- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/03
- 0 رائ
ڈاکٹر سید عبد الوہاب طالقانے
غریب، مشکل اور امثالِ قرآن جیسے الفاظ سے مراد وہ اصطلاحات نہیں ہیں کہ جن سے عام طور پر غیر مانوس لغات مراد لی جاتی ہیں قرآن میں ناموس لغات اور غیر مصطلح الفاظ استعمال نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ایسے الفاظ کا استعمال اعجاز قرآن کے بلاغت کے پہلو سے مغایرت رکھتا ہے۔
بلکہ غریب سے مُراد مشکل لغات ہیں یا وہ لغات اور تراکیب جو مختلف افراد اپنی معلومات اور ذہنی سطح کے مطابق تعبیر کرتے ہیں علوم قرآن کے علماء نے مشابہ آیات اور الفاظ کے تقابل اور روایات کی مدد سے الفاظ قرآن کے حقیق معنی کو بیان کرنے کو کوشش کی ہے تا کہ ہر کوئی اپنے سلیقہ کے مطابق خاص معنی استنباط نہ کرے اور الفاظ قرآن کے حقیقی معانی سے جو فہم آیا ت کے لئے مقدمہ ہے سے رو گردانی نہ کرے۔
قرآن میں مختلف قبائل کے لہجے اور لغات موجود ہیں اور تمام قبائل الفاظ سے یکساں استفادہ نہیں اٹھاتے اور یہ بات مسّلم ہے کہ ہر لغت کا ماہر اپنی اصطلاح کو دوسروں سے صحیح تر استعمال کرتا ہے بنا بریں ایک قبیلہ کی لغت دوسرے قبیلہ کے لئے غریب اور غیرمانوس تصور ہو گی۔
غریب القرآن کی تدوین:
کتب تفسیر کی تدوین سے پہلے مفردات اور لغات قرآن پر توجہ دی جاتی تھی اور قرآن کے الفاظ مغردہ کے معانی کا فہم و ادراک حاصل کیا جاتا تھا۔
بعض نے قرآن کی معجم لغوی کی تدوین کو فکری لحاظ سے کُتب تفسیر کی تدوین پر مقدم قرار دیا ہے لیکن راقم معتقد ہے کہ غریب القرآن کی تدوین تفسیر کے ساتھ ہی انجام پائی ہے بشرطیکہ جس کو ابن عباس(متوفی ۶۸ ہجری) کی طرف نسبت دی جارہی ہے وہ ابن عباس کو (جیسا کہ محمد حسین ذہبی اورفواد سرکیں ہمارے ساتھ ہم عقیدہ ہیں تفسیر ابن عباس کا ایک نسخہ دوسری عالمی جنگ سے قبل برلین میں موجود تھا۔
ہم گول زہیر اور احمد امین کے قول کو جو اکثر ابن عباس کی جانب سے منسوب روایات کو غلط قرار دیتا تھا رد کرتے ہیں۔
ابن عباس علوم قرآن کے مختلف ابواب میں صاحبِ نظر تھا غریب القرآن، لغات فی القرآن، لغت القرآن اور تفسیر اس کی کتب میں شامل ہیں۔
سیوطی ابن عباس سے جو نقل کرتے ہیں اس کے مطابق ہمارا یہ دعٰوی ثابت ہو جاتا ہے کہ تفسیر ابن عباس نے تفسیر اور غریب القرآن ایک ہی زمانے میں تدوین کی تھی ابن عباس سے جس چیز کی نسبت دی جاتی ہے اگر اس سے صرفِ نظر کریں تو بلا شک و تردید ابوسعید ابان بن تغلب بن ریاح بکری (متوفی۱۴۱ ہجری) کی طرف ہماری نظر اٹھتی ہے (مذکورہ شخصّیت امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیهم السلام کے عظیم اصحاب میں سے تھی
اور ہمیں اس بات کا پورا اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ تفسیر کی تدوین غریب القرآن کی تدوین پر مقدم ہے کیونکہ ابن عباس کے بعد، ابو عبداللہ سعید بن جبیر اسری کوفی (۴۵ تا ۹۵) جو ابن عباس کے قابل قدر شاگر ہے، وہ سب سے پہلے مفسرین میں شامل ہیں عبد الملک مروان(متوفی۸۶) سعید بن جبیر سے ایک تفسیر لکھنے کا کہا ہے سعید اس کے کہنے پر عمل کرتا ہے
