- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/05
- 0 رائ
بعض شبھہ والی روایات
ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے بعض ایسی روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام مھدی علیہ السلام ایک جدید کتاب، جدید سنت اور جدید دین کے ساتھ تشریف لائیں گے۔ ان روایات کو بہانا بنا کر وہابی شیعہ دشمنی میں شیعوں کے خلاف تبلیغ کرتے ہیں اور یہ شبھہ بیان کرتے کہ شیعوں کا امام مھدی علیہ السلام قرآن اور سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابلے میں جدید کتاب اور جدید سنت لے کر آئے گا اور لوگوں کو گمراہ کرئے گا۔
ہم ذیل میں اس قسم کی چند روایات کو نقل کرنے کے بعد ان شبھات کے جواب دیں گے:
نعماني نے اپنی کتاب ” الغيبه” میں امام باقر عليه السلام سے نقل کیا ہے:
…. عن أبي جعفر محمد بن علي…قال عليه السلام: إذا خرج يقوم بأمر جديد، و كتاب جديد، وسنة جديدة، وقضاء جديد…
امام قیام کریں گے تو جدید امر، جدید کتاب اور جدید قضاوت کے ساتھ قیام کریں گے۔
(النعماني ،محمد بن إبراهيم، (متوفاي 380)، كتاب الغيبة، ص 264، تحقيق: فارس حسون كريم، قم ناشر: أنوار الهدى، سال چاپ: 1422، چاپ: الأولى)
غیبۃ نعماني میں ہی ایک روایت یوں نقل ہوئی ہے:
بن يعقوب الجعفي أبو الحسن، قال: حدثنا إسماعيل بن مهران، قال: حدثنا الحسن بن علي بن أبي حمزة، عن أبيه ووهيب بن حفص ، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله(عليه السلام)، قال: إنه قال لي أبي (عليه السلام): لا بد لنار من أذربيجان لا يقوم لها شئ، وإذا كان ذلك فكونوا أحلاس بيوتكم، وألبدوا ما ألبدنا، فإذا تحرك متحركنا فاسعوا إليه ولو حبوا والله لكأني أنظر إليه بين الركن والمقام يبايع الناس على كتاب جديد على العرب شديد ، وقال : ويل لطغاة العرب من شر قد اقترب
ابو بصير نے امام صادق عليه السّلام سے نقل کیا ہے کہ امام باقر عليه السلام نے فرمایا : آذربايجان کی طرف سے ضروری ایک آگ بڑھک اٹھے گی کہ کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گا اور اگر ایسا ہوا تو جس طرح ہم گھروں میں ہیں تم لوگ بھی اسی طرح گھروں میں رہیں اور جب کوئی شخص ہماری طرف سے قیام کا آغاز کرئے گا تو اس کی طرف جانا ،یہاں تک کہ تم لوگ خانہ نشینی کی حالت میں ہی کیوں نہ اور تم لوگوں کو ہاتھوں اور زانو کی مدد سے راستہ چلنا ہی کیوں نہ پڑے ۔ اللہ کی قسم گویا میں دیکھ رہا ہوں وہ رکن اور مقام کے درمیان میں کھڑے ہیں اور لوگ جدید کتاب پر ان کی بیعت کر رہے ہیں اور وہ عرب پر شدید ہوں گے۔ عرب کے طغیانگروں پر عنقریب رونما ہونے والے فتنہ و فساد کی وجہ سے افسوس ہو ۔
(النعماني ،محمد بن إبراهيم ،(متوفاي 380)، كتاب الغيبة، ص 200، تحقيق : فارس حسون كريم، قم ناشر: أنوار الهدى ، سال چاپ : 1422، چاپ: الأولى)
مختصر جواب: مختصر اور اجمالی طور پر جواب یہ ہے کہ بہت سی روایات کے مطابق حضرت مهدي عليه السلام اسی قرآن پر ہی عمل کریں گے جو ان کے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلي الله عليه و آله پر نازل ہوا ہے اور پیغمبر(ص) کی سنت اور دين اسلام کو ہی معاشرے میں عملی جامعہ پہنائیں گے اور ہر جگہ دین اسلام ہی حاکم ہوگا ۔ اب اگر بعض روایات میں جدید کتاب اور جدید سنت اور جدید دین اور جدید امر کی بات ہوئی ہو تو اس کا ہر گز یہ معنی نہیں ہے کہ آپ پیغمبر(ص) پر نازل شدہ قرآن کے مقابلے میں کوئی اور قرآن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت اور دین کے مقابلے میں کوئی اور سنت اور دین لے کر آئیں گے۔
