- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/25
- 0 رائ
آج جہاں وقتا فوقتا یہ آواز سننے کو مل رہی ہے کہ آپ ملک کے لئے کیا کر رہے ہیں قوم کے لئے کیا کر رہے ہیں تو ہمیں ان نمونہ عمل ہستیوں کے کردار کو پیش کر نے کی ضرورت ہے جنہیں ہم مانتے ہیں جنہوں نے اپنے لئے زندگی نہ جی کر انسانیت کے لئے زندگی جی۔
آج ہم جس ملک اور جس معاشرے میں جی رہی ہیں وہاں زندگی سے جڑے ان گنت ایسے مسائل ہیں جو لا ینحل نظر آتے ہیں اور ہر دن کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ساتھ ان لاینحل مسائل کے ڈھیر میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، ایک طرف خود غرضی و مفاد پرستی کا دور دورہ انسان کو دوسروں کے درد سے غافل اپنی ہی دھن میں مگن کئے ہوئے حیوانیت کی ڈگر پر لئے چلا جا رہا ہے تو دوسری طرف ملک کے سیاسی حالات مسلسل ایسے ہو تے جا رہے ہیں کہ ہر ایک ہمیں مطالباتی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
فضا یہ بن گئی ہے کہ تم کارآمد ہو یا ناکار آمد اگر ہماری مشینری کے لئے کارآمد پرزہ ہو تو تمہاری اہمیت ہے لیکن نہیں تو چاہے تمہارے اندر کتنی ہی صلاحیت کیوں نہ ہو اس ملک میں تمہارے لئے جگہ نہیں ہے ایک خاص فکر خاص نظام خاص رنگ کے غلبہ کی بنیاد پر مسلسل ملک ایک ہی دائرہ میں سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ انسان کو زندگی سے جڑے اتنے مسائل درپیش ہیں کہ وہ سیاسی حالات کی طرف متوجہ ہی نہیں ہے کہ کشتی حالات کے سمندر میں کس طرف جا رہی ہے، ہر کسی کو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اپنی بے چینی کو کیسے دور کرے اپنی الجھنوں کو کیسے ختم کرے اس لئے کہ ان الجھنوں نے زندگی کا مزہ چھین لیا ہے اور ہر آن نئی الجھنوں اور مصیبتوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
الجھنوں کا شکار معاشرہ اور بے لطف زندگی:
کتنی ہی بار آکے کانوں میں یہ بات ٹکرائی ہے کہ اب زندگی میں کوئی لطف نہیں ہے، زندگی میں کوئی مزہ نہیں ہے سب کچھ پھینکا پھینکا ہے؟ کتنی بھی جدوجہد کر لو کچھ کر لو لیکن سکون نام کی کوئی چیز نہیں ہے زندگی میں۔ یہ بات کسی ایک خاص شہر خاص قریے خاص لوگوں کی نہیں آج ہر طرف سے زندگی میں الجھنوں کی بات ہے، پریشانی کی بات ہے اسٹرس و ٹینشن کی بات ہے یہ سب ہے لیکن انسان مسلسل اسی راستے کی طرف چل رہا ہے جو الجھنوں پر جا کر ختم ہوتا ہے، ٹینشن پر جا کر منتہی ہوتا ہے، اس لئے کہ اللہ نے نعمت حیات سے ہمیں یوں ہی نہیں نواز دیا ہے اس کا ایک مقصد رکھا ہے[1]، جب مقصد پورا نہیں ہوگا تو اس کا لازمہ یہی ہوگا کہ انسان مسائل کا شکار ہو جائے، بے مقصد زندگی میں انسان کے رجحانات و اس کی ضرورتیں تبدیل ہو جاتی ہیں، غیر ضروری چیزوں کو کبھی ضروری سمجھ بیٹھتا ہے کبھی اس کے رجحانات یوں تبدیل ہو جاتے ہیں کہ معنویت و روحانیت کی جگہ ہر مقام پر اسے مادی سکون کی تلاش رہتی ہے، جب کہ انسان کا وجود محض مادہ نہیں اس کے ساتھ جسم ہے اور جسم کے تقاضے ہیں تو روح بھی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روح