- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/04
- 0 رائ
تیسرا طریقہ
یہ ہے کہ خود اللہ کو محور قرار دیں اور قرآنی معارف کی تقسیم بندی عرض میں نہیں بلکہ ایک دوسرے کے طول میں انجام دیں یعنی قرآنی معارف کو ایک ایسے بہتے ہوئے دریا اور آبشار کی مانند خیال کریں کہ جس کا منبع و سرچشمہ فیض الہٰی ہے یہ جس منزل اور مرحلے میں پہنچتا ہے سیراب کردیتا ہے۔
“اَنزلَ مِنّ السّمَاءِ فَسَالَت اَودیة بقدرها…” (رعد/۱۷)
“خداوند عالم آسمان سے جو پانی برساتا ہے اپنی ظرفیت کے اعتبار سے ہر وادی اس سے استفادہ کرتی اور سیراب ہوتی ہے۔”
ہمیں اسلامی معاف کو ایک بہتا ہوا چشمہ خیال کرنا چاہیئے جو ایک مرحلے سے گزرکر دوسرے مرحلہ میں وارد ہوتا ہے اور ان مرحلوں کے تقسیمات طولی ہیں عرضی نہیں ہیں ابتداء ایک مخصوص نقطہ سے یہ چشمہ ابلنا شروع کرتا ہے جب وہ جگہ لبریز ہوجاتی ہے اس کا فیضان دوسری جگہ پہلی جگہ پہنچتا ہے اب یہ دوسری جگہ کی فرع قرار پائے گی نہ یہ کہ اسی کے برابر اور اسی کی قسیم ہو۔ اگر چہ ایک منزل میں ان طولی تقسیمات سے بھی مختلف شاخیں پھوٹنا شروع کردیتی ہیں پھر بھی بنیادی طور پر اسلامی معارف کو طول مراتب کے اعتبار سے ہی ملحوظ نظر رکھنا چاہیئے۔ ہماری نظر میں یہ قاعدہ چند دلیلوں کے تحت قابل ترجیح ہے۔
پہلی دلیل اس میں محور خدا کی ذات ہے اور اس کے برابرو مساوی کسی بھی چیز کو قرار نہیں دیتے: ۔
هوَالاَوّل وَالآخرُ وَالظّاهرُ وَالبَاطِنُ (حدید/۳)
وہی (خدا) اول بھی ہے اور آخر بھی ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔
دوسری تقسیمات کے برخلاف کہ جس میں یا تواصل محور انسان کی مانند کسی دوسری شئی کو قرار دیتے ہیں یا اگر توحید و عقائد سے بھی بحث کرتے ہیں تو اسی کے برابر و متساوی اخلاق و احکام کا اعتقادات کے قسیم کے طور پر ذکر کرتے ہیں… لیکن اس تقسیم میں ابتدائی طور پر ایک کے علاوہ کوئی بھی دوسری بحث نہیں ہے اور نہ ہی اس کے متوازی کسی دوسری بحث کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ جب تک یہ بحث حل نہ ہو اور اس سے فارغ نہ ہوجائیں دوسرے مرحلے اور دوسری بحث تک پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پس پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ یہ تقسیم بندی الله کو محور قرار دے کر انجام پاتی ہے۔ اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ تمام مسائل و تقسیمات کے درمیان ایک منطقی ترتیب پیدا ہوجاتی ہے، کیونکہ جب ان مختلف بحثوں کا سلسلہ آپس میں مربوط ہو تو فطری طور پر پہلے کی بحث بعد کی بحث پر کسی نہ کسی نوعیت سے مقدم ہوگی، کہ جو واضح اور قابل فہم ہے اس کے برخلاف دوسری وہ تقسیمات جن میں مختلف بحثوں کو ایک دوسرے کے عرض میں متوازی قرار دیتے ہیں ایک کو دوسرے پر مقدم قرار دینا توجیہ ووضاحت کا محتاج ہوگا بلکہ بعض اوقات اس میں مشکل بھی پیش آسکتی ہے۔
فرض کیجئے انسان کی فردی و اجتماعی حیثیت، اس کے وجود کے دو پہلوہیں اب سوال یہ ہے کہ اس کے فردی جنبہ کو پہلے بیان کریں یا اجتماعی پہلو کو؟ یا یہ کہ ان دونوں پہلوؤں کو مقدم سمجھیں؟ یا سرے سے کوئی دوسری تقسیم اس کے مادی و معنوی جنبہ کے پیش نظر کریں؟ یہ ایک مسئلہ ہے لیکن اگر مختلف عنوانات کے درمیان ایک فطری وطبعی موجود ہوا اور اسی طرح فطری و منطقی ترتیب کے تحت تقسیم بندی انجام پائے تو تقدم و تاٴخر کے لئے ہمارے پا س ایک روشن و واضح دلیل موجود ہوگی اور اس طرح ایسا محکم و منسجم نظام وجود میں آئے گا، جس میں گذشتہ قاعدوں کی طرح اعتراض کی گنجائش رہے گی۔
