- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/27
- 0 رائ
۲۸۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
۲۹۔ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
ترجمہ:
۲۸۔ تم خدا سے کیونکر کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندگی دی پھر وہ تمہیں مارے گا اور دوبارہ تمہیں زندہ کرے گا اس کے بعد اسی کی طرف لوٹ جاوٴگے (اس بناء پر نہ تمہاری زندگی تمہاری طرف سے ہے اور نہ موت جو کچھ تمہارے پاس ہے خدا ہی کی طرف سے ہے)
۲۹۔ وہ خدا جس نے زمین کی تمام نعمتوں کو تمہارے لئے پیدا کیا ہے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمانوں کی صورت میں مرتب کیا اور وہ ہر چیز سے آ گا ہے۔
تفسیر
زندگی ایک اسرار آمیز نعمت ہے
مندر جہ بالا دو آیات میں قرآن نے نعمات الہی کے ایک سلسلے اور تعجب انگیز خلقت کا ذکر کرکے انسان کو پروردگار اور اس کی عظمت کی طرف متوجہ کر دیا ہے اور خدا شناسی کے سلسلے میں جو دلائل گذشتہ آیات (۲۱ و ۲۲) میں بیان کئے گئے ہیں ان کی تکمیل کر رہا ہے۔
قرآن یہاں وجود خدا کے اثبات کو ایسے نکتے سے شروع کر رہا ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا اور وہ ہے زندگی کا پر اسرار مسئلہ۔
پہلے کہتا ہے تم خدا کا کس طرح انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندہ کیا اور تمہارے بدن پر زندگی کا لباس پہنایا (کیف تکفرون بااللہ وکنتم امواتاَ فاحیاکم)۔
قرآن ہم سب کو یاد دہانی کرواتا ہے کہ- اس سے پہلے تم پتھروں، لکڑیوں اور بے جان موجودات کی طرح مردہ تھے اور نسیم زندگی کا تمہارے کوچے سے گذر نہ تھا لیکن اب تم نعمت حیات و ہستی کے مالک ہو۔ تمہیں اعضاء حواس اور ادراک کے کارخانہ عطا کئے گئے ہیں۔ یہ وجود حیات تمہیں کس نے عطا کیا ہے کیا یہ سب کچھ خود تم نے اپنے آپ کو دیا ہے۔ واضح ہے کہ ہر مصنف مزاج انسان بغیر کسی تردد کے اعتراف کرتا ہے کہ یہ نعمت خود اس کی اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ ایک مبداءا عالم و قادر کی طرف سے اسے ملی ہے جو زندگی کے تمام رموز اور پیچیدہ قوانین سے واقف تھا، انہیں منظم کرنے کی قدرت رکھتا تھا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں حیات و ہستی بخشنے والے خدا کا انکا کرتے ہیں۔
آج کے زمانے میں تمام علماء و محققین پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے پاس اس دنیا میں حیات و ہستی سے زیادہ پیچیدہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تمام تر عجیب وغریب ترقی کے باوجود جو طبعی علوم فنون کے سلسلے میں انسان کو نصیب ہوئی ہے ابھی تک حیات کا معمہ حل نہیں ہوسکا۔ یہ مسئلہ اس قدر اسرار آمیز ہے کہ لاکھوں علماء افکار اور کوششیں اب تک اس مسئلے کے ادراک سے عاجز ہوچکی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انتھک کوششوں کے سائے میں آئندہ تدریجاَ انسان رموز حیات سے آگاہ ہوسکے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص اس معاملے کو جو بہت گہرے غور و فکر کا نتیجہ ہے، اسرار انگیز ہے اور بہت زیادہ علم و قدرت کا محتاج ہے بے شعور طبیعت کی طرف نسبت دے سکتا ہے، وہ طبیعت جو خود حیات و زندگی سے عاری ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ہم کہتے ہیں کہ اس جہان طبیعت میں حیات و زندگی کا ظہور وجود خدا کے اثبات کی سب سے بڑی سند ہے اور اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
