- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/05
- 0 رائ
إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ آ آنذَرْتَہُمْ آمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لاَیُؤْمِنُونَ(۶)
خَتَمَ اللهُ عَلَی قُلُوبِہِمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی آبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ(۷)۔
ترجمہ
۶۔ جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انیہں (عذاب خدا سے) ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
۷۔ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ایک بڑا عذاب ان کے انتظار میں ہے۔
تفسیر
دوسرا گروہ سر کش کفار کا ہے
یہ گروہ ان پرہیزگار انسانوں کے بالکل برعکس ہے جن کی صفات گذشتہ دو آیات میں پوری وضاحت سے بیان ہوئی ہیں۔
ان دو آیات میں سے پہلی میں ہے کہ جو کافر ہیں(اور ساتھ اپنے کفر و بے ایمانی پر مصر ہیں) ان کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ انہیں عذاب الہی سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں کیونکہ وہ تو ایمان لانے کے نہیں ( ان الذین کفروا سواء علیھم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لا یوٴمنون)۔ پہلا گروہ حواس و ادراک کے ساتھ پوری طرح تیار تھا کہ وہ حق کو پہچانے اور پھر اسے قبول کرکے اس کی پیروی کرے۔
لیکن اس گروہ کے افراد اپنی گمراہی میں اتنے کٹر ہیں کہ حق جتنا بھی ان کے سامنے واضح ہو جائے وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں وہ قرآن جو متقین کے لئے ہادی اور راہنما ہے ان کے لئے بالکل بے اثر ہے۔ کچھ کہیں نہ کہیں، ڈرائیں یا نہ ڈرائیں کوئی بشارت دیں یا نہ دیں ان پر کسی چیز کا کچھ اثر نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ حق کی پیروی اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے روحانی طور پر آمادہ ہی نہیں۔
دوسری آیت میں اس تعصب و ڈھٹائی کی دلیل پیش کی گئی ہے اور وہ یہ کہ یہ کفر و عناد میں اس طرح ڈوبے ہوئے ہیں کہ حس شناخت کھو بیٹھے ہیں ”خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے“ ( خَتَمَ اللهُ عَلَی قُلُوبِہِمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی آبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ)اسی بناء پر ان کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے (وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ)
اس لحاظ سے وہ آنکھ پرہیزگار جس سے آیات خدا کو دیکھتے تھے، وہ کان پرہیزگار جس سے حق کی باتیں سنتے تھے اور وہ دل پرہیزگار جس سے حقائق کا ادراک کرتے تھے کفار کے لئے بے کار ہیں۔ عقل، آنکھ اور کان ان کے پاس ہیں لیکن سمجھنے، دیکھنے اور سننے کی قوت ان میں نہیں رہی کیونکہ ان کے برے اعمال، ان کا عناد اور ہٹ دھرمی ان کی شناخت کی قوت کے سامنے پردہ بن گئے ہیں۔
یہ مسلم ہے کہ جب تک انسان اس مرحلے تک نہ پہنچے، کتنا ہی گمراہ کیوں نہ ہو قابل ہدایت ہوتا ہے لیکن جب وہ اعمال بد کی وجہ سے حس تشخیص ہی کھو بیٹھتا ہے تو پھر اس کے لئے راہ نجات نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس پہچان کی قوت ہی نہیں لہذا یقینی طور پر عذاب عظیم اس کے انتظار میں ہے۔
چند اہم نکات
