- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/19
- 0 رائ
مولف: آیت اللہ شہید مرتضی مطہری (ره)
تیسرا سبب
تیسرا سبب ایک خاص سبب ہے۔ یہ دو اسباب جو میں نے عر ض کیے ہیں یعنی دشمنوں کے اغراض ومقاصد اور انسان کا افسانہ سازی کا جذبہ دنیا کی تمام تاریخوں میں ملتے ہیں البتہ عاشورا کے حادثے میں ایک خا ص بات ہے جس نے اس قصے میں بناوٹ اور گھڑت داخل کر دی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے زمانے سے مذہبی پیشوا سخت تاکید کرتے چلے آرہے ہیں کہ حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام کا نام زندہ رکھا جائے ۔ حسین علیہ السلام کی مصیبت ہر سال تازہ کی جائے۔ کیوں؟ اسلام میں یہ کیا قاعدہ ہے۔ دینی پیشواؤں نے اس موضوع کا اتنا اہتمام کس لئے کیا ہے اور حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام کی زیارت کی اتنی تر غیب کیوں دی جاتی ہے؟ آپ کو اس بات پر اتنا غور کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ اسکا سبب حضرت خاتون جنت علیہا السلام کو تسلیت یعنی پر سا دینا ہے ۔ کیا یہ مذاق کی سی بات نہیں ہے کہ چودہ سوسال کے بعد بھی ابھی تک حضرت زہرا علیہا السلام کو پرسے کی ضرورت ہے جبکہ خود امام حسین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اور دین کی ضرورت کے حکم سے شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام اور حضرت زہرا علیہ السلام دونوں ایک دوسرے کے پاس ہیں۔ آخر یہ کیا بات ہے؟ کیا حضرت زہرا علیہ السلام کوئی بچہ ہیں جو چودہ سوسال کے بعد بھی اب تک روتی پیٹتی رہیں اور ہم جاکر انہیں تسلیت اور دلاسا دیں؟ یہی باتیں تو دین کو خراب کرتی ہیں! امام حسین علیہ السلام نے اسلام کا عملی مکتب قائم کیا ۔حسین علیہ السلام اصلاحی قیام کا عملی نمونہ ہیں۔لوگوں نے چاہا کہ حسین علیہ السلام کا مکتب زندہ رہے ، چاہا کہ حسین علیہ السلام سال میں ایک بار انہی میٹھی، بلند اور رزمیہ آوازوں کے ساتھ جھلک دکھائیں اور فریاد کریں”الاترون انّ الحقّ لایعمل بہ والباطل لایتناھیٰ عنہ لیرغب المؤمن فی لقاء للہ محقا۔“۴ انھوں نے چاہا کہ”الموت اولی من رکوب العار“۵ موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے ۔ ہمیشہ کے لئے زندہ رہے ۔ انھوں نے چاہا تھا ”لا اری الموت الاّ سعادۃ والحیاۃ مع الظّالمین الاّ برماً“۶ (میرے نزدیک ظالموں کے ساتھ زندگی تھکا دینے والی ہے۔ موت میری نظر میں ایک سعادت ہے) لوگ چا ہتے تھے کہ حسین علیہ السلام کے اور فقرے بھی:”خطّ الموت علی ولد آدم مخطّ القلادۃ علی جید االفتاۃ“۷ زندہ رہیں۔”ہیھات مناّ الذلۃ“۸ زندہ رہے ۔ انھوں نے چاہا کہ ایسے مناظر زندہ رہیں کہ حسین علیہ السلام آتے ہیں، تیس ہزار کے لشکر کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور حال یہ ہے کہ سخت مصیبت اور پریشانی کے باوجود ایسی جوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو دنیا نے کبھی نہیں دیکھا۔ فرماتے ہیں ”الا و ان الدعی بن الدعی قد رکز بین اثنتین بین السلۃ والذلۃ ہیھات منّا الذلۃ یابی اللہ ذالک لنا و رسولہ وحجور طابت و طھرت“۹ انھوں نے چاہا کہ حسین علیہ السلام کا مکتب زندہ رہے۔ حسین علیہ السلام کی تربیت زندہ رہے ۔ حسین علیہ السلام کی روح اس قوم پر عکس افگن رہے اور چمکے ۔ ان کا نظریہ بہت واضح ہے۔
عاشور کے حادثے کو فراموش نہ ہونے دو۔ تمہاری زندگی اور انسانیت کی زندگی اور تمہارا وقار اس حادثے سے وابستہ ہے۔ اس وسیلے سے تم اسلام کو زندہ رکھ سکتے ہو۔ چنانچہ انہوں نے تمہیں رغبت دلائی ہے کہ حسین علیہ السلام کا سوگ قائم رکھو۔ اور یہ بات ٹھیک بھی ہے۔ واقعی حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام کے سوگ کا نظریہ بالکل درست ہے۔ یہ نظریہ بہت بلند بھی ہے۔ ہم اس باب میں جتنی بھی کوشش کریں بجا ہے بشرطیکہ ہم اس کام کا مقصد پہچان لیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اسے نہیں پہچانا۔ انہوں نے سوچا کہ لوگوں کو حسین علیہ السلام کے مکتب سے واقف کرائے بغیر ہی قیام حسین علیہ السلام کے نظریہ سے واقف کرادیں۔ لوگوں کو حسین علیہ السلام کے مراتب سے واقف کرا دیں۔ بس اسی قدر کہ مجلس میں آئیں بیٹھیں اور بغیر جانے اور سمجھے روئیں، گناہوں کا کفارہ ہے۔
مرحوم حاجی نوری نے اپنی کتاب ’لولو مرجان‘ میں ایک نقطہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگوں نے کہا امام حسین علیہ السلام کے موضو ع اور ان پر رونے کا اتنا زیادہ ثواب ملتا ہے کہ جس طریقے اور وسیلے سے بھی یہ کام ہوسکے اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے ۔آج کل کے ”مکیاولی“ مکتب میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ مقصد وسیلے کو جائز بنا دیتا ہے۔ یعنی مقصد اچھا ہو تو وسیلہ جو بھی ہو ہوا کرے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارا مقصد پاک اور پاکیزہ ہے اور وہ امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر رونا ہے ۔ یہ بہت اچھا کام ہے اور رونا چاہئے لیکن ہم کس وسیلے سے روئیں؟ جس وسیلے سے بھی ممکن ہو۔مقصد پاک ہے تو وسیلہ جو بھی ہو ،ہوا کرے۔ اگر ہم المیہ ڈرامہ کریں تو توہین آمیز ڈرامہ درست ہے یا نہیں؟ انھوں نے کہا کہ آنسو نکلیں یا نہ نکلیں؟ پس جتنے بھی آنسو ں جاری ہو جائیں کو ئی حرج نہیں ہے ۔ ہم سیٹی بجائیں، ڈھول بجائیں، گناہ کریں، مردوں کو زنانی پوشاک پہنائیں، قاسم کی شادی رچائیں، دھوکا دیں، تحریف کریں۔ امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں ان باتوں کی مخالفت نہیں ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ اوروں کی بارگاہ سے مختلف ہے۔ اس میں جھوٹ بولنا معاف ہے ۔ اپنی طرف سے گھڑت کرنا، تحریف کرنا، تصویریں بنانا، مردوں کو زنانہ لباس پہنانا معاف ہے۔ یہاں آپ جو گناہ بھی کریں معاف ہے۔مقصد بہت پاک ہے ان خیالات کے تحت لوگوں نے اس معاملے میں ایسے ایسے جعل کئے اور ایسی ایسی تحریفیں کیں کہ انسان مبہوت رہ جاتا ہے۔