قرآن اوپر والی آیت میں خصوصیت کے ساتھ اسی مسئلے کا سہارا لیتا ہے ہم سر دست اسی مختصر اشارے سے گذر جاتے ہیں۔ قرآن اس نعمت کی یاد دہانی کے بعد ایک واضح دلیل پیش کرتا ہے اور وہ ہے مسئلہٴ موت، قرآن کہتا ہے: پھر خدا تمہیں مارے گا(ثم یحییکم)
انسان دیکھتا ہے کہ اس کے اعزاء و اقربا اور دوست و احباب یکے بعد دیگرے مرتے رہتے ہیں اور ان کا بے جان جسم مٹی کے نیچے دفن ہوجاتا ہے۔ یہ مقام بھی غوروفکر کا ہے کہ آخر کس نے ان سے وجود کو چھین لیا ہے اگر ان کی زندگی اپنی طرف سے تھی تو ہمیشہ رہتی یہ جو لے لی گئی ہے اس کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے نے انہیں دی تھی۔
زندگی پیدا کرنے والا وہی موت پیدا کرنے والا ہے چنانچہ سورہ ملک کی آیت ۲ میں ہے: الذین خلق الموت والحیٰوة لیبکوکم احسن عملاَ
خدا وہ ہے جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں حسن عمل کے میدان میں آزمائے
قرآن نے وجود خدا پر ان دو واضح دلیلوں کو پیش کیا ہے دوسرے مسائل کے لئے روح انسانی کو آمادہ کیا ہے اور بحث سے مسئلہ معاد اور موت کے بعد زندگی کو بیان کیا ہے۔ پھر کہتا ہے: اس کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا (ثم یحییکم)۔ البتہ موت کے بعد یہ زندگی کسی طرح تعجب خیز نہیں کیونکہ پہلے بھی انسان اسی طرح تھا پہلی دلیل (یعنی بے جان کو زندگی عطا کرنا) کی طرف متوجہ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ اجزاء بدن کے منتشر ہونے کے بعد زندگی ملنے کے مسئلے کو قبول کرنا مشکل نہیں بلکہ پہلی دفعہ کی نسبت آسان ہے اگر چہ جس ذات کی قدرت لامتناہی ہو اس کے لئے تسہیل و مشکل کوئی مفہوم نہیں رکھتا)۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں انسانوں کی زندگی میں شک اور تردد تھا حالانکہ پہلی زندگی جو بے جان موجودات سے صورت پذیر ہوئی ہے اسے جانتے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن آغاز سے اختتام تک دفتر حیات کو انسان کے سامنے کھولتا ہے اور ایک مختصرسے بیان میں زندگی کی ابتداء و انتہا اور مسئلہ معاد و قیامت کی اس کے سامنے تصویر کشی کرتا ہے۔
اس آیت کے آخر میں کہتا ہے: پھر اس کی طرف تمہاری بازگشت ہوگی (ثم الیہ ترجعون)۔ خدا کی طرف رجوع کرنے کے معنی وہی خدا کی نعمتوں کی طرف رجوع کرنا ہیں یعنی قیامت اور دوبارہ قبروں سے اٹھنے والے دن کی نعمتوں کی طرف رجوع کروگے۔ اس کی شاہد سورہ انعام کی آیت ۳۶ ہے جہاں فرماتاہے۔
و الموتی یبعثھم اللہ ثم الیہ یرجعون
خدا مردوں کو قبروں سے اٹھائے گا اور اسی کی طرف ان کی بازگشت ہوگی۔
