- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/02
- 0 رائ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الم (۱) ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ(۲)
ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
۱۔ ا ل م
۲۔ یہ وہ با عظمت کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ پرہیزگاروںکی ہدایت کی بنیاد ہے۔
تفسیر
قرآن کے حروف مقطعات کے متعلق تحقیق
انیس سورتوں کی ابتداء میں ہمیں حروف مقطعات دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے یہ حروف ایک دوسرے سے منقطع اور الگ الگ ہیں اور ان سے کوئی ایسا لفظ نہیں بنتا جو سمجھ میں نہ آسکے۔ قرآن کے حروف مقطعات ہمیشہ قرآن کے اسرار آمیز کلمات میں شمار ہوتے رہے ہیں۔ مفسرین نے ان کی کئی ایک تفاسیر بیان کی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور علماء کی جدید تحقیقات سے ان کی نئی تفسیریں سامنے آئیں گی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہم نے کسی تاریخ میں نہیں دیکھا کہ جہاں عرب اور مشرکین نے قرآن کی کئی ایک سورتوں کی ابتداء میں موجود ان حروف مقطعات کی وجہ سے رسول اکرم پر اعتراض کیا ہو یا ان کے باعث استہزاء و تمسخر کیا ہو۔ یہ امر اس بات کی خبر دیتا ہے کہ گویا وہ لوگ بھی حروف مقطعات کے وجود کے اسرار سے بالکل بے خبر نہ تھے۔
بہر حال تفاسیر مذکورہ میں سے چند ایک ایسی ہیں جو زیادہ اہم اور معتبر لگتی ہیں اور وہ اس سلسلے کی آخری تحقیقات سے ہم آہنگ ہیں ہم چند ایک کو تدریجا اس سورت، آل عمران اور سورہ اعراف کے آغاز میں ان شاء اللہ بیان کریں گے۔
اس وقت ان میں سے اہم ترین کا ذکر کیا جا رہا ہے:
یہ حروف اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ یہ آسمانی کتاب اس عظمت و اہمیت کے باوجود کہ اس نے عرب و عجم کے تمام سخنوروں کو حیران کر دیا ہے۔ اور علماء و محققین کو عاجز کر دیا ہے انہی حروف کا مجموعہ و نمونہ ہے جن کا استعمال سب کے اختیار میں ہے۔
باوجودیکہ قرآن انہی حروف الف با اور عام کلمات سے مرکب ہے لیکن یہ ایسے موزوں کلمات اور عظیم معانی کا حامل ہے جو انسان کے دل وجان کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں انسان کی روح تحیر اور تحسین کی کیفیات سے دوچار ہو جاتی ہے اور ان کے مطالعے سے افکار و عقول ان کی تعظیم و تکریم پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ قرآن کی جملہ بندی مرتب ہے، اس کے کلمات بلند ترین بنیادوں کے حامل ہیں اور اس میں بلند معانی زیبا ترین الفاظ کے قالب میں اس طرح سے ڈھلے ہوئے ہیں جس کی کوئی مثل و نظیر نہیں ملتی۔
قرآن کی فصاحت و بلاغت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ بات صرف دعوی نہیں کیونکہ خالق کائنات، جس نے اس کتاب کو اپنے رسول پر نازل کیا ہے اس نے تمام نسانوں کو اس کی مثل پیش کرنے کی دعوت دی ہے اور ان سے کہا ہے کہ اس جیسا قرآن یا اس جیسی ایک سورت ہی لے آو۔ اس نے دعوت دی ہے کہ تمام جہانوں کے باسی(جن و انس) ہم گام و ہم فکر ہو کراس کی نظیر پیش کریں۔ لیکن سب کے سب عاجز و ناتواں رہ گئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قرآن فکر انسانی کی تخلیق نہیں۔
بالکل اسی طرح جیسے خداوند عظیم نے اس مٹی سے انسان کو اس تعجب خیز جسم کے ساتھ تخلیق کیا، قسم قسم کے خوبصورت پرندے اور جانور پیدا کئے، طرح طرح کی چیزیں بناتے ہیں۔ ایسے ہی خداوند تعالی حروف الف باء اور معمولی کلمات سے بلند ترین مطالب و معانی کو خوبصورت الفاظ اور موزوں کلمات کے سانچے میں ڈھالتا ہے اور انہیں ایسا اسلوب دیتا ہے جس سے تمام انگشت بدنداں ہیں۔ بیشک یہی حروف انسانوں کے اختیار میں بھی ہیں لیکن ان میں یہ طاقت نہیں کہ قرآن جیسی تراکیب اور جملہ بندی ایجاد کرسکیں۔
