- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/03
- 0 رائ
ہم مسلمان ہیں اور قرآن کریم ہماری اپنی آسمانی کتاب ہونے کے ناطے اس کا سیکھنا ضروری ہے کیونکہ جب تک کسی چیز کے بارے میں مکمل علم نہ ہو اس پر عمل کرنا ناممکن ہے عمل کے لئے علم زینہ ہے اور اس مرحلے سے گزر کر ہی انسان عمل کے مرحلے تک پہنچ سکتا ہے قرآن کریم کی تلاوت، اس کا سمجھنا، اس کی آیات میں تدبر کرنا اہمیت کا حامل ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب ہے۔
اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے معصوم کا فرمان ہے:
من مات من اولیا ئنا وشیعتنا لم یحسن القرآن علم فی قبرہ یرفع اللہ فیہ درجتہ فان درجات الجنة علی قدر عدد آیات القرآن فیقال لقاء القرآن اقراء وارق۔
”ہمارے چاہنے والے اور شیعوں میں سے کوئی مر جائے اور اسے قرآن پڑھنا نہ آتا ہو، قبر میں ہی قرآن کی تعلیم دی جائے گی تاکہ اس کے درجات میں اضافہ ہو جائے کیونکہ جنت میں کسی کو اتنے درجات نصیب ہوں گے جتنی اسے آیات قرآن یاد ہوں گے قاری قرآن سے جنت میں کہا جائے گا۔ قرآن پڑھتے جاؤ اور بلند سے بلند تر مقام حاصل کرتے جاؤ۔“
آنحضور کا فرمان ہے:
خیرکم من تعلم القرآن وعلیہم۔
”تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دی“
ایک اور مقام پر فرمایا:
اذا احب احدکم ان یحدث ربہ فلیقرأ القرآن۔ (کنز)
”تم میں سے کوئی اپنے رب سے ہم کلام ہونا چاہے تو قرآن کی تلاوت کرے“
ایسا لگتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نزدیک قرآن کریم کی جتنی اہمیت ہے اور جتنا ارفع مقام ہے اتنا ہی مسلمان قرآن سے اجنبی یا دور ہیں۔ امیرالمومنین نے آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم کے بارے میں جو پیشین گوئی فرمائی جس کا ذکر پہلے ہو چکا سچ ہو کرسامنے آئی ہے آپ فرماتے ہیں:
الگ زمانہ آئے گا جس میں قرآن مسلمانوں کے درمیان ہو گا لیکن قرآن ان سے بے گانہ ہو گا قرآن ان کا راہنما نہیں ہو گا بلکہ وہ خود قرآن کی راہنمائی کریں گے اور آخر کار ان لوگوں کے ہاں قرآن کا صرف نام اور ظاہری خطوط یعنی زیر و زبر کے سوا کچھ نہیں رہے گا“ یقینا یہی حالت قرآن کی آج ہے قرآن کے اصل مقاصد بھولے جا چکے ہیں فقط رسم باقی ہے عمل چھوڑا جا چکا ہے لیکن زبانی جمع خرچ زیادہ ہوتا ہے کچھ لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور ان آیات کی بڑی خوش امتحانی کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے: جھوٹ نہ بولو، ظلم نہ کرو، فساد مت پھیلاؤ، غیبت نہ کرو، شراب نہ پیو، رشوت نہ کھاؤ، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھو، مال حرام مت کھاؤ، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ مت ڈالو، اور چونکہ یہ قاری قرآن ان تمام مہینات پر اپنی زندگی میں عمل کرتا ہے اور ان واجبات کو ترک کر دیتا ہے جنہیں قرآن نے صراحت کے ساتھ واجب قرار دیا ہے تو قرآن کریم اس پر لعنت بھیجتا ہے قرآن کریم کو زبان حال یہ ہے کہ یہ قاری میرے ساتھ مذاق کرتا ہے، میرے ساتھ مذاق کرتا ہے، میرے احکامات کو پڑھتا ہے مگر عمل اس کے بر خلاف کرتا ہے حدیث میں آیا ہے اور یہ حدیث انہیں لوگوں کے بارے میں بتار ہی ہے۔
