- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/17
- 0 رائ
عربى زبان ميں سفور کے معنى بے پردگى کے ہيں يعنى کسى پوشیدہ چيز کو منظرعام پر لے آنا جس کى بناپر بے پردہ خواتين کو سافرات کہا جاتا هے جن کے بارے ميں روايات ميں وارد هوا هے کہ آخری زمانے ميں جو بد ترين زمانہ هوگا ایسى عورتيں بر آمد هوں گى جو سافرات اور زينت کرنے والى هوں گي، لباس پہن کر بھى برہنہ هوں گي، دين سے خارج اور فتنوں ميں داخل هونے والى هوں گى اور آخر ميں جہنم ميں ہميشہ رہنے والى هوں گى۔
تفسير اسى سفور سے عربى کے مخصوص قواعد کى بنا پر اخذ کيا گيا هے جس کے معنى ہيں قرآن مجيد کے مخفى معاني کا منظرعام پر لے آنا اور اس سے يہ بات پہلے ہى مرحلہ پر واضح هو جاتى هے کہ الفاظ کے ظاہرى معانى کا تفسير سے کوئي تعلق نہيں هے اور اسى طرح معانى کا کسى خاص شئي پر انطباق بھى تفسير نہيں کہا جا سکتا هے، تفسير کا تعلق مخفى معانى کے اظہار سے هوتا هے۔ تفسير کا تعلق ظاہري معنى کے انطباق سے نہيں هوتاهے ۔
تفسير ايک مخصوص طریقہ ٴکار هے جو قرآن مجيد کے بارے ميں استعمال کيا گيا هے اور اس ميں کبھى اعتدال برقرار رکھا گيا هے اور کبھى افراط و تفریط کا راستہ اختيار کيا گيا هے۔
اختلاف مفسرين:
مفسرين کے درميان عام طور سے دو مقامات پر اختلاف پائے جاتے ہيں:
۱۔ معانى کى تطبیق ميں: کہ ا یک مفسر نے اسى آیت کو ايک شخص پر منطبق کيا هے اور دوسرے مفسر نے دوسرے شخص پر۔ جیسا کہ آیت تطہیر، آیت مودت اور آیت صادقین وغیرہ ميں دیکھا جاتا هے کہ ايک طبقہ ميں اہل بیت، قربى اور صادقین سے دوسرے افراد مراد ہيں اور دوسرے طبقہ ميں دوسرے افراد۔
۲۔ متشابہات کے مفهوم ميں: کہ ان الفاظ سے وہى عرفى معني مراد ہيں جن کے لئے لفظ عام طور سے استعمال هوتا هے يا کوئى دوسرا معنى مراد ہيں ۔ اس امر کى مختصر وضاحت يہ هے کہ قرآن مجيدعربي زبان ميں نازل هواهے۔ جو زبان نزول قرآن کے زمانے ميں عالم عربیت ميں رائج تھى اوراس نے کوئى نئى زبان ایجاد نہيں کى هے اور نہ کسى مخصوص لہجہ ميں گفتگو کى هے ورنہ اس کے معجزہ هونے کے کوئى معنى نہ هوتے۔ اور کھلى هوئى بات هے کہ عربى يا کوئى زبان جب بھى ایجاد هوئى هے تو اس کے ایجاد کرنے والوں کے ذہن ميں يہى مفاہیم تھے جوعالم بشریت ميں پائے جاتے ہيں اور انھيں کے افہام و تفہیم کے لئے الفاظ وضع کئے گئے ہيں اور زبان ایجاد کى گئى هے۔ مثال کے طور پر جب لفظ ”فعل “ ایجاد هوا جس کے معنى تھے کام کرنے کے ۔ تووا ضعین لغت کے سامنے يہي انسان تھے جو مختلف کام انجام دے رهے تھے اور جن کے افعال سے سب باخبر بھى تھے اس کے بعد قرآن مجيد نے نازل هو کر يہى لفظ پروردگار کے بارے ميں استعمال کر ديا ۔ تو اب يہ سوال پیدا هوتا هے کہ اس لفظ سے وہي معنى اور وہى انداز مراد هے جو ہمارے افعال کا هوا کرتا هے يا کوئي مخصوص تصورهے جو پروردگار کى ذات سے وابستہ هے اور اس کے افعال کا ہمارے افعال سے کوئى تعلق نہيں هے ۔