سے غافل ہو جب وہ خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے تو ظاہری طور پر اسے لذت کا احساس تو ہوتا ہے لیکن روح تشنہ رہتی ہے تشنہ روح کو سیراب کرنے کا ایک ہی راستہ ہے جس نے حیات دی ہے اسی کے بتائے ہوئے راستے کی طرف انسان گامزن ہو اس لئے کہ ہر ایک کو ایک دن اسی کے بارگاہ میں جانا ہے یہ جو دیکھا دیکھی ہے یہ جو معاشرے میں فلاں نے یہ کر لیا ہم کہا ہیں؟ فلاں کے پاس لیٹس و نیا موبائل ہے ہمارے پاس وہی پرانا، فلاں کے پاس نئی گاڑی ہے ہم اسی پرانی گاڑی سے کام چلا رہے ہیں، فلاں کے پاس اتنا بڑا گھر ہے اور ایک پلاٹ اور بھی خرید لیا ہمارے پاس کیا ہے یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کو شاکر بنانے کے بجائے شاکی بناتی ہیں اور انسان شکایت کرتے کرتے کفر کی منزل پر پہنچ جاتا ہے دوسری طرف یہ بھی چاہتا ہے کہ اسے سب کچھ نصیب بھی ہو جائے اسی لئے پہلے ہمیں حقیقی زندگی کو سمجھنا ہوگا کہ وہ کیا ہے؟
جہاں تک حقیقی حیات کے تصور کی بات ہے تو قرآن کریم میں اس حقیقی حیات کو خداوند سبحان سے مخصوص جانا ہے اور تمام موجودات جو بھی دنیا میں ہیں اسی حقیقی حیات سے بہرمند ہیں جس کا مالک رب الارباب ہے سبھی اسی حیات سے استفادہ کر رہے ہیں۔
درحقیقت یہ کائنات رحمت رحمانی رب کا مظہر ہے ایک ایسی راہ جس پر چل کر ہر موجود اپنے کمال کو پہنچتا ہے۔ انسان بھی اسی رحمت کے ذریعہ اپنے کمال تک پہنچتا ہے وہ کمال جو مقام خلیفہ اللہی و صفات الہی کے مظہر ہونے سے عبارت ہے۔[2]
وہ حیات جو اس مقام کے حصول کے لئے خداوند متعال نے پیش کی ہے اسی کو حیات طیبہ کہا جاتا ہے یہ حیات طیبہ خداوند متعال کی حقیقی حیات کی تجلی ہے وہ حیات جو ہر ایک خباثت و آلودگی سے پاکیزہ ہے[3] درحقیقت حیات طیبہ ایسی زندگی ہے جو مادی و معنوی حیات کے درمیان ایک درمیانی راہ کے انتخاب کی بنا پر انسان کو دنیا و آخرت میں پر سکون بناتی ہے یہ ایک طرح سے اخلاقی حیات بھی ہے، اس لئے کہ انسان اسی وقت انسان کہے جانے کے لائق ہے اسی وقت مقام قرب الہی تک پہچنے کی صلاحیت کا حامل ہے ہوگا جب اچھے اخلاق کا مالک ہوگا انسانی صفات حسنہ کا مالک ہونا انسان کی معنوی شخصیت کے بارور ہونے اور اس کے نکھرنے کا سبب ہے اور اخلاق حسنہ صرف اس دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی سعادت کا خوشبختی کا سبب ہے اور اگر اخلاق کا فقدان ہو تو انسان ایک ایسا خطرناک جانور بن جائے گا جو اپنے صلاحیتوں سے سرشار ذہن کو اس راستے میں استعمال کرے گا جو مطلوب پروردگار نہیں ہے وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال اس راستے پر نہیں کرےگا جو خدا نے اس کے لئے معین کیا ہے بلکہ غیر الہی راستے پر چل پڑے گا[4]۔ ہر زندگی ایک ایسے محور کی محتاج ہے جو اس محور تلے آنے والے تمام سوالات کا جواب دے اور اس کے ذیل میں آنے والے تمام زندگی سے جڑے مسائل کو معنی و مفہوم عطا کرے، یہی محوریت انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور انسان کے کردار و عمل کو سنوارتی و نکھارتی ہے حیات طیبہ میں زندگی کا محور کائنات کا پالنے والا ہے زندگی کی مرکزیت حیات طیبہ میں خدا کو حاصل ہے لہذا جو کچھ بھی زندگی کے اس مرحلے میں انسان سے سرزد ہوتا ہے وہ خدا کی محوریت کے ساتھ ہے اس کی رضا کے حصول کے لئے ہے، اب جتنا بھی انسان اس محور پر پائدار رہے گا جتنا بھی اس محور کا پابند رہے گا جتنا بھی ڈهٹا رہے گا اتنا ہی زیادہ حیات طیبہ سے بہر مند ہوگا[5]
