- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/17
- 0 رائ
۱۰ شوال سن ۲۰۱ ہجری میں امام علی رضا علیہ السلام شہرخراسان (مرو ) میں داخل ہوئے جہاں پر مامون، اسکے وزیر فضل ابن سہل اور آل عباس اور بہت سے علویوں نے آپ کا استقبال کیا۔ ایام اسی طرح تیزی سے گزرتے رہے اور مامون ہمیشہ خود کو امام رضاعلیہ السلام کا ایک مخلص میزبان ظاہرکرتارہا۔ امام علیہ اسلام کا اس شہر خراسان (مرو)میں آنا ، خود مامون کا امام کا شاندار قسم کا استقبال کرنا اور عام لوگوں کو ہر وقت امام علی رضا علیہ السلام سے ملاقات کرنے کی اجازت دینا، یہ سب کچھ خود امام علی رضا علیہ السلام کے لیے بہت حیرت انگیز تھا۔ ایک دن مجلس میں جس میں حکومت کے تمام افراد موجود تھے مامون نے امام رضا علیہ السلا کےطرف رخ کر رکہ کھا:
ما اعلم احدا افضل من ھذا الرّجل علي وجہ الارض: میں روی زمین پر اس شخص ( امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام) سے بڑ ھ کر کسی کو بہتر اور با فضیلت نہی دیکھا
اور اس وقت امام علیہ السلام کے طرف رخ کرکہ کہا:میں چاہتا ہوں کہ خلافت سے کنارہ کش ہوکر خلافت آپ کے سپرد کردوں ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر خداوندنے خلافت کو تمھارے لیے قرار دیا ہیں تو کسی دوسرے کو دینا جائز نہیں ہے اور اگر خلافت تمھاراحق نہیں ہے تو تمھیں کوئی اختیار نہیں ہے کہ تم اسے کسی اور کے حوالے کرو،مامون کھڑا ہوگیا اور اصرار کیا کہ خلافت کو قبول کریں،امام علیہ السلام چونکہ اسکی اصلی نیت سے با خبر تھے اس لیےکسی بھی صورت میں خلافت کو قبول کرنے کو تیار نہ ھوئے تو اس نے کہا تو پھر آپ ولی عھدی کو قبول کرو تاکہ میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین بنو ، امام علیہ السلام نے فرمایا ولی عھدی میرے لیے کوئی افتخار نہیں ہے، جب میں مدینہ میں تھا میرا حکم مشرق اور مغرب میں نافذ تھا اگر مدینہ کے کسی گلی یا بازار سے عبور کرتا تولوگوں کے نزدیک مجھے سے عزیزتر کوئی نہیں تھا لوگ اپنی مشکلات میرے پاس لے کر آتے کوئی ایسا نہ تھا جس کی مشکل حل نہ کرتا بلکہ سب کی مشکلات حل کرتا تھا لوگ مجھے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
جب مامون کا پے درپے اصرار بڑھا تو امام علیہ السلا م نے فرمایا: میں نے آباء و اجداد سے سنا ہے تم سے پہلے دنیا سے جاؤں گا اور مجھے زھر دی جائے گی اور میرے اوپر زمین اور آسمان گریہ کریں گے اور غربت کے عالم میں ھاروں کے ساتھ دفن کردیا جاؤں گا ،اس وقت مامون نے سخت الفاظ میں کہا کہ عمر ابن خطاب نے چھ آدمیوں کی کمیٹی بنائی تھی جس میں امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) بھی موجود تھے اور عمر نے کہا کہ جو بھی میری مخالفت کرے گا میں اس کا سر تن سے جدا کر دونگا اور آپ کے پاس بھی چارہ نہیں ہے ورنہ میں یہ کام کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا۔ جس پر امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر مجھے مجبور کرتے ہو تو میری شرطیں ہیں ۔