”رب قال القرآن یلعنہ“ کتنے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ہوتے ہیں اور قرآن کریم ان پر لعنت بھیجتا ہے۔
اس لعنت کا اصل سبب قرآن کریم کی عملی مخالفت اللہ اور اللہ کے رسول کی مخالفت ہے اور صرف ظاہری طور پر قرآن کی تلاوت کرنا اور عملاً آیات قرآنی کی مخالفت کرنا اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار کرنے کی مترادف ہے اور یہ منافقت کی نشانی ہے۔
قرآن اور تعلیمی ادارے
قرآن کریم نوع بشر کے لئے ہدایت تامہ اور روحانی امراض کے لئے مسیحاء ہے قرآن کریم کا اصل فلسفہ وجود ہی یہی ہے کہ انسان کو اس راستے پر گامزن رکھے جس پر چل کر انسان معنوی، روحانی اور حقیقی تکامل کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنے معبود حقیقی سے جا ملے۔
لا ہدی الی الحق والی صراط مستقیم۔
”قرآن وہ کتاب ہے جو حق اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتی ہے“
نوع بشر کو اللہ تعالیٰ نے عقل جیسی باطنی رسول اور نعمت عطا کی ہے، جس کے اندر بے انتہا صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں سائنسی اسرار در نور کے انکشاف کی قدرت اور صلاحیت اس میں موجود ہے اور انہی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سرکش فطرت کو اپنے قبضے میں لے کر اس کے اندر موجود مخفی امکانات کو انسانوں کی مادی فلاح وبہبود کے لئے استعمال کیا ہے اگرچہ قرآن کریم ایک سائنسی کتاب نہیں بلکہ کتاب ہدایت ہے عقل انسانی کو فطرت کے سر بستہ رازوں کے انکشاف کے لئے مامور کیا گیا ہے اور وہی انسان کے لئے کافی ہونا چاہیے تاکہ قرآن کریم نے آج سے ۱۴ سو سال پہلے ایسے سائنسی حقائق اور اسرار و رموز کی طرف اشارہ کیا جو سائنسی نکتہ نگاہ سے بھی درست ثابت ہوئے ہیں ہم ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے۔ مندرجہ ذیل آیات پر غوروخوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب اور معجزہ ہے کہ جس میں ایسے اسرار و رموز بیان ہوئے جن کے بارے میں آج سے ۱۴ سو سال پہلے علم حاصل کرنا بعید نظر آتا تھا۔ البتہ سائنسی ترقی اور بیش رفت کے ساتھ ساتھ انسانوں نے ان اشیاء کے بارے میں ایسی معلومات حاصل کی ہی جنہیں سائنسدان اپنے کارناموں میں شمار کرتے ہیں و حالانکہ قرآن کریم نے انہی اسرار و رموز کافی عرصہ پہلے جزیرة العرب جیسی فضاء میں کہ جہاں ہر طرف جہالت اور تاریکی پھیلی ہوئی تھی بتادیا تھا۔
