- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 16 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/06
- 0 رائ
وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَا ہُمْ بِمُؤْمِنِینَ(۸)
یُخَادِعُونَ اللهَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ آنفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ(۹)
فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمْ اللهُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ آلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ(۱۰)
وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ لاَتُفْسِدُوا فِی الْآرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ(۱۱)
آلاَإِنَّہُمْ ہُمْ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِنْ لاَیَشْعُرُونَ(۱۲)
وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ آمِنُوا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا آنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَہَاءُ آلاَإِنَّہُمْ ہُمْ السُّفَہَاءُ وَلَکِنْ لاَیَعْلَمُونَ(۱۳)
وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِہِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُونَ(۱۴)
اللهُ یَسْتَہْزِءُ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ(۱۵)
آوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَی فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُوا مُہْتَدِینَ(۱۶)
ترجمہ
۸۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم خدا اور روز قیامت پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں۔
۹۔ وہ چاہتے ہیں کہ خدا اور مومنین کو دھوکہ دیں مگر وہ اس طرح اپنے سوا کسی کو فریب نہیں دیتے لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔
۱۰۔ ان کے دلوں میں ایک میں ایک طرح کی بیماری ہے اور خدا کی طرف سے اس بیمار کو بڑھا دیا جاتا ہے اور ان کی کذب بیانیوں کی وجہ سے درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے۔
۱۱۔ جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
۱۲۔ آگاہ رہو یہ سب مفسدین ہیں لیکن اپنے آپ کو مفسد نہیں سمجھتے۔
۱۳۔ اور جب ان سے کہا جائے کہ دوسرے لوگوں کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں۔ جان لو کہ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن جانتے ہیں۔
۱۴۔ اور جب ایماندار لوگوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لا چکے ہیں لیکن جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں(ان سے تو) ہم تمسخر کرتے ہیں۔
۱۵۔ خداوند عالم ان سے استہزا کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی میں رکھے ہوئے ہے تاکہ وہ سرگرداں رہیں۔
۱۶۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی ہے حالانکہ یہ تجارت ان کے لئے نفع مند نہیں ہے اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں۔
تفسیر
تیسرا گروہ۔ منافقین
زیر نظر آیات منافقین کے سلسلے میں مکمل اور بہت پر مغز تشریح کی حامل ہیں۔ ان میں ان کی روحانی شخصیات اور اعمال کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کی کچھ وضاحت پیش کی جاتی ہے۔
