- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/30
- 0 رائ
۳۰۔ وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ
۳۱۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاء هَـؤُلاء إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
۳۲- قَالُواْ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
۳۳۔ قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَآئِهِمْ فَلَمَّا أَنبَأَهُمْ بِأَسْمَآئِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ
ترجمہ
۳۰۔ جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں روئے زمین پر ایک جانشین اور حاکم مقرر کرنے لگا ہوں تو فرشتوں نے کہا (پروردگارا) کیا ایسے شخص کو مقرر کرے گا جو زمین پر فساد اور خونریزی کرے گا (کیوں آدم سے پہلے زمین کے دوسرے موجودات جو عالم وجود میں آ چکے ہیں ان کی طبیعت اور مزاج جہان مادہ کے حکم کا پابند ہے لہذا وہ فساد اور خونریزی کے گناہ ہی میں مبتلا تھے لیکن خلقت انسان کا مقصد اگر عبادت ہے تو) ہم تیری تسبیح اور حمد بجالا تے ہیں (اس پر پروردگار عالم نے فرمایا: میں حق کو جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
۳۱۔ پھر علم اسماء (علم اسرار خلقت اور موجودات کے نام رکھنے کا علم) سب کا سب آدم کو سکھایا پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر سچ کہتے ہو تو بتاؤ ان کے نام کیا ہیں۔
۳۲۔ فرشتوں نے کہا تو پاک و منزہ ہے جو تو نے ہمیں تعلیم دی ہے ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تو حکیم ودانا ہے۔
۳۳۔ فرمایا: اے آدم- انہیں ان (موجودات) کے ناموں اور اسرار) سے آگاہ کر دے جب اس نے انہیں آگاہ کر دیا تو خدا نے فرمایا: میں نہ کہتا تھا کہ میں آسمان اور زمین کا غیب جانتا ہوں اور تم جن چیزوں کو ظاہر کرتے اور چھپاتے ہو انہیں بھی جانتا ہوں۔
تفسیر
زمین میں خدا کا نمائندہ انسان
گذشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں کہ خدا نے زمین کی تمام نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور ان آیات میں رسمی طور پر انسان کی رہبری اور خلا فت کی تشریع کی گئی ہے اور اس روحانی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ان تمام احسانات کے لائق تھا۔
ان آیات میں آدم (پہلے انسان) کی خلقت کی کیفیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور آیات کے اس سلسلہ میں جو آیہ ۳۰ سے شروع ہو کر ۳۹ تک پہنچتا ہے تین بنیادی مسائل کو بیان کیا گیا ہے؛
(۱) پروردگار عالم کا فرشتوں کو زمین میں انسان کی خلافت و سرپرستی کے بارے میں خبر دینا اور وہ گفتگو جو فرشتوں نے اس سلسلے میں خدا سے کی۔
(۲) پہلے انسان کے لئے فرشتوں کو خضوع و تعظیم کا حکم جس کا ذکر مختلف مناسبات سے قرآن کی مختلف آیات میں کیا گیا ہے۔
(۳) بہشت میں آدم کی کیفیت اور رہنے کی تشریع، وہ حوادث جو جنت سے ان کے نکلنے کا سبب بنے، آدم کا توبہ کرنا اور پھر آدم اور اولاد آدم کا زمین میں آکر آباد ہونا۔
زیر بحث آیات ان میں سے پہلی منزل کی بات کرتی ہیں۔ خدا کی خواہش یہ تھی کہ روئے زمین پر ایک ایسا موجود خلق فرمائے جو اس کا نمائندہ ہو، اس کی صفات صفات خداوندی کا پرتو ہوں اور اس کا مرتبہ و مقام فرشتوں سے بالا تر ہو،۔ خدا کی خواہش اور ارادہ یہ تھا کہ ساری زمین اور اس کی نعمتیں، تمام قوتیں سب خزانے، تمام کانیں اور سارے وسائل بھی اس کے سپرد کردیئے جائیں۔ ضروری ہے کہ ایسا شخص عقل و شعور، ادراک کے وافر حصے استعداد کا حامل ہو جس کی بناء پر موجودات ارضی کی رہبری اور پیشوائی کا منصب سنبھال سکے۔