ممکن ہے خدا کی طرف رجوع کرنے سے مقصود کوئی ایسی حقیقت ہو جو اس سے زیادہ دقیق و باریک ہو اور وہ یہ کہ تمام موجودات نے اپنا سفر نقطہٴ عدم جو نقطہٴ صفر ہے سے شروع کیا ہے اور تمام موجودات سیر تکامل میں ہیں اور لامتناہی کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ذات پروردگار ہے لہذا مرنے سے سیر تکامل کا سلسلہ معطل نہیں ہوتا اور دوسری مرتبہ قیامت میں زندگی کی زیادہ بلند سطح کی طرف یہ تکامل جاری و ساری رہے گی۔
نعمت حیات اور مسئلہ مبداء و معاد کے ذکر کے بعد خدا ایک وسیع نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: خدا وہ ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا ہے (ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا) اس تربیت سے انسانوں کی وجودی قدروقیمت اور زمین کے تمام موجودارت پر ان کی سرداری کو مشخص کیا گیا ہے۔ اسی سے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا نے انسان کو بہت بڑے قیمتی اور عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ تمام چیزوں کو تو اس کے لئے پیدا کیا ہے۔ اب اسے کس لئے پیدا کیا ہے۔ انسان اس صحن عالم میں عالی ترین وجود ہے اور صحن عالم میں سب سے زیادہ قدر وقیمت رکھتا ہے۔
صرف یہی آیت نہیں جس مین انسان کے بلند ترین مقام کو بیان کیا گیا ہے بلکہ قرآن میں بہت سی ایسی آیات ملتی ہیں جو انسان کا تعارف تمام تر موجودات کا مقصود اصلی کی حیثیت سے کراتی ہیں جیسا کہ سورہ جاثیہ کی آیہ ۱۳ میں آیا ہے:
وسخرلکم ما فی السمٰوات وما فی الارض
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو تمہارے لئے مسخر قرار دیا ہے۔
دوسری جگہ اس سے زیادہ تفصیل بیان ہوئی ہے:
و سخرلکم الفلک و سخر لکم الانھار (۱) وسخر لکم اللیل والنھار (۲) وسخر البحر (۳) و سخر الشمس والقمر (۴)
کشتیوں کو تمہارے لئے مسخر کیا گیا اور دریاؤں کو تمہارے لئے مسخر کیا.․ دن اور رات کو تمہارے لئے مسخر کیا اور سمندروں کو مسخر کیا اور آفتاب و ماہتاب کو بھی تمہارا فرماں بردار اور خدمت گذار قرار دیا ۔(۵)
دوبارہ توحید کے دلائل کی طرف لوٹتے ہوئے کہتا ہے: پھر خداوند عالم آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمانوں کی صورت میں مرتب کیا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے (ثم استوی الی السماء فسواھن سبع سمٰوٰت و ھو بکل شیء علیم)۔
لفظ” استوی “مادہ “استواء“سے لیا گیا ہے لغت میں اس کے معنی ہیں احاطہٴ کامل، تسلط اور خلقت و تدبیر پر مکمل قدرت۔ لفظ ”ثم“ جملہ ”ثم استوی الی السماء“ میں ضروری نہیں کہ تاخیر زمانی کے معنی میں ہو بلکہ ہو سکتا ہے اس کے معنی تاخیر بیان اور حقائق کو ایک دوسرے کے بعد لانا ہو۔
اس سلسلہ میں زیادہ تر بحث اسی تفسیر میں سورہ رعد آیہ ۲ اور سورہ ابراہیم آیات ۳۲ اور ۳۳، میں کی گئی ہے۔
چند اہم نکات
(۱) تناسخ ا ور ارواح کا پلٹ آنا
