے شمار کیا جاتاہے فرمایا قرآن کی کسی ایات اور الفاظ مین کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ موجودہ قرآن عین وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کیا گیا ہے ۔
استاد محترم الحاج دکتر محمدی کی دو جلد کتابیں تحریف قرآن کے بارے میں اور الحاج حضرت آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی کا ایک تحقیقی مقالہ جس کا ترجمہ راقم الحروف کے ہاتھوں اردو میں ہو چکا ہے اور شناخت قرآن ص ٧٧ جیسی گرانبہا کتابیں مزید معلوما ت کیلئے بہت زیادہ مناسب ہیں رجوع کیجیے ۔
ج: تحریف جابجائی: یعنی کسی کلمہ اور لفظ میں یا ترکیبات اور اعراب میں تبدیل کا لانا ،ایسی تبدیلی واقع ہونے کے قائلین بہت ہیں، اور جن روایات سے بظاہر ایسی تحریف واقع ہونا سمجھ میں آتا ہے ان کو امامیہ کے مخالف دیگر فرق مسلمین سے منسوب کئے ہےں۔
٣۔ محمد بن علی بن بابویہ قمی جو شیخ صدوق کے لقب سے معروف و مشہور ہیں اور جہان تشیع میں چوتھی صدی کے عظیم اورنامور عالم سمجھے جاتے ہیں، اپنی رسالہ الاعتقادات میں فرمایاہے ۔
قرآن کے بارے میں شیعہ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جو قر آن آج ہمارے پاس موجود ہے ، یہ ہو بہو وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) پرنازل کیا گیا تھا، جس میں کوئی کمی اور اضافہ نہیں ہوا ہے،لہذاجو لوگ قرآن میں کمی اور پیشی واقع ہونے کا نظریہ ،امامیہ مذہب سے منسوب کرتے ہیں وہ جھوٹ ہے ۔
٤۔ مرحوم علی بن الحسین موسوی جو سید مرتضی علم الہدی کے لقب سے معروف ہیں ،شیعہ امامیہ کے عظیم علماء و مجتہدین میں ایک ہیں ،انہوں نے فرمایا: جس طرح کائنات میں موجودات اورواقعات و حوادث کا رونما ہونا یقینی ہے اسی طرح قرآن مجید بھی ہم تک کسی قسم کی کمی اور بیشی کے بغیر پہونچنے پر یقینی ہے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کی حفاظت کے لئے مسلمانوں اور اصحاب کیلئے شدت کے ساتھ تاکید کے علاوہ بہت بڑا اہتمام بھی کیا تھا اور سید مرتضی نے اپنی گفتگو کے آخر میں فرمایا ہے کہ جو لوگ امامیہ مذہب سے منسلک ہیں اور جولوگ مذہب اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں ان میںسے فقط حشویہ ایسی تحریف کے قائل ہوئے ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ جتنی روایات سے ایسی تحریف کے ہونے پر استدلال کیا گیا ہے وہ تمام ضعیف السند ہیں۔ (١ )
٥۔ مرحوم شیخ الطائفہ نے فرمایا: قرآن میں ایسی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، اور جتنی روایات ایسی تحریف واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے و ہ تمام ضعیف السند ہے جس سے تحریف قرآن کو ثابت کرنا لا علمی کا نتیجہ ہے لہذا ہل تشیع کی نظر میں صحیح نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کمی اور پیشی واقع نہیں ہے ۔ (٢ )
٦۔ مرحوم الحاج طبرسی عظیم مفسر قرآن نے فرمایا: قرآ ن میں اضافہ نہ ہونے پر امامیہ کا اجماع ہے لیکن کمی واقع ہونے پر اجماع تو نہیں ہے مگر صحیح نظریہ یہ ہے کہ جس طرح قرآ ن میں اضافہ نہیں ہوا ہے اسی طرح کمی بھی نہیں ہوئی ہے ۔(٣ )
٧۔ ابن طاووس نے کہا : شیعہ امامیہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں لہذا ان لوگوں پر تعجب ہے کہ جن کا عقیدہ یہ ہو کہ موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ہی جمع آوری کا حکم دیا ہے اس کے باوجود آیات کی بارے میں اہل مکہ و بصرہ و کوفہ و مدینہ کے مابین اختلاف ہونے کو نقل کریں اورکہتے ہیںکہ کچھ کی نظر میں بسم اللہ آیات میں سے ایک آیت نہیں ہے کسی کی نظر میں آیات میں سے ایک ہے جبکہ دوسری طرف سے تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں، یہ دو باتیں تضاد ہیں قابل جمع نہیں ہیں! (۴ )
