- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 12 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/05
- 0 رائ
دوسری روايت
مرحوم طبرسي نے حضرت علي عليه السلام کے قرآن کے بارے میں ایک طولانی روایت نقل کی ہے اور اس میں یہ کہا ہے کہ حضرت مهدي عليه السلام اسی قرآن کے مطابق حکم کریں گے ۔
فقال عليه السلام: نعم إذا قام القائم من ولدي، يظهره وَ يَحْمِلُ النَّاسَ عَلَيْه فتجري السنة به صلوات الله عليه۔
حضرت علي عليه السلام نے عمر کی طرح سے آپ کے نسخے کو لینے سے انکار کیا تو ، آپ نے فرمایا : جب میری اولاد میں سے قائم ظہور کریں گے تو لوگوں کو قرآن ہر عمل کرنے کا حکم دیں گے اور سنت کو لاگو کریں گے ۔
الطبرسي، أبي منصور أحمد بن علي بن أبي طالب (متوفاى 548هـ)، الاحتجاج، ج 1 ص 228، تحقيق: تعليق وملاحظات: السيد محمد باقر الخرسان، ناشر: دار النعمان للطباعة والنشر – النجف الأشرف، 1386 – 1966 م.
تیسری روايت
امام باقر عليه السلام سے اس طرح نقل ہوا ہے :
وروى جابر، عن أبي جعفر عليه السلام أنه قال: إذا قام قائم آل محمد عليه السلام ضرب فساطيط لمن يعلم الناس القرآن على ما أنزل الله جل جلاله فأصعب ما يكون على من حفظه اليوم ، لأنه يخالف فيه التأليف
امام باقر(ع) نے فرمایا: جب ہمارے قائم آل محمد(ع) قيام فرمائیں گے تو قرآن سیکھنے والوں کے لئے خیمے نصب کریں گے اور لوگ قرآن کو اسی ترتیب سے سیکھیں گے جس ترتیب سے اللہ نے نازل فرمایا تھا اور اس کو حفظ کرنا سخت ہوگا کیونکہ یہ ترتیب نزول کے مطابق ہوگا۔
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفاى413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2 ص 386، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية، 1414هـ – 1993 م.
المجلسي، محمد باقر (متوفاى 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 52 ص 339، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ – 1983م.
لہذا ممکن ہے امام مھدی علیہ السلام کی طرف سے جدید کتاب لانے کا معنی حضرت علي عليه السلام کا ترتیب نزول کے مطابق لکھا ہوا قرآن پیش کرنا مراد ہو اور یہ قرآن ، آیات کی شان نزول ، تفسیر اور تاویل کے ساتھ ہوگا ، اس میں بہت سے علوم ہوں گے، جیسا کہ اھل سنت کی کتابوں میں بھی اس طرح اشارہ موجود ہے۔
ممکن ہے قرآن لانے سے قرآن کی تاویل مراد ہو ۔
ممکن ہے جدید کتاب لانے سے قرآن کی تاویل مراد ہو۔ (هل ينظرون إلا تأويله يوم يأتي تأويله) من الآيات التي تأويلها بعد تنزيلها قال:ذلك بعد قيام القائم۔۔۔
القمي، أبي الحسن علي بن ابراهيم (متوفاى310هـ) تفسير القمي، ج 1 ص 235، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: السيد طيب الموسوي الجزائري، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر – قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.