تاریخ کے ایک خاص موڑ پر اسلام کو ایک ایسے گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایمان لانے کے لئے جذبہ و خلوص رکھتے تھے نہ صریح مخالفت کی جرآت کرتے تھے۔ قرآن اس گروہ کو”منافقین“ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ فارسی میں ہم دو رو یا دو چہرہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقی مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہو چکے تھے۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہت بڑا خطرہ شمار ہوتے تھے۔ چونکہ ان کا ظاہر اسلامی تھا لہذا ان کی شناخت مشکل تھی لیکن قرآن ان کی باریک اور زندہ علامت بیان کرتا ہے تاکہ ان کی باطنی کیفیت کو مشخص کردے۔ اس سلسلے میں قرآن ہر زمانے اور قرن کے مسلمانوں کو ایک نمونہ دے رہا ہے۔
پہلے تو نفاق کی تفسیر بیان کی گئی ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدااور قیامت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ ان میں ایمان نہیں ہے۔ (ومن الناس من یقول آمنا باللہ و بالیوم الآخر و ماھم بموٴمنین)۔
وہ اپنے اس عمل کو ایک قسم کی چالاکی اور عمدہ تکنیک سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے اس عمل سے خدا اور مومنین کو دھوکہ دیں (یخدعون اللہ والذین آمنوا)۔
حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں(و ما یخدعون الا انفسھم و ما یشعرون)۔
وہ صحیح راستے اور صراط مستقیم سے ہٹ کر عمر کا ایک حصہ بے راہ و روی میں گذار دیتے ہیں، اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو برباد کر دیتے ہیں اور ناکامی و بدنامی اور عذاب الہی کے علاوہ انہیں کچھ نہیں ملتا۔
اس کے بعد اگلی آیت میں قرآن اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نفاق در حقیقت ایک قسم کی بیماری ہے کیونکہ صحیح و سالم انسان کا صرف ایک چہرہ ہوتا ہے۔ اس کے جسم و روح میں ہم آہنگی ہوتی ہے کیونکہ ظاہر و باطن، جسم و روح ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر کوئی مومن ہے تو اس کا پورا وجود ایمان کی صدا بلند کرتا ہے اور اگر ایمان سے منحرف ہے تب بھی اس کا ظاہر و باطن انحراف کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ جسم و روح میں دوئی ایک درد نو اور اضافی بیماری ہے یہ ایک طرح کا تضاد، ناہم آہنگی اور ایک دوسرے سے دوری ہے جو وجود انسانی پر حکمران ہے۔
قرآن کہتا ہے ان کے دلوں میں ایک خاص بیماری ہے(و فی قلوبھم مرض)۔
نظام آفرینش میں جو شخص کسی راستے پر چلتا ہے اور اس کے لئے زاد راہ فراہم کئے رکھتا ہے تو وہ یقینا آگے بڑھتا رہتا ہے یا بہ الفاظ دیگر ایک ہی راستے پر چلنے والے انسان کے اعمال و افکار کا ہجوم اس میں زیادہ رنگ بھرتا ہے اور اسے زیادہ راسخ کرتا ہے۔ قرآن مزید کہتا ہے: خداوند عالم ان کی بیماری میں اضافہ کرتا ہے(و فزادھم اللہ مرضا)۔
چونکہ منافقین کا اصل سرمایہ جھوٹ ہے لہذا ان کی زندگی میں جو تناقضات رونما ہوتے ہیں وہ ان کی توجیہہ کرتے رہتے ہیں۔ آیت کے آخر میں بتایا گیا ہے: ان کی ان دروغ گوئیوں کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے(ولھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون)۔
اس کے بعد ان کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے پہلی اصلاح طلبی کا دعوی کرنا ہے حالانکہ حقیقی فسادی وہی ہیں ”جب ان سے کہا جائے کہ روئے زمین پر فساد نہ کرو تو وہ اپنے تئیں مصلح بتاتے ہیں(و اذا قیل لھم لا تفسدوا فی الارض قالوا انما نحن مصلحون) اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمارا تو زندگی میں اصلاح کے علاوہ کوئی مقصد رہا ہے نہ اب ہے۔
اگلی آیت میں قرآن کہتا ہے: جان لو کہ یہ سب مفسد ہیں اور ان کا پروگرام فساد کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن وہ خود بھی شعور سے تہی دامن ہیں(الا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون)۔