امام کے طرف سے ولایت عھدی کو قبول کرنے کی شرائط
۱- میں کسی کو بھی کسی مقام و منصب پر مقرر یا معزول نہیں کرے گا۔
۲- مامون کسی بھی رسم و سنت کو توڑے یا تبدیل نہیں کرے گا ۔
۳- میں دور سے حکومت کی راہنمائی اور مشورے دیا کروں گا۔
مامون نے ان تمام شرائط کو قبول کر لیا، اس طرح امام علی رضا علیہ السلام نے اپنی دانش اور حکمت سے مامون کے بعض اہداف کو پورا ہونے سے پہلے ہی ناکام بنا دیا۔اس وقت امام علیہ السلام نے اپنے ہاتھ آسمان کے طرف بلند کئے اور فرمایا:خدایا تو جانتا ہے کہ مجھے اس کام پر مجبور کیا گیا اور مجبوری میں اس بات کو قبول کیا ہے بس مجھے سے حساب کتاب نہ لینا ،خدایا کوئی عھد نہیں مگر جو تمھاری طرف سے کیا گیا ہو اور کوئی ولایت نہیں مگر تمھاری طرف سے پس مجھے توفیق دے تاکہ دین کو برپا کروں اور سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجرا کروجس طرح تو نیک مولا اور مددگار ہیں۔
مامون نے ۲۰۱ قمری ھجری ۷ رمضان المبارک پیر کے دن امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عھدہونے کا اعلان کیا اور حکم دیا کہ سز لباس پہنا جائے اور اسی طرح حکم دیا کہ ان کے نام کے سکے بنائے جائیں۔
مختلف منبروں پر خطبے دیئے گئے اور امام رضا علیہ السلام کی بیعت کا اعلان کیا گیا،سب شعراء نےبھی لباس سبز زیب تن کیا سوائے اسماعیل ابن علی ہاشمی کے اور ان شعراء میں جس نے مامون سے انعام لیا اس کا نام دعبل ابن علی خزاعی تھا، مامون نے عیسی جلودی کو امام رضا علیہ السلام کی بیعت کا حکم دیکر مکہ کی طرف بھیجا کہ جہاں لوگوں نے مامون کے خلاف احتجاج کیا ہوا تھا، جب لوگوں نے انہیں سبز لباس پہنے ہوئے اور امام رضا علیہ السلام کی مدح میں اشعار کہتے ہوئے دیکھا تو بڑی خوشی سے آگے بڑھے اور ان کا استقبال کیا،اور اسی طرح حسن بن سہل کو سرزمین عراق کی طرف بھیجا تاکہ وہاں کے سادات کواپنےقریب کر سکے اور ان سے بیعت لے سکے۔ یہ سب کام اس لیے ہو رہے تھے کہ عباسیوں کو مضبوط کیا جاسکے اور یہ ثابت کیا جا سکے کہ عباسی حکومت حق پر ہے۔ایک اور ہدف یہ بھی تھا کہ خاندان علوی کی محبت کو ختم کیا جائے حکومت اور ولی عھدی کے لالچ کو بیان کر کے ان کی محبت کو لوگوں کے دل سے ختم کر دیا جائے بالخصوص مامون چاہتا تھا کہ لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کرے کہ امام علی رضا علیہ السلام خلافت کے قابل نہیں ہیں۔مامون نے لوگوں کے درمیان یہ مشھور کر دیا تھا کہ دیکھو علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے خلافت کی لالچ میں ولی عہدی قبول کر لی ہے ،اور جب امام علی رضا علیہ السلام سے سوال کیا جاتا تو آپ علیہ السلام جواب میں فرماتے میں نے ولایت عھدی قبول نہیں کی بلکہ زبردستی مجھے دی گئی ہے ، جو شرائط میں نے رکھی ہیں انہیں دیکھو۔ اسکے بعد عباسیوں کے کالے کپڑے سبزرنگ میں جوکہ علویوں کا رنگ ہے تبدیل ہوگئے ،عباسیوں کے کالے رنگ کے جھنڈے علوی سبز رنگ میں تبدیل ہوئےامام علیہ السلام کے نام کا سکہ جاری ہوا اور خطبوں میں انکی تجلیل اور تکریم ہونے لگی ۔