اللہ کی یاد محوریت الہی کے تحت اس حیات سے بہرہ مند ہونے کی راہوں میں سے ایک ہے[6] یاد و ذکر خدا سے غفلت و خاموشی ایک دوسری زندگی کے دامن میں اوندھے منه گرنے کے مساوی ہے ایسا گرنا جس میں انسان کی تباہی و بربادی ہو یہ تباہی و بربادی غیر اللہ کی محوریت تلے گزرنے والی زندگی کا نتیجہ ہے جس میں گمراہی و حیرانی و پریشانی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں جبکہ حیات طیبہ کے ذریعہ انسان مقام قرب الہی و صفات الہی کی تجلیوں کی منزلوں تک پہنچتا ہے۔[7]
صحیح روش حیات اور دیگر اسالیب حیات میں بنیادی فرق:
صحیح زندگی و دیگر اسالیب حیات میں فرق زندگی کی نوعیت و ہدف میں ہے بات ان کی نہیں ہے جو دنیا میں کوئی مقصد لیکر چل رہے ہیں نہ آخرت کے ہی ہدف کو پورا کر رہے ہیں بلکہ جہاں زندگی کی نوعیت کی بات آتی ہے وہاں دو الگ الگ مقاصد سامنے آتے ہیں ایک فاسد انسان کا بھی اپنی زندگی میں ایک مقصد ہے اور مقصد بھی یہ ہے کہ دنیا حاصل ہو جائے[8] بالکل اسی طرح جس طرح ایک پاک انسان کا بھی مقصد ہے اور وہ آخرت کی کامیابی کا حصول ہے[9] لیکن دونوں کی زندگیوں میں فرق ان کے ہدف زندگی سے جڑا ہے[10] الہی زندگی کا حامل انسان کوشش کرتا ہے اس کمال تک پہنچ جائےجو اس کے رب اس کے لئے رکھا ہے، صحیح طرز زندگی کی مرکزیت انسان کے مطلوبہ کمال تک رسائی ہے جسے انسانیت کہا جا سکتا ہے در حقیقت انسان کمال انسانیت تک اس وقت پہنچتا ہے جب زندگی کے تمام شعبوں میں وہ خدا کو اپنا محور قرار دے۔ قرآن کی نظر میں روش حیات کی معراج حیات طیبہ میں ہے[11]۔ حقیقت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحیح روش زندگی انسان کی حیات طیبہ کے اصل جوہر کو تشکیل دیتی ہے اور حیات طیبہ کی جھلک مادی و معنوی سرمایوں اور ذخیروں میں نظر آتی ہے اور جو کچھ انسان نے اپنی زندگی کو لیکر حاصل کیا جتنی بھی اپنی زندگی کی تعمیر کی ہے سب کے سب روش حیات کے قالب میں نمایاں و آشکار ہوتا ہے[12] حیات طیبہ کی تعبیر قرآن کریم میں ایک بار صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے[13] جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کو جس رخ سے دیکھا جائے حیات طیبہ کا عکس نظر آئے گا، وہ حیا و عفت ہو وہ طہارت و صداقت ہو وہ بچوں کی تربیت میں انہماک ہو یا مقصد خلقت کی طرف لوگوں کی رہنمائی آپ کے خطبہ فدک میں یا آپ کی حدیثوں یں جا بجا اس بات کی طرف اشارے ملیں گے کہ جو اس وقت کا معاشرہ زندگی گزار رہا تھا وہ زندگی نہیں تھی جسے قرآنی کہا جائے، اس لئے کہ لوگ ولایت کی ڈگر سے ہٹ گے تھے لوگ مادیت میں غرق ہو گئے تھے اس دور