۱۔ تشخیص کی قدرت کا چھن جانا دلیل جبر نہیں: پہلا سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ آیت کے مطابق اگر خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے تو پھر وہ مجبور ہیں کہ کفر پر باقی رہ جائیں تو کیا یہ جبر نہیں؟ قرآن میں اس آیت کی طرح اور بھی ایسی ہی آیات موجود ہیں ان حالات میں انہیں سزا دینے کے کیا معنی ہیں؟
اس سوال کا جواب خود قرآن نے دیا ہے اور وہ یہ کہ حق کے مقابلے میں ان لوگوں کا اصرار اور ہٹ دھرمی، ان کی طرف سے ظلم و ستم اور کفر کا استمرار و دوام ان کی حس شناخت پر پردہ پڑ جانے کا باعث بنتا ہے۔ سورہ نساء آیت ۱۵۵ میں ہے:
بل طبع اللہ علیھا بکفرھم
خداوند عالم نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔
سورہ مومن، آیت ۳۵ میں ہے:
کذلک یطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبار۔
اس طرح خدا ہر متکبر اور ستم گر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔
اسی طرح سورہ جاثیہ، آیت ۲۳ میں ہے:
افرایت من اتخذ الھہ ھواہ و اضلہ اللہ علی علم و ختم علی سمعہ و قلبہ و جعل علی بصرہ غشاوة۔
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہوائے نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے لہذا وہ گمراہ ہو گیا ہے اور خدا نے اس کے گوش و دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ انسان کی حس تشخیص کا سلب ہو جانا اور آلات تمیز و معرفت کا بے کار جانا ان آیات میں چند ایک علل کا معلول شمار ہوا ہے۔ کفر، تکبر، ستم، پیروی ہوا و ہوس سرکش، تعصب اور حق کے مقابلے میں اصرار، حقیقت میں یہ حالت انسان کے اعمال کا عکس العمل اور بازگشت ہے کوئی اور چیز نہیں۔
اصولا یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر انسان ایک غلط کام کو مسلسل کرتا رہے تو آہستہ آہستہ اس سے مانوس ہو جاتا ہے پہلے ایک حالت ہے پھر وہ ایک عادت بن جاتی ہے گویا وہ روح انسانی کا جزو ہو جاتی ہے اور کبھی معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ انسان کا پلٹ آنا ممکن نہیں رہتا لیکن اس نے جان بوجھ کر یہ راستہ اختیار کیا تھا لہذا عواقب و انجام کا بھی خود ذمہ دار ہے۔ اوراس میں جبر کی کوئی بات نہیں بالکل اس شخص کی طرح جو خود اپنی آنکھ پھوڑے اور کان ضائع کردے کہ دیکھ سکے نہ سن سکے۔
اب اگر آپ دیکھیں کہ ان افعال کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے اس قسم کے افعال میں ایسی خاصیت رکھی ہے (یہ بات خاص طور پر غور طلب ہے)۔
قوانین آفرینش سے اسی مفہوم کی پورے طور پرعکاسی ہوتی ہے۔ جو شخص صحیح اور سچے تقوی اور پاکیزگی کو اپنا پیشہ بنالے خداوند عالم اس کی حس تمیز کو زیادہ قوی کردیتا ہے اور اسے خاص ادارک نظر اور روشن فکری عطا کرتا ہے۔ جیسے سورہ ٴ انفال آیة ۲۹ میں ہے:
یایھا الذین آمنوا ان تتقواللہ یجعل لکم فرقانا۔
اے ایمان والو! اکر تم تقوی کو اپنا پیشہ قرار دو تو خداوند عالم تمہیں فرقان (یعنی وسیلہٴ ادراک حق و باطل) عطا کرے گا۔
اس حقیقت کو ہم نے روز مرہ کی زندگی میں بھی آزمایا ہے۔ بعض ایسے اشخاص ہیں جو غلط کام شروع کرتے ہیں اور ابتداء میں خود معترف بھی ہوتے ہیں کہ سو فی صد غلط کاری او ربرائی کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اسی بناء پر وہ اس کام سے دکھی ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ اس سے مانوس ہوجاتے ہیں تو وہ دکھ ان سے دور ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ نہ صرف انہیں اس کام سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ وہ اس پر خوش ہوتے ہیں حتی کہ اسے انسانی یا دینی ذمہ داری سمجھنے لگتے ہیں۔