ادبیات عرب کا عہد زریں
یہ بات قابل غور ہے کہ زمانہ ٴ جاہلیت اور ادبیات کے لحاظ سےایک عہد زریں تھا۔ وہی پا برہنہ اور نیم وحشی بادیہ نشین بدو تمام تر اقتصادی و معاشرتی محرو میوں کے باوجود ادبی ذوق اور سخن سنجی سے سرشار تھے۔ یہاں تک کہ آج بھی ان کے اشعار ان کے سنہری زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے بہترین اور قیمتی اشعار ادبیات عرب کا سرمایہ ہیں اور حقیقی عربی ادب کے متلاشیوں کے لئے ایک گراں بہا ذخیرہ ہیں۔ یہ بات اس وقت کے عربوں کے تفوق ادبی اور ذوق سخن پروری کی بہترین دلیل ہے۔
عربوں کے زمانہ جاہلیت میں ایک سالانہ میلہ لگتا تھا جو بازار عکاظ کے نام سے مشہور تھا۔ یہ ایک ادبی اجتماع کے ساتھ ساتھ سیاسی و عدالتی کانفرنس بھی تھی۔ اسی بازار میں بڑے بڑے اقتصادی سودے بھی ہوتے، شعراء اور سخنور اپنی اپنی تخلیقات اس کانفرنس میں پیش کرتے ان میں سے بہترین کا انتخاب ہوتا۔ جسے شعر سال کا اعزاز حاصل ہوتا۔ ان میں سے سات یا دس قصیدے سبعہ یا عشرہ معلقہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس عظیم الشان ادبی مقابلے میں کامیابی شاعر اور اس کے قبیلے کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز تصور کی جاتی تھی۔
ایسے زمانے میں قرآن نے اپنی مثل لانے کی دعوت انہی لوگوں کو دی اور سب نے اظہار عجز کیا اور اس کے سامنے سرجھکا لئے۔ اس کی مزید تشریح، اس سورہ کی آیت ۲۳ کے ذیل میں آئے گی جہاں قرآن کے چیلنج اور عرب سخنوروں کے عجز کا تذکرہ ہے۔
واضح گواہ
حروف مقطعہ کی اس تفسیر کا زندہ ثبوت وہ حدیث ہے جو امام سجاد علی بن الحسین علیہما السلام سے منقول ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
کذب قریش و الیہود بالقرآن و قالوا هذا سحر مبین تقولہ فقال تعالی اللہ: الم۔ ذلک الکتابای یا محمد ھذا الکتاب الذی انزلتہ الیک الحروف المقطعة التی منھا الف و لام و م وہو بلغتکم تاتوا بمثلہ ان کنتم صادقین
قریش اور یہودیوں نے یہ کہہ کر قرآن کی طرف غلط نسبت دی کہ قرآن جادو ہے یہ خود ساختہ ہے اور اسے خدا سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ خدا نے انہیں خبردار کیا اور فرمایا الم ذلک الکتاب“ یعنی اے محمد جو کتاب ہم نے آپ پر نازل کی ہے وہ انہی حروف مقطعہ (الف، لام، م) وغیرہ پر مشتمل ہے جو تمہارے زیر استعمال ہے اور اگر تم سچے ہو تو اس کی مثل پیش کرو۔[3]
دوسری شہادت وہ حدیث ہے جو امام علی بن موسی الرضا سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں: ثم قال: ان اللہ تبارک و تعالی انزل ھذا القرآن بھذہ الحروف التی تید اولھا جمیع العرب ثم قال: قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن۔
خداوند تعالی نے قرآن کو انہی حروف میں نازل فرمایا جنہیں تمام اہل عرب بولتے ہیں۔ پھر فرمایا: ان سے کہئے کہ اگر انس و جن قرآن کی مثل لانے کے لئے مجتمع ہو جائیں تب بھی وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے۔[4]
ایک اور نکتہ جو قرآن کے حروف مقطعہ کے بارے میں اس نظریے کی تائید کرتا ہے یہ ہے کہ قرآن میں ۲۴ مقامات ایسے ہیں جہاں سورتوں کی ابتداء جب ان حروف سے ہوتی ہے تو بلا فاصلہ قرآن اور اس کی عظمت سے متعلق گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بات خود نشاندہی کرتی ہے کہ حروف مقطعہ اور قرآن میں ربط موجود ہے۔