۱۔ انہی آیات کریمہ میں سے ایک یہ ہے کہ جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آسمان یعنی بلندی کی طرف ہوا موجود نہیں ہے اگر انسان زیادہ اوپر جائے تو آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے دم گھٹ جاتا ہے اس قسم کے حادثات کے احتمال کے پیش نظر آج کل ہوائی جہازوں میں مصنوعی آکسیجن کا انتظام کیا ہوا ہوتا ہے نزول قرآن کے زمانے میں نہ اس حد تک بلندی پر جانے کا تصور ہو سکتا تھا اور نہ ہی گیس کی اقسام کے بارے علم لیکن آیتہ شریفہ یہ بتاتی ہے۔
”فمن یرو اللہ ان یہدیہ بشرح صدرہ الاسلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقاً حرجاً کا نحا یصعد فی السماء“
میں (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ تنگ گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہو۔(الانعام:؟)
س۔ سائنسی اعتبار سے یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انسان کے جسم پر زخم کی وجہ سے جلن، سردی، گرمی، نرمی، کھردرا پن ملائمت کا احساس ان اعصاب میں پایا جاتا ہے جو انسان کے جلد کے اندر ہیں بعبارت دیگر درد و الم کے احساس کرنے والے اعضاء صرف جلد کے اندر موجود ہیں جلد سے قطع نظر گوشت کے اندر کسی قسم کا احساس موجود نہیں ہے تقریباً ہم سب انجکشن کے تجربے سے گزرے ہیں کہ جب سوئی جلد سے گزرتی ہے تو درد کا احساس ہوتا ہے اور جب گوشت سے گزرتا ہے تو کسی درد کا احساس نہیں ہوتا یہی چیز ہم اس آیہ شریفہ کے ضمن میں سمجھ سکتے ہیں۔
ان الذین کفروا بایا تنا سوف نعلیہم ناراہ کلما نضجت جلووہم بدلنا ہم جلوداً غیرہا لیذوقوالعذاب ان اللہ کان عزیزاً حکیما۔ (النساء: ۵۶)
”جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا ہے انہیں ہم یقینا آگ میں ڈالیں گے اور ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کریں گے تاکہ ہو عذاب کا مزہ اچھی طرح چکھ سکیں بے شک اللہ بڑی قدرت رکھنے والا ہے اور اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی خوب حکمت جانتا ہے“
گنہگاروں کے لئے یہ عذاب ناقابل تصور حد تک مشکل اور سخت ہے کیونکہ انسان جہنم میں جانے کے بعد نہ شدت درد سے مر جاتا ہے کہ مرکرہی اس عذاب سے نجات مل جائے اور نہ ہی اس ہولناک درد ہی افاقے کا امکان ہے کیونکہ ہر آن جلتا ہے۔ راکھ بنتا ہے گل سٹر جاتا ہے تو تازہ کھال چڑھایا جاتا ہے تاکہ درد کھلے عروج اور تسلسل میں کوئی خلل نہ آئے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا درد کے تسلسل کو باقی رکھنے کے لئے تازہ کھال چڑھائے جانے کا ذکر ہوا ہے۔
۳۔ درج ذیل آیات کو مجموعاً ملاحظہ کیجئے۔
فانبتنا فیہا من کل زوج کریم (لقمان: ۱۰)
” پس ہم نے زمین پودوں اور نباتات کے اچھے جوڑے لگائے“
دوسری جگہ فرمایا!
و من کل الثمرات جعل فیہا زوجین اثنین۔
”اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کئے“
تیسری جگہ فرمایا!