بنا براین بہتر ہے کہ تمام معارف قرآنی کا اصل محور “اللہ” کو قراردیں، جو قرآنی تعلیمات سے بھی مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ سب سے پہلے خدا کی معرفت اور انسان کی معرفت سے متعلق مسائل سے ابتدا کریں اس کے بعد تمام انسانی مسائل پر الہٰی تعلیم و تربیت و تدبیر و حکمت کی روشنی میں بحث کریں۔ اس طرح قرآنی معارف کا ایک ایسا منظم و مرتب نظام وجود میں آئے گا جس کا اصل محور بھی اصات و حقیقت پر مبنی ہوگا۔اور اس کے گرد بننے والے دائروںکے درمیان بھی ایک نظم و ترتیب اور ربط و تعلق پایا جائے گا۔
اس قاعدے اور اصول کی بنیاد پر قرآنی معارف کا ڈھانچہ اور نظام مندرجہ ذیل عناوین پر قائم ہوگا۔
1۔ خدا کی معرفت
اس میں خدا کی معرفت، توحید، صفات الہٰی اور کلیات افعال باری تعالیٰ کی بحثیں شامل ہیں۔
2۔ کائنات کی معرفت
اس میں کائنات (زمین، آسمانوں اور ستاروں) ، فضائی موجودات (رعد و برق و بادو باراں و غیرہ) اور زمینی مخلوقات (پہاڑ اور دریا وغیرہ) نیز ضمنی طور پرعرش و کرسی فرشتہ، جن اور شیطان وغیرہ سے متعلق بحثیں شامل ہیں۔
ظاہر سے افعال باری تعالیٰ سے متعلق کلیات… جو پہلے حصہ میں انجام پاتے ہیں… کے بعد خود افعال کے تفصیلات (خلق و تدبیر وغیرہ) کے ذکر کی نوبت آتی ہے اور طبیعی طور پر کائنات کی پیدائش کا ذکر انسان کی پیدائش پر مقدم ہے۔
3۔ انسان کی معرفت
اس میں انسان کی پیدائش، روح کی خصوصیت، انسانی شرافت و عظمت، ذمہ داریاں اور ان کے شرائط (آگاہی، قوت، عمل، اختیار)، انسانی وجود کے مختلف پہلو، فردی و اجتماعی تدبیروں میں الہٰی سنتیں، معاد اور انسان کا آخری انجام، وغیرہ سے متعلق بحثیں شامل ہیں۔
اس مرحلے میں روشن و واضح ہوجاتا ہے کہ دنیوی زندگی اخروی زندگی کا مقدمہ ہے یہ انسانی زندگی کا وہ مرحلہ ہے جس میں انسانی کو خود اپنے لئے راہِ سعادت کا انتخاب کرنا چاہیئے اور اپنے آخری انجام کی داغ بیل ڈالنا چاہیئے اس دنیا میں الہٰی حکمتیں انتخاب کے مقدمات (ابتلا و آزمائش وغیرہ) کی فراہمی کے محور پر گردش کرتی ہے۔
4۔ راوہ و روش کی معرفت
اس منزل میں شناخت و معرفت کے عادی طریقوں (یعنی دنیا میں رائج علم حضوری و علم حصولی کی مختلف قسموں) اور غیر عادی طریقوں (یعنی وحی و الہام وغیرہ) سے متعلق بحثیں شامل ہیں یہیں نبوت کا مسئلہ بعثت انبیاء کی ضرورت اور مقاصد، نیز ان کے مدارج (نبوت، رسالت و امامت اور اسی طرح معجزہٴ و عصمت سے متعلق مسائل بیان ہوتے ہیں اور آخر میں انبیاء کی جانشینی کے مسئلے (یعنی امامت اپنے خاص معنوں) پر بحث ہوتی ہے۔
بحث کے اس مرحلے کا تعلق اپنے گذشتہ مرحلے سے واضح ہے کیونکہ جب یہ معلوم ہوگیا کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو انتخاب کی آزادی حاصل ہے یعنی اسے اپنی راہ کا تعین آزادانہ طور پر خود کرنا ہے راہ و روش کی معرفت کی ضرورت خود بخود پیش آتی ہے اور اس مرحلے میں یہی چیزموضوع بحث ہے۔
5۔ رہبر و رہنما کی معرفت
اس منزل میں انبیاء کی تاریخ اور ان میں سے ہر ایک کے خصوصیات ان پر نازل ہونے والی کتابیں۔ ان میں پیش کئے جانے والے مطالب، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تاریخ اور آنحضرت کے زمانہ حیات میں رونما ہونے والے حوادثات وواقعات بیان کئے جاتے ہیں ضمنی طور پر تمام قرآنی داستانیں اور اقوام و ملل کی تاریخ بھی اسی ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں۔ اس حصہ کا اپنے گذشتہ حصہ کے ساتھ ربط اور ترتیب بیان واضح ہے کیونکہ جب وحی و نبوت کی ضرورت و اہمیت سے ہم واقف ہوگئے تو اب ان حاملان وحی و رسالت کی معرفت کی نوبت آتی ہے جو پیغام وحی عوام الناس تک پہنچاتے رہے ہیں۔