لیکن اگر ہم سعید بن جبیر کی تفسیر میں شک کریں تو مجبوراً تفسیر مجاہدبن جبرمکی (۲۱۱۰۴) کو ابن عباس کی روایت کے مطابق، قبول کرنا پڑے گا
بہر حال تفسیر کی تدوین پہلی صدی کے اواخر سے پہلے پہلے ہی انجام پذیر ہوئی ہے جبکہ ابان بن تغلب کی غریب القرآں دوسری صدی کے نصف اول سے متعلق ہے
بنابریں اگر ابن عباس کی طرف دی گئی ہے نسبت میں شک نہ کریں تو غریب القرآن اور تفسیر قران کی تدوین کا زمانہ ایک ہی ہے اور ابن عباس کے توسط سے اس کی تدوین انجام پائی ہے اور اگر اس میں شک کریں تو غریب القرآن کی تالیف کو تفسیر قران سے موخر مانا جائے گا
ابن ندیم غریب القرآن سے متعلق کتب کے حصے میں ابوعبیدہ معمر بن مثنی (متوفی،۲۱۰) سے شروع کرتے ہیں اور ابان بن تغلب کو یاد نہیں کرتے ہیں
معلوم نہیں ہے کہ ابان بن تغلب اور اس کی کتاب کو ابن ندیم نے کیوں یاد نہیں کیا
لیکن شیخ نجاشی اور شیخ طوسی نے ابان بن تغلب کی کتب میں الغریب فی القرآن اور ذکر شواھدہ مِن الشتر کا ذکر کیا ہے
ابن ندیم کے بقول غریب القرآن دوسری صدی کے نصف دوم میں یا تیسری صدی کے اوائل میں تدوین کی گئی
اگر غریب القرآن کے تقابل میں معمر بن مسثنیٰ نے بھی تفسیر میں ایک مدون اور جامع کتاب جو سورتوں کی تفسیر اور توضیح میں خاص نظم و ترتیب سے لکھی ہو تو جو کچھ ذکر کیا گیا ہے اُس سے صرفِ نظر کرنی چاہیے اور ابی ذکریا یحییٰ ابن زیاد فرّا (متوفی، ۲۰۷) کی کتاب کا نام لیا جاتا ہے
اس صورت میں تفسیر اور غریب القرآن کی تدوین کا زمانہ ایک ہی ہے تدوین سے کیا مراد ہے ایک ایسی کتاب کی تالیف جو جامع ہو اور باب باب کر کے لکھی گئی ہو
اس کی مختلف فصول مطالب کی ترتیب کے ساتھ تنظیم ہو اور اُس پر بحث کی گئی ہو
وضاحت: اگر فراء کی معافی القرآن کو تفسیر غریب القرآن کا جُز قرار دیں پھر بھی پہلی تفسیر کے بارے میں تحقیق کرنی چاہیے.
بہر حال قرآن کے الفاظ کے معانی کو یاد کرنا تفسیر کی بناء پر قرار پاتا ہے اور لغاتِ قرآن کی طرف توجہ دینا تفسیر کے لئے اساسی و بنیادی کام ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ متقدمین فکری یا تدوین کے لحاظ سے اسے تفسیر پر مقدم کریں یا موخر
راغب اصفہانی اسی عقیدہ کی بنا پر اپنی کتاب کی وجہ تصنیف بیان کرتا ہے اور علوم قرآن کے سفر میں مفردات پر توجہ دینے کو پہلا قدم قراد دیتا ہے.
جس طرح اینٹ عمارت کے لئے ضروری ہے اسی طرح علوم قرآن کے لئے الفاظ اور معانی کی سمجھ بوجھ ضروری ہے
راغب معتقد ہے کہ فقہا اور قضات کے لئے قرآن کریم کے الفاظ اور معانی کا صحیح ادراک لازم و واجب ہے.
کیونکہ جب وہ مفرداتِ قرآن کو درست سمجھیں گے تو ان کی قضاوت اور حکم بھی درست ہو گا اور درست الفاظ کے استعمال سے شعراء اور ادباء میں مہارت کے معیار کا پتہ چلتا ہے اور نظم و نثر بھی اس سے آراستہ و پیراستہ ہوتی ہے.