سبحان الذی خلق الازواج کلہا مما تنبت الارض ومن انفسہم وفما لا یعلمون(یٰسین: ۳۶)
”پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے بنائے خواہ وہ زمین کے نباتات میں سے ہو یا اپنی جنس(نوع انسانی) یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں“
مندرجہ بالا آیتوں سے یہ معلوم ہوا کہ ہر چیز کے جوڑے ہوتے ہیں یعنی نر اور مادہ ہوتے ہیں قرآن مجید نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ نباتات میں بھی نر مادہ ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے بڑی تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ پودوں کے بھی جوڑے ہوتے ہیں بلکہ ایک ہی پودے کے ایک ہی پھول کے اندر دو ڈنڈیاں ہوتی ہیں جن میں سے ایک نر اور دوسری مادہ ہوتی ہے۔ ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا نر مادے کا ہونا کافی ہے؟ یا ان میں ملاپ بھی ضروری ہے تاکہ یہ موجود بار آور ہو جائے۔ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ نباتات اور درختوں کے بار آور ہونے کیلئے ان کا ملاپ ضروری ہے اور نباتات میں یہ عمل ممکن نہیں ہے اس لئے ان میں ملاپ کے لئے کچھ دیگر ذرائع رکھ دیئے ہیں ان میں سے ایک وہ ہے جسے حضرات بے فائدہ مخلوق سمجھتے ہیں حشرات اور پرندے جیسے مکھی تتلی، بھڑ، اور پرندے پودوں کے پھول کی نر ڈنڈی کے اوپر موجود سفوف ذرات۔۔۔۔۔؟ کو اپنے ساتھ لے کر مادہ ڈنڈی کی طرف جاتے ہیں یوں ان کی ٹانگوں پروں اور جسموں کے ساتھ لگے ہوئے ذرات مادہ تک پہنچ جاتے ہیں اور پودا اسی سے بارآور ہو جاتا ہے۔ گویا یہی ان کا ملاپ ہے ایک اور طریقے کو سائنس نے انکشاف کیا ہے وہ ہوا کی حرکت ہے جب ہوا چلتی ہے تو نر اور مادہ پھول کے اندر موجود ذرات ہوا کے ذریعے ایک دوسرے تک پہنچ جاتے ہیں جس کے نیچے ہی یہ پھول یا پودا بارآور ہو جاتا ہے یہی طریقہ ملاپ ہے اور یوں پودے اور نباتات انہی نسل برقرار رکھتے ہیں حیران کن بات یہ ہے قرآن کریم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وارسلنا الریاح لواقح (حجر:۲۲)
”ہم نے بارآور کر دینے والی ہوائیں چلائیں“
قرآن مجید نے جس راز کو آج سے ۱۴ سو سال پہلے بتا دیا ہے سائنس نے اسے صرف دو سال پہلے کشف کیا ہے۔
۴۔ أ یحسب الانسان ان لس مجمع عظامہ بلی قادرین علی ان انسوی بنانہ (قیامة:۲۰۱ )
” کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم (قیامت کے دن) ان کی ہڈیوں کو جوڑنے پر قادر نہیں (ان ہڈیوں کا جوڑنا کوئی مشکل نہیں) بلکہ ہم اس پر (بھی) قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کی پوروں تک درست کریں“
خالق کائنات کی ساری مخلوقات میں سے صرف انگلیوں کے اندر ایک ایسی خصوصیت رکھی ہے جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کردیتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے منکرین قیامت نیز انسان کی گلی سڑی ہڈیوں کو دوبارہ جمع کرنے پر اللہ سبحانہ کی قدرت کے انکار کرنے والوں کے جواب میں فرمایا ہے۔ ہڈیوں کا جمع کرنا تو کوئی مشکل نہیں ہم تو ان کی انگلیوں کو بھی اسی حالت میں لے آئیں گے جس میں وہ پہلے تھیں۔ انگلی کی خصوصیت کیا ہے جس کی وجہ سے اس کا دوبارہ وجود میں یا اسی حالت میں لے آنا کسی کے لئے مشکل ہو۔
