- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/15
- 0 رائ
سوال و جواب
سوال: جیسا کہ آپ نے فرمایا، ہمارا عقیدہ هے کہ امام دین و دنیا دونوں کا پیشوا هوتا هے۔ اور یہ منصب مذکورہ دلائل سے حضرت امیرالمومنین علی(علیہ السلام) کی ذات سے مخصوص هے۔ پھر قتل عثمان کے بعد جب لوگ آپ کی بیعت کرنے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تامل کیوں فرمایا؟ یہ کوئی تامل کی جگہ نهیں تھی۔ اسے تو آپ کو خود بخود قبول کرنا چاہئے تھا۔
جواب: جناب کا یہ سوال “خلافت و ولایت” نام کی کتاب میں بھی جو کچھ عرصہ پہلے شایع هوئی هے اٹھایا گیا هے۔ اس کا جواب خود حضرت علی(علیہ السلام) کے ارشاد سے ظاہر هے۔ جب لوگ آپ کے پاس بیعت کے لئے آئے تو آپ نے فرمایا: دعونی والتمسوا غیری فانّا مستقبلون امراً وجوہ و الوان[۱]” مجھے چھوڑ دوکسی اور کے پاس جاؤ کیونکہ بڑے هی سیاہ و تاریک حوادث ہمیں در پیش هیں (عجیب و غریب تعبیر فرمائی هے) مجھے ایسا امر در پیش هے جسکے کئی چہرے هیں یعنی ایک صورت سے اسے حل نهیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے مختلف صورتیں اختیار کرنی هوں گی۔ اس کے بعد فرماتے هیں: “انّ الآ فاق قد افامت والمحجّۃ قد تنکّرت۔” مختصر یہ کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو روشن و واضح راہ معین فرما گئے تھے وہ راہ اب انجانی هوگئی هے۔ فضا ابر آلود هو چکی هے۔ “اور آخر میں فرماتے هیں اگر میں تم پر حکومت کروں گا تو: رکبت بکم ما اعلم ” اس روش پر حکومت کروں گا جو میں جانتا هوں تمہاری دلخواہ حکومت نهیں کروں گا۔
اس بات سے پتہ چلتا هے کہ امیر المومنین(علیہ السلام) نے یہ بات جو تاریخی حیثیت سے بھی پورے طور سے قطعی ومسلّم هے، اچھی طرح درک کر لی تھی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد کے عہد اور آج کے زمانہ میں زمین اور آسمان کا فرق هوچکا هے یعنی حالات بڑی هی عجیب و غریب حد تک تبدیل اور خراب هو چکے هیں، اور یہ جملہ امام علیہ السلام نے کامل طور پر اتمام حجت کے لئے فرمایا هے، کیونکہ بیعت کا مطلب ان لوگوں سے پیروی کرنے کا عہد لیتا هے، بیعت کا مطلب یہ نهیں هے کہ اگر تم لوگ بیعت نهیں کرو گے تو میری خلافت باطل هو جائے گی۔ بلکہ بیعت یہ هے کہ لوگ اس بات کا قول دیتے هیں کہ آپ جو عمل انجام دیں ہم آپ کے ساتھ هیں۔
یہ بات تمام شیعہ اور اہل سنت مؤرخین نے لکھی هے کہ عمر کے بعد شوریٰ کا جو قضیہ پیش آیا، اس شوریٰ کے چھ افراد میں سے ایک علی(علیہ السلام) بھی تھے۔ اس میں تین افراد دوسرے تین افراد کے حق میں دست بردار هوگئے۔ زبیر، علی(علیہ السلام) کے حق میں الگ هوگئے، طلحہ ،عثمان کے حق میں اور سعد وقاص، عبد الرحمن بن عوف کے حق میں علیحدہ هو گئے۔ باقی بچے تین افراد ان تین افراد میں سے عبدالرحمان بن عوف نے خود کو میدان هی سے الگ کر لیا۔ دو شخص باقی بچے علی(علیہ السلام) اور عثمان (اور اس ایثار کے عوض) انتخاب کی کلید عبد الرحمان بن عوف کے ہاتھ میں آگئی کہ وہ جسے منتخب کریں وهی خلیفہ هے۔ وہ پہلے امیرالمومنین(علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہا میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے آمادہ هوں لیکن ایک شرط هے کہ آپ کتاب خدا، سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سیرت شیخین کے مطابق عمل کریں گے۔ آپ نے فرمایا میں تیار هوں لیکن صرف کتاب خدا سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمل کروں گا۔ سیرت شیخین سے انکار کردیا۔ عبدالرحمن بن عوف نے عثمان کے سامنے بھی بیعت کے لئے یهی شرط رکھی۔ انهوں نے کتاب خدا، سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سیرت شیخین پر عمل کی شرط قبول کرلیا۔ جبکہ بقول آقای محمد تقی شریعتی”عثمان نے سیرت شیخین پر عمل کا وعدہ تو کیا تھا لیکن اتفاق سے ان کی سیرت پر عمل هی نهیں کیا۔” اگر ہم یہاں مقائسہ و موازنہ کریں تو چونکہ سیرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اور سیرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک هی تھی اس لئے آپ کی سیرت شیخین کی سیرت سے بھی بہت کچھ ملتی جلتی تھی کیونکہ شیخین کافی حد تک پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پر عمل کرتے تھے۔ لیکن اگر امیر المومنین (علیہ السلام) اس وقت اس شرط کو قبول کرلیتے تو گویا وہ انحراف اور غلطیاں جو شیخین کے دور میں پیدا هوچکی تھیں ان پر صادر فرمادیتے اور پھر ان غلطیوں کے خلاف اقدام یا مقابلہ نهیں کرسکتے تھے لہٰذا آپ نے اس شرط کو قبول نهیں فرمایا۔ مثال کے طور پر تفاضل (وظائف کی تقسیم میں کمی یا زیادتی) کا مسئلہ یعنی انصار و مہاجرین اور عرب و عجم وغیرہ کے درمیان امتیاز پیدا کرکے مساوات اسلامی کو ختم کرنے کی بنیاد عمر کے زمانہ میں هی پڑی هے جبکہ امیرالمومنین(علیہ السلام) اس کے سخت مخالف تھے ، چنانچہ اگر آپ فرمادیتے کہ میں سیرت شیخین کے مطابق عمل کروں گا تو جو کچھ عمر کے زمانہ میں هو چکا تھا اسے باقی رکھنے پر مجبور هوتے جبکہ آپ اس عمل پر اپنی مہر ثبت کرنا نهیں چاہتے تھے ۔ ساتھ هی جھوٹا وعدہ بھی نهیں کرنا چاہتے تھے کہ آج کہدیں کہ ہاں میں عمل کروں گا اورکل اس سے مکر جائیں۔ یهی وجہ تھی کہ آپ نے صاف انکار کردیا۔
بنابر ایں جب علی(علیہ السلام)، عمر کے بعد سیرت شیخین پر عمل کرنے کو آمادہ نهیں تھے جبکہ سیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے انحرافات بہت کم تھے (تو ظاہر سی بات هے کہ ) عثمان کے بعد جب حالات ایک دم خراب هوچکے تھے اور خود حضرت (علیہ السلام) کے بقول اسلام کا اندوھناک مستقبل کئی رخ سے سامنے آرہا تھا۔ مزید یہ کہ مسلمان بھی یهی چاہتے تھے کہ وہ جس طرح چاہتے هیں علی(علیہ السلام) اس طرح حکومت کریں، ایسی صورت میں آپ نے صاف طور پر واضح کردینا ضروری سمجھا کہ اگر میں حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لوں گا تو جس طرح میں مناسب سمجھوں گا عمل کروں گا نہ یہ کہ جس طرح تم چاہتے هو۔ چنانچہ آپ ان لفظوں میں حکومت سے انکار نهیں فرما رهے تھے بلکہ آپ مکمل طور سے اتمام حجت کردینا چاہتے تھے۔
سوال: ہم دیکھتے هیں کہ خود قرآن میں اتحاد کے سلسلہ میں بہت تأکید کی گئی هے لہٰذا مسئلہ و امامت اور جانشینی امیر المومنین(علیہ السلام) کی اہمیت کے پیش نظر یہ سوال اٹھتا هے کہ اس کا ذکر صاف لفظوں میں قرآن میں کیوں نہ کردیا گیا اور خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد مواقع پر اس موضوع کو کیوں بیان نهیں فرمایا؟
جواب: یہ دو الگ الگ سوال هیں۔ ایک یہ کہ قرآن میں اس موضوع کا صراحت سے ذکر کیوں نہ هوا۔ اور دوسرے یہ کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد مواقع پر اس مسئلہ کو بیان فرمایا یا نهیں؟ اس طرح قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اس مسئلہ کا ذکر کیا هے یا نهیں؟ دوسرے سوال کے جواب میں ہم یهی کہتے هیں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت هے حتیٰ بہت سے اہل سنت بھی اسے قبول کرتے هیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات متعدد مقامات پر بیان فرمائی هے۔ یہ بات صرف غدیر خم تک محدود نهیں رهی هے اور یہ بات موضوع امامت سے متعلق کتابوں میں موجود هے، جملہ: “انت منّی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الّا انہ لا نبیّ بعدی ” آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کے واقعہ کے دوران فرمایا۔ یا جملہ : لاعطینّ الرّایۃ غداً رجلاً کراراً یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ” جو علی (علیہ السلام) کے مرتبہ و منزلت کو ثابت کرتا هے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خیبر میں ارشاد فرمایا تھا۔ یہاں تک کہ بعثت کے شروع میں هی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش سے خطاب کرتے هوئے فرمایا تھا: تم میں سے جو سب سے پہلے میری بیعت کرے گا وہ میرا وصی، وزیر (حتیٰ وصی و وزیر اورخلیفہ ) هوگا۔ ( اور وہ شخص علی (علیہ السلام) هی تھے)
یهی صورت حال قرآن مجید میں هے۔ قرآن میں بھی اس مسئلہ کو ایک، دو نهیں بلکہ متعدد جگهوں پر ذکر کیا گیا هے۔ صرف سوال اتنا سا هے اور اتفاق سے یہ سوال بھی کتاب “خلافت و ولایت” میں اٹھایا گیا هے کہ قرآن میں سیدھے سیدھے نام کا ذکر کیوں نهیں کردیا گیا ؟ چونکہ ہم تحریف قرآن کے قائل نهیں هیں اور ہمارے عقیدہ کے مطابق کوئی چیز قرآن میں کم یا زیادہ نهیں هوئی هے لہٰذا یہ طے هے کہ کهیں بھی علی (علیہ السلام) کا نام صراحت کے ساتھ ذکر نهیں هوا هے۔
یہاں اس مسئلہ کو دو رُخ سے بیان کیا جاتا هے۔ ایک تو اسی کتاب “خلافت و ولایت” میں جناب محمد تقی شریعتی نے اس کی بڑے اچھے انداز میں وضاحت کی هے قرآن ایک مخصوص طرز و روش رکھتا هے اور وہ یہ کہ موضوعات کو ہمیشہ ایک اصل کے طور پر بیان کرتا هے انفرادی و شخصی صورت میں ذکر نهیں کرتا اور یہ بذات خود قرآن کا ایک امتیاز هے۔ مثلاً: “الیوم اکملت لکم دینکم” کے مسئلہ میں، کفار اس دین سے اس وجہ سے مایوس هوگئے کہ وہ برابر کہا کرتے تھے کہ جب تک پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود هیں کچھ نهیں کیا جاسکتا۔ ہاں ان کے اٹھ جانے کے بعد کوئی مسئلہ نهیں رهے گا، سب کچھ تمام هوجائے گا۔ مخالفین پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گویا یہ آخری امید تھی۔ لیکن جب انهوں نے دیکھ لیا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کی بقا کی تدبیر بھی کر ڈالی کہ میرے بعد لوگوں کا فریضہ کیا هے تو مایوس هوگئے۔
دوسری بات جسے اہل سنت نے بھی لکھا هے، یہ هے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں قرآن کی آیت میں لفظ: “واخشون ” سے متعلق کافی فکر مند اور پریشان رہتے تھے۔ یعنی خود امت کے ہاتھوں امت کے مستقبل سے متعلق فکر مند تھے۔ یہاں میں جو حدیث نقل کررہا هوں اسے اہل سنت نے بھی نقل کیا هے۔ ابو مذیہبہ، عائشہ کے غلام کا بیان هے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کی آخری ایام تھیں ایک رات نصف شب کے وقت میں نے دیکھا کہ پیغمبر (ص) اپنے حجرہ سے تنہا باہر تشریف لائے۔ کوئی شخص بیدار نہ تھا۔ آپ بقیع کی طرف روانہ هوئے۔ میں نے جب دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنھا تشریف لے جارهے هیں تو خیال هوا کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنہا نہ چھوڑیں۔ اس خیال سے حضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے یوں چلنے لگا کہ دور سے آنحضرت کا سایه نظر آتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل بقیع کے لئے استغفار کیا۔ اس کے بعد کچھ جملے ارشاد فرمائے جس کا مضمون یہ هے: ” تم سب چلے گئے، کیا خوب گئے اور سعادت و نیکی سے ہمکنار هوئے۔ اب فتنے سر اٹھارهے هیں “کقطع اللیل المظلم” یعنی اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح۔ ” اس سے پتہ چلتا هے کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بعد کے فتنوں کی پیشین گوئی فرما رهے تھے جن میں مسلم طور پر یہ مسئلہ بھی رہا هے۔
………………….
حواله جات
[۱] نہج البلاغہ، فیضی الاسلام خطبہ ۹۱