- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 3 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/30
- 0 رائ
تقلید کے بارے میں فریقین کا استدلال ان کے دو مختلف نظریوں کی بنیاد پر آسانی سے سجمھ میں آسکتا ہے۔ مطلب ہے سنیوں کا شوری کا نظریہ اور شیعوں کا نص کا نظریہ۔
اس کے بعد تقلید کے متعلق شیعوں اور سنیوں میں صرف ایک اور اختلافی مسئلہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے “تقلید میت کا مسئلہ”۔
اہل سنت جس ائمہ کی تقلید کرتے ہیں انھیں فوت ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں۔ اسی زمانے کے بعد سے اہل سنت کے یہاں اجتہاد کا دروازہ بند ہے۔ ان ائمہ کے بعد جو علماء ہوئے ان کی ساری توجہ صرف اگلی کتابوں کی شرحیں لکھنے اور مذاہب اربعہ کے مطابق فقہی مسائل کے نظم اور نثر میں مجموعے مرتب کرنے پر مرکوز رہی۔ اب چونکہ بہت سے ایسے مسائل پیدا ہو گئے ہیں جن کا ائمہ کے زمانے میں وجود بھی نہیں تھا۔ اس لیے بعض معاصرین آواز اٹھار ہے ہیں کہ زمانے کی مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ پھر سے کھول دیا جائے۔
اس کے برعکس، شیعہ میت کی تقلید جائز نہیں سمجھتے اور اپنے تمام احکام کے بارے میں ایسے زندہ مجتہد کی طرف رجوع کرتے ہیں جس میں وہ سب شرائط پائی جاتی ہون جن کا ہم نے گزشتہ اوراق میں ذکر کیا ہے یہ صورت امام معصوم کی غیبت کے زمانے میں ہے ۔ جب تک امام معصوم دوبارہ ظاہر نہیں ہوتے، شیعہ قابل اعتماد علماء ہی سے رجوع کرتے رہیں گے۔
آج بھی ایک سنّی مالکی مثلا کہتا ہے کہ امام مالک قول کے مطابق یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ حالانکہ امام مالک کو فوت ہوئے چودہ صدیاں گزر چکی ہیں۔ یہی صورت امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن جنبل کے پیرو کاروں کے ساتھ ہے کیونکہ یہ سب مذاہب اور ائمہ ایک ہی زمانے میں تھے اور ان کا ایک دوسرے سے استاد شاگرد کا تعلق تھا۔ اہل سنت اپنے ائمہ کے معصوم ہونے کے بھی قائل نہیں۔ نہ خود ان ائمہ نے کبھی عصمت کا دعوی کیا۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ائمہ جو اجتہاد کرتے ہیں اس میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال ہے۔ صواب کی صورت میں انھیں دو اجر ملتے ہیں اور خطا کی صورت میں ایک اجر۔ بہر کیف اجر ہر اجتہاد پر ملتا ہے۔
شیعوں کے نزدیک تقلید کے دو دور ہیں:۔
پہلا دورائمہ اثناعشر کا دور ہے۔ یہ مرحلہ تقریبا ساڑھے تین سو سال پر محیط ہے۔ اس دور میں ہر شیعہ امام معصوم کی تقلید کرتا تھا اور امام کوئی بات اپنی رائے یا اپنے اجتہاد سے بیان نہیں کرتے تھے۔ وہ جو کچھ کہتے تھے اسی علم اور ان روایات کی بنیاد پر کہتے تھے جو انھیں ابا عن جد رسول اللہ ص سے پہنچی تھیں۔ مثلا وہ کسی سوال کے جواب میں اس طرح کہتے تھے: “روایت بیان کی میرے والد نے، انھوں یہ روایت سنی اپنے نانا سے، انھوں نے جبریل سے انھوں نے اللہ عزوجل سے”(3)
۔ دوسرا دور زمانہ غیبت کا دور ہے جو ابھی تک چل رہا ہے۔ اب شیعہ یہ کہتا ہے کہ یہ چیز آیت اللہ سیستانی کی رائے کے مطابق یا آیت اللہ خامنه ای کی رائے کے مطابق حلال یا حرام ہے۔ یہ دونوں مجتہد زندہ ہیں۔ ان کی رائے سے مراد ہے قرآن اور ائمہ اہل بیت ع کی روایات کے مطابق سنت سے احکام کے استبناط میں ان کا اجتہاد، ائمہ اہل بیت ع کی روایات کےبعد دوسرے درجے میں صحابہ عدول یعنی معتبر صحابہ کی روایات ہیں۔ ائمہ اہل بیت ع کو ترجیح اس لیے ہے کہ وہ شریعت کے بارے میں اپنی رائے سے قطعی احتراز کرتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ:
“مامن شئ إلّا ولله فيه حكمٌ”
یعنی کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارے میں اللہ کا حکم نہ ہو۔
اگر کسی مسئلہ کے بارے میں ہمیں یہ حکم دستیاب نہ ہو تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ بلکہ یہ ہمارا قصور نا واقفیت ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس حکم کا علم نہیں ہو سکا۔ کسی چیز کا علم نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ اس کا وجود ہی نہیں۔ اللہ سبحانہ کا قول ہے:
“مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ”
اس کتاب میں ہم نے کوئی چیز نظر انداز نہیں کی۔ (سورہ انعام۔ آیت 38)
……………………
حواله جات
(3):- ہشام بن سالم اور حمّاد بن عیسی سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہم نے امام جعفر صادق ع کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
“میرے حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث حسین کی حدیث ہے اور حسین کی حدیث حسن کی حدیث ہے اور حسن کی حدیث امیر المومنین علیھم السلام کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے اور رسول اللہ ص کی حدیث ارشاد الہی ہے”۔ (اصول کافی جلد 1 صفحہ 35)
عنبسہ روایت کرتے ہیں کہ “ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام سے کوئی مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ اگر ایسا اور ایسا ہوتا تو اس میں دوسرا قول نہ ہوتا۔ آپ نے فرمایا ۔ “جب کبھی ہم کسی مسئلے کا جواب دیں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اور ہم کوئی جواب اپنی رائے سے نہیں دیتے”۔ (بصائر الدرجات صفحہ 300-301)
source : alhassanain