٨۔ مرحوم ملا محسن فیض کاشانی نے کہا جو روایات اور احادیث تحریف پر دلالت کرتی ہیں وہ در حقیقت کتاب الہی کے مخالف ہے ۔(۵ )
٩۔ مرحوم شیخ بہائی نے کہا کہ ہمارے نزدیک صحیح نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، لہذا جو لوگ آیت مبلّغ وغیرہ میں کچھ کلمات حذف ہونے کے قائل ہے و ہ نظریہ ہمارئے نزدیک صحیح نہیں ہے ۔(۶ )
١٠۔ مرحوم شیخ محمد بن حسن صاحب و سایل الشیعہ نے کہا جو لوگ آئمہ معصومین (ع) سے منقول روایات اور احادیث کی تحقیق کرینگے تو اس کو علم حاصل ہوجاتا ہے کہ قرآن ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچا ہے جس میں کسی قسم کی تحریف کا احتمال دینا غلط ہے ۔( ۷ )
١١۔ کاشف الغطاء کتاب اصل الشیعہ میں فرمایا قرآن میں کسی قسم کی تحریف اور کمی و بیشی واقع نہیں ہوئی ہے لہذا ایسا نظریہ جو تحریف واقع ہونے پر مشتمل ہے، اہل تشیع سے نسبت دینا بہتان اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔(۸)
مرحوم علامہ طباطبائی نے سورہ حجر کے آیہ ٩ کی تفسیر میں فرمایا: (قرآن زندہ و حیات جاویدانی کا حامل ہے اس میں موت او ر فراموشی اضافہ اور کمی یا کسی قسم کی تبدیلی کی راہ ہی نہیں ہے )
ان کے علاوہ شیخ مفید کوجو قرن سوم ہجری کے علماء میں سے شمار کئے جاتے ہیں قاضی نوراللہ شوشتری، شہشہانی بلاغی ، شیخ انصاری دیگر اکثر علماء امامیہ ایسی تحریف نہ ہونے کے قائل ہو ئے ہیں کیونکہ شیعہ امامیہ کے عقیدے کی بنا پر ہرگز ایسی تحریف کے قائل نہیں ہو سکتے ، کیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن اور عترت اہلبیت دو ایسے مرجع اور ماوی ہیں جو اللہ کی طرف سے بشر کی نجات کا ذریعہ ہیں اگر قرآن جیسے مرجع و مأوی میں کمی اور اضافے ہونے کے قائل ہو جائیں تو” انی تارک فی الثقلین کتاب اللہ و عتری ”کا عقیدہ غلط ہو جاتا ہے،و ہ قرآن انسان کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے؟ جس میں کمی اور اضافے کا احتمال دیا جاسکتاہے ۔
لہذا سورہ حجر آیت ٩ سورہ فصلت آیہ ٤١،١٢ سورہ بقرہ آیت ٢ ،سورہ سجدہ ایت ٣٢ ، حدیث ثقلین اور دیگر روایات متواترہ کے علاوہ عقل کی رو سے تحریف کمی و زیادی کے قائل نہیں ہو سکتے رجوع کیجئے ۔(۹ )
البتہ ہم نے گذشتہ مباحث میں علماء اور محققین کے کلام کو نقل کرتے ہوئے تحریف کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے :
١۔ تحریف کمی
٢۔ تحریف زیادی
٣۔ تحریف تبدیلی
جبکہ یہ تینوں قسمیں تحریف لفظی کے اقسام ہیں لہذا تحریف کو ابتدائی مرحلہ میں اس طرح تقسیم کرنا چاہیے کہ ایک تحریف معنوی دوسری تحریف لفظی اس کے اقسام کمی ،زیادتی ،تبدیلی ہیں۔
تحریف لفظی میں سے تحریف کمی و زیادی کے بارئے میں دلیل عقلی اور نقلی کی روشنی میں واضح ہواکہ اس کے قائل نہیں ہو سکتے ، لیکن تحریف تبدیلی یعنی آیات کے الفاظ اورسورے جابجا قرار دینا یا مختلف اعراب سے اس کی قرائت کرنا یہ یقینا واقع ہو ئی ہے ،لیکن یہ حقیقت میں تحریف نہیں ہے کیونکہ آئمہ معصومین نے ایسی قرائت کی تائید کی ہے اور ایسی تبدیلی میں فلسفہ نزول قرآن کے ساتھ کوئی ٹکراو بھی نہیں ہے ۔