لہذا اس قسم کی روایات میں تجدید احکام سے مراد اللہ کی کتاب کے تعطیل شدہ احکام کو زندہ کرنا، انہیں معاشرے میں لاگو کرنا اور لوگوں کے افکار اور غلط نظریات کی اصلاح کرنا ہے۔ کیونکہ جس وقت آپ ظہور فرمائیں گے اس وقت قرآن کا صرف رسم اور خط باقی ہوگا اور سنت کا بھی نام ہی باقی ہو گا اور جب آپ ظہور فرمائیں گے تو آپ قرآن اور سنت کو صاف و شفاف طور پر، اصلی حالت میں پیش کریں گے اور قرآن و سنت کے نام پر ایجاد شدہ بدعتوں اور انحرافات کے گرد وغبار کو قرآن و سنت سے ہٹائیں گے لہذا لوگ یہ تصور کریں گے کہ کوئی نیا قرآن نئی سنت اور نیا دین لے کر آئے ہیں۔
تفصیلی جواب: آپ قرآن و سنت کی تعلیمات کو ہی زندہ کریں گے
حضرت مهدي عليه السلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل شدہ قرآن اور ان کی سنت پر ہی عمل کریں گے اور اسی راہ میں ہی جد وجہد کریں گے
شیعہ اور اھل سنت کی کتابوں میں بہت سی روایات موجود ہیں کہ جن کے مطابق امام مھدی علیہ السلام جب ظہور فرمائیں گے تو آپ قرآن اور سنت کو ہی بنیاد قرار دیں گے۔ اسی مطلب کے بیان میں روایات میں مختلف تعبیریں استعمال ہوئی ہیں؛ مثلا قرآن کا احیاء، قرآن پر عمل، قرآن کی طرف دعوت، قرآن کی بنیاد پر قضاوت، جیسے الفاظ کے استعمال کے ذریعے اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
لہذا امام مهدي عليه السلام کسی بھی صورت میں قرآن کريم کو چھوڑ کر نئی کتاب اور آئین کی تبلیغ نہیں کریں گے، قرآن مجید کے مقابلے میں کسی اور کتاب کو لانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اب ہم انہیں روایات میں سے بعض کو یہاں نقل کرتے ہیں:
شيعه کتابوں سے بعض روایات
پہلی روايت
شيخ صدوق نے عيون اخبار الرضا میں اميرمؤمنین عليه السلام سے نقل کیا ہے کہ ائمه عليهم السلام، پيامبر صلي الله عليه و آله پر نازل شدہ قرآن سے جدا نہیں یوں گے:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ غِيَاثِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عليه السلام قَالَ : سُئِلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام عَنْ مَعْنَى قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله إِنِّي مُخَلِّفٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي مَنِ الْعِتْرَةُ؟ فَقَالَ: أَنَا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ وَالْأَئِمَّةُ التِّسْعَةُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ تَاسِعُهُمْ مَهْدِيُّهُمْ وَقَائِمُهُمْ لَا يُفَارِقُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَلَا يُفَارِقُهُمْ حَتَّى يَرِدُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله حَوْضَه.
امام صادق عليه السلام نے نقل کیا ہے: امير المؤمنين علیہ السلام سے حضرت رسول صلى اللَّه عليه و آله کی حدیث: «انّى مخلّف فيكم الثقلين كتاب اللَّه و عترتى» کے بارے میں یہ سوال ہوا کہ اس میں عترت سے کیا مراد ہے ؟ اور یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے جواب میں فرمایا : عترت سے مراد، میں اور حسن و حسین علیہم السلام اور ،حسین علیہ السلام کی نسل سے نو فرزند ہیں ،ان میں سے نواں مهدى اور قائم ہیں اور یہ سب قرآن سے جدا نہیں ہوں گے اور قرآن بھی ان سے جدا نہیں ہوں گے ،یہاں تک کہ حوض پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آملے۔
الصدوق، محمد بن علي (متوفاي381هـ)، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج2، ص60، مؤسسة الأعلمي ـ بيروت.