امام علیہ السلام کی ولی عہدی کے مسئلے کو مختلف زاویوں سے تحقیق کی جا سکتی ہے۔
۱۔ : آیا واقعی مأمون امام علیہ السلام کو ولی عھد بنانا چاہتا تھا؟
اہل سنت کے مورخین اور محققین کا ایک گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مامون،حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو جانشینی اور ولی عہدی دینے میں حسن نیت رکھتا تھا ان کے عقیدہ کے مطابق مامون کا ایران کی سرزمین پر ہونا ،یہیں پر تربیت حاصل کرنا اور شیعہ مذہب پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے وہ خلافت اور ولایت کے منصب کو علویوں کو لوٹانا چاہتا تھا، اور اس مطلب پر اس عہدنامہ میں جومامون کی جانب سے موجود ہے چندین دلائل موجود ہیں، اس عہد نامہ میں مامون خلافت کو سلسلہ انبیاء کی ہی کڑی سمجھتا ہے اور دین کی بقا اور شریعت کے نفاذ کو خلیفہ کے وظایف میں سے شمار کرتا ہے، مامون آگے چل کر یہ بیان کرتا ہے کہ خلافت کی جانشینی رفیع اور بلندوبالا مقام ہے اور وہ شخص خلیفہ کا جانشین بن سکتا ہے جو لوگوں کی محبت کو حاصل کر سکےاور ان کو متحد کر سکےاور ان کو فسادوتباہی سے بچا سکے، اسی عہد نامہ کے آخر میں ان خصوصیات کو کہ جو خلیفہ کے جانشین کے لئے ضروری ہیں ان کو مدّنظر رکھتے ہوئے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو ولی عھدی کےلئے انتخاب کرتاہے اور آپ کو ایک فاضل،پاکدامن اورلوگوں کا محبوب شخص جانتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں زیادہ تر شیعہ محققین، امام کی ولی عہدی اور جانشینی کے موضوع کو مامون کی طرف سے امام کی نسبت سوء نیت جانتے ہیں البتہ اس سوء نیت کا منشاء اور سر چشمہ مامون کا تفصیلاً لوگوں کی روحیات سے آشنا ہونا ہے جو کہ خلافت کے استمرار اور خود مامون کی بقاء کا سبب تھا ا لبتہ مامون کا امام کے ساتھ سلوک،رویہ اور رفتار، شیعہ محققین کےنظریہ کوتاریخ اور منطق کے اعتبار سے زیادہ تقویت دیتا ہے ۔
۲۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا ولی عھدی کو قبول کرنا۔
کچھ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام کا ولی عھدی کو قبول کرنا،امام کے اپنے اختیار سے تھا۔اس نظریے کو قبول کرنے والے اس چیز کے معتقد ہیں کہ امام اسلامی معاشرے کی دیکھ بھال کو امامت کے حقوق میں سے جانتے تھے اسی لئے اپنی خواہش اور رغبت کے ساتھ مامون کی ولی عہدی کو قبول کیاہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں ایک محکم نظریہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ظالم حکمرانوں کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون نہ کرنا اہل بیت علیہم السلام کے اصولوں میں سے ایک اہم اصل تھی۔ لہذا امام علیہ السلام ہرگز مامون کے ساتھ مدد اور تعاون کرنے پر راضی نہیں تھے اور اس منصب کو قبول کرنے میں امام علیہ السلام کو کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ اس مسئلے کو واضح طور پر ہم مامون کے اس حکم کو جو اس نے امام کو مجبور کرکےہجرت کرنے پر دیا تھا اس میں دیکھ سکتے ہیں ۔ امام علیہ السلام نے مختلف طریقوں سے اس سفر پر راضی نہ ہونے کا اعلان کیا اور اس عہد نامہ میں جو امام اور مامون کے درمیان لکھا گیا تھا ؛امام علیہ السلام نے اس میں مختلف طریقوں اور کنایات سے اس منصب کو قبول کرنے میں راضی نہ ہونے کے طرف اشارہ فرمایاہے۔
۳۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولی عہدی سے مامون کے اہداف:
مامون ایک چالاک اور باہوش انسان تھا جو اسلامی ممالک کے سیاسی مسائل کے بارے میں اچھی خاصی معلوماترکھتا تھا۔ اور مامون اسی شناخت کی وجہ سے اس نتیجےپرپہنچا کہ خلافت کی بقاء اور استحکام کے لئے ظاہری طور پر خاندان عصمت وطہارت اور شیعوں سے محبت اور ارادت ضروری ہے۔ لہذا اس نے اپنے سامنے اس کام کے لئے بہترین انتخاب حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو پایا اور اسی لئے امام کو مجبور کر کے خراسان (مرو) ۔بلایا تھا ۔یھی وجہ بنی کہ اس نے اپنے کچھ سیاسی اہداف حاصل کر لئے تھے
شیعوں کے حکومت اور خلافت کے خلاف قیاموں کو مہار کر لیا گیا شیعوں کی ظاہری طور پر مظلومیت ختم ہو گئی کیونکہ امام حکومتی منصب پر فائز ہیں اور اس وجہ سے شیعوں کی مظلومیت کم ہوگئی ، عباسی خلافت کی حکومت کو مقبولیت اور قانونی حثیت حاصل ہو گئی،شیعوں پرتسلط میں توسیع پیدا ہو گئی اور ان کو عباسی حکومت کے ساتھ ملا دیا گیا جانشین خلیفہ کے عنوان سے امام کی روحانی اور معنوی شخصیت کو خراب کیا گیا حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو لوگوں پر جو قدرت حاصل تھی اس کو مہار اور ختم کر دیا گیا،اور امام پر سخت پابندیاں لگادی گئی۔
عید سعید فطر کا واقعہ:
جب عید سعید فطر آئی تو مامون نے بیماری یا کسی اور وجہ سے امام علی ابن موسی الرضا کو پیغام بھیجا کہ اس دفعہ آپ عید کی نماز پڑہائیں۔ امام نے مامون کے بھیجے ہوئے بندے سے فرمایا کہ جا کر مامون سے کہو کہ میری اور تمہاری شرائط کے مطابق عید کی نماز پڑھانا میری ذمیداری نہیں ہیں ،مامون کے دوبارہ اصرار کی وجہ سے امام علی رضا علیہ السلام نے مامون کی بات کو چند شرائط کے ساتھ مان لیا۔
میں عید کی نماز کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے طریقے پر پڑھاؤں گا۔ مامون نے بھی اس شرط کو قبول کر لیا۔
عید کے دن صبح صبح طلوع آفتاب سے پہلے لوگ جوق در جوق امام کے گھر کے سامنے جمع ہونا شروع ہو گئے۔ حکومت کی تمام کوشش یہ تھی کہ عید کی نماز بہت شان و شوکت کے ساتھ پڑہائی جائے اور تاریخ میں ایک یادگار نماز کے طور پر باقی رہے۔