ان کے اصرار نفاق میں پختگی اور اس باعث ننگ و عار کام کی عادت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ رفتہ رفتہ وہ گمان کرنے لگے ہیں کہ یہی پروگرام تربیت و اصلاح کے لئے مفید ہے جیسے پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اگر گناہ ایک حد سے بڑھ جائے تو پھر انسان سے حس تشخیص چھن جاتی ہے بلکہ اس کی تشخیص برعکس ہو جاتی ہے اور نا پاکی و آلودگی اس کی طبیعت ثانوی بن جاتی ہے۔
ایسے لوگوں کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عاقل و ہوشیار اور مومنین کو بیوقوف، سادہ لوح اور جلد دھوکہ کھانے والے سمجھتے ہیں۔ جیسے قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ ایمان لے آوٴ جس طرح باقی لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں(و اذا قیل لھم آمنوا کما آمن الناس قالوا انوٴ من کما آمن السفھاء)۔
اس طرح وہ ان پاک دل، حق طلب اور حقیقت کے متلاشی افراد کو حماقت و بیوقوفی سے متہم کرتے ہیں جو دعوت پیغمبر اور ان کی تعلیمات میں آثار حقانیت کا مشاہدہ کرکے سر تسلیم خم کر چکے ہیں۔ اپنی شیطنت، دو رخی اور نفاق کو ہوش و عقل اور درایت کی دلیل سمجھتے ہیں گویا ان کی منطق میں عقل نے بے عقلی کی جگہ لے لی ہے اسی لئے قرآن کے جواب میں کہتا ہے: جان لو کہ واقعی بیوقوف یہی لوگ ہیں وہ جانتے نہیں(الا انھم ھم السفھاء ولکن لا یعلمون)۔
کیا یہ بیوقوفی نہیں کہ انسان اپنی زندگی کے مقصد کا تعین نہ کرسکے اور ہر گروہ میں اس گروہ کا رنگ اختیار کرکے داخل ہو اور یکسانیت و شخصی وحدت کی بجائے دو گانگی یا کئی ایک بہروپ قبول کرکے اپنی استعداد اور قوت کو شیطنت، سازش اور تخریب کاری کی راہ میں صرف کرے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو عقلمند سمجھے۔
ان کی تیسری نشانی یہ ہے کہ ہر روز کسی نئے رنگ میں نکلتے ہیں اور ہر گروہ کے ساتھ ہم صدا ہوتے ہیں جس طرح قرآن کہتا ہے: جب وہ اہل ایمان سے ملاقات کرتے ہین تو کہتے ہیں ہم ایمان قبول کرچکے ہیں اور تمہیں غیر نہیں سمجھتے۔
لیکن جب اپنے شیطان صفت دوستوں کی خلوت گاہ میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو آپ کے ساتھ ہیں( وا ذا دخلوا الی شیاطینھم قالوا انا معکم) اور یہ جو ہم مومنین سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں یہ تو تمسخر و استہزاء ہے (انما نحن مستھزون) ان کے افکار و اعمال پر دل میں تو ہم ہنستے ہیں یہ سب ان سے مذاق ہے ورنہ ہمارے دوست، ہمارے محرم راز اور ہمارا سب کچھ تو آپ لوگ ہیں۔
اس کے بعد قرآن ایک سخت اور دو ٹوک لب ولہجہ کے ساتھ کہتا ہے: خدا ان سے تمسخر کرتا ہے(اللہ یستھزی بھم) اور خدا انہیں ان کے طغیان و سرکش میں رکھے گا تاکہ وہ کاملا سرگرداں رہیں (و یمدھم فی طغیانھم یعمھون)[52]۔
مورد بحث آیات میں سے آخری ان کی آخری سر نوشت ہے جو بہت غم انگیز اور تاریک ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس تجارت خانہ عالم میں ہدایت کے لئے گمراہی کو خرید لیا ہے۔(اولئک الذین اشتروا الضلالة بالھدی)۔ اسی وجہ سے ان کی تجارت نفع مند نہیں بلکہ سرمایہ بھی ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں(فما ربحت تجارتھم) اور کبھی بھی انہوں نے ہدایت کا چہرہ نہیں دیکھا(وما کانوا مھتدین)۔
چند اہم نکات
۱۔ نفاق کی پیدائش اور اس کی جڑیں: جب کسی علاقے میں کوئی انقلاب آتا ہے خصوصا اسلام جیسا انقلاب جس کی بنیاد حق وعدالت پر ہے تو مسلما غارت گروں، ظالموں اور خود سروں کے منافع کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے تو وہ پہلے تمسخر سے پھر مسلح قوت، اقتصادی دباؤ اور مسلسل اجتماعی پراپیگنڈہ سے کام لیتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ انقلاب کو درہم و برہم کردیں۔