بعض مفسرين الفاظ کے ظاہر پر اعتماد کرکے پروردگار کے اعمال و افعال کو بھى ویسا ہى قرار دیتے ہيں جیسا کہ انسان کے افعال و اعمال هوا کرتے ہيں اور بعض خالق و مخلوق کے فرق کو پیش نظر رکھ کر دوسرے معنى مراد لیتے ہيں اور پھر مراد ميں اختلاف شروع هو جاتا هے کہ اس کے افعال کیسے ہيں اور جس کا جیسا عقیدہ هوتا هے اسي اعتبار سے الفاظ کے معنى طے کر دیتا هے جب کہ اس کا الفاظ کے معنى سے کوئى تعلق نہيں هوتا هے ۔ اس کا تعلق معنى کے انداز و اسلوب سے هوتا هے اور اس کا لغت سے کوئى تعلق نہيں هوتا هے۔ اس کا تعلق معانى کے انداز اور اسلوب سے هوتا هے اور اس کا لغت سے کوئى تعلق نہيں هوتاهے ۔ لیکن
بہر حال اس طرح کتب تفسير ميں اختلاف کا ايک عظیم منظر نظر آجاتا هے چاهے اس کا تعلق تفسير سے هو يا نہ هو، اور اسى لئے عربى کى قدیم عظیم ترين تفسير(تفسيرکبیر) کے بارے ميں مشهور هے کہ اس ميں تفسير کے علاوہ ہر شے هے۔ يعني مباحث کا ذکر تفسير کى کتاب ميں کيا گيا هے لہذا اس کا نام تفسير هے لیکن ان مباحث کا تفسير قرآن سے کوئى تعلق نہيں هے ۔
سبب اختلاف:
ايک سوال يہ بھى هے کہ مفسرين کے درميان مفاہیم قرآن طے کرنے ميں اختلاف کیوں هے جب کہ سب کے سامنے ايک ہى قران هے اور سب عربى زبان کے قواعد و قوانین سے با خبر ہيں ۔ لیکن اس کا جواب يہ هے کہ مفسرين کے درميان اختلاف بظاہر تین اسباب سے پیدا هوا هے ۔
۱۔ مفسرين مذہبى اعتبار سے کسى نہ کسى عقیدہ کے حامل تھے اور ملکى اور قومى سطح پر کسى نہ کسى نظريہ کے مالک تھے۔ انھوں نے انھيں نظريات اور عقائد کو تحت الشعورميں رکھ کر تفسير قرآن کا کام شروع کيا اور جہاں کہيں بھى کوئي آیت ان کے مخصوص عقیدہ يا نظريہ کے خلاف دکھائى دي ۔ اس کے مفهوم ميں تغير پيدا کر ديا اور اپنے مقصد کے مطابق معنى معين کردیئے۔
۲۔ مفسرين کے سامنے یونان کا فلسفہ تھا جس نے سارى دنيا کو متاثر کر رکھا تھا اور وہ خود بھى ایک بڑى حد تک متاثر تھے اور انھيں خيال تھا کہ اگر قرآن مجيد کے مفاہیم اس فلسفہ سے متصادم هوگئے تو اس کى عظمت و قداست کا بچانا مشکل هو جائے گا اس لئے وقت کى ضرورت کا لحاظ کرکے ایسے معانى بيان کردئے جو اس فلسفہ سے متصادم نہ هونے پائيں تاکہ عظمت و عزت قرآن محفوظ رہ جائے جو کاروبار آج تک هوتا چلا آرہا هے کہ ہر رائج الوقت نظريہ عقیدہ يا رسم و رواج کا لحاظ کرکے آیت کا مفهوم بدل ديا جاتا هے اور دردمند دل رکھنے والے مسلمان کو فرياد کرنا پڑتى هے کہ ”خود بدلتے نہيں قرآن کو بدل دیتے ہيں ۔“