اوپر والی آیت ان میں سے ہے جو عقیدہ تناسخ کی صریحا نفی کرتی ہیں کیونکہ تناسخ کا عقیدہ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوسری دفعہ اسی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے البتہ ہوتا یہ ہے کہ اس کی روح دوسرے جسم اور دوسرے نطفے میں حلول کرکے نئے سرے سے اسی دنیا میں زندگی کا آگاز کرتی ہے اور ممکن ہے اسی سلسلہ کا بارہا تکرار ہو۔ اس جہان میں اس مکرر زندگی کو تناسخ یا عود ارواح کہتے ہیں۔ مندرجہ بالا آیت صراحت سے بیان کرتی ہے کہ موت کے بعد ایک سے زیادہ زندگی نہیں ہے معلوم ہے کہ یہ حیات وہی معاد و قیامت کی حیات ہے۔ بہ الفاظ دیگر آیت کہتی ہے کہ مجموعی طور پر تمہاری دو زندگیاں اور دو اموات تھیں اور ہیں پہلے مردہ تھے (بے جان عالم موجودات میں تھے) خداوند عالم نے تمہیں زندہ کیا پھر وہ مارے گا اور دوبارہ زندہ کرے گا۔ اگر تناسخ صحیح ہوتا تو انسان کی حیات اور موت کی تعداد دو دو سے زیادہ ہوتی۔
یہی مضمون قرآن کی اور متعدد آیات میں بھی نظر آتا ہے جن کی طرف اپنی اپنی جگہ اشارہ ہوگا۔[79]
اس بناء پر تناسخ کا عقیدہ جسے عود ارواح بھی کہا جاتا ہے قرآن کی نظر میں باطل اور بے اساس ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس روشن عقلی دلیلیں بھی موجود ہیں جو اس عقیدہ کی نفی کرتی ہیں جن سے یہ ایک قسم کا دقیانوسی اور قانون تکامل کی رجعت قہقری کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کے متعلق اس کی اپنی جگہ گفتگو کی گئی ہے[80]
اس نکتے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ شاید بعض لوگ مندرجہ بالا آیت کو برزخ کی زندگی کی طرف اشارہ قرار دیں حالانکہ آیت اس پرکسی طرح دلالت نہیں کرتی صرف اتنا کہتی ہے کہ پہلے تم بے جا ن جسم تھے خداوند عالم نے تمہیں پیدا کیا دوبارہ وہ تمہیں مارے گا جو اشارہ ہے اس دنیا کی زندگی کے اختتام کی طرف پھر تمہیں زندہ کرے گا (یہ حیات آخرت کی طرف اشارہ ہے) اور اسی کی طرف تم اپنی سیر تکامل جاری رکھوگے۔
(۲) سات آسمان: لفظ ”سما“ لغت میں ”اوپر“ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور ایک جامع مفہوم جس کے مختلف مصادیق ہیں لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لفظ قرآن میں گونا گوں موقعوں پر استعمال ہوا ہے
(۱) کبھی زمین کے پڑوس میں ”اوپر“ و الی جہت پر بولا جاتا ہے جیسے کہ ارشاد ہے: الم ترکیف ضرب اللہ مثلاَ کلمة طیبة کشجرة طیبة اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء
کیا تو نے دیکھا نہیں کہ خداوند عالم نے پاک گفتگو کو کس طرح ایک ایسے پاکیزہ درخت سے تشبیہ دی ہے
جس کی جڑیں مضبوط و ثابت ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں۔ (ابراہیم۔ ۲۴)
(اا) کبھی لفظ ”سماء“ سطح زمین سے بہت دور (بادلوں کی جگہ) کے لئے بولا جاتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا:
ونزلنا من السمآء مآء مبرکا
ہم آسمان سے برکتوں والا پانی نازل کرتے ہیں(ق۔ ۹)
(ااا) کبھی اطراف زمین کی ہوائے متراکم کی جلد کو آسمان کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
و جعلنا السماء سقفا محفوضا
ہم نے آسمان کو محکم و مضبوط چھت قرار دیا ہے(انبیاء ۳۲)
یہ اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ زمین کی فضا جو چھت کی طرح ہمارے سروں پر بر قرار ہے وہ اتنی مضبوط ہے کہ کرہ ٴ ارض کو آسمانی پتھروں کے گرنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ یہ پتھر جو مسلسل شب و روز کششِ زمین کے مرکز میں آتے ہیں اور اس کی طرف کھچے آتے ہیں اگر ہوائے متراکم کی جلد نہ ہو تو ہمیشہ ان خطرناک پتھروں کی زد میں رہیں لیکن اس جلد کا وجود اس بات کا سبب بنتا ہے کہ یہ پتھر فضائے زمین ہی میں جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں۔