جب انقلاب کی کامیابی کا پرچم علاقے کی قوتوں کو سربلند نظر آتا ہے تو مخالفین کا ایک گروہ اپنی تکنیک اور روش ظاہری کو بدل دیتا ہے اور ظاہرا انقلاب کے سامنے جھک جاتا ہے لیکن وہ زیر زمین مخالفت کا پروگرام تشکیل دیتا ہے۔
یہ لوگ جو دو مختلف چہروں کی وجہ سے منافق کہلاتے ہیں انقلاب کے خطرناک ترین دشمن ہیں(منافق کا مادہ نفق ہے یہ بروزن شفق ہے جس کے معنی زیر زمین نقب اور سرنگ کے ہیں جس سے چھپنے یا بھاگنے کا کام لیا جاتا ہے)۔ ان کا موقف پورے طور پر مشخص نہیں ہوتا لہذا انقلابی انہیں پہچان نہیں پاتے کہ خود سے انہیں دور کردیں وہ لوگ پاک باز اور سچے لوگوں میں گھس جاتے ہین یہاں تک کہ کبھی کبھی اہم ترین پوسٹ پر جا پہنچتے ہیں۔
جب تک پیغمبر اسلام(ص) نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی اور مسلمانوں کی حکومت تشکیل نہیں پائی تھی۔ ایسا گروہ سرگرم عمل نہیں ہوا لیکن نبی اکرم(ص) جب مدینہ میں آگئے تو حکومت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور جنگ بدر کی کامیابی کے بعد یہ معاملہ زیادہ واضح ہوگیا یعنی رسمی طور پر ایک چھوٹی سی حکومت جو قابل رشد تھی، قائم ہو گئی۔
یہ وہ موقع تھا کہ مدینہ کے گدی نشینوں خصوصا یہودیوں کے (جو اس زمانے میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے) بہت سے منافع خطرے میں پڑ گئے۔
اس زمانے میں یہودیوں کا زیادہ احترام اس وجہ سے تھا کہ وہ اہل کتاب اور نسبتا پڑھے لکھے لوگ تھے اور وہ اقتصادی طور پر بھی آگے تھے حالانکہ یہی لوگ ظہور پیغمبر(ص) سے پہلے اس قسم کے امور کی خوش خبری دیتے تھے۔ مدینہ میں کچھ اور لوگ بھی تھے جن کے سر میں لوگوں کی سرداری کا سودا سمایا ہوا تھا۔ لیکن رسول خدا کی ہجرت سے ان کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔
ظالم سرداروں، سرکشوں اور ان غارت گروں کے حمایتیوں نے دیکھا کہ عوام تیزی سے نبی اکرم (ص) پر ایمان لا رہے ہیں۔ ان کے عزیز و اقارب بھی ایک عرصے تک مقابلہ کرتے رہے لیکن آخر کار انہیں بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ظاہرا مسلمان ہو جائیں، کیونکہ علم مخالفت بلند کرنے میں جنگی مشکلات اور اقتصادی صدمات کے علاوہ ان کی نابودی کا خطرہ تھا خصوصاعرب کی پوری قوت بھی آپ(ص) کے ساتھ تھی اور ان لوگوں کے قبیلے بھی ان سے جدا ہوچکے تھے۔
اس بناء پر انہوں نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور وہ یہ کہ ظاہرا مسلمان ہو جائیں اور مخفی طور پر اسلام کو برباد کرنے کا منصوبہ بنائیں، خلاصہ یہ کہ کسی معاشرے میں نفاق کے ظہور کی ان دو وجوہ میں سے ایک ہوتی ہے:
الف: کسی انقلاب کی کامیابی اور معاشرے پر اس کا تسلط
ب: نفسیاتی کمزوری اور سخت حوادث کے مقابلے میں جرآت و ہمت کا فقدان
۲۔ ہر معاشرے میں منافقین کی پہچان ضروری ہے: اس میں شک و شبہ نہیں کہ نفاق اور منافق زمانہٴ پیغمبر(ص) سے مخصوص نہ تھے بلکہ ہر معاشرے میں اس گروہ کا وجود ہوتا ہے البتہ ضروری ہے کہ قرآن کے دئیے ہوئے معیار کی بنیاد پر ان کی پہچان کی جائے تاکہ وہ کوئی نقصان یا خطرہ پیدا نہ کرسکیں۔ زیر مطالعہ آیات کے علاوہ سورہٴ منافقین اور روایات اسلامی میں ان کی مختلف نشانیاں بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
الف: زیادہ شور شرابہ اور بڑے بڑے دعوے۔ باتیں بہت، عمل کم اور قول و فعل میں تضاد ہونا۔