حجاج ابن یوسف جودنیا کا سب سے بڑا سفاک اور ظالم انسان تھااس کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ اپنے ہولناک مظالم اور سفاکیوں کی توجیہہ میں کہتا تھا:
” یہ لوگ گناہگار ہیں لہذا مجھ جیسا شخص ان پر مسلط رہنا چاہئے تاکہ ان پر ظلم کرے کیونکہ یہ اس کے مستحق ہیں“۔
گویا وہ جس قدر قتل، خونریزی اور ظلم کرتا تھا اس کے لئے اپنے آپ کو خدا کی طرف سے مامور سمجھتا تھا۔
کہتے ہیں چنگیز خاں کے ایک سپاہی نے ایران کے ایک سرحدی شہر میں تقریر کی اور کہنے لگا: کیا تمہارا یہ اعتقاد نہیں کہ خدا گنہگاروں پر عذاب نازل کرتا ہے۔ ہم وہی عذاب الہی ہیں لہذا کسی قسم کے مقابلے کی کوشش نہ کرنا“۔
۲۔ ایسے لوگ قابل ہدایت نہیں تو انبیاء کا تقاضا کیوں: یہ دوسرا سوال ہے جو زیر نظر آیات کے سلسلے میں سامنے آتا ہے۔ اگر ہم ایک نکتے کی طرف توجہ دیں تو جواب واضح ہوجائے گا۔ وہ یہ کہ سزا اور عذاب الہی ہمیشہ انسان کے اعمال و کردار سے مربوط ہے۔ صرف اس بناء پر کسی شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی کہ وہ دلی طور پر برا شخص ہے بلکہ ضروری ہے کہ پہلے اسے حق کی دعوت دی جائے۔ اگر اس نے پیروی نہ کی اور اپنے اندرونی خبائث کو اپنے اعمال و کردار سے ظاہر کیا تو اس وقت وہ سزا و عذاب کا مستحق ہے ورنہ وہ ظلم سے پہلے قصاص کا مصداق قرار پائے گا۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم اتمام حجت کا نام دیتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جزا اور عمل کا بدلہ یقینا انجام عمل کے بعد ہونا چاہئے صرف ارادہ یا روحانی و فکری آمادگی اس کے لئے کافی نہیں۔ علاوہ ازیں انبیاء صرف ان کی ہدایت کے لئے نہیں آتے رہے۔ ایسے لوگ اقلیت میں ہیں زیادہ تعداد تو ان گمراہ لوگوں کی ہے جو صحیح تعلیم و تربیت کے تحت قابل ہدایت ہیں۔
۳۔ دلوں پر مہر لگانا: زیر بحث آیات اور دیگر بہت سی آیات قرآن مجید میں بعض اشخاص سے حس تمیز اور ادراک واقعی کے چھن جانے کو”ختم“ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعض اوقات ”طبع“ یا ”رین“ قرار دیا گیا ہے۔ یہ معنی یہاں سے لئے گئے کہ لوگوں میں رسم تھی کہ وہ جب کچھ چیزیں تھیلوں یا مخصوص برتنوں میں رکھتے یا کسی اہم خط کو کسی لفافے میں رکھتے تو اس بناء پر کہ کوئی اسے کھولے نہیں اور اسے ہاتھ نہ لگائے اسے باندھ دیتے اور گرہ لگا دیتے پھر گرہ کے اوپر مہر لگاتے تھے۔ آج بھی یہی معمول ہے۔ جائیدادوں کی رجسٹریوں کو اسی بناء پر خاص قسم کی رسی سے باندھتے ہیں۔ اس کے اوپر لاک (خاص قسم کی دھات) ڈال دی جاتی ہے اور اس کے اوپر مہر لگا دیتے ہیں تاکہ اگر اس کے صفحوں میں کوئی کمی بیشی کی جائے تو معلوم ہو جائے۔
تاریخ میں بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ سربراہان حکومت درہم و دینار کے توڑوں پر اپنی مہر لگا دیتے تھے اور خاص خاص اشخاص کی طرف بھیجتے تھے۔ یہ اس لئے ہوتا تھا کہ اس میں کسی قسم کا تصرف نہ ہونے پائے اور یونہی اس خاص شخص تک پہنچ جائے کیونکہ اس میں تصرف مہر توڑے بغیر ممکن نہ تھا۔ آج کل بھی ڈاک کے تھیلوں پر مہر کا طریقہ رائج ہے۔