کے معاشرہ نے قرآنی اصولوں کا بھلا دیا تھا نبی رحمت ص کی جانب سے کھینچے گئے خطوط کو لانگ کر لوگ اپنی مرضی کے خطوط بنا کر اس پر اسلام لا لیبل لگا کر چل رہے تھے اور سوچ رہے تھے یہ دین ہے، یہ غلط طرز فکر تھا جو رائج ہو گیا تھا، کم و بیش اسی قسم کی صورت حال آج بھی ہے، معاشرے میں ولیوز بدل رہی ہیں، اقدار کے تصور میں تبدیلی آ رہی ہے، معاشرہ ایک الگ ہی سمت میں گامزن ہے ظاہر ہے جب زندگی کی ڈگر سے ہم ہٹ جائیں گے اور شیطانی راستے پر گامزن ہو جائیں گے تو ہمارے پاس سوائے ٹینشن کے سوائے پریشانی کے کیا حاصل ہو گا، آج ایک بار پھر ہمارے لئے ضروری ہے کہ زندگی کی اسی روش پر واپس آئیں جس پر ہمارے اسلاف چلے جس پر حضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں گامزن کیا تھا، جس میں دوسروں کے لئے رحم دلی کا جذبہ تھا جس میں اقرباء پروری نہیں تھی جس میں خاندان، قوم قبیلہ کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں تھی بنیادی حیثیت قرآنی اصولوں کو تھی بنیادی حیثیت ایمانی رشتوں کو حاصل تھی، آج ایک بار پھر ہمیں ملک میں ملک کے لئے کچھ ایسا کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ اس بات کا اعتراف کریں کہ اسلام سچی حب الوطنی کا درس دیتا ہے، یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہم اپنے خول سے باہر نکلیں اور اپنے بارےمیں نہ سوچ کر سب کے بارے میں سوچیں، شک نہیں کہ اگر ہم اس تصور حیات کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ ہمیں خود ہی کامیاب نہیں ہونا ہے اپنے اطراف میں رہنے والے لوگوں کی نجات و ان کی کامیابی کے بارے میں بھی سوچنا ہے اور یہ کوئی سیاسی پالیسی نہیں ہے بلکہ ہمارے دین کا دستور اور حکم ہے، اس نے کہا ہے کہ محض اپنے بارے میں نہ سوچ کر انسانیت کے بارے میں سوچو جیسا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی میں ملتا ہے، جب آپ کے پاس ضرورت مند آتے تو بہت سے ایسے ہوتے جو رسول ص کو رسول بھی نہیں مانتے تھے لیکن آپ نے کسی کو اپنے گھر سے خالی ہاتھ واپس نہیں کیا، کہیں کسی یہودی کی مدد کی کہیں کسی اسیر و مسکین کو سہارا دیا کہیں بھی یہ نہ پوچھا تمہارا مسلک کیا ہے مذہب کیا ہے، شک نہیں اسی طرز کو لیکر ہم آگے بڑھیں گے تو ہمارے بڑے مسائل خود ہی حل ہو گے انشاء اللہ۔ آج جہاں وقتا فوقتا یہ آواز سننے کو مل رہی ہے کہ آپ ملک کے لئے کیا کر رہے ہیں قوم کے لئے کیا کر رہے ہیں تو ہمیں ان نمونہ عمل ہستیوں کے کردار کو پیش کر نے کی ضرورت ہے جنہیں ہم مانتے ہیں جنہوں نے اپنے لئے زندگی نہ جی کر انسانیت کے لئے زندگی جی جنہوں نے کبھی بھی اپنی ذات کے مدار میں حرکت نہ کی جن کی پوری زندگی کو حق کے مدار پر جینا ہمارے لئے بھی لازم ہے کہ ان سخت ترین حالات میں چھوٹے چھوٹے مفادات کے چکر میں اپنا بڑا نقصان نہ کرتے ہوئے حق کی محوریت کے تحت آگے بڑھنے کی کوشش کریں انشاء اللہ پروردگار بھی ہماری مدد کرے گا۔
…………………
حواله جات
[1] ۔ مومنون 115 , أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ.