دس پندرہ سال پہلے میں اصفہان گیا تھا وہاں ایک بزرگ تھے مرحوم حاجی شیخ محمد حسن نجف آبادی اعلی اللہ مقامہ۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک روایت جو نئی نئی ایک جگہ سنی تھی اور اس سے پہلے کبھی نہیں سنی تھی ان کے سامنے دہرائی جو شخص یہ روایت سناتا تھا وہ اتفاق سے افیمچی بھی تھا۔ اس نے یہ روایت پڑھی اور لوگوں کو اس قدر رلایا جس کی کوئی حد نہیں۔ وہ ایک بوڑھی عورت کا قصہ سناتا تھا کہ وہ متوکل کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو جانا چاہتی تھی جس سے اس زمانے میں روکتے تھے اور لوگوں کے ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے۔ اس نے یہ قصہ یہاں تک بیان کیا کہ اس عورت کو پکڑ کر لے گئے اور دریا میں ڈال دیا۔ اس وقت اس عورت نے فریاد کی: اے ابو الفضل العباس علیہ السلام! مدد کیجئے ۔ جیسے ہی وہ ڈوبنے کو ہوئی آپ کی سواری آئی اور آپ نے فرمایا۔ میرے گھوڑے کی رکاب تھام لے۔ اس نے رکاب پکڑ لی۔ آپ نے پوچھا اپنے ہاتھ کیوں نہیں بڑھاتی؟ وہ بولی میرے جسم میں ہاتھ ہی نہیں ہیں۔ لوگ دہاڑیں مار مار کر رونے لگے۔
مرحوم حاجی شیخ محمد حسن نے اس قصے کی تاریخ یوں بیان کی ہے کہ ایک دن بازار کے قریب، صدر مدرسے کے نزدیک (واقعہ ان سے پہلے گزر چکا تھا اور انھوں نے معتبر لوگوں سے سن کر بیان کیا تھا) مصائب حسین علیہ السلام کی ایک مجلس تھی جو اصفہان کی ایک بڑی مجلس شمار ہوتی تھی جس میں مرحوم حاجی ملا اسما عیل خواجو ی بھی، جو اصفہان کے بہت بڑے عالم تھے، شرکت کر رہے تھے ۔ایک مشہور واعظ کہتا تھا کہ میں آخری ذاکر تھا ۔دوسرے ذاکر آتے رہے اور لوگوں کو رُلانے کے لئے اپنا اپنا ہنر دکھاتے رہے ۔جو کوئی آ تا تھا وہ دوسرے سے بڑھ کرکوشش کرتا تھا اور پھر منبر سے اتر کر بیٹھ جاتا تھا تاکہ اپنے بعد کے ذاکر کا ہنر دیکھے۔ مجلس ظہر کے وقت تک چلتی رہی ۔میں نے دیکھا کہ جس کسی کے پاس جتنا ہنر تھا وہ اس نے دکھا دیا۔ لوگوں کی ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ اب میں نے سوچا کہ میں کیا کروں؟ وہیں اور اسی وقت میں نے یہ قصہ گھڑ ڈالا، منبر پر گیا۔ یہ قصہ بیان کیا اور سب سے بڑھ گیا۔ اسی دن عصر کے وقت میں ایک اور مجلس میں گیا جو ”چار سوق“ میں تھی ۔ میں نے دیکھا کہ مجھ سے پہلے جو ذاکر تقریر کر رہا تھا وہ یہی قصہ سنا رہا تھا رفتہ رفتہ لوگوں نے یہ قصہ کتابوں میں لکھا اور چھاپ بھی دیا ۔ یہ بات کہ امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ ایک مختلف بارگاہ ہے اس لئے لوگوں کو رلانے کا ہر وسیلہ کام میں لانا چا ہئے ۔ایک وہم ، ایک غلط خیال، ایک غلظی اور گھڑت اور تحریف کا ایک بہت بڑاسبب ہے ۔
