- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/14
- 0 رائ
واضح رہنا چاہيے کہ جس طرح قرآن عام کتابوں کي طرح کي کتاب نہيں ہے اسي طرح عام دستورات کي طرح کا دستور بھي نہيں ہے دستور کا موجودہ تصور قرآن مجيد پر کسي طرح صادق نہيں آتا اور نہ اسے انساني اصلاح کے اعتبار سے دستور کہہ سکتے ہيں۔
دستور کي کتاب ميں چند خصوصيات ہوتي ہيں جن ميں سے کوئي خصوصيت قرآن مجيد ميں نہيں پائي جاتي ہے۔
دستور کي تعبيرات ميں قانون دانوں ميں اختلاف ہو سکتا ہے ليکن دستور کے الفاظ ايسے نہيں ہوسکتے جن کا بظاہر کوئي مطلب ہي نہ ہو اور قرآن مجيد ميں حروف مقطعات کي يہي حيثيت ہے کہ ان کي تفسير دنيا کا کوئي بھي عالم عربيت ياصاحب زبان نہيں کرسکتا۔
دستورميں ايک مقام کو واضح اور دوسرے کومجمل نہيں رکھا جاتا کہ مجمل کي تشريح کے ليے واضحات کي طرف رجوع کيا جائے اور کسي ايک دفعہ کا بھي مستقل مفہوم نہ سمجھا جاسکے اور قرآن مجيد ميں ايسے متشابہات موجود ہيں جن کا استقلالي طور پر کوئي مفہوم اس وقت تک نہيں بيان ہوسکتا جب تک محکمات کو نہ ديکھ ليا جائے اور ان کے مطالب پر باقاعدہ طہارت نفس کے ساتھ غور نہ کر ليا جائے۔
دستور ہميشہ کاغذ پر لکھا جاتا ہے يا اس چيز پرجمع کيا جاتا ہے جس پر جمع کرنے کا اس دور اور اس جگہ پر رواج ہو۔ دستورميں يہ کبھي نہيں ہوتا کہ اسے کاغذ پر لکھ کر قوم کے حوالے کرنے کي بجائے کسي خفيہ ذريعہ سے کسي ايک آدمي کے سينے پرلکھ ديا جائے اور قرآن مجيد کي يہي حيثيت ہے کہ اسے روح الامين کے ذريعے قلب پيغمبر پر اتار ديا گيا ہے۔
دستور کسي نمائندہ مملکت کے عہدے کا ثبوت اور حاکم سلطنت کے کمالات کا اظہار نہيں ہوتا اس کي حيثيت تمام باشندگان مملکت کے اعتبارسے يکساں ہوتي ہے قرآن مجيد کي يہ نوعيت نہيں ہے، وہ جہاں اصلاح بشريت کے قوانين کا مخزن ہے وہاں ناشر قوانين مرسل اعظم کے عہدہ کا ثبوت بھي ہے۔ وہ ايک طرف انسانيت کي رہنمائي کرتا ہے اور دوسري طرف ناطق راہنما کے منصب کا اثبات کرتا ہے۔
دستور کا کام باشندگان مملکت کے امور دين ودنيا کي تنظيم ہوتا ہے، اسلام کا کام سابق کے دستورات يا ان کے مبلغين کي تصديق نہيں ہوتا ہے اور قرآن مجيد کي يہ ذمہ داري بھي ہے کہ ايک طرف اپني عظمت اور اپنے رسول کي برتري کا اعلان کرتا ہے تو دوسري طرف سابق کي شريعتوں اور ان کے پيغمبروں کي بھي تصديق کرتا ہے۔
دستور تعليمات و احکام کا مجموعہ ہوتا ہے اس ميں گذشتہ ادوار کے واقعات يا قديم زمانوں کے حوادث کا تذکرہ نہيں ہوتا ہے۔ ليکن قرآن کريم جہاں ايک طرف اپنے دور کے ليے احکام و تعليمات فراہم کرتا ہے وہاں ادوار گذشتہ کے عبرت خيز واقعات بھي بيان کرتا ہے، اس ميں تہذيب و اخلاق کے مرقع بھي ہيں اور بد تہذيب امتوں کي تباہي کے مناظر بھي۔!