یہ وجہ ہے کہ پہلی آیت کہتی ہے یاد کریں اس وقت کو جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں روئے زمین پر جانشین مقرر کرنے والا ہوں (و اذ قال ربک للملٰکة انی جاعل فی الارض خلیفة)۔
” خلیفة کے معنی ہیں جانشین۔ لیکن یہاں اس سے کس کا جانشین مراد ہے اور کس چیز میں جانشین ہے، مفسرین نے اس کی مختلف تفسیریں کی ہیں:
بعض کہتے ہیں انسان یا اور موجودات کا جانشین جو زمین میں پہلے زندگی گذارتے تھے۔
بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ انسان کی دوسری نسلیں ایک دوسرے کا جانشین ہوں گی۔
لیکن انصاف یہ ہے جسے بہت سے محققین نے بھی قبول کیا ہے کہ اس سے مراد خلافت الہی اور زمین میں خدا کی نمائندگی ہے کیونکہ اس کے بعد فرشتوں کا سوال اور ان کا کہنا کہ ممکن ہے نسل آدم مبداء فساد و خونریزی ہو جب کہ ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اسی معنی سے مناسبت رکھتا ہے کیونکہ زمیں میں خدا کی نمائندگی ان کاموں کے ساتھ سازگار نہیں ۔
اسی طرح آدم کو ”اسماء“ کی تعلیم دینا جس کی تفصیل بعد میں آئے گی اس دعوے پر ایک او رواضح قرینہ ہے اور آدم کے سامنے سجدہ بھی اسی مقصد کا شاہد ہے۔
بہر حال خدا چاہتا تھا کہ ایسے وجود کو پیدا کرے جو عالم وجود کا گلدستہ ہو اور خلافت الہی کے مقام کی اہلیت رکھتا ہو اور زمین میں اللہ کا نمائندہ ہو۔
ان آیات کی تفسیر میں ایک حدیث جو امام صادق علیه السلام سے مروی ہے وہ بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ فرشتے مقام آدم پہچاننے کے بعد سمجھ گئے کہ آدم اور ان کی اولاد زیادہ حقدار ہیں کہ وہ روئے زمین میں خلفاء الہی ہوں اور مخلوق پر ان کی حجت ہوں۔
زیر بحث آیت مزید بیان کرتی ہے کہ فرشتوں نے حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے نہ کہ اعتراض کی غرض سے عرض کیا: کیا زمین میں اسے (جانشین) قرار دے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا (قالو اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء) جب کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں، تیری تسبیح و حمد کرتے ہیں اور جس چیز کی تیری ذات لائق نہیں اس سے تجھے پاک سمجھتے ہیں (ونحن سبح بحمدک ونقدس لک)۔
مگر یہاں خدا نے انہیں سربستہ و مجمل جواب دیا جس کی وضاحت کے بعد کے مراحل میں آشکار ہوئی فرمایا: میں ایسی چیزوں کو جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے (قال انی اعلم مالا تعلمون)
جیسے کہ ان کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے سمجھ گئے تھے کہ یہ انسان سربراہی نہیں بلکہ فساد کرے گا، خون بہائے گا اور خرابیاں کرے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آخر وہ کس طرح سمجھے تھے۔
بعض کہتے ہیں خدا نے انسان کے آئندہ حالات بطور اجمال انہیں بتائے تھے جب کہ بعض کا احتمال ہے کہ ملائکہ اس مطلب کو لفظ فی الارض (زمین میں) سے سمجھ گئے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے انسان مٹی سے پیدا ہو گا اور مادہ اپنی محدودیت کی وجہ سے طبعا مرکز نزاع و تزاحم ہے کیونکہ محدود مادی زمانہ انسانوں کی طبعیت کو سیر و سیراب نہیں کرسکتا جو زیادہ کی طلب رکھتی ہے یہاں تک کہ اگر ساری دنیا ایک فرد کو دے دی جائے تو ممکن ہے وہ پھر بھی سیر نہ ہو اگر کافی احساس ذمہ داری نہ ہو تو یہ کیفیت فساد اور خونریزی کا سبب بنتی ہے۔