لہذا تحریف قرآن سے فقط تحریف کمی اور زیادی سمجھ میں آتی ہے کچھ علماء اور محققین نے تحقیق کے بغیر ایسی تحریف کو امامیہ مذہب سے منسوب کرنا سوای بہتان اور جھوٹ کے کچھ نہیں ہے،کیونکہ ہمارے تمام علماء کا( چاہے متقدمین میں سے ہوں، یا متاخرین میں سے) عقیدہ یہ ہے کہ ایسی تحریف کے ہرگز قائل نہیں ہو سکتے ۔
چنانچہ بہت سے علماء کانام پہلے ذکر کیاگیا ان کے علاوہ افراد ذیل نے صاف لفظوں میں تحریف کے نظریہ کو باطل قرار دیاہے ، ابن ادریس ،کما ل الدین ،الکاشفی ،شیخ ابو الفیض، شیخ الاسلام ،محمد بن الحسین ، صدر الدین ، محمد بن ابراہیم الشیرازی، علامہ ، نورالدین محمد بن مرتضی ، محمد بن محمد رضا مشہدی، شیخ عبداللہ شبر، سیدحسین الکوہ کمری، محقق تبریزی، سید محمد مہدی میر محمدی، شیخ حسن زین الدین، حضرت امام خمینی رحمۃاللہ کے علاوہ اس دور کے علوم قرآن کے تمام محققین قرآن میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں رجوع کیجئے ۔(۱۰ )
لیکن جو لوگ قرآ ن میں کمی واقع ہونے کے قائل ہیں ان کے کچھ استدلال ہیں جس کا خاکہ درجہ ذیل ہے :
١۔ اگر قرآن میں تحریف نہ ہوتی تو ابن مسعود اور ابی بن کعب کے مصحف میں اختلاف نہیں ہوناچاہیے تھا جبکہ ان کے مصاحف کے ساٹھ موارد میں اختلاف ہے ۔
٢۔ اگر کسی چیز کے اجزاء متفرق اورمختلف ہوں اور اس کی جمع آوری ابو بکر کے زمان میں وقع ہوئی تو اسکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی جزء اور حصے میں کمی اور تبدیلی آچکی ہوگی۔
٣۔ حضرت علی (ع) کا قوم سے بایکاٹ کرکے قرآن کی جمع آوری کیلئے سینہ بہ تن ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے ۔
٤۔ بہت ساری روایات کا مضمون ایسا ہے کہ گذشتہ امتوں کے ہو بہو وقائع اور حوادث اس امت میں بھی رونما ہو گئے، یہ تحریف واقع ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
٥۔ احادیث اور روایات اہل سنت اور شیعہ امامیہ کے اسناد سے کثیر تعداد میں نقل کیا گیا ہے، جن سے تحریف قرآن سمجھ میں آتا ہے ۔
حتی بعض محدثین نے ایک ہزار ایک سو بائیس احادیث بتائی ہیں، جس کا مضمون قرآن میں کمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے اسی لئے بعض علماء ، تحریف پر دلالت کرنے والی احادیث میں تواتر اجمالی کے قائل ہوئے ہیں۔
لیکن تواتر اجمالی کا دعوی ایسا دعوی ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے شاید تواتر اجمالی کا دعوی احادیث کی تعداد زیادہ نظر آنے کی وجہ سے کی ہو جبکہ ان روایات کے سند سے چشم پوشی کرکے مضمون کو کڑی نظر سے غور کریں تو ان کا مضمون مطالب ذیل پر مشتمل ہوتے ہوئے نظر آتا ہے ۔
الف: کچھ روایات قرآن میں لحن اور دیگر لہجے کے حوالے سے مختلف اور متعدد ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔
ب: کچھ دستہ روایات قرآن میں کوئی کلمہ اضافہ یا حذف یاتبدیل ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
ج: بعضی روایات موجودہ قرآن میں کچھ سورتیں اور آیات اضافہ ہونے کی خبر دیتی ہیں۔
د: کچھ روایات قرآن کی بعض آیات شیطان(نعوذ باللہ) کے القاأات میں ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
ر: کچھ روایات قرآن میں تحریف اورکمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
ھ: کچھ روایات بعض کلمات اور الفاظ قرآن میں، زمانے کے حکمرانوں نے تبدیل لانے کی خبر دیتی ہے ۔
جبکہ محققین نے تواتر کو فقط دو قسموں میں تقسیم کیا ہے :
١۔ لفظی۔
٢۔معنوی۔