ب: ہر جگہ کے رنگ کو اپنا لینا اور ہر گروہ کے ساتھ ان کے ذوق کے مطابق گفتگو کرنا۔ مومنین سے ”آمنا“ کہنا اور مخالفین سے ”انا معکم“۔
ج: عوام سے اپنے آپ کو الگ رکھنا، خفیہ انجمنیں قائم کرنا اور پوشیدہ منصوبے بنانا۔
د: دھوکہ دہی مکرو فریب، جھوٹ، تملق، چاپلوسی، پیمان شکنی اور خیانت کی راہ پر چلنا۔
ھ: اپنے تئیں بڑا سمجھدار گرداننا اور دوسروں کو ناسمجھ، بیوقوف اور نادان قرار دینا۔
خلاصہ یہ کہ دو رخی اور اندرونی تضاد منافقین کی واضح صفت ہے، ان کا انفرادی و اجتماعی چال چلن ایسا ہوتا ہے جس سے انہیں واضح طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔
قرآن حکیم کی یہ تعبیر کتنی عمدہ ہے کہ ”ان کے دل بیمار ہیں“ (فی قلوبھم مرض)۔ کون سی بیماری ظاہر و باطن کے تضاد سے بدتر ہے اور کون سی بیماری اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور سخت حوادث کے مقابلے سے فرار سے بڑھ کر ہے۔
جیسے دل کی بیماری جتنی بھی پوشیدہ ہو اسے کاملا مخفی نہیں رکھا جا سکتا بلکہ اس کی علامت انسان کے چہرے اور تمام اعضاء بدن سے آشکار ہوتی ہیں۔ نفاق کی بیماری بھی اسی طرح ہے جو مختلف مظاہر کے ساتھ قابل شناخت ہے اور اندرونی نفاق کی بیماری کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ تفسیرنمونہ سورہٴ نساء آیت ۱۴۱ تا ۳۴۱ میں بھی صفات منافقین کے بارے میں بحث کی گئی ہے نیز سورہ توبہ آیت ۴۹ تا ۵۷ کے ذیل میں بھی اس سلسلے میں کافی بحث ہے اور سورہ توبہ آیت ۶۲ تا ۸۵ کے ذیل میں بھی ایسی ابحاث موجود ہیں۔
۳۔ معنی نفاق کی وسعت: اگر چہ نفاق اپنے خاص مفہوم کے لحاظ سے ان بے ایمان لوگوں کے لئے ہے جو ظاہرا مسلمانوں کی صف میں داخل ہو لیکن باطنی طور پر کفر کے دلدادہ ہو لیکن نفاق کا ایک وسیع مفہوم ہے جو ہر قسم کے ظاہر و باطن اور گفتار و کردار کے تضاد پر محیط ہے چاہے یہ چیز مومن افراد میں پائی جائے جنہیں ہم ”دو رگہائے نفاق“ (یعنی۔ ایسے انسان یا حیوان جن کے ماں باپ مختلف نسل سے ہو) کہتے ہیں۔
مثلا حدیث میں ہے:
ثلاث من کن فیہ کان منافقا و ان صام و صلی و زعم انہ مسلم من اذا ائتمن خان و اذا حدث کذب و اذا وعدا خلف۔
تین صفات ایسی ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں وہ منافق ہے چاہے وہ روزے رکھے، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے (اور وہ صفات یہ ہیں) جب امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے، بات کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے اور وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے(سفینة البحار، جلد ۲ ص ۶۰۵)۔
مسلم ہے کہ ایسے اشخاص اس خاص معنی کے لحاظ سے منافق نہیں تاہم نفاق کی جڑیں ان میں پائی جاتی ہیں، خصوصا ریا کاروں کے بارے میں امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
الریاء شجرة لا تثمر الا الشرک الخفی و اصلھا النفاق۔
یعنی ریا کاری و دکھاوا ایسا(تلخ) درخت ہے جس کا پھل شرک خفی کے علاوہ کچھ نہیں اور اس کی اصل اور جڑ نفاق ہے[53]۔
یہاں پر ہم آپ کی توجہ امیرالمومنین علی(ع) کے ایک ارشاد کی طرف دلاتے ہیں جو منافقین کے متعلق ہے۔ آپ نے فرمایا:
اے خدا کے بندو! تمہیں تقوی و پرہیزگاری کی وصیت کرتا ہوں اور منافقین سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں گو گمراہ کرتے ہیں، خود خطا کار ہیں اور دوسروں کو خطاؤں میں ڈالتے ہیں، مختلف رنگ اختیار کرتے ہیں، مختلف چہروں اور زبانوں سے خود نمائی کرتے ہیں، ہر طریقے سے تمہیں پھانسنے اور برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر کمین گاہ میں تمہارے شکار کے لئے بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کا ظاہر اچھا اور باطن خراب ہے۔ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے خفیہ چال چلتے ہیں۔ ان کی گفتگو ظاہرا تو شفا بخش ہے لیکن ان کا کردا ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ لوگوں کی خوش حالی اور آسائش پر حسد کرتے ہیں اور اگر کسی پر مصیبت آن پڑے تو خوش ہوتے ہیں۔ امید رکھنے والوں کو مایوس کردیتے ہیں۔ ہر راستے میں ان کا کوئی نہ کوئی مقتول ہے۔ ہر دل میں ان کی راہ ہے اور ہر مصیبت پر ٹسوے بہاتے ہیں۔ مدح و ثنا ایک دوسرے کو بطور قرض دیتے ہیں اور جزا و عوض کے منتظر رہتے ہیں اگر کوئی چیز لینی ہو تو اصرار کرتے ہیں اور اگر کسی کو ملامت کریں تو اس کی پردہ دری کرتے ہیں[54]۔
۴۔ منافقین کی حوصلہ شکنیاں: نہ صرف اسلام بلکہ ہر انقلابی اور ارتقاء پسند آئین و دین کے لئے منافقین خطرناک ترین گروہ ہے۔ وہ مسلمانوں کی صفوں میں گھس جاتے ہین اور حوصلہ شکنی کے لئے ہر موقع غنیمت سمجھتے ہیں۔ کبھی سچے مومنین کا اس پر بھی تمسخر اڑاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا مختصر سرمایہ راہ خدا میں خرچ کیا ہے جیسے قرآں کہتے ہے:
الذین یلمزون المطوعین من الومنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جھدھم فیسخرون منھم سخر اللہ منھم و لھم عذاب الیم۔
وہ مخلصین مومنین کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے مختصر سرمایہ کو بے ریا راہ خدا میں) خرچ کیا۔ خدا ان سے استہزاء کرتا ہے اور درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے(توبہ، ۷۹)۔
کبھی وہ اپنی خفیہ میٹنگوں میں فیصلہ کرتے کہ رسول خدا(ص) کے اصحاب سے مالی امداد کلی طور پر منقطع کردیں اور آپ سے الگ ہو جائیں جیسے سورہ منافقون میں ہے: ھم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اللہ حتی ینفضوا واللہ خزائن السموات والارض و لکن المنافقین لا یفقھون۔
وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان سے مالی امداد منقطع کر لو تاکہ وہ آپ کے گردو پیش سے منتشر ہوجائیں۔ جان لو کہ آسمان و زمین کے خزانے خدا کے لئے ہیں لیکن منافق نہیں جانتے(منافقون ۷)۔
کبھی یہ فیصلہ کرتے تھے کہ جنگ سے مدینہ واپس پہنچنے پر متحد ہو کر مناسب موقع پر مومنین کو مدینہ سے نکال دیں گے اور کہتے تھے:
لئن رجعنا الی المدینة لیخرجن الاعز منھا الاذل۔
اگر ہم مدینہ کی طرف پلٹ گئے تو عزت والے ذلیلوں کو باہر نکال دیں گے۔(منافقون ۸)۔
کبھی مختلف بہانے بنا کر(مثلا فصل کے محصولات کی جمع آوری کا بہانہ) جہاد کے پروگرام میں شریک نہ ہوتے تھے اور سخت مشکلات کے وقت نبی اکرم(ص) کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی ڈر رہتا تھا کہ کہیں ان کا راز فاش نہ ہو جائے مبادا اس طرح انہیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔
ان کی معاندانہ حوصلہ شکنیوں کی وجہ سے قرآن مجید نے ان پر سخت وار کئے ہیں اور قرآن مجید کی ایک سورت (منافقون) ان کے طور طریقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، توبہ، حشر اور بعض دوسری سورتوں میں بھی انہیں ملامت کی گئی ہے اور اسی سورہ بقرہ کی تیرہ آیات انہی کی صفات اور انجام بد سے متعلق ہیں۔