عربی زبان میں اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے لفظ ”ختم“ استعمال کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ تعبیر صرف ان اشخاص کے لئے ہے جو بے ایمان اور ہٹ دھرم ہیں جو کثرت گناہ کے باعث عوامل ہدایت کا اثر قبول نہیں کرتے اور اہل حق کے مقابلے میں ان کے دلوں میں بغض و عناد اتنا راسخ ہوتا ہے کہ گویا اس تھیلے کی طرح ان پر مہر لگ چکی ہے اور اب ان میں کسی قسم کا تصرف نہیں ہوسکتا۔
”طبع“ بھی لغت میں اسی معنی کے لئے آیا ہے اور طابع و خاتم ہر دو کے ایک ہی معنی ہیں یعنی وہ چیز جس سے مہر لگاتے ہیں۔
باقی رہا ” رین“ یعنی زنگ، غبار یا سخت قسم کی مٹی جو قیمتی چیزوں سے چپک جائے۔ یہ تعبیر بھی قرآن میں ان اشخاص کے لئے آئی ہے جو کثرت گناہ کی وجہ سے اس عالم کو پہنچ چکے ہیں کہ ان کے دل نفوذ حق کے قابل نہیں رہے۔
کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔
ایسا ہرگز نہیں بلکہ جرائم پیشہ ہونے اور مسلسل برے اعمال کرتے رہنے کی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہوگئے ہیں(مطففین، ۱۴)۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ انسان ہمیشہ متوجہ رہے اگر خدانخواستہ اس سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو بہت جلد اسے توبہ کے پانی اور نیک عمل سے دھو ڈالنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ دل پر زنگ کی شکل اختیار کرجائے اور اس پر مہر لگا دے۔
امام باقر(ع) سے ایک روایت ہے:
ما من عبد مومن الا وفی قلبہ نکتة بضاء فاذا اذنب ذنبا خرج فی تلک النکتة سودا فان تاب ذہب ذلک السواد فان تماری فی الذنوب زاد ذلک السواد حتی یغطی البیاض فاذا غطی البیاض لم یرجع صاحبہ الی خیر ابدا و ھو قول اللہ عزوجل: کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔
کوئی بندہ مومن ایسا نہیں ہے جس کے دل میں ایک وسیع سفید اور چمکدار نقطہ نہ ہو۔ جب اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو اس نقطہ سفید کے درمیان ایک سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اب اگر توبہ کرلے تو وہ سیاہی برطرف ہوجاتی ہے اوراگر مسلسل گناہ کرتا رہے تو سیاہی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ تمام سفیدی پر محیط ہوجاتی ہے اور جب سفیدی بالکل ختم ہوجائے تو پھر ایسے دل والا کبھی بھی خیر و برکت کی طرف نہیں پلٹ سکتا اور اس ارشاد الہی کا یہی مفہوم ہے جب فرماتا ہے کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔[51]۔
۴۔ قرآن میں قلب سے مراد کیا ہے: قرآن مجید میں ادراک حقائق کی نسبت دل کی طرف کیوں دی گئی ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ دل ادراکات کا مرکز نہیں وہ تو بدن میں گردش خون کا ایک آلہ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لفط قلب قرآن میں کئی معانی کے لئے ہے جن میں سے بعض یہ ہیں:
الف: ادراک وعقل۔ جیسا کہ سورہ ق، آیہ ۳۷ میں ہے:
ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب۔ ان مطالب میں تذکر و یاد دھانی ان لوگوں کے لئے ہے جو عقل و ادراک کی قوت رکھتے ہیں۔
ب: روح و جان۔ جیسا کہ سورہ احزاب،آیہ ۱۰ میں ہے:
و اذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر۔ جب آنکھیں دھنس گئیں اور مارے دہشت کے روح و جان لبوں تک آپہنچی۔
ج: مرکز عواطف و مہربانی۔ سورہٴ انفال، آیہ ۱۲ میں ہے:
سالقی فی قلوب الذین کفرون الرعب۔ بہت جلد کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے۔
ایک اور جگہ سورہ آل عمراں ، آیة ۱۵۹ میں ہے:
فبما رحمة من اللہ لنت لھم، و لو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک۔