إلزام الناصب في إثبات الحجة الغائب – الشيخ علي اليزدي الحائري – ج 1 ص 59
یہاں تاویل سے مراد اھل بیت علیہ السلام کے بارے میں موجود فضائل والی آیات کی تاویل ہے جیساکہ پیغمبر صلي الله عليه و آله نے ایک روایت کے مطابق حضرت علي عليه السلام سے فرمایا :
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا حُسَيْنُ بن مُحَمَّدٍ ثنا فِطْرٌ عن إِسْمَاعِيلَ بن رَجَاءٍ الزبيدي عن أبيه قال سمعت أَبَا سَعِيدٍ الخدري يقول كنا جُلُوساً نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَخَرَجَ عَلَيْنَا من بَعْضِ بُيُوتِ نِسَائِهِ قال فَقُمْنَا مَعَهَ فَانْقَطَعَتْ نَعْلُهُ فَتَخَلَّفَ عليها علي يَخْصِفُهَا فَمَضَى رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَضَيْنَا معه ثُمَّ قام يَنْتَظِرُهُ وَقُمْنَا معه فقال ان مِنْكُمْ من يُقَاتِلُ على تَأْوِيلِ هذا الْقُرْآنِ كما قَاتَلْتُ على تَنْزِيلِهِ فَاسْتَشْرَفْنَا وَفِينَا أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ فقال لاَ وَلَكِنَّهُ خَاصِفُ النَّعْلِ قال فَجِئْنَا نَبَشِّرُهُ قال وَكَأَنَّهُ قد سَمِعَهُ
ابوسعيد خدري نقل کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت کے انتظار میں تھے اتنے میں آپ صلّى اللّه عليه و آله اپنی ازواج میں سے کسی کے حجرے سے باہر تشریف لائے ، اچانک آپ کے جوتے کا بند ٹوٹ گیا. على عليه السّلام نے جوتا لیا اور سینا شروع کیا . رسول خدا صلّى اللّه عليه و آله آگے چلنے لگے اور ہم بھی آپ کے ساتھ چل رہے تھے ، رسول خدا صلّى اللّه عليه و آله رک گئے، ہم بھی رگ گئے اور آپ صلّى اللّه عليه و آله ، حضرت على عليه السّلام کے آنے کے انتظار کرنے لگے اور آپ نے فرمایا: تم میں سے ایک قرآن کی تأويل کے لئے جنگ کریں گے ،جس طرح میں نے قرآن کی تنزيل کی خاطر جنگ کی . ابو بكر اور عمر نے کہا : کیا ہم وہی لوگ ہیں ؟ پيغمبر صلّى اللّه عليه و آله نے فرمایا : نه، بلکہ وہ جو جوتے کو سی رہا ہے ،ہم على عليه السّلام کی ملاقات کے لئے گیے ۔ ہم انہیں ان کی آئندہ کی ماموریت اور ذمہ داری کی خبر دینا اور خوشخبری دینا چاہتے تھے، لیکن آپ نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ،گویا آپ ، رسول اكرم صلّى اللّه عليه و آله ،سے پہلے یہ خبر سن چکے تھے ۔
الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل(متوفاى241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 3 ص 82، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
ھیثمی نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے؛
رواه احمد و رجاله رجال الصحيح غير فطر بن خليفة وهو ثقة
الهيثمي، ابوالحسن نور الدين علي بن أبي بكر (متوفاى 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 9 ص 134، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي – القاهرة، بيروت – 1407هـ.
الباني نے اس روایت کے بارے میں کہا ہے:
(صحيح)
إن منكم من يقاتل على تأويل هذا القرآن كما قاتلت على تنزيله فاستشرفنا وفينا أبو بكر وعمر فقال : لا ولكنه خاصف النعل . يعني عليا رضي الله عنه
الألباني ، محمد ناصر الدين، السلسلة الصحيحة،ج 5، 639، الرياض،الناشر: مكتبة المعارف
قرآن اور دین اسلام سے کہنگی اور گرد و غبار کو ہٹانا
روایات میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ قرآنی اور اسلامی دستورات کو اہمیت نہیں دیں گے اور قرآن اور اسلام کا صرف رسم اور نام اور ظاہری شکل ہی باقی رہے گی اور اس طرح لوگ قرآنی تعلیمات سے دور ہوں گے کہ گویا قرآن لوگوں کے درمیان ہے ہی نہیں ۔اسی لئے جب امام مھدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے اور قرآن کے احکام کو زندہ کرنا چاہیں گے اور قرآن اور اسلامی تعلیمات کو معاشرے میں لاگو کریں گے اور ان سے کہنگی اور گرد وغبار ہٹائیں گے اور صاف اور اصلی تعلیمات کو سامنے لائیں گے تو لوگ گویا خیال کریں گے کہ آپ ایک نئی کتاب کے ساتھ تشریف لائیں ہیں۔
شيخ طوسي نے ایک صحیح سند روایت اس طرح نقل کی ہے :
محمد بن الحسن الصفار عن محمد بن الحسين بن أبي الخطاب عن جعفر بن بشير ومحمد بن عبد الله بن هلال عن العلا بن رزين القلا عن محمد بن مسلم قال : سألت أبا جعفر ( عليه السلام ) عن القائم عجل الله فرجه إذا قام باي سيرة يسير في الناس ؟ فقال : بسيرة ما سار به رسول الله (صلى الله عليه وآله) حتى يظهر الاسلام قُلْتُ وَ مَا كَانَتْ سِيرَةُ رَسُولِ اللَّهِ ص قَالَ أَبْطَلَ مَا كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَ اسْتَقْبَلَ النَّاسَ بِالْعَدْلِ وَ كَذَلِكَ الْقَائِمُ ع إِذَا قَامَ يُبْطِلُ مَا كَانَ فِي الْهُدْنَةِ مِمَّا كَانَ فِي أَيْدِي النَّاسِ وَ يَسْتَقْبِلُ بِهِمُ الْعَدْلَ.
