- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/30
- 0 رائ
شیعہ کہتے ہیں کہ فروع دین شریعت کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق ان اعمال سے ہے جو عبادت میں جیسے: نماز، روزہ، زکات اور حج وغیرہ۔ ان کے بارے میں مندرجہ ذیل تین صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل واجب ہے:-
الف:- یا تو آدمی خود اجتہاد کرے اور احکام کے دلائل پر غور کرے (بشرطیکہ اس کا اہل ہو)۔
ب:- یا احتیاط پر عمل کرے بشرطیکہ احتیاط کی گنجائش ہو ۔
ج:- یا پھر کسی جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے ۔
جس کی تقلید کی جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ، عاقل، عادل پرہیزگار اور دین پر عامل ہو۔ اپنی خواہشات نفسانی پر نہ چلتا ہو بلکہ احکامات الہی کی پیروی کرتا ہو۔
فرعی احکام میں اجتہاد(1) تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہے، اگر کوئی ایک بھی مسلمان جس میں اس کام کی علمی لیاقت اور استعداد ہے، اس کام کو کرلے تو باقی مسلمانوں سےیہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے ۔
شیعہ ان علماء کا اجتہاد کافی سمجھتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنے میں صرف کی ہو۔ مسلمانوں کے لیے ایسے مجتہد کی تقلید کرنا اور فروع دین میں اس کی طرف رجوع کرنا جائز ہے۔ لیکن اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں اور نہ اس کا حصول سب کے لیے ممکن ہے۔ اس کے لیے بہت وقت اور بہت وسیع علمی معلومات کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ سعادت صرف اسے ہی میسّر آتی ہے جو سخت محنت اور کوشش کرتا اور اپنی عمر تحقیق و تعلم میں کھپاتا ہے۔ ان میں بھی اجتہاد کا رتبہ صرف خاص خاص خوش نصیبوں ہی کو حاصل ہوتا۔
رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
“من أراد الله به خيرا يفقّهه فی الدين”
اللہ جس کے ساتھ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔
اس سلسلے میں شیعوں کا یہ قول اہل سنت کے ایسے ہی قول سے مختلف نہیں۔ صرف اس بارے میں اختلاف ہے کہ تقلید کے لیے مجتہد کا زندہ ہونا ضروری ہے یا نہیں۔
لیکن شیعوں اور سنیوں میں واضح اختلاف اس میں ہے کہ تقلید پر عمل کیسے کیا جائے۔ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ وہ مجتہد جس میں مندرجہ ذیل بالا سب شرائط پائی جاتی ہوں امام علیہ السلام کا نائب ہے اور غیبت امام کے زمانے میں وہ حاکم اور سربراہ ہے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے اور لوگوں پر حکومت کرنے کے اسے وہی اختیارات حاصل ہیں جو امام کوہیں۔ مجتہد کے احکام کا انکار خود امام کا انکار ہے۔
شیعوں کے نزدیک جامع الشرائط مجتہد کی طرف صرف فتوے کے لیے ہی رجوع نہیں کیا جاتا بلکہ اسے اپنے مقلدین پر ولایت عامہ بھی حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے مقلدین اپنے مقدمات کے تصفیہ کے لیے بھی اپنے مجتہد ہی سے رجوع کرتے ہیں، جو خمس اور زکات میں امام زمانہ کے نائب کی حیثیت سے شریعت کے مطابق تصرف کرتا ہے۔ لیکن اہل سنت و الجماعت کے نزدیک مجتہد کا یہ مرتبہ نہیں ۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ امام نائب رسول ہوتا ہے۔ فقہی مسائل میں البتہ وہ صاحب مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان ائمہ اربعہ کے نام یہ ہیں:
(1):- ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی(سنہ 80 ھ تا سنہ 150ھ)۔
(2):- مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر اصبحی (سنہ 93 ھ تا سنہ 179 ھ)۔
(3):- محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان شافع(سنہ 150 ھ تا سنہ 198ھ)۔
(4):- احمد بن محمد بن جنبل بن ہلال (سنہ 164 ھ تا سنہ 241ھ)
موجودہ دور کے بعض اہل سنت ان میں کسی ایک معین امام کی تقلید نہیں کرتے، بلکہ اپنی مصلحت کے مطابق بعض مسائل میں کسی ایک امام کی تقلید کرتے ہیں اور کچھ دوسرے مسائل میں کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کرتے ہیں۔ سید سابق جنہوں نے چاروں اماموں کے فقہ سے ماخود ایک کتاب مرتب کی ہے، ایسا ہی کیا ہے کیونکہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اصحاب مذاہب کا اختلاف رحمت ہے۔ اس لیے اگر کسی مالکی کو اپنی مشکل کا حل اپنے امام کے یہاں نہ ملے اور امام ابوحنیفہ کے یہاں مل جائے تو وہ امام ابوحنیفہ کے قول پر عمل کرلے۔ میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ مطلب واضح ہو جائے: ہمارے یہاں تیونس میں ایک بالغ لڑکی تھی، یہ اس زمانے کی بات ہے
جب یہاں قاضی کورٹس ہوا کرتی تھیں۔ اس لڑکی کو ایک شخص سے محبّت ہوگئی۔ یہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر اس کا باپ اللہ جانے کیوں اس سے اس کے نکاح پر راضی نہیں تھا۔ آخر باپ کے گھر سے بھاگ گئی اور اس نے اس نوجوان سے باپ کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا۔ باپ نے شوہر کے خلاف دعوی دائر کر دیا۔ جب لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئی تو قاضی نے اس سے گھر سے بھاگنے اور ولی سے اجازت کے بغیر نکاح کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: “جناب عالی! میری عمر 25 سال ہے۔ میں اسے شخص سے اللہ رسول کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق شادی کرنا چاہتی تھی، لیکن میرا باپ میرا بیاہ ایسے شخص سے کرنا چاہتا تھا جو مجھے بالکل پسند نہیں تھا۔ میں نے امام ابوحنیفہ کے مذہب کے مطابق شادی کرلی کیونکہ امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق مجھے بالغ ہونے کی وجہ سے حق ہے کہ میں جس سے چاہوں شادی کرلوں”۔
اللہ بخشے قاضی صاحب جنھوں نے یہ قصہ مجھے خود سنایا تھا، کہنے لگے: جب ہم نے اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ لڑکی ٹھیک کہتی تھی۔ میرا خیال ہے شاید کسی جاننے والے عالم نے سکھایا تھا کہ عدالت میں جاکر کیا بیان دے۔
قاضی صاحب کہتے تھے کہ میں باپ کا دعوی خارج کر دیا اور نکاح کو باقی رکھا۔ باپ غصہ میں بھرا ہوا عدالت سے باہر نکلا۔ وہ ہاتھ ملا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کتیا حنفی ہو گئی “یعنی امام مالک کو چھوڑ کر امام ابوحنیفہ کا مذہب اختیار کرلیا۔ بعد میں وہ شخص کہتا تھا کہ میں اس کتیا کو عاق کردوں گا۔
یہ مسئلہ اجتہادی اختلاف کا ہے:-