دستور کے بيانات کا انداز حاکمانہ ہوتا ہے اس ميں تشويق و ترغيب کے پہلوں کا لحاظ نہيں کيا جاتا ہے۔ اس ميں سزاؤں کے ساتھ انعامات اور رعايات کا ذکر ہوتا ہے، ليکن دوسروں کے فضائل و کمالات کا تذکرہ نہيں کيا جاتا اور قرآن مجيد ميں ايسي آيتيں بکثرت پائي جاتي ہيں جہاں احکام و تعليمات کا تذکرہ انسانوں کے فضائل و کمالات کے ذيل ميں کيا گيا ہے اور جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن صرف ايک دستور کي کتاب يا تعزيرات کا مجموعہ نہيں ہے، اس کي نوعيت دنيا کي جملہ تصانيف اور کائنات کے تمام دساتيرسے بالکل مختلف ہے، وہ کتاب بھي ہے اور دستور بھي، ليکن نہ عام کتابوں جيسي کتاب ہے اور نہ عام دستوروں جيسا دستور۔
اور يہي وجہ ہے کے اس نے اپنے تعارف ميں دستور جيسا کوئي انداز نہيں اختيار کيا بلکہ اپني تعبير ان تمام الفاظ و القاب سے کي ہے جس سے اس کي صحيح نوعيت کا اندازہ کيا جاسکے۔
سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ پھر قرآن مجيد ہے کيا؟۔ اس کا جواب صرف ايک لفظ سے ديا جا سکتا ہے کہ قرآن خالق کائنات کے اصول تربيت کا مجموعہ اور اس کي شان ربوبيت کا مظہر ہے۔ اگر خالق کي حيثيت عام حکام و سلاطين جيسي ہوتي تو اس کے اصول و آئين بھي ويسے ہي ہوتے۔ ليکن اس کي سلطنت کا اندازہ دنيا سے الگ ہے اس ليے اس کا آئين بھي جدا گانہ ہے۔
دنيا کے حکام و سلاطين ان کي اصلاح کرتے ہيں جو ان کے پيدا کيے ہوئے نہيں ہوتے، ان کا کام تخليق فرد يا تربيت فرد نہيں ہوتا، ان کي ذمہ داري تنظيم مملکت اور اصلاح فرد ہوتي ہے اور ظاہر ہے کہ تنظيم کے اصول اور ہوں گے اور تربيت و تخليق کے اصول اور اصلاح ظاہر کے طريقے اور ہوں گے اور تزکيہٴ نفس کے قوانين اور۔
قرآن کے آئين ربوبيت ہونے کا سب سے بڑا ثبوت يہ ہے کہ اس کي وحي اول کا آغاز لفظ ربوبيت سے ہوا ہے۔
”اقرا باسم ربک الذي خلق“ يعني ميرے حبيب تلاوت قرآن کا آغاز نام رب سے کرو۔ وہ رب جس نے پيدا کيا ہے۔
”خلق الانسان من علق“۔ وہ رب جس نے انسان کوعلق سے پيدا کيا ہے يعني ايسے لوتھڑے سے بنايا ہے جس کي شکل جونک جيسي ہوتي ہے۔
”اقرا ٴ و ربک الذي علم بالقلم۔“ پڑھو کہ تمہارا رب وہ بزرگ و برتر ہے جس نے قلم کے ذريعہ تعليم دي۔
”علم الانسان ما لم يعلم۔“ آيات بالا سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کا آغاز ربوبيت سے ہوا ہے۔ ربوبيت کے ساتھ تخليق، مادہ تخليق، تعليم بالقلم کا تذکرہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ قرآن مجيد کے تعليمات و مقاصد کا کل خلاصہ تخليق و تعليم ميں منحصر ہے، اس کا نازل کرنے والا تخليق کے اعتبار سے بقائے جسم کا انتظام کرتا ہے اور تعليم کے اعتبار سے تزکيہٴ نفس کا اہتمام کرتا ہے۔