6۔ قرآن کی معرفت
اس میں قرآن سے متعلق اصولی و کلیاتی مباحث۔ اس کے خصوصیات، نزول کا مقصد، نزول کا انداز، اعجازی حیثیت، آفاقی ابدی شان، اسلوب بیان (عقلی استدلال، موعظہ، جدال احسن تمثیل و قصص وغیرہ) نیز محکم و متشابہ اور تاویل وغیرہ سے متعلق بحثیں شامل ہیں۔ گذشتہ بحث سے اس کا بھی ربط اور ترتیب بیان واضح ہے اس لئے کہ گذشتہ آسمانی کتابوں کے ذکر و بحث کے بعد آخری و ابدی کتاب کی شناخت و معرفت فطری سی بات ہے۔
7۔ اخلاق اور انسانی تعمیر
اس میں خود انسان کی اپنی معرفت اور اپنی تعمیر سے متعلق تمام بحثیں شامل ہیں، افعال اختیاری میں خیرو شر کا وجود اور ان کا آخری کمال وسعادت کے ساتھ ربط، قرآنی تربیت و تزکیہٴ نفس کی روش (انذار وبشارت کے ذریعہ تلاش خیر کا جذبہ بیدار کرنا وغیرہ) انسانی تعمیر میں ایمان و عمل کا کردار اور ان کا ایک دوسرے سے رابطہ نیز ان دونوں کا علم سے ارتباط اور بالآخر اخلاق فاضلہ و اخلاق رذیلہ کی تفصیلات اس بحث کا حصہ ہیں۔
“قرآن کی شناخت و معرفت ” کے بعد “اخلاق اور انسانی تعمیر” کا ذکر اس لئے ہے کہ گذشتہ بحث میں ہم اسی نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ قرآن کا ہدف و معصد تزکیہ و تعلیم ہے۔ تزکیہ اخلاق اور انسانی تعمیر سے متعلق بحثوں کو جنم دیتا ہے اور تعلیم آئندہ مباحث کو وجود میں لائی ہے۔
8۔ قرآن کے عبادی احکام
اس میں نماز و روزہ، حج و قربانی اور ذکر و دعاسے متعلق بحثیں شامل ہیںیعنی جہاںوہ اعمال ذکر ہوتے ہیں جو بنیادی طور پر انسان اور خدا کے درمیان رابطہ کو تقویت پہنچاتے ہیں اگر چہ اجتماعی مصلحتوں کا بھی ان میں بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے۔
9۔ قرآن کے فردی احکام
اس میں خوردونوش (یعنی کھانا، پینا، شکار کرنا اور ذبیحہ کرنا وغیرہ) نیز زینت و آرائش اور تڑک بھڑک سے متعلق حرام و حلال کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔
10۔ قرآن کے اجتماعی احکام
اس میں تمام حقوقی، اجتماعی، سیاسی و اقتصادی بحثیں شامل ہیں جن کو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے:
الف) شہری ومدنی احکام
ب) اقتصادی و معاشی احکام
ج) قانونی و عدالتی احکام
د) حدود و جزاء کے احکام
ہ) سیاسی و حکومتی احکام
و) عالمی و بین الاقوامی احکام
اور بحث کے اس حصے میں مقدمہ کے طور پر “معاشرہ قرآن کی نظر میں” بحث کا مرکز قرار پاتا ہے
اس تقسیم کے آخری تین حصوں میں انسان سے متعلق قرآن کے پیش کردہ علمی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ایک کا تعلق انسان اور خدا، دوسرے کا تعلق انسان اور خود اس کی ذات اور تیسرے کا تعلق انسان اور معاشرے یا انسان اور دوسرے انسانوں سے ہے اور ہر حصہ سے متعلق اس آسمانی کتاب کی تعلیمات کو جدا گانہ طور پر مورد بحث و تحقیق قرار دیا جاتا ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنی معارف عالم ہستی کے نقطہٴ آغاز سے شروع ہوتے ہیں اور خلق و تدبیر الہٰی کے مراحل بالترتیب زیر بحث آتے ہیں اور یہ سلسلہ ایک ایسے معاشرے کے خصوصیا ت کے ذکر پر منتہی ہوتا ہے جو انسان کی دیرینہ آرزو ہے اور ان تمام مراحل میں اپنے اصل محور “ذات خدا” سے ان کا ارتباط بھی باقی و محفوظ رہتا ہے۔