بعض دوسرے مفسرین معتقد ہیں کہ فرشتوں کی پیشین گوئی اس وجہ سے تھی که آدم روئے زمین کی پہلی مخلوق نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی دیگر مخلوقات تھیں جنہوں نے نزاع، جھگڑا اور خونریزی کی تھی۔ ان سے پہلے کی مخلوق کی بری فائل نسل آدم کے بارے میں فرشتوں کی بد گمانی کا باعث بنی۔
یہ تین تفاسیر ایک دوسرے سے کچھ زیادہ اختلاف نہیں رکھتیں یعنی ممکن ہے یہ تمام امور فرشتوں کی اس توجہ کا سبب بنے ہوں اور در اصل یہ ایک حقیقت بھی تھی جسے انہوں نے بیان کیا تھا یہ وجہ ہے کہ خدا نے جواب میں کہیں بھی اس کا انکار نہیں کیا بلکہ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ ایسی مزید حقیقتیں انسان اوراس کے مقام کے بارے میں موجود ہیں جن سے فرشتے آگاہ نہیں تھے۔
فرشتے سمھجتے تھے اگر مقصد عبودیت اور بندگی ہے تو ہم اس کے مصداق کامل ہیں ہمیشہ عبادت میں ڈوبے رہتے ہیں لہٰذا سب سے زیادہ ہم خلافت کے لائق ہیں لیکن وہ اس سے بے خبر تھے کہ ان کے وجود میں شہوت و غضب اور قسم قسم کی خواہشات موجود نہیں جب کہ انسان کو میلانات و شہوات نے گھیر رکھا ہے اور شیطان ہر طرف سے اسے وسوسے ڈالتا رہتا ہے لہذا ان کی عبادت انسان کی عبادت سے بہت زیادہ تفاوت رکھتی ہے۔ کہاں اطاعت اور فرمانبرداری ایک طوفان زدہ کی اور کہاں عبادت ان ساحل نشینوں کی جو مطمئن، خالی ہاتھ اور سبک بار ہیں۔
انہیں کب معلوم تھا کہ آدم کی نسل سے محمد، ابراہیم، نوح، موسیٰ اور عیسی علیھم السلام جیسے انبیاء اور ائمہ اہل بیت جیسے امام اور صالح بندے اور جانباز شہید مرد اور عورتیں عرصہ وجود میں قدم رکھیں گے جو پروانہ وار اپنے آپ کو خدا کی راہ میں پیش کریں گے۔ ایسے افراد جن کے غور و فکر کی ایک گھڑی فرشتوں کی سالہا سال کی عبادت کے برابر ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ فرشتوں نے اپنی صفات کے بارے میں تین چیزوں کا سہارا لیا تسبیح، حمد اور تقدیس۔ اس میں شک نہیں کہ تسبیح اور حمد کے معنی ہیں خدا کو ہر قسم کے نقص سے پاک اور ہر قسم کے کمال کا اہل سمجھنا لیکن یه کہ تقدیس سے کیا مقصود ہے۔
بعض نے تقدیس کے معنی ”پروردگار کو ہر قسم کے نقصان سے پاک شمار کرنا“ بیان کئے ہیں جو کہ در اصل تسبیح کے معنی کی تاکید ہے۔
لیکن بعض معتقد ہیں کہ تقدیس مادہ ” قدس“ سے ہے جس کے معنی ہیں روئے زمین کو فاسد اور مفسد لوگوں سے پاک کرنا یا اپنے آپ کو ہر قسم کی بری اور مزموم صفات سے پاک کرنا اور جسم وجان کو خدا کے لئے پاک کرنا لفظ” لک“ کو جملہ ”نقدس لک“ میں اس مقصود کے لئے شاہد قرار دیتے ہیں کیونکہ فرشتوں نے یہ نہیں کہا کہ ”نقدسک“ یعنی ہم تجھے پاک سمجھیں گے بلکہ انہوں نے کہا ”نقدس لک“ یعنی تیرے لئے معاشرے کو پاک کریں گے۔
در حقیقت وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہدف اور غرض، اطاعت اور بندگی ہے تو ہم فرمانبردار ہیں اور اگر عبادت ہے تو ہم ہر وقت اس میں مشغول ہیں اور اگر اپنے آپ کو پاک رکھنا یا صفحہ ارضی کو پاک رکھنا ہے تو ہم ایسا کریں گے جب کہ یہ مادی انسان خود بھی فاسد ہے اور روئے زمین کو بھی فاسد کردے گا۔
حقائق کو تفصیل سے ان کے سامنے واضح کرنے کے لئے خداوند عالم نے ان کی آزمائش کے لئے اقدام کیا تاکہ وہ خود اعتراف کریں کہ ان کے اور اولاد آدم کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔
فرشتے امتحان کے سانچے میں
پروردگار کے لطف و کرم سے آدم حقائق عالم کے ادراک کی کافی استعداد رکھتے تھے خدا نے ان کی اس استعداد کو فعلیت کے درجہ تک پہنچایا اور قرآن کے ارشاد کے مطابق آدم کو تمام اسماء (عالم وجود کے حقائق و اسرار) کی تعلیم دی (وعلم اٰدم الاسماء کلھا)۔
مفسرین نے اگر چہ– ”علم اسماء“ کی تفسیر میں قسم قسم کے بیانات دیئے ہیں لیکن مسلم ہے کہ آدم کو کلمات و اسماء کی تعلیم بغیر معنی کے نہیں دی تھی کیونکہ یہ کوئی قابل فخر بات نہیں بلکہ مقصد یہ تھا کہ ان اسماء کے معنی و مفاہیم اور جن چیزوں کے وہ نام تھے ان سب کی تعلیم ہو۔ البتہ جہان خلقت اور عالم ہستی کے مختلف موجودات کے اسماء وخواص سے مربوط علوم سے باخبر و آگاہ کیا جانا حضرت آدم کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق سے اس آیت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
الارضین والجبال و الشعاب والاودیہ ثم نظر الی بساط تحتہ فقال وھذا ابساط مماعلمہ۔
اسماء سے مراد زمینیں، پہاڑ، درے، وادیاں (غرض یہ کہ تمام موجودات) تھے اس کے بعد امام نے اس فرش کی طرف نگاہ کی جو آپ کے نیچے بچھا ہوا تھا اور فرمایا یہاں تک کہ یہ فرش بھی ان امور میں سے ہے کہ خدا نے جن کی آدم کو تعلیم دی[83]
اس سے ظاہر ہو کہ علم اسماء علم لغت کے مشابہ نہ تھا بلکہ اس کا تعلق فلسفہ، اسرار اور کیفیات و خواص کا تھا۔ خداوند عالم نے آدم کو اس علم کی تعلیم دی تاکہ وہ اپنی سیر تکامل میں اس جہان کی مادی اور روحانی نعمتوں سے بہرہ ور ہو سکیں۔ اسی طرح چیزوں کے نام رکھنے کی استعداد بھی انہیں دی تاکہ وہ چیزوں کے نام رکھ سکیں اور ضرورت کے وقت ان کا نام لے کر انہیں بلا سکیں یا منگوا سکیں اور یہ ضروری نہ ہو کہ اس کے لئے ویسی چیز دکھانی پڑے۔ یہ خود ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس موضوع کی اہمیت ہم اس وقت سمجھتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ انسان کے پاس اس وقت جو کچھ ہے کتاب اور لکھنے کی وجہ سے ہے اور گذرے ہوئے لوگوں کے سب علمی ذخائر ان کی تحریروں میں جمع ہیں اور یہ سب کچھ چیزوں کے نام رکھنے کے اور ان کے خواص کی وجہ سے ہے ورنہ کبھی بھی ممکن نہ تھا کہ ہم گذشتہ لوگوں کے علوم آنے والوں تک منتقل کر سکتے۔
پھر خداوند عالم نے فرشتوں سے فرمایا۔ اگر سچ کہتے ہو تو ان اشیاء اور موجودات کے نام بتاو ٴجنہیں دیکھ رہے ہو اور ان کے اسرار و کیفیات کو بیان کرو (ثم عرضھم علی الملائکة فقال انبئونی باسماء ھوٴلاء ان کنتم صدقین) لیکن فرشتے جو اتنا علم نہ رکھتے تھے اس امتحان میں رہ گئے؛ لہذا جواب میں کہنے لگے خداوندا! تو منزہ ہے تو نے ہمیں جو تعلیم دی ہے ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے (قالوا سبحنک لاعلم لنا الا ما علمتنا) تو خود ہی علیم و حکیم ہے (انک انت العلیم الحکیم)۔ اگر ہم نے اس سلسلے میں سوال کیا ہے تو یہ، ہماری نا آگاہی کی بناء پر تھا ہم نے یہ مطلب نہیں پڑھا تھا اور آدم کی اس عجیب استعداد اور قدرت سے بے خبر تھے جو ہمارے مقابلے میں اس کا بہت بڑا امتیاز ہے۔ بے شک وہ تیری خلافت و جانشینی کی اہلیت رکھتا ہے جہان ہستی کی سر زمین اس کے وجود کے بغیر ناقص تھی۔