ميرے خيال ميں(واللہ اعلم) قرآن مجيد ميں سورہ حمد کے ام الکتاب ہونے کا راز بھي يہي ہے کے اس ميں ربوبيت کے جملہ مظاہر سمٹ کر آگئے ہيں اور اس کا آغاز بھي ربوبيت اور اس کے مظاہر کے ساتھ ہوتا ہے۔ بلکہ اسي خيال کي روشني اس حديث مبارک کو بھي توجيہ کي جاسکتي ہے کہ”جو کچھ تمام آسماني صحيفوں ميں ہے وہ سب قرآن ميں ہے، اور جو کچھ قرآن ميں ہے وہ سب سورہ حمد ميں ہے۔“ يعني قرآن مجيد کا تمام تر مقصد تربيت ہے اور تربيت کے ليے تصور جزا۔ احساس عبديت، خيال بے چارگي، کردار نيک و بد کا پيش نظر ہونا انتہائي ضروري ہے۔ اور سورہ حمد کے مالک يوم الدين، اياک نعبد، اياک نستعين، صراط الذين انعمت عليہم، غير المغضوب عليہم ولاالضالين ميں يہي تمام باتيں پائي جاتي ہيں، حديث کے باقي اجزاء کہ”جو کچھ سورہٴ حمد ميں ہے وہ بسم اللہ ميں ہے اور جو کچھ بسم اللہ ميں ہے وہ سب بائے بسم اللہ ميں ہے۔“ اس کي تاويل کا علم راسخون في العلم کے علاوہ کسي کے پاس نہيں ہے، البتہ ”انا النقطة التي تحت الباء۔“ کي روشني ميں يہ کہا جا سکتا ہے کہ خالق کي ربوبي شان کا مظہر ذات علي بن ابي طالب ہے اور يہي کل قرآن کا مظہر ہے۔
قرآن کريم اور دنيا کے دوسرے دستوروں کا ايک بنيادي فرق يہ بھي ہے کہ دستور کا موضوع اصلاح حيات ہوتا ہے تعليم کائنات نہيں يعني قانون سازي کي دنيا سائنس کي ليبارٹي سے الگ ہوتي ہے۔ مجلس قانون ساز کے فارمولے اصلاح حيات کرتے ہيں اور ليبارٹي کے تحقيقات انکشاف کائنات۔ اور قرآن مجيد ميں يہ دونوں باتيں بنيادي طور پر پائي جاتي ہيں۔ وہ اپني وحي کے آغاز ميں ”اقراٴ“ ”علم “ بھي کہتا ہے اور ”خلق الانسان من علق“ بھي کہتا ہے يعني اس ميں اصلاح حيات بھي ہے اور انکشاف کائنات بھي، اور يہ اجتماع اس بات کي طرف کھلا ہوا اشارہ ہے کہ تحقيق کے اسرار سے ناواقف، کائنات کے رموز سے بے خبر کبھي حيات کي صحيح اصلاح نہيں کر سکتے۔ حيات کائنات کا ايک جزء ہے۔ حيات کے لوازم و ضروريات کائنات کے اہم مسائل ہيں اور جو کائنات ہي سے بے خبر ہوگا وہ حيات کي کيا اصلاح کرے گا۔ اسلامي قانون تربيت کا بنانے والا رب العالمين ہونے کے اعتبار سے عالم حيات بھي ہے اور عالم کائنات بھي۔ تخليق، علم کائنات کي دليل ہے اور تربيت،علم حيات و ضروريات کي۔
عناصر تربيت
جب يہ بات واضح ہوگئي کہ قرآن کريم شان ربوبيت کا مظہر اور اصول و آئين تربيت کا مجموعہ ہے تو اب يہ بھي ديکھنا پڑے گا کہ صحيح و صالح تربيت کے ليے کن عناصر کي ضرروت ہے اور قرآن مجيد ميں وہ عناصر پائے جاتے ہيں يا نہيں؟
تربيت کي دوقسميں ہوتي ہيں: تربيت جسم، تربيت روح۔