امام مالک کی رائے ہے کہ کنواری باکرہ لڑکی کا نکاح سرپرست کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اگر مطلقہ یا بیوہ ہو تب بھی ولی کی اجازت ضروری ہے۔ ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ بالغہ چاہے باکرہ ہو یا مطلقہ و بیوہ اسے خود اپنا شوہر پسند کرنے اور عقد کرنے کا اختیار ہے۔ تو اس فقہی مسئلے نے باپ بیٹی میں جدائی ڈال دی۔ یہاں تک کہ باپ نے بیٹی کو عاق کردیا۔
پہلے زمانے میں تیونس میں اکثر باپ مختلف وجوہ سے بیٹیوں کو عاق کردیا کرتے تھے، جن میں سے ایک وجہ یہ ہوتی تھی کہ لڑکی جس سے شادی کرنا چاہتی تھی اس کے ساتھ بھاگ گئی۔ عاق کرنے کا انجام بڑا خراب ہوتا ہے کیونکہ جب باپ بیٹی کو میراث سے محروم کردیتا ہے تو لڑکی اپنے بھائیوں کی دشمن بن جاتی ہے اور بھائی خود بھی بہن کو چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ بہن کے بھاگنے کو بھائی اپنے لیے کلنک کا ٹیکہ سمجھتے ہیں۔ اس طرح معاملہ ویسا نہیں ہے جیسا کہ اہل سنت سمجھتے ہیں کہ اصحاب مذاہب فقہاء کا اختلاف ہمیشہ رحمت ہوتا ہے۔ کم از کم یہ اختلاف ہر مسئلے میں رحمت نہیں ہے، کیونکہ ہمارے لیے معاشرتی اور قبائلی اختلاف اور روایات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جس کی نشو و نما مالکی افکار پر ہوئی ہو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کو یہ حق ہو کہ گھر سے بھاگ جائے اور باپ کی اجازت کے بغیر کسی سے نکاح کر لے۔ جو عورت ایسا کرے گی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کرلے۔ جو عورت ایسا کرے گی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کیا یا ایک ناقابل معافی گناہ کا ارتکاب کیا۔ جب کہ دوسرے مذہب کی رو سے اس نے ایسا کا م کیا جو نہ صرف جائز ہے بلکہ اسے اس کا حق بھی ہے۔ اسی لیے مالکی معاشرے کو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حنفی معاشرے میں نسبتا جنسی آزادی اور آوارگی ہے۔ ان مذہبی اختلاف کے نتیجے میں عورت اپنے بہت سے حقوق سے محروم ہے اور وہ اس صورت حال کا الزام دین اسلام کےو دیتی ہے۔ اسی لیے ہم ان بعض نوجوان عورتوں کو الزام نہیں دے سکتے جو اپنے مذہب کا اس لیے انکار کرنے لگتی ہیں کیونکہ ان کے بڑے ان کے ساتھ خلاف شریعت ظالمانہ سلوک کرتے ہیں۔
اس مثال کے بعد ہم پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں:-
اہل سنت کے نزدیک جس امام کی تقلید کی جائے اس تقلید سے وہ درجہ حاصل نہیں ہوجاتا جس کے شیعہ قائل ہیں یعنی نیابت رسول کا درجہ۔ اس کی وجہ شوری اور “خلیفہ یا امام کے انتخاب کا نظریہ ہے۔ اہل سنت نے خود اپنے آپ کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ جس کو چاہیں خلیفہ یا بہتر الفاظ میں امام بنادیں۔ اسی طرح ان کے خیال میں انھیں یہ بھی حق ہے کہ وہ چاہیں تو امام کو معزول کردیں یا اس کے بجائے جس اپنی دانست میں بہتر سمجھیں اسے مقرر کردیں، اس طرح درحقیقت وہ امام کے بھی امام ہوگئے۔ یہ صورت شیعہ عقیدہ کے بالکل برعکس ہے اگر ہم اہل سنت کے پہلے امام یعنی ابو بکر صدیق پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ انھوں نے امت سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا:
” أيّهاالنّاس لقد ولّيت عليكم ولست بخيركم فإن أطعتُ فأعينوني وإن عصيتُ فقوّموني…….”