یہ رحمت الہی ہے کہ آپ لوگوں کے لئے نرم خو ہیں اور اگر آپ تند خو اور سنگدل ہوتے تو آپ کے گرد و پیش سے منتشر ہو جاتے۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ انسانی وجود میں دو قوی مرکز ہیں جو یہ ہیں:
الف: مرکز عواطف۔ جس سے مراد وہی چلغوزہ نما دل ہے جو سینے کے بائیں حصے میں ہے اور مسائل عواطف (مہربانی و رحم) پہلے پہل اسی مرکز پر اثرا نداز ہوتے ہیں اور پہلی چنگاری دل سے شروع ہوتی ہے۔
ہم وجدانی طور پر جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتے ہیں تو اس کا بوجھ اسی دل پر محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح جب کسی سرور انگیز اور مسرت آراء امر کا سامنا کرتے ہیں تو اسی مرکز میں فرحت و انبساط کا احساس کرتے ہیں(یہ بات غورطلب ہے)۔
یہ صحیح ہے کہ سب ادراکات و عواطف کا اصلی مرکز انسان کی روح رواں ہے لیکن ان کا مظاہرہ اور جسمی عکس العمل مختلف ہوتا رہتا ہے۔ ادراک و فہم کا عکس العمل پہلی دفعہ کار خانہ مغز میں ظاہر ہوتا ہے لیکن مسائل عواطف مثلا محبت، عداوت، خوف، اطمینان خوشی اور غمی کا عکس العمل انسان کے دل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان امور کے پیدا ہوتے ہی واضح طور پر ان کا اثر ہم اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اگر قرآن میں مسائل عواطف کو اسی دل پر کی طرف اور مسائل عقلی کو قلب بمعنی عقل یا مغز کی طرف نسبت دی گئی ہے تو توقف بھی تباہی اور نابودی کا سبب ہے۔ اس بناء پر کیا مضائقہ ہے کہ فکری و عاطفی تحریکوں اور فعالیتوں کو نسبت اس کی طرف دی جائے۔
۵۔ قلب و بصر صیغہ جمع اور سمع مفرد میں کیوں: زیر مطالعہ آیت میں اور بہت سی آیات قرآنی کی طرح قلب و بصر صورت جمع(قلوب و ابصار) آئے ہیں جب کہ سمع قرآن میں ہر جگہ مفرد کی صورت میں ذکر ہوا ہے تو اس فرق میں کوئی نکتہ ہونا چاہئے۔
بات یہ ہے کہ لفظ سمع قرآن مجید میں ہر جگہ مفرد آیا ہے اور کہیں بھی جمع (اسماع نہیں آیا لیکن قلب و بصر کبھی جمع کی صورت میں جیسا کہ زیر نظر آیت میں اور کبھی بصورت مفرد جیسے سورہ ٴ جاثیہ آیہ ۲۲ اور سورہ اعراف آیہ ۴۳ میں آیی ہے:
و ختم علی سمعہ و قلبہ و جعل علی بصرہ غشاوة (جاثیہ، ۲۳)۔
عالم بزرگوار مرحوم شیخ طوسی تفسیر تبیان میں ایک مشہور ادیب کے حوالے سے رقم طراز ہیں: ممکن ہے اسمع کے مفرد آنے کی ان دو میں سے ایک وجہ ہو:
۱۔ سمع کبھی تو اسم جمع کے عنوان سے استعمال ہوتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسم جمع میں جمع کے معنی ہوتے ہیں لہذا صیغہ جمع لانے کی ضرورت نہیں۔
۲۔ سمع میں یہ گنجائش ہے کہ وہ مصدری معنی رکھتا ہو اور ہم جانتے ہیں کہ مصدر کم یا زیادہ، دو پر دلالت ہے لہذا جمع لانے کی ضرورت نہیں۔
اس کے علاوہ ایک وجہ ذوق و علم کے اختیار سے بھی بیان کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ ادراکات قلبی اور مشاہدات چشم ان امور کی نسبت زیادہ ہیں جو سماعت میں آتے ہیں اس اختلاف کی بناء پر قلوب و ابصار جمع کی شکل میں آیا ہے لیکن سمع مفرد کی صورت میں۔
ماڈرن فزکس کے مطابق امواج صوتی جو قابل سماعت ہیں نسبتا تعداد میں محدود ہیں اور وہ چند ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ امواج نور و رنگ جو قابل روئت ہیں کئی ملین سے زیادہ ہیں (یہ بات غور طلب ہے)۔
……………….
حواله جات
[51]. اصول کافی، جلد ۲، باب الذنوب، حدیث ۲۰ ، ص ۲۰۹۔