علاء بن محمد نے حضرت باقر عليه السّلام سے پوچھا: قائم کس طرح لوگوں سے رفتار کریں گے؟ فرمایا: پيغمبر(ص) کے طریقے کے مطابق عمل کریں گے اور اسلام کو آشکار کریں گے. میں نے عرض کیا: پیغمبر کی روش اور آپ کا طریقہ کیا تھا؟ فرمایا: پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کفر کے آثار مٹا دئے اور لوگوں کے ساتھ عدالت سے رفتار کیا اور قائم جب قیام فرمائیں گے تو ہر قسم کے غیر شرعی امور اور بدعتوں کو جو بیگانوں سے صلح کے دوران مسلمانوں میں مرسوم ہوئیں ہیں ،ان سب کو ختم کریں گے اور لوگوں کے ساتھ عدالت سے پیش آئیں گے۔
الطوسي، الشيخ ابوجعفر محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاى460هـ)، تهذيب الأحكام، ج 6 ص 154، تحقيق : السيد حسن الموسوي الخرسان ، ناشر : دار الكتب الإسلامية ـ طهران ، الطبعة الرابعة،1365 ش .
علامه مجلسي نے اس روایت کو صحیح جانا ہے :
صحيح
مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، ملاذ الأخيار في فهم تهذيب الأخبار، ج9، ص: 409، محقق / مصحح: رجائى، مهدى، ناشر: كتابخانه آيه الله مرعشي نجفي، سال چاپ: 1406 ق چاپ: اول
اس سند کی تحقیق :
محمد بن الحبسن الصفار
نجاشي نے ان کی وثاقت کے بارے میں کہا ہے :
كان وجها في أصحابنا القميين ثقة عظيم القدر .
آپ قم کے ہمارے اصحاب میں سے جانی پہچانی شخصیت ، ثقه اور بڑے مقام کے مالک تھے ۔
رجال النجاشي /ص354 :
علامہ حلي نے کہا ہے :
كان وجها في أصحابنا القميين ثقة عظيم القدر راجحا قليل السقط في الرواية
الخلاصةللحلي /ص157 :
محمد بن الحسين بن أبي الخطاب
نجاشي کہتا ہے:
محمد بن الحسين بن أبي الخطاب أبو جعفر الزيات الهمداني و اسم أبي الخطاب زيد جليل من أصحابنا عظيم القدر كثير الرواية ثقة عين
آپ ہمارے اصحاب میں سے ایک ہیں ، آپ عظیم مقام کا مالک اور زیادہ روایات نقل کرنے والوں میں سے اور ثقہ ہیں ۔
رجال النجاشي/بابالميم/334
شيخ طوسي نے کہا ہے :
کوفي ثقة
فهرست الطوسي /ص400
انہوں نے رجال طوسی میں بھی ان کی توثیق کی ہے ۔
ثقة
رجال الطوسي /ص379
جعفر بن بشير
نجاشي کہتے ہیں:
جعفر بن بشير أبو محمد البجلي الوشاء من زهاد أصحابنا و عبادهم و نساكهم و كان ثقة
آپ ہمارے اصحاب میں سے زھد پیشہ ،عبادت گزار اور ثقه انسان تھے ۔
رجال النجاشي/بابالجيم/119
شيخ طوسي نے بھی کہا ہے:
جعفر بن بشير البجلي ثقة جليل القدر
آپ ثقه اور جليل القدر انسان تھے ۔
فهرست الطوسي/بابالجيم/بابجعفر/109
علاء بن رزين القلاء
نجاشي نے کہا ہے:
العلاء بن رزين القلاء …و كان ثقة
رجال النجاشي/بابالعين/ومنهذا…/298
شيخ طوسي نے کہا ہے:
العلاء بن رزين القلاء ..جليل القدر ثقة
فهرست الطوسي/بابالعين/بابالعلاء/322
حلي نے کہا ہے:
العلاء بن رزين القلاء ..ثقة ثقة
رجال ابن داود/الجزءالأولمن…/ باب العين المهملة / 235
محمد بن مسلم
آپ اصحاب اجماع میں سے ہیں۔
کشي نے کہا ہے:
اجتمعت العصابة على تصديق هؤلاء الأولين من أصحاب أبي جعفر
ان کی صداقت پر اجماع ہے۔
رجال الكشي/الجزءالأول/الجزءالثالث/238
