- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/25
- 0 رائ
خدا کے ناموں میں سے اللہ، جامع ترین نام ہے
بسم اللہ کی ادائیگی میں ہمارا سامنا سب سے پہلے لفظ اسم سے ہوتا ہے۔ عربی ادب کے علماء کے بقول اس کی اصلی ”سمو“ بر وزن علو ہے جس کے معنی ہیں ارتفاع اور بلندی۔ تمام ناموں کو اسم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ہر چیزکا مفہوم اخفاء سے ظہور و ارتفاع کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے یا اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ، نام ہوجانے کے بعد معنی پیدا کرلیتا ہے۔ مہمل اور بے معنی کی منزل سے نکل آتا ہے اور اس طرح ارتفاع و بلندی حاصل کرلتیا ہے۔
بہرحال کلمہ ”اسم“ کے بعد، ہم کلمہ اللہ تک پہنچتے ہیں جو خدا کے ناموں میں سب سے زیادہ جامع ہے۔ خدا کے ان ناموں کو جو قرآن مجید یا دیگر مصادر اسلامی میں آئے ہیں اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا کی کسی ایک صفت کو منعکس کرتے ہیں لیکن وہ نام جو تمام صفات و کمالات الہی کی طرف اشارہ کرتا ہے دوسرے لفظوں میں جو صفات جلال و جمال کا جامع ہے و ہ صرف اللہ ہے یہی وجہ ہے کہ خدا کے دوسرے نام عموما کلمہ اللہ کی صفت کی حیثیت سے کہے جاتے ہیں مثال کے طور پر چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :
غفور و رحیم: فان اللہ غفور رحیم (بقرہ ۲۲۶) ۔ یہ صفت خدا کی صفت بخشش کی طرف اشارہ ہے: سمیع وعلیم: سمیع اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ خدا تمام سنی جانے والی چیزوں سے آگاہی رکھتا ہے اور علیم اشارہ ہے کہ وہ تمام چیزوں سے باخبر ہے۔
فان اللہ سمیع علیم (بقرہ ، ۲۲۷) ۔
بصیر: یہ لفط بتاتا ہے کہ خدا تمام دیکھی جانے والی چیزوں سے آگاہ ہے: واللہ بصیر بما تعملون (حجرات، ۱۸) ۔
رزاق: یہ صفت اس کے تمام موجودات کو روزی دینے کے پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ذوالقوة اس کی قدرت کو ظاہر کرتی ہے اور متین، اس کے افعال اور پروگرام کی پختگی کا تعارف ہے: ان اللہ ھو الرزاق ذو القوة المتین(زاریات، ۵۸)
خالق اور باری: اس کی آفرینش اور پیدا کرنے کی صفت کی طرف اشارہ ہے اور مصور اس کی تصویر کشی کی حکایت کرتا ہے: ھو اللہ الخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسنی(حشر، ۲۴)
ظاہر ہوا کہ ”اللہ “ ہی خدا کے تمام ناموں میں سے جامع ترین ہے یہی وجہ ہے کہ ایک ہی آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے نام ”اللہ“ قرار پائے ہیں: ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار المتکبر۔
اللہ وہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ حاکم مطلق ہے، منزا ہے، ہر ظلم و ستم سے پاک ہے، امن بخشنے والا ہے، سب کا نگہبان ہے، توانا ہے کسی سے شکست کھانے والا نہیں اور تمام موجودات پرقاہر وغالب اور باعظمت ہے۔ (حشر ۲۳) ۔
اس نام کی جامعیت کا ایک وضح شاہد یہ ہے کہ ایمان و توحید کا اظہار صرف ” لا الہ الا اللہ“ کے جملے سے ہوسکتا ہے اور جملہ ”لا الہ الا العلیم الا الخالق الا الرزاق اور دیگر اس قسم کے جملے خود سے توحید و اسلام کی دلیل نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ جب مسلمانوں کے معبود کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں تو لفظ اللہ کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ خداوند عالم کی تعریف و توصیف لفظ اللہ سے مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے۔
خدا کی رحمت عام او ررحمت خاص
مفسرین کے ایک طبقے میں مشہور ہے کہ صفت، رحمان رحمت عالم کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو دوست و دشمن، مومن و کافر، نیک و بد ، غرض سب کے لئے ہے۔ کیونکہ اس کی بے حساب رحمت کی بارش سب کو پہنچتی ہے، اور اس کا خوان نعمت ہر کہیں بچھا ہوا ہے۔ اس کے بندے زندگی کی گوناگوں رعنائیوں سے بہرہ ور ہیں اپنی روزی اس کے دسترخوان سے حاصل کرتے ہیں جس پر بے شمار نعمتیں رکھی ہیں۔ یہ وہی رحمت عمومی ہے جس نے عالم ہستی کا احاطہ کر رکھا ہے اور سب کے سب اس دریائے رحمت میں غوطہ زن ہیں۔