اور کبھی اوپر کے کروں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے:
ثم استوی الی السماء وھی دخان
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جب کہ وہ دھواں اور بخارات تھے پہلی گیس سے کرات کو پیدا کیا۔(فصلت ،اا)(حم سجدہ)
اب اصل بات کی طرف لوٹے ہیں کہ سات آسمانوں سے کیا مراد ہے۔ اس سلسلے میں مفسرین اور علماء اسلام کے گوناگوں بیانات اور مختلف تفاسیر ہیں۔
(الف) بعض سات آسمانوں سے وہی سبع سیارات (سات ستارے (یعنی عطارد، زہرہ ، مریخ، مشتری، زحل، چاند اور سورج ) مراد لیتے ہیں۔ علماء ہئیت قدیم کے نزدیک چاند اور سورج بھی سیارات میں داخل تھے۔[81]
(ب) بعض کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد زمین کے گرد ہوائے متراکم کے طبقات ہیں اور وہ مختلف تہیں جو ایک دوسرے کے اوپر ہیں۔
(ج) بعض کہتے ہیں یہاں سات کا عدد تعدادی عدد(عدد مخصوص) کے معنی میں نہیں بلکہ عدد تکثیری ہے جس کے معنیٰ ہیں زیادہ اور تعداد فراواں، کلام عرب اور خود قرآن میں کئی جگہ اس کی نظیریں موجود ہیں مثلاَ سورہ لقمان آیت ۲۷ میں ہے:
ولوان ما فی الارض من شجرةاقلام والبحر یمدہ من بعدہ سبعةابحر ما نفدت کلمت اللہ
اگر زمین کے درخت قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائیں اور سات سمندر مزید مل جائیں تو بھی کلمات خدا کو لکھا نہیں جا سکتا۔
بالکل واضح ہے کہ سات آیت میں سات سے مراد عدد مخصوص سات نہیں بلکہ اگر ہزار سمندر بھی سیاہی بن جائیں تو اس سے خدا کے لاماتناہی علم کو نہیں لکھا جاسکتا۔ اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ سات آسمانوں سے متعدد آسمان اور عالم بالا کے بہت سے کرات مراد ہیں اور اس سے کو ئی عدد مخصوص مراد نہیں۔
(د) جو بات زیادہ صحیح دکھا ئی دیتی ہے وہ یہ کہ”سموات سبع“ سے مراد آسمان ہی ہے جو اس کے حقیقی معنی ہیں۔ مختلف آیات قرآن میں اس عبارت کا تکرار ظاہر کرتا ہے کہ سات کا عدد یہاں کثرت کے معنی میں نہیں بلکہ کسی خاص عدد کی طرف اشارہ ہے البتہ آیات قرآن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمام کرات، ثوابت اور سیارات جو ہم دیکھ رہے ہیں پہلے آسمان کا جزء ہیں اور چھ عالم اس کے علاوہ موجود ہیں جو ہماری نگاہ اور آج کے علمی آلات کی دسترس سے باہر ہیں اور مجموعی طور پرسات آسمانوں سے سات عالم تشکیل پذیر ہیں
قرآن اس گفتگو کا شاہد ہے:
و زینا السماء الدنیا بمصابیح
ہم نے نچلے آسمان کو ستاروں کے چراغوں سے سجایا۔(فصلت، ۱۲)
دوسری جگہ پر یوں ہے۔
انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب
یقناَ ہم نے نچلے آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی(الصفت ۔ ۶)
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں۔ جسے ستاروں کی دنیا کہتے ہیں سب آسمان اول ہے اس کے علاوہ چھ آسمان اور موجود ہیں جن کی جزئیات کے متعلق ہمیں کوئی اطلاع نہیں۔