در اصل اس کی خصوصیت وہ لکیریں ہیں جو انگلی کے پوروں میں ہوتی ہیں اور ان لکیروں کے اندر جو حیران کن بات ہے وہ یہ ہے کہ تمام انسانوں کے ہاتھوں کی لکیریں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ یعنی ہر ایک دوسرے سے مختلف ہے یہ بات قابل فہم ہے کہ کسی فنکار کے لئے، یا کارخانہ دار کے لئے ایک جیسی چیزیں بنانا آسان ہے، جس طرح سے گاڑیوں کا کارخانہ ایک ہی ماڈل کی گاڑیاں بناتا ہے اور کم از کم ایک سال بعد ماڈل تبدیل کرکے پھر ایک جیسے لاکھوں گاڑیاں بناتا ہے اگر ان سے ہر ضرورت مند ایک خاص ماڈل کا مطالعبہ کرے اور ہر گاڑی کا ماڈل رنگ شکل اور دیگر خصوصیات مختلف ہو تو یہ ان کی قدرت سے باہر ہو گی۔ اسی لئے کسی فنکار یا ہنر مند شخص کیلئے ایک جیسی چیزیں بنانا آسان ہے مگر ہر چیز الگ خصوصیت کی حامل ہو یہ ذرا مشکل کام ہے اس کا ہنر اس کا فن یہاں جواب دے دے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کسی انسان کی انگلی دوسرے کی انگلی سے نہیں ملتی اور ہر انگلی کی خاص خصوصیت ہے لہذا اتنی تعداد میں مختلف اور متنوع چیز بنانا اپنی جگہ مشکل اور عادةً انسان کے لئے محال ہے لیکن یہ کام اللہ کے لئے آسان ہے اور ہماری انگلیوں کی خلقت اس بات کی دلیل ہے۔
آپ کو معلوم ہوگا انگلیوں کے پوروں کا مختلف ہونا جراثیم کی دنیا میں پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے لئے نیز دیگر ضروری اسناد کے حوالے سے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے آج کی جراثیم کی دنیا میں(Finger Print) انکشاف جرائم، اسناد، دفتری امور میں اسے استفادہ کیا جاتا ہے اور حتی کہ یہ سننے میں آیا ہے کہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں دستخط کی بجائے ضروری اسناد پر انگوٹھا ہی لگوایا جاتا ہے تاکہ اسناد میں کسی قسم کی ہیر پھیر نہ کی جا سکے۔ اگرچہ ہمارے ہاں انگوٹھا لگوانا جہالت کی نشانی ہے اور یقینا انگلی کے اندر موجود خدا کی لازوال قدرت کی نشانی کا علم نہ ہونا یقینا جہالت کی نشانی ہے۔
۵۔ یا ایہا الناس ضرب مثل فاستمعوا لہ ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقواذ بابا ولو اجتمعوا وان یلبہم الذباب شیئاً لا یستنقذوہ منہ ضعف الطالب والمطلوب ما قدر واللہ حق قدرہ ان اللہ لقوی عزیز۔
” اے لوگو!عجیب بات یہا ں کی جاتی ہے کان لگا کر سن لو(یہ وہ ہے کہ) اس میں کوئی شک نہیں کہ جن کی تم لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ ایک (ادنی) مکھی کو تو پیدا نہیں کر سکتے گو(سب کے سب بھی کیوں نہ) جمع ہو جائیں اور (پیدا کرنا تو بڑی بات ہے وہ اسے عاجز ہیں کہ) اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو اسے چھڑا بھی نہیں سکتے“
تہران میں شائع ہونے والے ایک علمی مجلہ ”دیدنیہا“ میں لوگوں سے یہ سوال لکھا گیا تھا کہ وہ کون سا عمل ہے جس کے انجام دینے سے سائنس عاجز ہے؟ جواب میں لکھا گیا تھا کہ سائنس دانوں کے لئے یہ بات یا یہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ایک چھوٹی مخلوق یعنی مکھی کا نظام ہاضمہ ایسا ہے کہ اگر مکھی کسی چیز کو اپنے میں اٹھا لے تو اے دوبارہ اسی حالت میں حاصل کرنا ناممکن ہے کیونکہ اس کا نظام ہاضمہ میں عمل ہضم اس قدر تی ہے کہ حاصل کردہ غذا کو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہضم کرکے تحلیل کر دیتی ہے۔
منابع:
۱۔ قرآن مجید
۲۔ نہج البلاغہ
۳۔ بحارالانوار
۴۔ کنزالعمال
۵۔ آشنائی با واژہ ہائے قرآن
۶۔ وسائل الشیعہ