رحیم خداوند عالم کی رحمت خاص کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو اس کے مطیع، صالح، اور فرمانبردار بندوں کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ انہوں نے ایمان او رعمل صالح کی بناء پر یہ شائستگی حاصل کرلی ہے کہ وہ اس رحمت و احسان خصوصی سے بہرہ مند ہوں جو گنہگاروں اورغارت گروں کے حصے میں نہیں ہے۔
ایک چیز جو ممکن ہے اسی مطلب کی طرف اشارہ ہو یہ ہے کہ لفظ ”رحمان“ قرآن میں ہر جگہ مطلق آیا ہے جو عمومیت کی نشانی ہے جب کہ رحیم کبھی مقید ذکر ہوا ہے مثلا وکان بالمومنین رحیما (خدا، مومنین کے لئے رحیم ہے)۔ (احزاب ۴۳)۔
اور کبھی مطلق جیسے کہ سورہ حمد میں ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت صادق (ع) نے فرمایا: واللہ الہ کل شیئی الرحمان بجمیع خلقہ الرحیم بالمومنین خاصة( ۱)
۱ ۔ المیزان بسند کافی، توحید صدوق اور معانی الاخبار۔ خدا ہر چیز کا معبود ہے۔ وہ تمام مخلوقات کے لئے رحمان او رمومنین پر خصوصیت کے ساتھ رحیم ہے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ رحمان صیغہ مبالغہ ہے جوا سکی رحمت کی عمومیت کے لئے خود ایک مستقل دلیل ہے اور رحیم صفت مشبہ ہے جو ثبات و دوام کی علامت ہے اور یہ چیز مومنین کے لئے ہی خاص ہوسکتی ہے۔
ایک اور شاہد یہ ہے کہ رحمان خدا کے مخصوص ناموں میں سے ہے اور اس کے علاوہ کسی کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کیا جاتا جب کہ رحیم ایسی صفت ہے جو خدا اور بندوں کےلئے استعمال ہوتی ہے جیسے نبی اکرم(ص) کے لئے ارشاد الہی ہے: عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم باالمومنین روٴف رحیم۔
تمہاری تکلیف و مشقت نبی پر گراں ہے، تمہاری ہدایت اسے بہت پسندیدہ ہے اور وہ مومنین کے لئے مہربان اور رحیم ہے(توبہ، ۱۲۸)۔
ایک دوسری حدیث میں امام صادق(ع) سے منقول ہے: الرحمن اسم خاص بصفة عامة والرحیم اسم عام بصفة خاصة
رحمن اسم خاص ہے لیکن صفت عام اور رحیم اسم عام ہے لیکن صفت خاص ہے۔[18]
یعنی رحمن ایسا نام ہے جو خدا کے لئے مخصوص ہے لیکن اس میں اس کی رحمت کا مفہوم سب پر محیط ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ رحیم ایک صفت عام کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے البتہ اس میں (صفت خاص کے طور پر استعمال ہونے میں) کوئی مانع نہیںجو فرق بتایا گیا ہے وہ تو اصل لغت کے لحاظ سے ہے لیکن اس میں استثنائی صورت پائی جاتی ہے۔ امام حسین (ع) کی ایک بہترین اور مشہور دعا جو دعائے عرفہ کے نام س معروف ہے کے الفاظ ہیں: یا رحمان الدنیا والآخرة و رحیما
اے وہ خدا جو دنیا و آخرت کا رحمان اور دونوں ہی کا رحیم ہے۔
اس بحث کو ہم نبی اکرم(ص) کی ایک پرمعنی اور واضح حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے: ان اللہ عزوجل مآة رحمة و انہ انزل منھا واحدة الی الارض فقسمھا بین خلقہ بھا یتعاطفون و یتراجعون و اخر تسع و تسعین لنفسہ یرحم بھا عبادہ یوم القیامة۔
خداوند تعالی کی رحمت کے سو باب ہیں جن میں سے اس نے ایک کو زمین پر نازل کیا ہے اور (اس رحمت) کو اپنی مخلوق میں تقسیم کیا ہے۔ لوگوں کے درمیان جو عطوفت، مہربانی اور محبت ہے وہ اسی کی روشنی مین ہے لیکن نناوے حصے رحمت اس نے اپنے لئے مخصوص رکھی ہے اور قیامت کے دن اپنے بندوں کو اس سے نوازے گا۔[19]
خدا کی دیگر صفات بسم اللہ میں کیوں مذکور نہیں؟
یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن کی تمام سورتیں(سوائے سورہ برات کے جس کی وجہ بیان ہوچکی ہے) بسم اللہ سے شروع ہوتی ہیں اور بسم اللہ میں مخصوص نام ”اللہ“ کے بعد صرف صفت رحمانیت کا ذکر ہے اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر باقی صفات کا ذکر کیوں نہیں۔