ایسے چند ایک مقامات یہ ہیں:
۱۔ الر، کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر۔
۲۔ طس، تلک آیات القرآن و کتاب مبین۔
۳۔ الم ، تلک آیات الکتاب الحکیم۔
۴۔ المص، کتاب انزل الیک۔
ان موارد میں قرآن
ان موارد میں قرآن کی دیگر سورتوں کے آغاز میں بہت سے مواقع پر حروف مقطعہ کے ذکر کے بعد قرآن سے متعلق بات کی گئی ہے اور اس کی عظمت بیان ہوئی ہے۔
اس سورہ (بقرہ) کے آغاز میں بھی حروق مقطعہ کو بیان کرنے کے بعد آسمانی کتب کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ وہی با عظمت کتاب ہے جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں۔(ذالک الکتاب لا ریب فیہ)۔
یہ تعبیر ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ خدا نے اپنے رسول سے وعدہ کیا ہو کہ وہ انسانوں کی رہنمائی کے لئے اس پر ایسی کتاب نازل کرے گا جو تمام طالبان حق کے لئے باعث ہدایت ہو گی اور حقیقت کے متلاشیوں کے لئے اس میں کوئی شک و شبہ نہ ہوگا۔ اور اب اس نے اپنے اس وعدے کو ایفاء کیا ہو۔
یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں صرف ایک دعوی نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ جو کچھ اس قرآن میں ہے وہ خود اپنی حقانیت پر گواہی دیتا ہے۔ گویا عطار کے صندوقچہ کی طرح ہے، خاموش ہے مگر اپنا کمال دکھا رہا ہے۔
دوسرے لفظوں میں اس طرح سے آثار صدق و عظمت، نظم و استحکام، معانی کی گہرائی، الفاظ و تعبیرات کی مٹھاس اور فصاحت اس میں نمایاں ہے کہ ہر قسم کا وسوسہ اور شک دور ہوتا چلا جاتا ہے اور آنجا کہ عیاں است چہ حاجت بیان است“ کا مصداق ہے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ رفتار زمانہ نہ فقط اس شگفتگی و تازگی کو کم نہیں کر سکی بلکہ علوم کی پیش رفت اور اسرار کائنات کے آشکارا ہونے سے اس کے حقایق روشن تر ہوتے جار ہے ہیں اور علم جتنا مائل بہ کمال ہے اس کی آیات زیادہ واضح ہوتی جارہی ہیں یہ دعوی ہی نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جس سے ہم ان شاء اللہ اسی تفسیر میں آگا ہوں گے۔
چند اہم نکات
۱۔ دور کا اشارہ کیوں: ہمیں معلوم ہے کہ فقط ”ذلک “لغت عرب میں دور کے لئے اسم اشارہ ہے۔ اس بناء پر ”ذلک الکتاب“ کا مفہوم ہے وہ کتاب۔ حالانکہ یہاں نزدیک کے اسم اشارہ سے استفادہ کیا جانا چاہئے تھا اور” ھذا الکتاب“ ہونا چاہئے تھا کیونکہ قرآن لوگوں کی دسترس میں تھا۔ یہ اس لئے ہوا کہ کبھی بعید کا اسم اشارہ کسی چیز یا شخص کی عظمت کے پیش نظر استعمال کیا جاتا ہے گویا اس کا مقام اتنا بلند ہے کہ آسمانوں کی بلندی کا حامل ہے۔ فارسی میں بھی ایسی تعبیرات موجود ہیں۔ مثلا کسی عظیم شخصیت کے حضور میں ہم کہتے ہیں:
” اگر آن سرور اجازہ دھند “
یعنی ” اگر وہ سردار اجازت دیں“۔
حالانکہ یہاں ”این سرور“ یعنی یہ سردار کہنا چاہئے۔ یہ صرف بیان عظمت اور مقام بلند کے باعث ہے۔ کئی ایک دوسری آیات میں بھی تلک کا استعمال ہوا ہے اور یہ بھی اشارہ بعید ہے مثلا: تلک آیات الکتاب الحکیم۔(لقمان،۲)۔
۲ ۔ معنی ”کتاب“: کتاب بمعنی مکتوب ہے یعنی لکھی ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔
اب یہاں یہ سوال سامنے آئے گا کہ کیا اس وقت تمام قرآن لکھا ہوا تھا۔ اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ تمام قرآن کا لکھا ہونا ضروری نہیں کیونکہ قرآن جس طرح اس پوری کتاب کو کہا جاتا ہے اس کے اجزاء کو بھی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں لفظ کتاب بعض اوقات اس سے زیادہ وسیع معنی میں بولا جاتا ہے۔ وہ مطالب جو لکھنے کے قابل ہیں اور جنہیں لکھا جاتا ہے چاہے اس وقت نہ لکھے گئے ہوں۔ سورہ ص آیہ ۲۹ میں ہے:
کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا۔
یعنی یہ کتاب جسے ہم نے آپ پر نازل کیا با برکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر و تفکر کریں۔
یہ احتمال بھی ہے کہ کتاب سے تعبیر کرنا قرآن کے لوح محفوظ میں لکھے ہونے کی طرف اشارہ ہو(لوح محفوظ کے بارے میں بحث (ہم اس کی جگہ پر کریں گے(۱)۔۱۔ ذیل آیت ۳۹ ، سورہ رعد، تفسیر نمونہ۔
۳۔ ہدایت کیا ہے؟: لفظ ہدایت قرآن میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اس کی بنیاد دو معانی ہیں:
الف۔ ہدایت تکوینی۔ جو تمام موجودات عالم میں پائی جاتی ہے(اس سے مراد وہ ہدایت ہے جو تمام موجودات نظام خلقت کے تحت عالم ہستی کے قوانین کی پابندی کے ساتھ پروردگار عالم سے حاصل کرتی ہیں)۔
قرآن مجید اس ضمن میں حضرت موسی(ع) کا قول بیان کرتا ہے:
قال ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدا۔
حضرت موسی نے کہا: ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کی ہدایت کی۔(طہ، ۵۰)۔
ب۔ ہدایت تشریعی: جو انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعے انجام پذیر ہوتی ہے اور نوع انسانی کی تعلیم و تربیت سے ترقی کی راہیں طے کرتی ہے۔ اس کے شواہد بھی قرآن میں بہت سے ہیں۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے:
و جعلناھم ائمة یھدون بامرنا۔ انہیں ہم نے رہنما قرار دیا تاکہ ہمارے فرمان کے مطابق لوگوں کو ہدایت کریں۔(انبیاء ۷۳) ۔
۴۔ قرآنی ہدایت پرہیزگاروں کے ساتھ کیوں مخصوص ہے؟
یہ مسلم ہے کہ قرآن تمام دنیا کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔ لیکن مندرجہ بالا آیت میں اس کی ہدایت کو پرہیزگاروں کے ساتھ کیوں مخصوص قرار دیا گیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک تقوی کا کچھ حصہ انسان میں موجود نہ ہو اس کے لئے آسمانی کتابوں اورانبیاء کی دعوت سے ہدایت کا حصول محال ہے(تقوی کے کچھ حصے سے مراد یہ ہے کہ انسان عقل و فطرت کی روشنی میں حق کو پہچان سکے اور پھر اس کے سامنے سر تسلیم خم بھی کردے۔
با الفاظ دیگر جن لوگوں کے پاس ایمان نہیں، انہیں دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جو حق کی تلاش میں ہیں اور اس قدر تقوی ان میں موجود ہے کہ جاں کہیں حق کو پائیں گے اسے قبول کر لیں گے اور دوسرا حصہ وہ جو لجوج، متعصب اور ہوا پرست لوگوں پر مشتمل ہے جو نہ صرف یہ کہ تلاش حق نہیں کرتے بلکہ جہاں کہیں اسے دیکھیں گے اسے ختم کردینے کے در پے ہوں گے اب یہ مسلم ہے کہ قرآن اور دوسر ی کتب صرف پہلے گروہ کے لئے مفید تھیں اور ہیں اور دوسرا گروہ ان کی ہدایت سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا۔ گویا فاعل کی فاعلیت کے علاوہ قبول کرنے والے میں قبولیت کی شرط بھی ہے۔ فرق نہیں کہ ہدایت تکوینی ہو یا ہدایت تشریعی۔
زمین شورہ زار ہرگز سنبل بر نیارد
اگر چہ ہزاران مرتبہ باران بر آن بیارد
یعنی۔ شوردار زمین سے فصل نہیں آگتی چاہے ہزاروں مرتبہ اس پر بارش برسے۔
بلکہ ضروری ہے کہ زمین آمادہو تاکہ وہ بارش کے حیات بخش قطروں سے بہرہ ور ہوسکے۔
وجود انسانی کی سرزمین بھی جب تک ہٹ دھرمی، عناد اور تعصب سے پاک نہ ہو ہدایت کے بیج کو قبول نہیں کرے گی۔ اسی بناء پر ارشاد الہی ہے کہ ۔ قرآن متقی لوگوں کے لئے ہادی و رہنما ہے۔
………………………
حواله جات
[3]. تفسیر برہان، جلد اول، ص ۵۴۔
[4]. توحید صدوق، ص ۱۶۲، طبع ۱۳۷۵ھ۔