نجاشي نے کہا ہے:
وجه أصحابنا بالكوفة فقيه ورع صحب أبا جعفر و أبا عبد الله عليهما السلام و روى عنهما و كان من أوثق الناس
آپ کوفہ کے ہمارے اصحاب میں سے مشہور ،فقيه با تقوا اور امام باقر اورامام صادق عليهما السلام کے اصحاب میں سے ہیں اور ثقہ ترین افراد میں سے ہیں۔
رجال النجاشي / ص324
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس سلسلے میں ایک اور روایت اس طرح نقل ہوئی ہے ۔
. إِنَّ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ وُلْدِي يَغِيبُ حَتَّى لَا يُرَى وَ يَأْتِي عَلَى أُمَّتِي زَمَنٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَ لَا مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ فَحِينَئِذٍ يَأْذَنُ للَّهُ لَهُ بِالْخُرُوجِ فَيُظْهِرُ الْإِسْلَامَ وَ يُجَدِّدُ الدِّينَ
ہمارے فرزندوں میں سے بارویں غائب ہوگا اور دیکھائی نہیں دے گا اور آپ اس وقت ظاہر ہوں گے کہ اسلام کا صرف نام باقی ہوگا اور قرآن کے خط صرف باقی ہوگا اس وقت اللہ انہیں خروج کی اجازت دے گا اور آپ اسلام کو آشکار اور اسلام کی تجدید فرمائیں گے۔
الخزاز القمي الرازي ، أبي القاسم علي بن محمد بن علي، كفاية الأثر في النص على الأئمة الاثني عشر ، ص15، تحقيق: السيد عبد اللطيف الحسيني الكوه كمري الخوئي، ناشر: انتشارات ـ قم، 140هـ .
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ قرآن اور دين پر عمل نہیں کریں گے اور اس آسمانی کتاب کی غربت اور فراموشی کا سبب بنے گا اور جب حضرت مهدي عليه السلام قرآن اور اسلام کے احکام کو جاری کریں گے تو لوگوں کے لئے یہ نئی چیز ہوگی لہذا ایسا نہیں ہے کہ آپ ایک نیا قرآن اور نیا دین لے کر آئیں گے۔
لہذا روايات کے مطابق حضرت مهدي عليه السلام کا جدید قرآن لانے کا معنی یہ نہیں ہے کہ آپ موجودہ قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لے کر آئیں گے ۔بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ موجودہ قرآن کے فراموش شدہ احکام اور معطل شدہ احکام کو زندہ کریں
حضرت علي عليه السلام کے جمع کردہ قرآن کو پیغمبر صلي الله عليه و آله کے زمانے کی قرائت کے ساتھ پیش کریں گے اور جب آپ بدعتوں اور باطل کو ختم کریں گے اور احکام اور حدود کو اسی طرح اسی طرح زندہ کریں گے جس طرح یہ احکام صادر ہوئے تھے تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ کوئی نئی چیز ہے اور نئی کتاب کے احکام ہیں ،لہذا اسی جہت سے کہتے ہیں کہ حضرت مهدي عليه السلام جديد کتاب لائیں گے.
مٹی ہوئی سنتوں کو آشکار کرنا۔
جیساکہ نقل ہوا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان کی روایات پر پابندی اور انہیں آگ لگادی گئی آگ لگادی گئی؛
ذهبي نے اس سلسلے میں لکھا ہے:
جمع أبي الحديث عن رسول الله و كانت خمسمائة حديث، فبات ليلته يتقلب كثيراً، قالت: فغمني، فقلت: أتتقلب لشكوى أو لشيء بلغك؟ فلما أصبح، قال: أي بنية هلمي الأحاديث التي عندك، فجئته بها، فدعا بنار فحرقها.