لہذا غریب القرآن، مجاز القرآن اور معانی القرآن
متقدمین کے ہاں تفسیر کی بنیادیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان علوم کی تفسیری کا م کے لئے مقدمہ و تدوین کیونکہ تفسیر کی ابتدائی مراحل لغات کی تعریف اور معرفت سے شروع ہوئے اور پھر بتدریج تکامل اختیار کرتے گئےاسی لئے زرکشی اور سیوطی ابو عمرو بن صلاح سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جہاں بھی عبارت ”اصل معانی کہتے ہیں“ نظر آئے سمجھ لو کہ اس سے مُراد معانی قرآن پر کُتب لکھنے والے افراد ہیں مفسرین نے ان کُتب سے استفادہ کیا ہے
مجاز القرآن
بعض ”مجاز“ کی لغت سے یہ مفہوم لیتے ہیں کہ معمر بن مثنیٰ کے کتاب علم بلاغت کے موضوع پر ہے حالانکہ متن کتاب اور مصنف کے انداز تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے الفاظ کے معانی اور لغات کے مفاہم بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس کی نظر الفاظ کی تفسیر پر تھی نہ کہ بلاغت وغیرہ کے مسائل بیان کرنے پر سید احمد صفر غریب القرآن، معافی القرآن اور مجاز القرآن کو ایک دوسرے کے مترادف قرار دیتے ہیں کہ ابو عبیدہ نے کوشش کی ہے کہ شعراء عرب کے اشعار کا حوالہ اور مستعمل لغات سے استشہاد کر کے قرآن کے الفاظ کے معانی بیان کرے.
مجاز القران لکھنے کی وجہ پر غور و فکر کرنے پر حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایک بلاغت کی کتاب نہیں ہے اور اسے ایسا سمجھنے والے غلطی پر ہیں
ابراہیم بن اسماعیل کا تب، فضل بن ربیع کی محفل میں ابوعبیدہ کی موجودگی میں ۱۸۸ہجری میں آیت ”طَلعُہٰا کَاَنَّہُ رکوُّسُ الشِیاطینِ“ کا معنی غلط بیان کرتے ہیں ابو عبیدہ بصرہ واپسی پر کتاب مجاز القرآن تحریر کرتے ہیں اور الفاظ کے استعمال اور لغات کے معانی کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہیں وہ اپنی کتاب کو ابراہیم بن اسماعیل کاتب کی ” امثال“ کے لئے راہنمائی قرار دیتے ہیں.
متن کتاب کی پیشِ نظر ہمارے دعویٰ کی تائید ہو جاتی ہے اور کتاب مجاز القرآن کے مقدمہ کے نیچے عیناً نقل کی جاتی ہے تاکہ کتاب کے اندازِ تحریر سے زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل ہو جائے ”القرآن اسم کتاب اللہ خاصتہ، ولایسمی، بہ شئی من سائر الکتاب غیرہ وانمّا سِعیّ قرآناً لا نہ یجمع السور فیضمھا، و تفسیر ذلک فی آیة من القران قاِلَ اللہُ جل ثناؤہ! اِنَّ عَلَیناَ جمہ وَ قرآنہ“
مجازہ! تالیف بعضہ الی بعض، ثم قال فَإذٰ اقَر اُناٰہُ فاَتَّبِع قُرآنَہ
مجازہ فاذا لفنامنہ شیئاً، فضمناہ الیک فخزبہ، و اعل بہ و ضمہ الیک وفی آیة اخریٰ فاذا قرآت القرآن مجازہ! اذا تلوت بعضہ فی اثر بعضِ، حتّیٰ یحتمع و ینضم بعضہ الی بعض، و مضاہ یصیوا الی معنی التالیف والجمع
ترجمہ: قرآن، کتاب اللہ کا خاص نام ہے اور وہ کسی دوسری کتاب پر اطلاق نہیں ہوتا ہے اور اس کتابِ الہی کا قرآن کے نام کے ساتھ موسوم ہونا اس وجہ سے ہے کہ قرآن سورتوں کو باہم جمع کرتا ہے اور انہیں ایک دوسرے میں ضّم کرتا ہے اس مطلب کی تفسیر اور وضاحت ایک آیت میں بیان کی گئی ہے سورہ قیامت کی آیت نمبر17 میں خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” قرآن کا جمع کرنا اور منضم کرنا ہمارا وظیفہ ہے“