۵۔ وجدان کو دھوکا دینا: مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی مشکل منافقین سے رابطے کے سلسلے میں تھی کیونکہ ایک طرف تو وہ مامور تھے کہ جو شخص اظہار اسلام کرے کشادہ روئی سے استقبال کیا جائے اور ان کے عقائد کے سلسلے میں جستجو اور تفتیش نہ کی جائے اور دوسری طرف منافقین کے منصوبوں کی نگرانی کا کام تھا۔ منافق اپنے تئیں جب حق کا ساتھی اور ایک فرد مسلمان کی حیثیت سے متعارف کرواتا تو اس کی بات قبول کرنا پڑتی جب کہ باطنی طور پر وہ اسلام کے لئے سد راہ ہوتا اور اس کے خلاف سوگند کھائے ہوئے دشمنوں میں سے ہوتا۔ یہ گروہ اس راہ کو اپنا کر اس زعم میں تھا کہ خدا اور مومنین کو ہمیشہ دھوکہ دے سکے گا۔ حالانکہ یہ لوگ لا شعوری طور پر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے تھے۔
یخادعون اللہ والذین آمنوا کی تعبیر دقیق معنی دیتی ہے (مخدوعہ کے معنی ہیں دونوں طرف سے دھوکہ دینا) یہ لوگ ایک طرف تو کور باطنی کی وجہ سے اعتقاد رکھتے تھے کہ نبی اکرم(ص) دھوکہ باز ہیں اور انہوں نے حکومت کے لئے دین و نبوت کا ڈھونگ رچا رکھا ہے اور سادہ لوح لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے ہیں لہذا ان کا مقابلے میں دھوکا ہی کرنا چاہئے۔ اس بناء پر ان منافقین کا کام ایک طرف تو دھوکا و فریب تھا دوسری طرف نبی اکرم(ص) کے بارے میں اس قسم کا غلط اعتقاد رکھتے تھے لیکن جملہ ”و ما یخدعون الا انفسھم و ما یشعرون“ ان کے دونوں ارادوں کو خاک میں ملاتا ہوا نظر آتا ہے یہ جملہ ایک طرف تو یہ ثابت کرتا ہے کہ دھوکہ و فریب صرف انہی کی طرف سے ہے۔ دوسری طرف کہتا ہے کہ اس فریب کی باز گشت بھی انہی کی طرف ہے لیکن وہ سمجھتے نہیں ان کا اصلی سرمایہ جو حصول سعادت کے لئے خدا نے ان کے وجود میں پیدا کیا ہے وہ اسے دھوکہ و فریب کی راہ میں برباد کر رہے ہیں اور ہر خیر و نیکی سے تہی دامن اور گناہوں کا بھاری بوجھ اٹھائے دنیا سے جا رہے ہیں۔
کوئی شخص بھی خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ ظاہر و باطن سے باخبر ہے اس بناء پر یخادعون اللہ سے تعبیر کرنا اس لحاظ سے ہے کہ رسول خدا(ص) اور مومنین کو دھوکا دینا خدا کو دھوکہ دینے کی طرح ہے(دوسرے مواقع پر بھی قرآن میں ہے کہ خداوند عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مومنین کی تعظیم کے لئے خود ان کی صف میں بیان کرتا ہے) یا پھر یہ لوگ صفات خدا کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اپنی کوتاہ و ناقص فکر سے واقعا یہ سمجھتے تھے کہ ہو سکتا ہے کوئی چیز خدا سے پوشیدہ ہو ایسی نظیر قرآن مجید کی دیگر آیات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
بہرحال زیر نظر آیت وجدان کو دھوکا دینے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گمراہ اور گناہ سے آلودہ انسان برے اور غلط اعمال کے مقابلے میں وجدان کی سزا و سرزنش سے بچنے کے لئے اسے دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے تئیں مطمئن کر لیتا ہے کہ نہ صرف اس کا عمل برا اور قبیح نہیں بلکہ باعث اصلاح ہے اور فساد کے مقابلے میں (انما نحن مصلحون) یہ اس لئے کہ وجدان کو دھوکہ دے کر اطمینان سے غلط کام کو جاری رکھ سکے۔
امریکہ کے ایک صدر کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب اس سے سوال کیا گیا کہ اس نے جاپان کے دو بڑے شہروں( ہیرو شیما اور ناگا ساکی) کو ایٹم بم سے تباہ کرنے کا حکم کیوں دیا تھا جب کہ اس سے دو لاکھ افراد بچے، بوڑھے اور جوان ہلاک یا ناقص الاعضاء ہو گئے تو اس نے جواب دیا تھا کہ اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو جنگ طویل ہو جاتی اور پھر زیادہ افراد کو قتل کرنا پڑتا۔
گویا ہمارے زمانے کے منافق بھی اپنے وجدان یا لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ایسی باتیں اور ایسے بہت سے کام کرتے ہیں حالانکہ جنگ جاری رکھنے یا شہر کو ایٹم بم سے اڑانے کے علاوہ تیسری واضح راہ بھی تھی وہ یہ کہ توسیع پسندی سے ہاتھ اٹھالیں اور قوموں کو ان کے ملکوں کے سرمائے کے ساتھ آزادانہ رہنے دیں۔