اگر ہم ایک نکتے کی طرف توجہ کریں تو اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ ہر کام کی ابتداء میں ضروری ہے کہ ایسی صفت سے مدد لی جس کے آثار تمام جہان پر سایہ فگن ہوں، جو تمام موجودات کا احاطہ کئے ہو اورعالم بحران میں مصیبت زدوں کو نجات بخشنے والی ہو۔ مناسب ہے کہ اس حقیقت کو قرآن کی زبان سے سنا جائے۔ ارشاد الہی ہے: و رحمتی وسعت کل شئی
میری رحمت تمام چیزوں پر محیط ہے(اعراف، ۱۵۶)
ایک اور جگہ ہے حاملان عرش کی ایک دعاء خداوند کریم نے یوں بیان فرمایا ہے:
ربنا وسعت کل شئی رحمة
پروردگار! تو نے اپنا دامن رحمت ہر چیز تک پھیلا رکھا ہے(المومن، ۷) ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کرام نہایت سخت اور طاقت فرسا حوادث اور خطرناک دشمنوں کے چنگل سے نجات کے لئے رحمت خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں قوم موسی فرعونیوں کے ظلم سے نجات کے لئے پکارتی ہے: و نجنا برحمتک۔
خدایا ہمیں(ظلم سے) نجات دلا اور اپنی رحمت (کا سایہ) عطا فرما (یونس ، ۸۶)۔
حضرت ہود(ع) اوران کے پیروکاروں کے سلسلے میں ارشاد ہے: فانجیناہ والذین معہ برحمة منا۔
ہود(ع) اور ان کے ہمراہیوں کو ہم نے اپنی رحمت کے وسیلے سے نجات دی (اعراف ، ۷۲) ۔
اصول یہ ہے جب ہم خداسے کوئی حاجت طلب کریں تو مناسب ہے کہ اسے ایسی صفات سے یاد کریں جو اس حاجت سے میل اور ربط رکھتی ہوں۔ مثلا حضرت عیسی مائدہ آسمانی (مخصوص غذا) طلب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: اللھم ربنا انزل علینا مائدة من السماء و ارزقنا و انت خیر الرازقین۔
بار الہا! ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما اور ہمیں روزی عطا فرما اور تو بہترین روزی رساں ہے۔(مائدہ، ۱۱۴)۔
خدا کے عظیم پیغمبر حضرت نوح(ع) بھی ہمیں یہی درس دیتے ہیں۔ وہ جب ایک مناسب جگہ کشتی سے اترنا چاہتے ہیں تو یوں دعا کرتے ہیں: رب انزلنی منزلا مبارکا و انت خیر المنزلین۔
پروردگار! ہمیں منزل مبارک پر اتار کہ تو بہترین اتارنے والا ہے(مومنین، ۲۹) ۔
حضرت زکریا(ع) خدا سے ایسے فرزند کے لئے دعا کرتے ہیں جو ان کا جانشین و وارث ہو اس کی خیر الوارثین سے توصیف کرتے ہیں: رب لا تذرنی فردا و انت خیر الوارثین۔
خداوند! تنہا نہ چھوڑ تو، تو بہترین وارث ہے(انبیاء ، ۸۹) ۔
کسی کام کو شروع کرتے وقت جب خدا کے نام سے شروع کریں تو خدا کی وسیع رحمت کے دامن سے وابستگی ضروری ہے ایسی رحمت جو عام بھی ہو اور خاص بھی۔ کاموں کی پیش رفت او رمشکلات میں کامیابی کے لئے کیا ان صفات سے بہتر کوئی اور صفت ہے؟ قابل توجہ امر یہ ہے کہ و ہ توانائی جو قوت جاذبہ کی طرح عمومیت کی حامل ہے جو دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی ہے وہ یہی صفت رحمت ہے لہذا مخلوق کااپنے خالق سے رشتہ استوار کرنے کے لئے بھی اسی صفت رحمت سے استفادہ کرنا چاہئے۔ سچے مومن اپنے کاموں کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر تمام جگہوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنےدل کو صرف خدا سے وابستہ کرتے ہیںاور اسی سے مدد و نصرت طلب کرتے ہیں وہ خدا جس کی رحمت سب پر چھائی ہوئی ہے اور کوئی موجود ایسا نہیں جو اس سے بہرہ ور نہ ہو۔
بسم اللہ سے واضح طور پر یہ درس حاصل کیا جا سکتا ہے کہ خدا وند عالم کے ہر کام کی بنیاد رحمت پر ہے اور بدلہ یا سزا تو استثنائی صورت ہے جب تک قطعی عوامل پیدا نہ ہوں سزا متحقق نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ ہم دعا میں پڑھتے ہیں: یا من سبقت رحمتہ غضبہ۔
اے وہ خدا کہ جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت لے گئی ہے- [20]
انسان کو چاہئے کہ وہ زندگی کے پروگرام پر یوں عمل پیرا ہو کہ ہر کام کی بنیاد رحمت و محبت کو قرار دے اور سختی و درشتی کو فقط بوقت ضرورت اختیار کرے۔ قرآن مجید کی ۱۱۴ سورتوں میں سے ۱۱۳ کی ابتداء رحمت سے ہوتی ہے اور فقط ایک سورہٴ توبہ ہے جس کا آغاز بسم اللہ کی بجائے اعلان جنگ اور سختی سے ہوتا ہے۔
………………..
حواله جات
[18] . مجمع البیان جلد ۱ ، ص ۲۱ ۔
[19] . مجمع البیان ج ۱ ۔
[20] . دعائے جوشن کبیر۔