اب آدم کی باری آئی کہ ملائکہ کے سامنے موجودات کا نام لیں اور ان کے اسرار بیان کریں۔ خداوند عالم نے فرمایا: اے آدم! فرشتوں کو ان موجودات کے ناموں سے آگاہ کرو (قال یا آدم انبئھم باسمائھم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السماوات والارض واعلم ما تبدون و ما کنتم تکتمون)
اس مقام پر ملائکہ نے اس انسان کی وسیع معلومات اور فراواں حکمت و دانائی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور ان پر واضح ہوگیا کہ صرف یہی زمین پر خلافت کی اہلیت رکھتا ہے۔
جملہ ”ماکنتم تکتمون“ (جو کچھ تم اپنے اندر چھپائے ہوئے ہو) اس بات کی نشاندہی ہے کہ فرشتوں نے جو کچھ ظاہر کیا تھا اس کے علاوہ کچھ دل میں چھپائے ہوئے تھے۔ بعض کہتے ہیں یہ ابلیس کے غرور و تکبر کی طرف اشارہ ہے جو ان دنوں ملائکہ کی صف میں رہتا رہتا تھا لہذا وہ بھی ساتھ ہی مخاطب تھا۔ اس نے دل میں پختہ ارادہ کر رکھا تھا کہ وہ آدم کے سامنے ہر گز نہیں جھکے گا۔
یہ بھی احتمال ہے فرشتے در حقیقت اپنے آپ کو روئے زمین پر خلافت الہی کے لئے ہر کس و ناکس سے زیادہ اہل سمجھتے تھے اگر چہ اس مطلب کی طرف اشارہ تو کر چکے تھے لیکن صراحت سے یہ بیان نہ کیا تھا۔
دو سوال اور ان کا جواب
دو سوال اس موقع پر باقی رہ جاتے ہیں پہلا یہ کہ خداوند عالم نے حضرت آدم کو کس طرح ان علوم کی تعلیم دی تھی اور دوسرا یہ کہ اگر ان علوم کی فرشتوں کو بھی تعلیم دے دیتا تو وہ بھی آدم والی فضیلت حاصل کر لیتے یہ آدم کے لئے کون سا افتخار و اعزاز ہے جو فرشتوں کے لئے نہیں۔
پہلے سوال کے جواب میں اس نکتے کی طرف توجہ کرنی چاہیئے کہ یہاں تعلیم جنبئہ تکوینی رکھتی ہے یعنی خدا نے یہ آگاہی آدم کی طبیعت و سرشت میں قرار دی تھی اور تھوڑی سی مدت میں اسے بار آور کردیا تھا۔
لفظ تعلیم کا اطلاق تعلیم تکوینی پر قرآن میں ایک جگہ اور بھی آیا ہے۔ سورہ رحمٰن آیہ ۴ میں ہے:
علمہ البیان
خداوند عالم نے انسان کو بیان کی تعلیم دی ہے
واضح ہے کہ یہ تعلیم خداوند عالم نے انسان کو مکتب آفرینش و خلقت میں دی ہے اور اس سے مراد وہی استعداد و خصوصیت فطری ہے جو انسانوں کے مزاج میں رکھ دی گئی ہے تاکہ وہ بات کرسکیں۔
دوسرے سوال کے جواب میں اس طرف توجہ رکھنی چا ہئیے کہ ملائکہ کی خلقت ایک خاص قسم کی ہے جس میں یہ تمام علوم حاصل کرنے کی اس تعداد نہیں ہے وہ ایک اور مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اس مقصد کے لئے ان کی تخلیق نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس امتحان کے بعد ملائکہ حقیقت حال سمجھ گئے اور انہوں نے قبول کرلیا۔ پہلے شاید وہ سوچتے تھے کہ اس مقصد کی اہلیت بھی ان میں ہے مگر خدا نے علم اسماء کے امتحان سے آدم اوران کی استعداد کا فرق واضح کر دیا۔
یہاں ایک اور سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اگر مقصود علم اسرار خلقت اور تمام موجودات کے خواص جاننا تھا تو پھر ضمیر ”ھم “ لفظ ” اسمائھم اور لفظ ھٰؤلاء “ کیوں استعمال ہوئے جو عموما افراد عاقل کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا نہیں کہ ضمیر ”ھم اور لفظ ھٰولاء صرف ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات عاقل اور غیر عاقل کے مجموعے پر یا یہاں تک کہ افراد غیر عاقل کے مجموعے کے لئے بھی بولے جاتے ہیں جیسے حضرت یوسف ستاروں، سورج اور چاند کے بارے میں کہتے ہیں۔ قرآن میں: رئیتھم لی ساجدین
میں نے خواب میں دیکھا یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ (یوسف ۔ ۴)
………….
حواله جات
[83]. مجمع البیان، زیر نظر آیات کے ضمن میں۔