میرے والد (ابوبكر) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی 500 احادیث کو جمع کیا اور رات سو گیا اور ادھر ادھر کروٹیں بدلتا رہا {کسی پریشانی کی وجہ سے سو نہیں پا رہا تھا} عايشه کہتی ہے کہ میں بھی پریشان ہوئی، میں نے کہا: کیا کوئی مشکل پیش آئی ہے یا کوئی خبر آپ تک پہنچی ہے؟ جب صبح ہوئی تو مجھ سے کہا: میری بیٹی انہیں احادیث کو میرے پاس لائے جو میں نے تجھے دی ہے ،میں لے آئی ،انہوں نے آگ طلب کیا اور ان سب کو جلاڈالا۔
الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج1، ص5 ناشر: دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة: الأولى.
اسی طرح نقل ہوا ہے کہ ابوبکر لوگوں کو احادیث نقل کرنے سے منع کرتا تھا۔
جمع الناس بعد وفاة نبيهم فقال إنكم تحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث تختلفون فيها والناس بعدكم أشد اختلافا فلا تحدثوا عن رسول الله شيئا فمن سألكم فقولوا بيننا وبينكم كتاب الله فاستحلوا حلاله وحرموا حرامه
ابوبکر نے پيامبر (ص) کی وفات کے بعد لوگون کو جمع کیا اور کہا : تم لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایتیں نقل کرتے ہیں اور ان میں اختلاف کرتے ہیں اور ان میں لوگ تم لوگوں کے بعد زیادہ اختلاف کریں گے ۔لہذا تم لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل نہ کریں اور اگر کوئی سوال کرئے تو انہیں جواب دو کہ اللہ کی کتاب ہمارے اور تمہارے درمیان ہے اور یہی ہمارے لئے کافی ہے لہذا اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام قرار دئے۔
الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج 1 ص 2،ناشر: دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة: الأولى.
لہذا یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت مهدي عليه السلام جدید سنت اور احکام کے ساتھ آئیں گے تو یہاں یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ آپ انہیں چیزوں کو لائیں گے جن کو نابود اور ختم کی گئیں لہذا جب آپ ان چیزوں کو نقل کریں گے تو لوگ سوچیں گے کہ کوئی نئی چیز لے کر آئے ہیں۔
حضرت عيسي بھی دين اسلام کی تجدید فرمائیں گے۔
اھل سنت کے علماء نے اعتراف کیا ہے کہ حضرت عيسي عليه السلام نزول کے بعد ،حضرت مهدي عليه السلام، کے زمانے میں، پیغمبر صلي الله عليه و آله کے لائے ہوئے دین کی تجدید فرمائیں گے ۔
قرطبي نے صحیح بخاری میں نقل «كيف أنتم إذا نزل بن مريم فيكم وإمامكم منكم» والی احادیث کے ذیل لکھا ہے:
قال علماؤنا رحمة الله عليهم: فهذا نص على أنه ينزل مجددا لدين النبي صلى الله عليه وسلم للذي درس منه لا بشرع مبتدأ
ہمارے علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس چیز پر نص ہے کہ حضرت عيسي نازل ہوں گے اور پیغمبر (ص) کے دین کی تجدید فرمائیں گے، اس دین کی جو بوسیدہ اور اور قدیمی حالت میں ہوکا اور لوگ سمجھیں گے کہ آپ ایک نیا دین لے کر آئیں گے۔
الأنصاري القرطبي، ابوعبد الله محمد بن أحمد بن أبي بكر بن فرح (متوفاى671هـ)، الجامع لأحكام القرآن، ج 16 ص 107 ناشر: دار الشعب – القاهرة.
ابن بطال نے بھی کہا ہے:
أن عيسى يأتى بتصحيح شريعة محمد
حضرت عيسي علیہ السلام شريعت محمد صلي الله عليه و آيه کی تصحیح کے لئے آئیں گے ۔
إبن بطال البكري القرطبي، ابوالحسن علي بن خلف بن عبد الملك (متوفاى449هـ)، شرح صحيح البخاري، ج 6 ص 605 ،تحقيق: ابوتميم ياسر بن إبراهيم، ناشر: مكتبة الرشد – السعودية / الرياض، الطبعة: الثانية، 1423هـ – 2003م.