۳۔ مفسرين کے سامنے وہ اعتراضات تھے جو مختلف زاویوں سے قرآن مجيد کے بارے ميں بيان کئے جارهے تھے اور جن کى بناء پر قرآن مجيد ميں تضاد تک ثابت کيا جارہا تھا اور ان کے پاس کوئى راستہ نہيں تھا جس سے ان اعتراضات کے جوابات دے سکتے۔ لہذا آسان ترين راستہ يہي نظريہ آيا کہ الفاظ قران کے معانى بدل دئے جائيں تاکہ اعتراضات سے نجات حاصل کى جاسکے اور عزت قرآن کے بجائے اپنى عزت کا تحفظ کيا جاسکے ۔
تفسير بالرائے:
يہ بات تو مسلمات ميں هے کہ قرآن کى تفسير کا جو نہج بھى اختيار کيا جائے تفسير بالرائے بہرحال حرام هے اور اس کى مسلسل مذمت کى گئي هے ۔ چنانچہ سرکار دوعالم کے ارشادات کتب احادیث ميں مسلسل نظر آتے ہيں:
۱۔ من فسر القرآن براٴيہ فلیتبواٴ مقعدہ من النار۔ صافى، سنن ابن ماجہ داؤد وغیرہ
۲۔ من قال فى القرآن بغیرعلم جاء یوم القيامة ملجما بلجام النار ۔ صافى، سنن ابن ابى داؤد و ترمذى، نسائى
۳ ۔ من تکلم فى القرآن برايہ فاصاب فاخطاٴ ۔ صافى ، سنن ابن ابى داؤد و ترمذى، نسائى
۴۔ اکثر ما اخاف على امتى من بعدى من رجل یتناول القرآن یضعہ على غیر مواضعہ صافى، سنن ابن ابى داؤد و ترمذى، نسائى
۵۔ من فسر القرآن براٴيہ ان اصاب لم یوجرو ان اخطاٴ فھذا بعد من السماء ۔ تفسيرعياشى عن الامام الصادق
ان روايات سے صاف ظاہر هوتا هے کہ مرسل اعظم اور معصومین کى نگاہ ميں قرآن کى تفسير بالراى کرنے والے کا مقام جہنم هے وہ روز قيامت اس عالم ميں لايا جائے گا کہ اس کے منہ ميں آگ کى لگام لگى هوگى ۔ وہ منزل تک پهونچ بھى جائے گا تو خطاکار هوگا
رسول اکرم کو سب سے زيادہ خطرہ اس شخص سے تھا جو قرآن مجيد کو اس طرح استعمال کرے کہ اس کو جگہ سے منحرف کردے اور اس کے مفاہیم ميں تبدیلى پیدا کر دے ۔
تفسير بالراى کرنے والا صحيح کهے تو اس کا اجر و ثواب نہيں هے اورغلط کهے تو آسمان سے زيادہ حقیقت سے دورترهو جاتا هے.
يعنى تفسير بالراى اسلام کا عظیم ترين الميہ هے جس کے ذریعہ حقائق مذہب کو مسخ کيا جاتا هے اور الہى مقاصد ميں تبدیلى پیدا کر دى جاتى هے ۔
مسلمان صاحب نظر کا فریضہ هے کہ قران کے واقعي معانى کى جستجو کرے ، اور اسى کے مطابق عمل کرے ، الہي مقاصد کے سلسلہ ميں اپنى رائے کو دخیل نہ بنائے اور بندگي پروردگار کے بجائے نفس کى عبادت نہ کرے ۔