جیسا کہ یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ آئمہ اھل بیت علیہم السلام قرآن سے جدا نہیں ہوں گے۔
اس روایت کی سند بھی صحيح ہے. اور ہم ذیل میں اس کی سند کی تحقیق بھی پیش کرتے ہیں:
اس روایت کی سند کی تحقیق: احمد بن زياد بن جعفر همداني:
آپ شيخ صدوق رحمت الله عليه کے استادوں میں سے ہیں اور شیخ صدوق نے ان کو عظیم اور بزرگ آدمی قرار دیا ہے۔
وكان رجلا ثقة دينا فاضلا رحمة الله عليه ورضوانه.
«آپ ثقہ، دین دار اور فاضل آدمی تھا، اللہ کی رحمت اور رضوان ان ہر ہو۔
كمال الدين وتمام النعمة، ص369
علامه حلي نے بھی کہا ہے:
كان رجلا ثقة دينا فاضلا رضي الله عنه
الخلاصةللحلي ص19
علي بن ابراهيم بن هاشم:
نجاشی نے ان کے ثقہ ہونے کے بارے میں کہا ہے:
قال النجاشي: القمي، ثقة في الحديث، ثبت، معتمد، صحيح المذهب.
آپ قمي اور روایت نقل کرنے میں ثقه ، ثابت، معتمد، اور صحيح المذهب شخص تھے ۔
معجم رجال الحديث، ج 12 ص 212، رقم: 7830.
ابراهيم بن هاشم:
حضرت آيت الله خوئي نے ان کے بارے میں لکھا ہے:
أقول: لا ينبغي الشك في وثاقة إبراهيم بن هاشم، ويدل على ذلك عدة أمور:
1. أنه روى عنه ابنه علي في تفسيره كثيرا، وقد التزم في أول كتابه بأن ما يذكره فيه قد انتهى إليه بواسطة الثقات. وتقدم ذكر ذلك في (المدخل) المقدمة الثالثة.
2. أن السيد ابن طاووس ادعى الاتفاق على وثاقته، حيث قال عند ذكره رواية عن أمالي الصدوق في سندها إبراهيم بن هاشم: ” ورواة الحديث ثقات بالاتفاق “. فلاح السائل: الفصل التاسع عشر، الصفحة 158.
3. أنه أول من نشر حديث الكوفيين بقم. والقميون قد اعتمدوا على رواياته، وفيهم من هو مستصعب في أمر الحديث، فلو كان فيه شائبة الغمز لم يكن يتسالم على أخذ الرواية عنه، وقبول قوله.
میں کہتا ہوں: ان کی وثاقت میں شک نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ان کی وثاقت کی دلیل مندرجہ ذیل امور ہیں۔
1. علي بن ابراهيم نے اپنی تفسیر میں ان سے بہت سی روایات نقل کی ہیں ؛ جبکہ علی بن ابراھیم نے اپنی کتاب کے شروع میں یہ کہا ہے کہ جو بھی روایت اس نے اس کتاب میں نقل کی ہے وہ ثقہ راویوں سے ہے۔۔۔۔
2. سيد بن طاووس نے ان کی وثاقت کے بارے میں اتفاق کا دعوا کیا ہے جیساکہ انہوں نے ایک ایسی روایت کو نقل کیا ہے کہ جس کی سند میں ابراهيم بن هاشم موجود ہے اور پھر یہ کہا ہے : اس سند کے تمام راویوں کے ثقہ ہونے پر علماء کا اتفاق نظر موجود ہے.
3. وہ پہلا آدمی ہے کہ جس نے کوفہ والوں کی حدیثوں کو قم میں نقل کیا اور قم والوں نے ان کی روایات پر اعتماد کیا اور جیسا کہ قم والوں میں ایسے لوگ تھے کہ جو روایات کے بارے میں سخت گیری سے کام لیتے تھے۔لہذا ان کے بارے میں کوئی اشکال ہوتا تو قم والے اس سے روایت نقل کرنے پر اتفاق نہ کرتے۔
معجم رجال الحديث، ج 1 ص 291، رقم: 332.