تربيت جسم کے ليے ان اصول و قوانين کي ضرورت ہوتي ہے جو جسم کي بقا کے ضامن اور سماج کي تنظيم کے ذمہ دار ہوں۔ اور تربيت روح کے ليے ان قواعد و ضوابط کي ضرورت ہوتي ہے جو انسان کے دل و دماغ کو روشن کرسکيں، اس کے ذہن کے دریچوں کو کھول سکيں اور سينے کو اتنا کشادہ بنا سکيں کہ وہ آفاق ميں گم نہ ہو سکے بلکہ آفاق اس کے سينے کي وسعتوں ميں گم ہوجائيں ”و فيک انطوي العالم الاکبر“ اے انسان! تجھ ميں ايک عالم اکبرسمیٹا ہوا ہے۔
اب چونکہ جسم و روح دونوں ايک دوسرے سے بے تعلق اورغير مربوط نہيں ہيں، اس ليے يہ غير ممکن ہے کہ جسم کي صحيح تربيت روح کي تباہي کے ساتھ يا روح کي صحيح تربيت جسم کي بربادي کے ساتھ ہوسکے، بلکہ ايک کي بقا و ترقي کے ليے دوسرے کا لحاظ رکھنا انتہائي ضروري ہے يہ دونوں ايسي مربوط حقيقتيں ہيں کہ جب سے عالم ماديات ميں قدم رکھا ہے دونوں ساتھ رہي ہيں اور جب تک انسان ذي حيات کہا جائے گا دونوں کا رابطہ باقي رہے گا ظاہر ہے کہ جب اتحاد اتنا مستحکم اور پائدار ہو گا تو ضروريات ميں بھي کسي نہ کسي قدر اشتراک ضرور ہوگا اور ايک کے حالات سے دوسرے پر اثر بھي ہو گا۔
ايسي حالت ميں اصول تربيت بھي ايسے ہي ہونے چاہئيں جن ميں دونوں کي منفرد اور مشترک دونوں قسم کي ضروريات کا لحاظ رکھا گيا ہو۔ ليکن يہ بھي ياد رکھنے کي بات ہے کہ وجود انساني ميں اصل روح ہے اور فروع مادہ۔ ارتقائے روح کے ليے بقائے جسم اور مشقت جسماني ضرروي ہے ليکن اس ليے نہيں کہ دونوں کي حيثيت ايک جيسي ہے بلکہ اس ليے کہ ايک اصل ہے اور ايک اس کے ليے تمہيد و مقدمہ۔
جسم و روح کي مثال يوں بھي فرض کي جا سکتي ہے کہ انساني جسم کي بقا کے ليے غذاؤں کا استعمال ضروري ہے۔ لباس کا استعمال لازمي ہے، مکان کا ہونا نا گزير ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب ہر گز نہيں ہے کہ غذا و لباس و مکان کا مرتبہ جسم کا مرتبہ ہے بلکہ اس کا کھلا ہوا مطلب يہ ہے کہ جسم کي بقا مطلوب ہے اس ليے ان چيزوں کا مہيا کرنا ضروري ہے۔ بالکل يہي حالت جسم و روح کي ہے، روح اصل ہے اور جسم اس کا مقدمہ۔
جسم اور اس کے تقاضوں ميں انسان و حيوان دونوں مشترک ہيں ليکن روح کے تقاضے انسانيت اور حيوانيت کے درميان حد فاصل کي حيثيت رکھتے ہيں اور ظاہر ہے کہ جب تک روح انسان و حيوان کے درميان حد فاصل بني رہے گي اس کي عظمت و اہميت مسلم رہے گي۔
بہر حال دونوں کي مشترک ضروريات کے ليے ايک مجموعہ قوانين کي ضرورت ہے، جس ميں اصول بقا و ارتقاء کا بھي ذکر ہو اور ان اقوام و ملل کا بھي تذکرہ ہو جنھوں نے ان اصول و ضوابط کو ترک کرکے اپنے جسم يا اپني روح کو تباہ و برباد کيا ہے۔ اس کے بغير قانون تو بن سکتا ہے ليکن تربيت نہيں ہو سکتي۔ دوسرے الفاظ ميں يوں کہا جائے گا کہ اصلاح و تنظيم کو صرف اصول و قوانين کي ضرورت ہے ليکن تربيت روح و دماغ کے ليے ماضي کے افسانے بھي درکار ہيں جن ميں بد احتياطي کے مرقع اور بد پرہيزي کي تصويريں کھينچي گئي ہوں۔ قرآن مجيد ميں احکام و تعليمات کے ساتھ قصوں اور واقعات کا فلسفہ اسي تربيت اور اس کے اصول ميں مضمر ہے۔