پھر ایک دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے ”پس جب ہم نے ان کو باہم جوڑا اور ایک دوسرے سے مربوط کر دیا تو اس وقت اسے لے لو اور اس پر عمل کرو اور اُسے اپنے اختیار میں لے لو سورہ نحل کی آیت ۹۸ میں ارشاد رب العزّت ہے ” جب قرآن کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے پیچھے پڑھو اس طرح کہ ایک حصّے کو دوسرے حصے کے ساتھ منّظم کرو“
بنابریں ابو عبیدہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی ایک لغت کا معنی قرآن کی دیگر لغات سے بیان کرتا ہے اور اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے آیات یا آیات کو شاہد کے طور پر پیش کرتا ہے وہ شاہد اور گواہ بیان کرتے وقت اور استشہاد کے لئے پیش کئے گئے معنی کے اظہار کے وقت کہتا ہے کہ ”مجازہ“ پس کلمہ مجاز، مصطلح مجاز کے معنی کے طور پر نہیں ہے جو حقیقت و مجاز کے مقابل میں ہے بلکہ اس لفظ کے استعمال سے اس کی مراد متعلقہ لغت کے معنی کا بیان کرنا ہے
وجوہ القرآن
جب ایک لفظ مختلف مواقع پر مختلف معانی میں استعمال ہو تو اس کے ہر ایک معنی کو ”وجہ“ اور تمام معانی کو ”وجوہ“ کہتے ہیں مثلاً لفظ ”فتح“ پانچ مختلف مواقع پر پانچ معانی میں استعمال ہوتا ہے لفظ فتح یا اس کے مشتقات کے جو پانچ تعبیریں ہیں انہیں ”وجوہ“ کہتے ہیں چونکہ اکثر الفاظ مختلف معانی میں استعمال ہوتے ہیں لہذا انہیں ”وجوہ القرآن“ کے نام سے یاد کیا کرتے ہیں
۱۔ فتح بمعنی ” قیامت کا دن“
قل یَومَ الفتح لاَ ینفع الَّذِینَ کَعَرُو ایمانُہُم
۲۔ فتح بمعنی ”انصاف کرنا“
قُل یجمعُ بَینَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یفتح بُینَنٰا بالحق
۳۔ فتح بمعنی”بھیجنا“
حَتّی اِذَا فتحت یَا جُوجُ وَمَا جُوجَ
۴۔ فتح بمعنی”کھولنا “
حَتَّی اِذا جٰاُء دَھٰاوَ فتحت بوااَ بُہَا
۵۔ فتح بمعنی” مدد کرنا “
فَانِ کَانَ لَکُم فتح مِنَ اللہِ
پس ”وجوہ القرآن“ نے مراد ہے قرآنی الفاظ میں ہر ایک کا مختلف اور ان کی مختلف تعابیر وجوہ القرآن پر لکھی جانے والی کتاب (سیوطی اور زرکشی کے بقول) مقاتل بن سلیمان (متوفی، ۱۵۰ ہجری) کی ”الوجوہ و النظائر“ ہے اس کے بعد دوسروں نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں اور بعض نے جیسے زرکشی اور سیوطی نے اُسے اپنی کتاب علوم القرآن ہی کا ایک باب قرار دیا ہے کے سیوطی وجوہ اور نظائر کی معرفت میں، نوع نمبر ۳۹ میں کہتے ہیں کہ میں نے اس فن میں ایک کتاب بنام ”معترک الاقرآن فی مشترک القرآن“ لکھی ہے
اس فن میں متعدد کتب کے لکھے جانے کی وجہ اور وجوہ القرآن میں تحقیق کرنے کا اتنا شوق و ذوق ادبی پہلو اور قرآن کی اعلیٰ تعلیمات سے تعارف کے علاوہ شاید وہ روایات بھی ہیں جو امام علی اور ابو درداء سے امام علی جب ابن عباس کو خوارج کی طرف بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ اُن سے سنّت کے ذریعے مجادلہ کرو نہ کہ قرآن کے ذریعے سے کیونکہ قرآن کی مختلف وجوہ ہیں اور تم کسی نتیجہ تک نہ پہنچو گے ”فانہ دروبوہ و لکن خاصمہم بالسنّة“ ابو درداء کہتے ہیں.
”انک لن تفقہ کن الفقہ فی تری القرآن وجوھا“
فہرست کتب غریب القرآن
۱۔ الاشارہ فی غریب القرآن ابوبکر محمد بن حسن معروف بہ نقاش موصلی وفات۳۵۱ کشف الظنون۱/۹۸
۲۔ اصلاح الوجوہ و النظائر فی القرآن الحکیم حسن محمد دامغانی دارالعلم بیروت
۳۔ الاریب عافی القرآن من الغریبابوالفرج بن جوزی عبد الرحمن بن علی وفات ۵۹۸
۴۔ الفیہ فی تفسیر الفاظ القرآن ابن ذرعہ عراقی وفات۸۰۶ قاہرہ مطبتہ البیة (۳۲۶ء تا ۳۳۸ء اصل کتاب سے کامل ہو بہو کاپی کر لیں)۔