محمد بن ابي عمير:
آپ اصحاب اجماع میں سے ہیں ۔
نجاشي نے آپ کے بارے میں کہا ہے:
قال النجاشي: جليل القدر، عظيم المنزلة فينا وعند المخالفين…
آپ شیعہ اور شیعہ مخالفین کے نذدیک جلیل القدر اور عظم مرتب انسان ہیں ۔
رجال النجاشي ص327
کشی نے کہا ہے:
أجمع أصحابنا على تصحيح ما يصح عن هؤلاء و تصديقهم و أقروا لهم بالفقه و العلم و هم ستة نفر آخر دون الستة نفر الذين ذكرناهم في أصحاب أبي عبد الله ع منهم يونس بن عبد الرحم
ان لوگوں کے نقل کردہ روایات کے صحیح ہونے پر ہمارے علماء کا اجماع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
رجال الكشي ص556
کشی نے ہی ان کے بارے میں کہا ہے ۔
ثقة رجال الطوسي ص365
شیخ طوسی نے ان کے بارے میں کہا ہے؛
كان من أوثق الناس عند الخاصة و العامة
آپ شیعہ اور اھل سنت کے نذدیک ثقہ آدمی ہیں۔
فهرست الطوسي ص405
غياث بن ابراهيم التميمي الأسدي:
نجاشی نے ان کے بارے میں کہا ہے:
ثقة رجال النجاشي ص305۔
دوسری روایت:
شيخ صدوق رضوان الله عليه نے اپنی کتاب” کمال الدين” میں اس روايت کو اس طرح نقل کیا ہے :
63ـ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام قَالَ:
إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وتَعَالَى طَهَّرَنَا وعَصَمَنَا وجَعَلَنَا شُهَدَاءَ عَلَى خَلْقِهِ وحُجَجاً فِي أَرْضِهِ وجَعَلَنَا مَعَ الْقُرْآنِ وجَعَلَ الْقُرْآنَ مَعَنَا لَا نُفَارِقُهُ ولَا يُفَارِقُنَا.
سليم بن قيس هلالى نے امير المؤمنين عليه السلام سے نقل کیا ہے كه آپ نے فرمایا: بے شک اللہ نے ہمیں پاک اور معصوم قرار دیا ہے، ہمیں اپنی مخلوقات اور زمین پر حجت قرار دیا ہے اور ہمیں قرآن کے ساتھ اور قرآن کو ہمارےساتھ قرار دیا ہے، نہ ہم قرآن سے جدا ہوں گے اور نہ قرآن ہم سے جدا ہوگا۔
(الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاى381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص240، تحقيق: علي اكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي(التابعة) لجماعة المدرسين ـ قم، 1405هـ)
جیسا کہ حضرت علي عليه السلام نے اس روایت میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ ائمہ اهل بيت عليهم السلام (که امام زمان عجل الله تعالي فرجه الشريف بھی ان میں سے ایک ہیں) ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہوں گے اور کبھی قرآن ان سے اور آپ لوگ قرآن سے جدا نہیں ہوں گے۔
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے
سند کی تحقیق
محمد بن الحسن بن وليد:
نجاشی نے ان کو ثقہ کہا ہے
شيخ القميين و فقيههم و متقدمهم و وجههم
قم کے علماء کے استاد اور ان کے فقیہ تھے ، ان سب سے مقدم اور جانی پہچانی شخصیت تھی ۔
رجال النجاشي ص383 الخلاصةللحلي /ص147
شیخ طوسی ان کے بارے کہتے ہیں:
جليل القدر بصير بالفقه ثقة رجال الطوسي ص439
محمد بن الحسن الصفار:
نجاشی نے ان کے بارے میں لکھا ہے ۔
كان وجها في أصحابنا القميين ثقة عظيم القدر راجحا
آپ علماء قم میں ایک مشہور اور جانی پہچانی شخصیت تھی ، آپ قابل اعتماد اور عظیم مقام کا مالک تھا ۔
رجال النجاشي ص354 الخلاصةللحلي /ص157
احمد بن محمد بن عيسي:
نجاشی نے ان کے بارے میں کہا ہے :
أبو جعفر رحمه الله شيخ القميين و وجههم و فقيههم
شيخ طوسي نے بھی لکھا ہے :
ثقة
رجال الطوسي ص351
الحسين بن سعيد
شيخ طوسي نے فهرست میں کہا ہے:
ثقة
فهرست الطوسي ص150
انہوں نے اپنی کتاب رجال میں لکھا ہے :
الأهوازي ثقة
رجال الطوسي ص355
حماد بن عيسي:
نجاشي نے کہا ہے :
كان ثقة في حديثه صدوقا
آپ ثقہ اور حدیث نقل کرنے میں سچا آدمی تھا ۔
رجال النجاشي ص143
شيخ طوسي کہتے ہیں:
ثقة
فهرست الطوسي ص157
انہوں نے اپنی کتاب رجال میں لکھا ہے :
ثقة
رجال الطوسي ص334
سليم بن قيس الهلالي:
سليم بن قيس هلالي، پانچ اماموں کے یار و اصحاب میں سے ہیں ،آيت الله خوئي نے ان کی زندگی نامے میں لکھا ہے :
سليم بن قيس: قال النجاشي في زمرة من ذكره من سلفنا الصالح في الطبقة الأولى: (سليم بن قيس الهلالي له كتاب، يكنى أبا صادق.