لوگو! مجھے تمھارا والی چن لیا گیا ہے اگر چہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ چنانچہ جب تک میں صحیح راستے پر چلوں میرے ساتھ تعاون کرو اور جب میں بھٹک جاؤں، تو مجھے صحیح راہ پر چلادو۔۔۔۔۔”۔
اس طرح ابو بکر خود اعتراف کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے ان کو پسند کیا ہے اور ان کی بیعت کی ہے انھیں یہ بھی حق ہے کہ معصیت اورخطا کی صورت میں وہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔
اس کے برعکس، جب ہم شیعوں کے پہلے امام یعنی علی بن ابی طالب ع پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ان کی امامت کے قائل ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ان کو امام مان کر دراصل حکم خداوندی کی تعمیل کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک امام علی علیه السلام کو ایسی ہی ولایت مطلقہ کیا ہو بھلا اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کوئی خطا کرے کسی معصیت کا مرتکب ہو؟ اسی طرح امت کے لیے بھی یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس کے کسی حکم کی مخالفت کرے یا اس کا مقابلہ کرے کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے:
“وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُبِيناً ”
چونکہ حضرت علی علیه السلام کو مسلمانوں کا امام اللہ اور اس کے رسول (ص) نے مقرر کیا تھا: اس لیے ان کی حکم عدولی نہیں کی جاسکتی تھی نہ یہ ممکن تھا کہ حضرت علی علیه السلام کسی معصیت کا ارتکاب کریں اسی لیے رسول اللہ(ص) نے فرمایا تھا:
“عليٌّ مع الحقّ والحقّ مع عليّ ولن يفرقا حتّى يردا عليّ الحوض .”
علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے جب تک میرے پاس حوض پر نہ آجائیں”(2)۔
…………………
حواله جات
(1):- اجتہاد کی اصطلاح شیعوں کے ہاں بھی موجود ہے لیکن اس کے اس کے وہ معنی جو سنیوں نے عملی طور پر اسے دے دیے ہیں۔ سنیوں کے ہاں عملا اجتہاد میں “ذاتی رائےکے اظہار” کا عنصر بھی موجود ہے جبکہ شیعوں میں اجتہاد فقط احکام الہی کو سمجھنے کی کوشش کا نام ہے اور مجتہد کسی طور پر بھی اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ البتہ اصطلاح کی تعریف کرتے وقت دونوں مکاتب کی اصولی کتابوں میں ایک ہی جملہ استعمال ہوتا ہے لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے سنیوں میں فقیہ یا غیر معصوم صحابی کی رائے کا احکام میں دخل ہے۔ جب کہ شیعوں کا مکتب صرف خدا اور رسول کے احکامات و ارشادات کو معتبر گردانتا ہے۔ مثلا امام محمد باقر ع یا امام جعفر صادق ع یہ نہیں کہتے تھے کہ انا اقول: (میں کہتا ہوں) کہ انا احرّم (میں حرام کرتا ہوں) بلکہ یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ نے یوں فرمایا ہے: یا خدا نے یوں فرمایا ہے۔ یہ مکتب اہل بیت ع کا امتیاز ہے۔
مکتب اہل بیت ع کے اصول تفکر کے نمونے کے طور پر ہم آپ کے لیے ایک بزرگ عالم عثمان بن سعید عمری کا قول ہے نقل کرتے ہیں جو حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء کے نائب خاص تھے جب انھوں نے ایک شیعہ کے سوال کے جواب میں ایک عمل کی حرمت کا فیصلہ دیا تو ان الفاظ کا اضافہ کیا:
“میں یہ فیصلہ اپنی طرف سے نہیں دے رہا۔ میرے لیے کسی صورت میں روا نہیں کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دوں”(یعنی میں فقط امام علیہ السلام کا قول نقل کر رہا ہوں) اصول کافی جلد 1 ۔وسائل الشیعہ جلد 18 صفحہ 100)(ناشر)
(2):- محمد بن عیسی ترمذی جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 297 ۔علاء الدین شقی ہندی کنزالعمال جلد 5 صفحہ 30 ۔ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 124۔ جار اللہ زمخشری ربیع الابرار۔ ابن حجر ہیثمی مکی صواعق محرقہ صفحہ 122 ۔ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 572۔ حافظ ابو بکر خطیب بغدادی تاریخ بغداد جلد 14 صفحہ 321 ۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق جلد 3 صفحہ 119 ۔ ابن قتیبہ دینوری الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 73۔
source : alhassanain