عيني نے بھی کہا ہے: عيسي(ع) دین محمد(ص) کو آشکار کرنے کے لئے تشریف لائیں گے:
و أن الدين الحق هو الدين الذي هو عليه ، وهو دين الإسلام دين محمد صلى الله عليه وسلم الذي هو نزل لإظهاره وإبطال بقية الأديان..
دين حق وہی دین ہے کہ جو حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس ہےاور یہ دین اسلام وہی دین محمد صلي الله عليه و آله ہی ہے ۔ جناب عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے اور اس دین کو ظاہر کریں گے اور باقی ادیان کو باطل کریں گے۔
العيني الغيتابي الحنفي، بدر الدين ابومحمد محمود بن أحمد (متوفاى 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 12 ص 35 ناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت.
لہذا جب حضرت عیسی علیہ السلام کے وسیلے سے دین کی تجدید فرمائیں گے، اب اس کا معنی جدید دین لانا نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو آشکار کرنا ہے، اب یہی بات حضرت امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں بھی ہے۔
نتیجہ اور خلاصہ
پہچھلے مطالب سے مندرجہ ذیل چیزیں واضح ہوجاتی ہیں:
1. حضرت مهدي عليه السلام اسی قرآن کے ساتھ نازل ہوں گے اور پیغمبر(ص) کی سنت پر عمل کریں گے ۔
2. جدید کتاب سے مراد ، قرآن کے تعطیل شدہ احکام کو زندہ کرنا ہے اور حضرت علي عليه السلام،کے قرآن کو لاگو کرنے کا مطلب بھی ممکن ہے پیغمبر صلي الله عليه و آله کے دور کی قرائت کو زندہ کرنا یا قرآن کو شان نزول کے مطابق تلاوت کرنا ہو۔۔۔
3. حضرت علي عليه السلام کے جمع شدہ قرآن کو جو شان نزول کے ساتھ تھا، اس کو آشکار کرنا مراد ہو۔
4. ممکن ہے نیا قرآن لانے سے مراد قرآن کی تاويل ہو۔
5 . حضرت عيسي بھی دين اسلام کی تجديد کریں گے۔
6. جدید دین اور اسلام سے مراد حضرت مهدي(ع()، کے ظهور کے وقت لوگوں کے درمیان باقی موجود خستہ اور فرسودہ حال دین میں نئی جان دینا اور دین کی حقیقت کو لوگوں کے لئے آشکار کرنا ہے ۔ حضرت مھدی علیہ السلام دين اسلام کی تجدید اور احیاء فرمائیں گے ۔ لہذا نیا دین لانے سے دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین لانا مراد نہیں ہے۔
حضرت مهدي عليه السلام کے ظہور سے ہی سنت، قضاوت ،شرعی احکام اور دین کے تبدیل شدہ اور معطل شدہ احکام کو لاگو کیا جائے گا، یہاں تک کہ لوگ یہ خیال کریں گے کہ کوئی نیا دین اور نئی شریعت آئی ہے۔
دوسرے الفاظ میں امام مھدی علیہ السلام کے انقلاب سے معاشرے میں ایک بنیادی اور اساسی تبدیلی رانما ہوگی اور سب چیز زیر و زبر ہوگی، لوگ سوچیں گے کہ کوئی نیا دین لایا ہے جبکہ آپ دین اسلام کو ہی احیاء کریں گے اور اسی دین کی ہی تجدید فرمائیں گے ،کیونکہ طول تاریخ میں حکومتیں ظالم اور جابر حاکموں کے ہاتھ میں رہیں اور ایسے ماحول اور حالات موجود رہیں کہ بہت سے دینی احکام پر عمل ہی نہیں ہوا اور بہت سے دینی احکام کو حاکموں نے اپنی مرضی سے تبدلیل کیا اور جب امام مھدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے اور عالمی عادل پر مشتمل حکومت تشکیل دیں گے اور معطل شدہ احکام کو زندہ کریں گے تو یہ لوگوں کے لئے ایک نئی اور جدید چیز ہوگی۔
شبھات کا جواب دینی والی ٹیم
تحقيقاتي ادارہ حضرت ولي عصر(عج)