یہ جو کچھ ہم نے کہا ہے کہ چھ اور آسمان ہیں جو ہمارے لئے مجہول ہیں اور ممکن ہے کہ آئندہ علوم ان سے پردہ اٹھائیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے ناقص علوم جتنے آگے بڑھتے ہیں خلقت کے نئے عجائبات تک دسترس حاصل کرتے ہیں مثلاَ علم ہیئت ابھی وہاں تک پہنچا ہے جہاں سے آگے ٹیلی سکوپ telescope) دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا۔
بڑی بڑی رصد گاہوں کے انکشافات ایک عرب نوری سال کے فاصلے تک پہنچ چکے ہیں اور سائنس دان معترف ہیں کہ یہ تو آغاز عالم ہے اختتام نہیں لہذا اس میں کیا مانع ہے کہ آئندہ علم ہیئت کی ترقی سے مزید آسمان، کہکشاںیں اور دوسرے عوالم کا انکشاف ہو جائے۔ بہتر ہے کہ گفتگو دنیا کی بہت بڑی رصد گا ہ سے سنی جائے۔
(۳) عظمت کا ئنات: پالو مار کی رصد گاہ نے جہانِ بالا کی اس طرح توصیف کی ہے:
”جب تک پالو مار کی رصد گاہ کی دور بین نہیں بنی تھی دنیا کی وسعت جو ہمیں نظر آتی تھی پانچ سو نوری سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اب اس دوربین نے ہماری دنیا کی وسعت ایک عرب نوری سال تک پہنچا دی ہے اس کے نتیجے میں کئی ملین نئی کہکشانؤں کا انکشاف ہوا ہے جن میں سے بعض ہم سے ایک عرب نوری سال کے فاصلہ پرواقع ہیں لیکن ایک عرب نوری سال کے فاصلہ کے بعد ایک عظیم مہیب اور تاریک فضا نظر آتی ہے جس کی کوئی چیز دیکھائی نہیں دیتی یعنی روشنی وہاں سے عبور نہیں کرسکتی کہ رصدگاہ کی دوربین کے صفحہ عکاسی کو متاثر کرے لیکن بلاشک اس مہیب و تاریک فضا میں کئی سو ملین کہکشانیں موجود ہیں لیکن ہماری دنیا ان کہکشانؤں کی کشش سے محفوظ ہے۔
یہ عظیم دنیا جو نظر آرہی ہے جس میں کئی سو ملین کہکشانیں موجود ہیں ایک عظیم تر جہان کا چھوٹا سا ذرہٴ بے مقدار ہے اور ابھی ہم یقین سے نہیں کہ سکتے کہ اس دوسری دنیا کے اوپر بھی کوئی اور دنیا ہے“[82]
اس گفتگو سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیائے علم، آسمانوں کے بارے میں اپنی حیرت انگیز ترقی کے باوجود اپنے انکشافات کو آغاز جہاں سمجھتی ہے نہ کہ اس کا اختتام بلکہ ایک عظیم جہان کے مقابلے میں اسے ایک چھوٹا سا ذرہ خیال کرتی ہے۔
……………….
حواله جات
[79]. موضوع رجعت کی وجہ سے اس مسئلے پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا رجعت اول تو ایک مخصوص طبقہ کے لئے ہے اس میں عمومیت نہیں ہے جب کہ زیر نظر آیت ایک حکم کلی بیان کر رہی ہے پھر نتائج میں اجسام اور ان کے اجزاء الگ الگ ہوتے ہیں جب کہ رجعت میں ایسا نہیں ہے۔
[80]. کتاب ”عود ارواح و ارتباط ارواح“ کی طرف رجوع فرمائیں
[81]. بعض علماء نے نظام شمسی کے دس کرات (نو سیارے مشہور ہیں ایک اورسیارہ بھی ہے جو مریخ اور مشتری کے درمیان تھا لیکن وہ منتشر ہو گیا اس کا کچھ حصہ اسی طرح اسی مدار زمیں محو گردش ہے) کو دو حصوں تقسیم کیا ہے ایک گروہ وہ ہے جو مدار زمین میں گردش کر رہے ہیں(جن میں عطارد اور زہرہ شامل ہیں) اور ایک گروہ مدار زمین سے باہر اور اس کے اوپر کی طرف ہے۔ شاید اسی تفسیر سے یہی باہر کے سات سیارے مراد ہیں۔
[82]. مجلہ فضا ”شمارہ فروردین ۲۳۵۱ ہجری شمسی.