آیت اللہ خوئي رضوان الله تعالي عليہ آگے ان کے بارے میں لکھتے ہیں؛
الأولى: أن سليم بن قيس – في نفسه – ثقة جليل القدر عظيم الشأن، ويكفي في ذلك شهادة البرقي بأنه من الأولياء من أصحاب أمير لمؤمنين عليه السلام، المؤيدة بما ذكره النعماني في شأن كتابه، وقد أورده العلامة في القسم الأول وحكم بعدالته.
سليم بن قيس هلالي.. نجاشي نے انہوں سلف صالح اور طبقه اول کے رایوں میں سے قرار دیا ہے …
سليم بن قيس هلالي خود خود ایک ثقه، جليل القدر اور بلند مرتبہ انسان ہے . اس بات کو ثابت کرنے کے لئے برقی کی یہ گواہی کافی ہے کہ آپ حضرت امیر المومنین عليه السلام کے اصحاب کے اولیاء میں سے ہیں . اسی مطلب کی تائید نعماني کی اس گفتار سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے سلیم کی کتاب کے بارے میں کہا ہے، علامه حلي نے بھی ان کی عدالت کا حکم دیا ہے ۔
معجم رجال الحديث، ج 9، ص 226، رقم: 5401.
لہذا ان دو روايتوں سے یہ بات روشن ہوگئی کہ اهل بيت عليهم السلام اور ان میں سے امام مهدي عجل الله تعالي فرجه الشريف قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے ۔ لہذا امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا بے بنیاد بات ہے کہ آپ رسول اللہ صلي الله عليه و آله پر نازل شدہ کتاب کے بجائے کوئی اور کتاب لے کر آئیں گے ۔.
مندجہ بالا روایات کے علاوہ اور بھی اس سلسلے میں روایات موجود ہیں ہم مختصر طور پر ان میں سے بعض کو یہاں نقل کرتے ہیں ۔
تیسری روایت
کليني نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ امام مهدي عليه السلام ، اللہ کی کتاب، قرآن مجید پر عمل کریں گے :
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع وَ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ لَهُ إِنَّكُمْ أَهْلُ بَيْتِ رَحْمَةٍ اخْتَصَّكُمُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِهَا فَقَالَ لَهُ كَذَلِكَ نَحْنُ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ لَا نُدْخِلُ أَحَداً فِي ضَلَالَةٍ وَ لَا نُخْرِجُهُ مِنْ هُدًى إِنَّ الدُّنْيَا لَا تَذْهَبُ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ رَجُلًا مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ يَعْمَلُ بِكِتَابِ اللَّهِ لَا يَرَى فِيكُمْ مُنْكَراً إِلَّا أَنْكَرَهُ.
احمد بن عمر کہتا ہے : امام باقر عليه السّلام نے ایک شخص کے جواب میں فرمایا {اس شخص نے کہا تھا :آپ رحمت والے خاندان سے ہیں اور اللہ نے یہ خصوصیت آپ لوگوں کے لئے مختص کیا ہے ۔۔آپ نے اس کے جواب میں فرمایا : جی ہم ایسا ہی ہیں ،اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے کسی کو بھی گمراہ نہیں کیا اور سیدھے راستے سے کسی کو نہیں ہٹایا ،دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک اللہ ہم اہل بیت میں سے ایک شخص کو مبعوث نہ کرئے کہ جو اللہ کی کتاب پر عمل کرئے گا وہ تم میں جو بھی برائی دیکھے گا اس کا انکار کرئے گا۔{منع کرئے گا }
الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاى328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 8 ص 396،ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.