یہ بزرگ یعنی حاجی نوری مر حوم جو حاج شیخ عباس قمی مرحوم کے استاد تھے اور حاج شیخ عباس پر بھی فضیلت رکھتے تھے خود حاج شیخ عباس اور دوسرے علماء کے اعتراف کے مطابق غیر معمولی عالم اور متقی انسان تھے ۔ انہوں نے یہ بات اپنی کتاب میں پیش کی ہے کہ اگر یہ قول ٹھیک ہے کہ مقصد وسیلے کو جائز کردیتا ہے تو میں یہ کہوں گا کہ اسلام کا ایک مقصد مومن کے دل میں خوشی پیدا کرنا ہے یعنی انسان وہ کام کرے جس سے مومن خوش ہو جائے ۔میں مومن کو خوش کرنے کے لئے اس کے سامنے غیبت کرتا ہوں کیونکہ ا سے دوسرے کی غیبت بہت اچھی لگتی ہے ۔جب لوگ کہیں گے کہ تو گناہ کما رہا ہے تو میں جواب دوں گا کہ نہیں ، میرا مقصد تو پاک وپاکیزہ ہے۔ میں غیبت کرکے اس مومن کو خوش کر رہا ہوں ۔
حاجی نوری مرحوم ایک اور مثال بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص پرائی عورت کا بوسہ لیتا ہے ۔ نامحرم عورت کا بوسہ لینا حرام ہے ۔ ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے تو مومن کا دل خوش کیا ہے ۔ زنا، شراب اور اغلام کے بارے میں بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے ۔اب یہ شور وغوغا کیسا؟ اس میں شریعت کو بگاڑنے کی کیا بات ہے؟ یہ بات کہ لوگوں کو رُلانے کے لئے ہر وسیلہ جائز ہے ۔خدا کی قسم امام حسین علیہ السلام کے قول کے خلاف ہے ۔امام حسین علیہ السلام اس لئے شہید ہوئے کہ اسلام کا مرتبہ بلند ہو ”اشہد انک قد اقمت الصلوٰۃ و آتیت الزکوٰۃ و امرت بالمعروف و نہیت عن المنکر و جاھدت فی اللہ حق جھادہ“۱۰ امام حسین علیہ السلام اس لئے قتل ہوئے کہ اسلامی طور طریقے، اسلامی احکامات اور اسلامی قوانین زندہ اور جاری رہیں، اس لئے قتل نہیں ہوئے کہ اسلامی طور طریقوں ہی کو ٹھکرا دیں ۔ہم نے امام حسین علیہ السلام کو اسلام بگاڑ نے والے کی حیثیت دیدی ہے۔ ہم نے امام حسین علیہ السلام کی جو صورت پیش کی ہے وہ اسلام بگاڑنے والی ہے ۔
حواله جات
۴. بحار الانوار/ جلد: ۴۴/ صفحہ ۳۱۸۔ تحف العقول / صفحہ: ۱۷۶/ اللہوف/ صفحہ: ۳۳۔ مقتل الحسین علیہ السلام خوارزمی/ جلد: ۲/ صفحہ: ۵۔
۵. مناقب ابن شہر آشوب/ جلد: ۴/ صفحہ: ۱۱۰۔ الہوف/ صفحہ: ۵۰۔ بحارالانوار/ جلد: ۴۵/ صفحہ: ۵۰۔ کشف الغمّہ/ جلد: ۲/ صفحہ:۳۲۔
۶. بحار الانوار/ جلد: ۴۴/ صفحہ: ۳۸۱۔ اللہوف/ صفحہ: ۳۳۔ تحف العقول/ صفحہ: ۱۷۶۔
۷. بحار الانوار/ جلد: ۴۴/ صفحہ: ۳۶۶۔ اللہوف/ صفحہ: ۲۵۔
۸. اللہوف/ صفحہ:۴۱۔ مقتل الحسین خوارزمی / جلد: ۲/ صفحہ: ۷۔ تاریخ شام ابن عساکر/ جلد: ۴/ صفحہ: ۳۳۳ ۔ مقتل الحسین علیہ السلام مقرم / صفحہ: ۲۸۷۔ ملحقات احقاق الحق/ جلد: ۱۱/ صفحہ: ۶۲۴ و ۶۲۵۔ نفس المہموم/ صفحہ: ۱۴۹۔ تحف العقول/ صفحہ: ۱۷۴۔
۹. ایضاً
۱۰. مفاتیح الجنان/ زیارت امام حسین علیہ السلام، عید الفطر اور عید الضحیٰ کی راتوں میں۔