تربيت کے ليے مزيد جن باتوں کي ضرورت ہے ان کي تفصيل يہ ہے:
۱۔ انسان کے قلب ميں صفائي پيدا کي جائے۔
۲۔ اس کے تصور حيات کو ايک خالق کے تصور سے مربوط بنايا جائے۔
۳۔ دماغ ميں قوت تدبر و تفکر پيدا کي جائے۔
۴۔ حوادث و وقائع ميں خوئے توکل ایجاد کي جائے۔
۵۔ افکار ميں حق و باطل کا امتياز پيدا کرايا جائے۔
۶۔ قانون کے تقدس کو ذہن نشين کرايا جائے۔
۷۔ اخلاقي بلندي کے ليے بزرگوں کے تذکرے دہرائے جائيں۔
وہ قوانين کے مجموعہ کے اعتبار سے کتاب ہے اور صفائے قلب کے انتظام کے لحاظ سے نور۔
قوت تدبر کے اعتبار سے وحي مرموز ہے اور خوئے توکل کے لحاظ سے آيات محکمات و متشابہات۔
تصور خالق کے ليے تنزيل ہے اور تقدس قانون کے ليے قول رسول کريم۔
امتياز حق و باطل کے ليے فرقان ہے، اور بلندي اخلاق کے ليے ذکر و تذکرہ۔
ان اوصاف سے يہ بات بالکل واضح ہو جاتي ہے کہ قرآن نہ تصنيف ہے نہ دستور، وہ اصول تربيت کا مجموعہ اور شان ربوبيت کا مظہر ہے، اس کا نازل کرنے والا کائنات سے ما فوق، اس کے اصول کائنات سے بلند اور اس کا انداز بيان کائنات سے جدا گانہ ہے۔
يا مختصر لفظوں ميں يوں کہا جائے کہ قرآن اگر کتاب ہے تو کتاب تعليم نہيں بلکہ کتاب تربيت ہے۔ اور اگر دستور ہے تو دستور حکومت نہيں ہے بلکہ دستور تربيت ہے۔ اس ميں حاکمانہ جاہ و جلال کا اظہار کم ہے اور مربيانہ شفقت و رحمت کا مظاہرہ زيادہ۔ اس کا آغاز بسم اللہ رحمت سے ہوتا ہے قہر ذوالجلال سے نہيں۔ اس کا انجام استعاذہٴ رب الناس پر ہوتا ہے جلال و قہار و جبار پر نہيں۔
دستور حکومت کا موضوع اصلاح زندگي ہوتا ہے۔ اور دستور تربيت کا موضوع استحکام بندگي۔ استحکام بندگي کے بغير اصلاح زندگي کا تصور ايک خيال خام ہے اور بس۔
قرآن مجيد کے دستور تربيت ہونے کا سب سے بڑا ثبوت اس کي تنزيل ہے۔ کہ وہ حاکمانہ جلال کا مظہر ہوتا تو اس کے سارے احکام يکبارگي نازل ہو جاتے اور عالم انسانيت پر ان کا امتثال فرض کر ديا جاتا ليکن ايسا کچھ نہيں ہوا بلکہ پہلے دل و دماغ کے تصورات کو پاک کرنے کے ليے عقائد کي آيتيں نازل ہوئيں، اس کے بعد تنظيم حيات کے ليے عبادات و معاملات کے احکام نازل ہوئے، جب تربيت کے ليے جو بات مناسب ہوئي کہہ دي گئي، جو واقعہ مناسب ہوا سنا ديا گيا، جو قانون مناسب ہوا نافذ کر ديا گيا۔ جيسے حالات ہوئے اسي لہجہ ميں بات کي گئي جو تربيت کا انتہائي اہم عنصر اور شان تربيت کا انتہائي عظيم الشان مظہر ہے۔