- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/04
- 0 رائ
ایک یا چند آیتوں کے لئے مثلاً نماز، جہاد، یا امربالمعروف و نہی عن المنکر سے متعلق آیتوں کے لئے ایک جامع اور کلی عنوان تلاش کرلینا کوئی مشکل کام نہیں ہے البتہ چند عنوانات کو ربط و ترتیب کے ساتھ ایک منظم شکل دینا یا ایک زنجیر میں پرودینا واقعی مشکل ہے۔ یعنی فرض کیجئے کہ ہم نے پورے قرآن کی تحقیق کی اور جو مفاہیم ہاتھ آئے، مثلاً سو عناوین ان کے تحت، ہم نے ان کی تقسیم بندی کردی اب مسئلہ یہ ہے کہ خود ان عناوین کو کس طرح مرتب کریں کہ ایک منظم نظام وجود میں آجائے؟ مثال کے طور قرآن کی پہلی آیت حمد باری تعالیٰ میں ہے لہٰذا پہلا عنوان “حمد خدا” قرار دیںا اسی طرح سورہٴ بقرہ کی ابتدائی آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے کہ قرآنی ہدایت جن کے شامل حال ہوئی ہے لہٰذا دوسرا عنوان “ہدایت” قرار پائے گا اور اسی طرح تمام عنوانات، لیکن کیا ہم اسی ترتیب سے تمام عنوانات کی تقسیم بندی کریں؟ یا خود ان عنوانات کے درمیان بھی ایک نظم و ترتیب ممکن ہے اور ان کی ابتدا کے لئے بھی ایک طبیعی و منطقی نقطہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے؟
ان عناوین کو ایک زیادہ جامع اور ہمہ گیر عنوان کے تحت درج کیا جاسکتا ہے مثلاً نماز، روزہ، خمس اور زکواة وغیرہ کو “عبادات” کے عنوان سے، بیع (خرید و فروخت) ۔ اجارہ (کرایہ داری) اور قرض وغیرہ کو “معاملات” کے عنوان کے تحت درج کیا جاسکتا ہے اب ان جامع اور کلی عنوانوں کو کس طرح تنظیم و ترتیب دیں؟ اور ان کے درمیان کون سا رابطہ ملحوظ نظر رکھیں؟
تقسیم کے قاعدے
اس منزل میں تین قاعدے بیان کئے جاسکتے ہیں (دیگر قواعد بھی ممکن ہیں لیکن ہم نمونہ کے طور پر یہاں قرآنی معارف کی تقسیم بندی کے جو اہم قاعدے پیش کئے جاتے ہیں بیان کررہے ہیں تاکہ ان کے درمیان سے ا یک قاعدہ اپنے لئے منتخب کرسکیں۔
پہلا قاعدہ ذہن
اس تقسیم بندی سے زیادہ آشنا ہوں کہ تمام دینی مطالب تین قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں…
1۔ عقائد
2۔ اخلاق
3۔ اور احکام
تفسیر المیزان میں بھی بہت سے مقامات پر اس روش کا ذکر کیا گیا ہے اس طرح تقسیم بندی کا ایک طریقہ تو یہ ہوا کہ تمام قرآنی معارف کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے کہ ایک حصہ اصول عقائد (توحید، نبوت، معاد، عدل اور امامت) نیز ان اصول دین کے جزئیات مثلاً عالم برزخ کے جزئیات کے باب میں، دوسرا حصہ اخلاق کے باب میں اور تیسرا حصہ احکام کے باب میں ہو اور ہمارے فقہا نے احکام کے باب میں یہ کام کیا بھی ہے۔ انہوں نے آیات الاحکام کے موضوع پر “کنزالعرفان” اور “زبدة البیان” جیسی مستقل کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔
یہ قاعدہ شاید دیکھنے میں بہت اچھا محسوس ہو اور بظاہر ہے بھی بہت خوب، لیکن اس میں معمولی طور پر سہی دشواریاں اور خرابیاں بھی نکالی جاسکتی ہیں اوّلاً یہ کہ تمام مفاہیم قرآنی کو ان تین حصوں میں سمونا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر قرآنی آیات کا خاصا اہم حصہ تاریخ انبیاء اور پیغمبروں کے واقعات پر مشتمل ہے اگر چہ ان داستانوں کے ضمن میں بھی توحیدی، تشریعی اور اخلاقی نکتے موجود ہیں لیکن پوری کی پوری داستان اس فہرست میں رکھی جاسکتی نہ اُس فہرست میں بلکہ یہ خود ایک مخصوص حصہ اور مستقل عنوان ہے جن کو اگر جملوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے تو داستان باقی نہ رہے گی اور اگر کوئی اصحاب کہف سے متعلق قرآنی نقطہ نظر معلوم کرنا چاہے اس کو پتہ نہ ہوگا کہ یہ واقعہ کس باب میں تلاش کرے ایک روشن و گویا باب جس کے ذیل میں ہر انسان آسانی سے تمام قرآنی داستانیں مشخص طور پر جان لے اس تقسیم کے تحت میسر نہ ہوگی۔