صرف مرحوم آخوند خراسانی اور ان کے بعد والے محققین نے تواتر کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:
(١) تواتر لفظی
( ٢ ) تواتر معنوی
( ٣ ) تواتر اجمالی
اور مرحوم آقای نائینی نے مرحوم آخوند خراسانی کو جواب دیتے ہوئے فرمایا :
تواتر کو تین قسموں میں تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ تواتر اجمالی وہی تواتر معنوی ہے اس کے مقابل کوئی تیسری قسم نہیں ہے، لہذا پہلا جواب یہ ہے کہ تواتر اجمالی کا نظریہ علماء متاخرین کے ایک گروہ کا نظریہ ہے ۔
ثانیا: اگر تواتر اجمالی کا نظریہ قبول بھی کریںتو روایات کے مضامین ایک مطلب کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہیں بلکہ روایات کچھ مختلف ومتباین مطالب کی طرف اشارہ کرتی ہیں جبکہ تواتر اجمالی اس کو کہا جاتاہے جو بہت ساری رویات الفاظ اور تعابیر کے حوالے سے مختلف ہوں، لیکن تمام کے تمام ایک ہی مطلب کی طرف اشارہ کریں۔
لہذا ایسی روایات میں تواتر کا دعوی کرنا نا انصافی کے سوا کچھ نہیں ہے، جب ہم نے تواتر کے دعوے کو باطل قرار دیا تو ایسی روایات خبر احاد بن جاتی ہیں جس کو کسی مسئلہ پر دلیل قرار دینے میں شرایط ذیل لازم ہیں :
١ ۔ سند کے حوالے سے تمام روات موثق ہوں۔
٢۔ صدور کے حوالے سے تقیہ وغیرہ کا احتمال نہ ہو۔
٣۔ مضمون کے حوالے سے کوئی اشکال اورخلاف عقل وقرآن نہ ہو۔
جبکہ مذکورہ روایات میں سے کسی ایک کی سند علم رجال کے اصول و ضوابط کے مطابق معتبر نہ ہونے کے باوجود مضمون کے حوالے سے روایات صحیح السند اور نص قرآن کریم اور عقل کے مخالف ہے ۔
لہذا ایسی روایات کو معصومین کے دستور کے مطابق دور پھینکنا چاہیے اور ایسی روایات کی بنا پر تحریف قرآن کے قائلین کو چاہیے علم اصول علم الرجال ،فقہ الحدیث، فقہ اللغۃ، اور دیگر بنیادی تعلیمات اسلامی کو بخوبی یاد کریں، فقط ایک دو اصطلاح یاد کرکے پورے مسلمانوں کے ضمیر کو مجروح کرنا دور حاضر کی تحقیقات کے منافی ہونے کے علاوہ بہت ہی نا انصافی ہے،اور انکے باقی ادلے قابل جواب نہیں ہے لہذا ہزاروں شیعہ امامیہ اور اہل سنت کے محققین عربی ، فارسی ، انگلش، اردو ،اور دیگر زبانوں پر قرآن میں تحریف نہ ہونے کے موضوع پر تحقیقی مقالات اور کتابیں لکھی ہیںرجوع کریں۔ (۱١ )
تحریف معنوی کا اجمالی خاکہ :
چنانچہ ذکر کیاگیا کہ تحریف کو محققین نے دو قسموں میں تقسیم کیاہے :
الف۔ تحریف لفظی :کہ اس کی وضاحت سے ہم فارغ ہوگئے ۔
ب۔ تحریف معنوی :
یعنی کسی لفظ اور آیت سے ایسا معنی ارادہ کرنا جو اہل زبان اور عربی دان کی نظر میں معمول اور رائج نہیں ہے،چاہے اس کا سبب کمی ہو، یا اضافی ، یا مخصوص جگے کا
تبادلہ اور دیگر عوامل اور اسباب ہوں۔
تحریف معنوی کی ایسی تعریف میں ہر وہ تفاسیر بھی شامل ہیں جو بظاہر کلام کے ظہور سے ہماہنگ نہیں ہے۔
…………………………..
حواله جات
( ١ ) مجمع لبیان ج١ ص١٥
( ٢ ) مقدمہ تفسیر تبیان
( ٣ ) مجمع البیان ج١ ص١٥
( ۴ ) سعد السعود ص ١٤٤
( ۵ ) تفسیر صافی،ج١ ص٥١
( ۶ ) الاء الرحمن ص٢٦
( ۷ ) اظہار الحق،ج٢،ص١٢٩
(۸) کشف الغطائ،ص٢٩٩
( ۹ ) شناخت قرآن ص٧٨، حریم قرآن کا دفاع ص١٩، سعد السعود ص١٩٣، سلامت القرآن من التحریف،ج١ ص٢٨، الذخیرہ فی علم الکتاب ص٣٦١ )
( ۱۰ ) سلامت القران من التحریف ج١ ص٣٠، تہذیب الاصول ج٢ ص١٥٦٢، معالم الاصول ص ١٤٧، الفصول المہمہ، ص١٦٦ )
( ١۱ ) فضائل القرآن ص١٦١، سلامت القرآن من التحریف،ج١ص١٠٣، تذکرۃ الحفاظ،ص٤١٧، محاضرات الادباء ،ج٢،ص٤٣٥، البیان فی تفسیر القرآن،ج١،ص٢١١)