نفاق حقیقت میں وجدان کو فریب دینے کا وسیلہ ہے کس قدر دکھ کی بات ہے کہ انسان اس اندرونی واعظ، ہمیشہ بیدار و پہریدار اور خدا کے باطنی نمائندے کا گلا گھونٹ دے یا اس کے چہرے پر اس طرح پردہ ڈال دے کہ اس کی آواز کان تک نہ پہنچے۔
۶۔ نقصان زدہ تجارت: اس دنیا میں انسان کی کار گزاریوں کو قرآن مجید میں بارہا ایک قسم کی تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے اور حقیقت میں ہم سب اس جہان میں تاجر ہیں اور خدا نے ہمیں عقل، فطرت، احساسات، مختلف جسمانی قوا، نعمات دنیا طبیعت اور سب سے آخر میں انبیاء کی رہبری کا عظیم سرمایہ عطا فرما کر تجارت کی منڈی میں بھیجا ہے۔ ایک گروہ نفع اٹھاتا ہے اور کامیاب و سعادت مند ہوجاتا ہے جب کہ دوسرا گروہ نہ صرف یہ کہ نفع حاصل نہیں کرتا بلکہ اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے اور مکمل دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ پہلے گروہ کا کامل نمونہ مجاہدین راہ خدا ہیں جیسا کہ قرآن ان کے بارے میں فرماتا ہے:
یا ایھا الذین آمنوا ھل ادلکم علی تجارة تنجیکم من عذاب الیم، تومنون باللہ و رسولہ و تجاہدون فی سبیل اللہ باموالکم و انفسکم۔
اے ایمان والو! کیا تمہیں ایسی تجارت کی راہنمائی نہ کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے اور سعادت ابدی کا ذریعہ ہو) خدا اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس کی راہ میں مال و جان سے جہاد کرو۔(صف ، ۱۰،۱۱) ۔
دوسرے گروہ کا واضح نمونہ منافقین ہیں۔ منافقین جو مخرب اور مفسد کام اصلاح و عقل کے لباس میں انجام دیتے تھے۔
قرآن گذشتہ آیات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ”وہ ایسے لوگ جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو خرید لیا ہے اور یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش ہے نہ ہی باعث ہدایت۔ وہ لوگ ایسی پوزیشن میں تھے کہ بہترین راہ انتخاب کرتے۔ وہ وحی کے خوشگوار اور میٹھے چشمے کے کنارے موجود تھے اور ایسے ماحول میں رہتے تھے جو صدق و صفا اور ایمان سے لبریز تھا۔
بجائے اس کے کہ وہ اس خاص موقع سے بڑا فائدہ اٹھاتے جو طویل صدیوں میں ایک چھوٹے سے گروہ کو نصیب ہوا، انہوں نے ایسی ہدایت کھو کر گمراہی خرید لی جو ان کی فطرت میں تھی اور وہ ہدایت جو وحی کے ماحول میں موجزن تھی۔ ان تمام سہولتوں کو وہ اس گمان میں ہاتھ سے دے بیٹھے کہ اس سے وہ مسلمانوں کو شکست دے سکیں گے اور خود ان کے گندے دماغوں میں پرورش پانے والے برے خواب شرمندہ تعبیر ہوسکیں گے جبکہ اس معاملے اور غلط انتخاب میں انہیں دو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا:
الف: ایک یہ کہ ان کا مادی اور معنوی دونوں قسم کا سرمایہ تباہ ہو گیا اور اس سے انہیں کوئی فائدہ بھی نہ پہنچا۔
ب: دوسرا یہ کہ وہ اپنے غلط مطمع نظر کو پا بھی نہ سکے کیونکہ اسلام تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور صفحہ ہستی پر محیط ہو گیا اور یہ منافقین بھی رسوا ہو گئے۔
…………………
حواله جات
[52]. یعمھون مادہ ”عمہ“ سے ہے (بروزن ہمہ) جو تردد یا کسی کام میں متحیر ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے او رکور دلی، تاریکی بصیرت کے معنی میں بھی مستعمل ہے جس کا اثر سرگردانی ہے۔ مفردات راغب، تفسیر منار اور قاموس اللغة کیطرف رجوع کیا جائے۔
[53]. سفینة البحار جلد ۱ مادہ رئی۔
[54]. نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۴۔