اس میں، جزئی طور پر، ایک قابل اعتراض پہلو یہ بھی ہے کہ خود یہ تینوں اقسام ایک دوسرے سے کوئی واضح رابطہ و تعلق نہیں رکھتیں اور بڑی دقت کے ساتھ ہی ان میں رابطہ قائم کیا جاسکے گا، البتہ یہ اعتراضات بڑی ہی جزئی حیثیت رکھتے ہیں اور اس سے بہتر و مناسب کوئی دوسری راہ نہ ہونے کی صورت اس ہم اسی قاعدہ پر عمل کرسکتے ہیں۔
دوسرا قاعدہ
دوسرا قاعدہ اس بات پر مبنی ہے کہ قرآن کو انسان کے لئے ہدایت مانتے ہیں: “ھدی للنّاس” اور انسان چونکہ گوناگوں مادی، معنوی، فردی، اجتماعی، دنیوی و اخروی پہلوؤں کا حامل ہے لہٰذا قرآنی معارف کو وجود انسانی کے مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے تقسیم کرتے ہیں اس طرح قرآنی معارف کی تقسیم بندی کو محور خود “انسان” کو قرار دیتے ہیں۔
یہ کام یقیناً ممکن ہے اور اس میں کوئی بنیادی نوعیت کا قابل اعتراض پہلو بھی نظر نہیں آتا لیکن فنی کمزوریاں پہلے قاعدے سے زیادہ اس میں ہیں کیونکہ جب ہم قرآن کے دقیق مفاہیم سے آشنا ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ خود انسان کو محور قرار دینا قرآن کی نظر میں بہت زیادہ قابل قبول نہیں ہے، اور ایہ ایک قسم کا “ہیومنسٹ” طرز فکر ہے جس میں انسان کو اصل قرار دیتے ہیں اور ہر چیزکی قدر و قیمت انسان سے ربط و تعلق کی بنیاد پر قائم کرتے ہیں! قرآن اس انداز فکر کا موافق نہیں ہے، ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ تمام قرآنی مفاہیم کے تمام ابواب عقائد سے لے کر اخلاق، موعظہ، داستان، تشریع، فردی و اجتماعی احکام وغیرہ تک سب کے سب ایک اور صرف ایک محور رکھتے ہیں اور وہ خود خداوند تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے، چنانچہ قرآن جہاں کوئی قانون اور حکم بیان کرتا ہے کہتا ہے: خدا نے تم پر یہ حکم نازل فرمایا ہے، جہاں کسی اخلاقی پہلو کا ذکر کرتا ہے کہتا ہے یہ وہ خلق عادت ہے جو خدا کو پسند ہے…ملاحظہ فرمائیں: ۔
سورہٴ مائدہ کی ۴۲ویں آیت: “واللّه یحب المقسطین”، (اللہ انصاف پسند لوگوں کو دوست رکھتا ہے) آلِ عمران کی ۱۴۶ ویں آیت: “واللّه یحب الصّابرین”، (اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے) قصص کی ۷۷ ویں آیت: “ان اللّه لایحب المفسدین”، (اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا) لہٰذا اخلاق کا محور بھی خدا کی ذات ہے، بنابرین ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآنی آیات “اللہ محوری” کی اساس پر مبنی ہیں دوسرے لفظوں میں مکتب قرآن مکتب الہٰی ہے “ہیومنزم” نہیں ہے۔ پس انسان کو محور کل قرار دینا ایک طرح کا انحراف ہے قرآنی معارف کا محور خدا کو قرار دینا چاہیئے اور اس کی پوری طرح حفاظت کرنا چاہیئے۔
دوسرا نقص یہ ہے کہ انسانی وجود کے پہلو مبہم ہیں اور یہی مشخص نہیں ہے کہ انسان کتنے جنبوں کا حامل ہے کہ ہم کہہ سکیں انسانی وجود کے اِن اِن پہلوؤں کی ایک واضح تقسیم بندی کی بنیاد پر قرآنی آیات کی تقسیم بندی کرلی جائے۔ دوسری طرف پہلی نظر میں وجود انسان کے تمام پہلوؤں کے درمیان کوئی واضح ارتباط بھی نہیں پایا جاتا۔
تیسری دشواری یہ ہے کہ انسانی وجود کے مختلف پہلو (اگر مشخص ہو بھی جائیں) تو ان کی بنیاد پر قرآنی معارف کی تقسیم بھی ایک لاحاصل کام ہوگا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں۔ بعض اوقات ایک حکم الہٰی اور ایک خلق و عادت جس کو انسان کے لئے اچھا قرار دیا گیا ہے انسان کے کسی ایک مخصوص جنبہ سے اس کا تعلق نہیں ہے بلکہ وجود انسانی کے بہت سے گوشے اس حکم و قانون اور اخلاق سے اس طورپر تعلق رکھتے ہیں کہ یہ نہیں کہا جاسکتا قرآن کا یہ بیان یقینی طور پر انسانی وجود کے فلاں پہلو سے مربوط ہے۔