[2] ۔ (قمر: 55)
[3] ۔ (طباطبايى، محمدحسين (1374 ق) الميزان فى تفسير القرآن، بيروت، مؤسسه الاعلمى للمطبوعات.1417، ص19: 197ـ196 مدرسی، سید محمد تقی (1419 ق) من هدی القرآن، تهران: دار محبی الحسین ، 1419، ص 15: 194 قرشى، سيدعلىاكبر (1371) قاموس قرآن، تهران دار الكتب الإسلامية.1377،
[4] ۔ انفال: 22 و 55؛ اعراف: 179، فرقان: 44)
[5] ۔ (طباطبايى، محمدحسين (1374 ق) الميزان فى تفسير القرآن، بيروت، مؤسسه الاعلمى للمطبوعات.1417، ص: 115)
[6] ۔ «يَأَيها الذِينَ ءَامَنُواْ اذْكُرُواْ اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَ سَبحُوهُ بُكْرَةً وَ أَصِيلا» (احزاب: 41-42).
[7] ۔ انفال: 22 و 55؛ اعراف: 179، فرقان: 44)
[8] ۔ «فَأَعْرِضْ عَن من تَوَلىَ عَن ذِكْرِنَا وَ لَمْ يُرِدْ إِلا الْحَيَوةَ الدنْيَا» (نجم: 29)
[9] ۔ «رِجَالٌ لاتُلْهِيهِمْ تجَِرَةٌ وَ لَابَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللهِ وَ إِقَامِ الصلَوةِ وَ إِيتَاءِ الزكَوةِ يخََافُونَ يَوْمًا تَتَقَلبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصَار» (نور: 37)
. «أَ لَمْ تَرَ إِلىَ الذِينَ قِيلَ لهَُمْ كُفواْ أَيْدِيَكُمْ وَ أَقِيمُواْ الصلَوةَ وَ ءَاتُواْ الزكَوةَ فَلَما كُتِبَ عَلَيهِْمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ منهُْمْ يخَْشَوْنَ الناسَ كَخَشْيَةِ اللهِ أَوْ أَشَد خَشْيَةً وَ قَالُواْ رَبنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْ لَا أَخرْتَنَا إِلىَ أَجَلٍ قَرِيبٍ قُلْ مَتَاعُ الدنْيَا قَلِيلٌ وَ الاَْخِرَةُ خَيرٌْ لمَنِ اتقَى وَ لَاتُظْلَمُونَ فَتِيلا» (نساء: 77)؛
[10] ۔ «مَن كاَنَ يُرِيدُ حَرْثَ الاَْخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فىِ حَرْثِهِ وَ مَن كاَنَ يُرِيدُ حَرْثَ الدنْيَا نُؤْتِهِ مِنهَْا وَ مَا لَهُ فىِ الاَْخِرَةِ مِن نصِيب» (شوری: 20) و «زُينَ لِلذِينَ كَفَرُواْ الْحَيَوةُ الدنْيَا وَ يَسْخَرُونَ مِنَ الذِينَ ءَامَنُواْ وَ الذِينَ اتقَوْاْ فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ اللهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيرِْ حِسَاب» (بقره: 212؛ طباطبايي، 1417: 12: 491).
[11] ۔ «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا من ذَكَرٍ أَوْ أُنثىَ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنهُ حَيَوةً طَيبَةً وَ لَنَجْزِيَنهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُون» (نحل: 97).
[12] ۔ «يَأَيها الذِينَ ءَامَنُواْ هَلْ أَدُلكمُْ عَلىَ تجِارَةٍ تُنجِيكمُ منْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَ رَسُولِهِ وَ تجُاهِدُونَ فىِ سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِكمُْ وَ أَنفُسِكُمْ ذَالِكمُْ خَيرْ لكمُْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُون» (صف: 10-11؛ طباطبايى، محمدحسين (1374 ق) الميزان فى تفسير القرآن، بيروت، مؤسسه الاعلمى للمطبوعات.1417، جلد 12: ص343ـ 341؛ جوادیآملی، عبدالله (1375) تفسیر موضوعی قرآنکریم، تهران، مرکز نشر فرهنگی رجا.، 1375، جلد 1:ص، 215).
[13] «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا من ذَكَرٍ أَوْ أُنثىَ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنهُ حَيَوةً طَيبَةً وَ لَنَجْزِيَنهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ» (نحل: ۹۷).۔