امام علی رضا علیہ السلام اپنے گھر سے باہر تشریف لائے، تمام لوگوں کی نگائیں اما م علیہ السلام کے گھر کی طرف لگیں ہوئی تھیں، سب نے اچانک ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ امام علی رضا علیہ السلام خود کو خوشبو لگائے اور عبا کو کندہوں پر گرائے عید کی نماز پڑہانے کے لیے گھر سے باہر نکلے۔ انھوں نے سفید عمامے کو سر پر رکھا ہوا تھا اور اسکے دونوں سروں کو سر اور گردن کے پیچھے گرایا ہوا تھا۔ انکے ہاتھ میں ایک عصا تھا اور وہ ننگے پاؤں وقار ، جلالت اور ہیبت کے ساتھ قدم بڑھا رہے تھے۔ جب امام کے اصحاب نے امام کو اس حالت میں دیکھا تو انھوں نے خود کو بھی اسی حالت میں ڈھال لیا اور امام کے ساتھ مل کر تکبیر کہنے لگے[1]۔ اس روحانی اور ملکوتی منظر کو دیکھ کر گھوڑوں پر سوار سپاہی اور حکومتی عہدے دار لوگ بھی اپنے اپنے گھوڑوں سے نیچے اتر آئے اور اپنے جوتے ا تار کر بلند بلند آواز سے تکبیر کہنے لگے۔ ایک طرف سے ان روحانی مناظر نے اور دوسری طرف سے لوگوں کے اس منظر کی خبر مأمون تک پہچ گئی تو اس وقت فضل بن سہل نے مأمون کو کہا:ای امیر المؤمنین اگر علی بن رضا نماز عید کی جگہ پر اس حالت میں پہنچ گیاتو لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکائے گا ،ہم اپنے مر جانے سے ڈرتے ہیں کسی کو بھیجو کہ واپس آئے،اس وقت مأمون نے کسی آدمی کو کہلوا کر بہیجا کہ :ہم نے آپ کو تکلیف میں ڈالا ہے ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ تمھیں کوئی تکلیف ہو ،واپس آجائو جو ھمیشہ نماز پڑھاتا ہے وہ پڑھائیگا،اور یہ نماز منظم انداز میں ادا نہ ہوسکی۔
امام رضا علیہ السلام نے اپنے جوتے پہنے اور اپنی سواری پر سوار ہو کر اپنے گھر واپس لوٹ آئے۔ اس آدھے راستے سے واپس پلٹنے کا امام کو اس قدر افسوس ہوا کہ امام نے فرمایا: خدایا اگر اس حالت سے موت ہی میرے لیے بہتر ہے تو مجھے جلدی موت نصیب فرما۔
اس واقعے کے بعد مامون بہت ڈر گیا تھا اور امام کے وجود کو بنی عباس اور اپنی خلافت و حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ اسکے بعد اس نے اپنی نئی حکمت عملی کو اپنایا۔ وزیر فضل ابن سہل اور تمام افواج کے سربراہ مامون کی اس نئی حکمت عملی کی قربانی بنے ، اس سب کچھ کے باوجود مامون آرام سے راضی ہونے والا نہیں تھا، وہ سرے سے مسئلہ ولیعہدی کو ختم کرنا چاہتا تھا، نہ فقط فضل ابن سہل کو، اور مسئلہ ولیعہدی کو امام رضا کے زندہ رہنے تک ختم کرنا ممکن نہیں تھا، اس وجہ سے اب وہ فقط اور فقط اپنے راستے سے امام کو ہٹانا چاہتا تھا۔
لہذا اب واضح طورپر سب کے سامنے تو امام کو قتل نہیں کیا جا سکتا تھا، یا امام پر حکومت کے ساتھ خیانت کرنے کی تہمت بھی نہیں لگائی جا سکتی تھی اور امام کو اس طریقے پر کہ جس کے ساتھ فضل ابن سہل کو قتل کیا گیا تھا، قتل بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہذا مامون کے امام کو قتل کرنے کے لیے یہ تمام طریقے خود مامون کو مناسب نہیں لگ رہے تھے۔ کسی کو کچھ پتا نہیں تھا کہ مامون امام کو کس طریقے سے اپنے راستے سے ہٹائے گا، لیکن سیاسی واقعات کی تحلیل کرنے والوں نے بیان کیا ہے کہ مامون مندرجہ ذیل کام کرنا چاہتا تھا:
۱- وہ مسئلہ ولیعہدی کو ختم کرنے کے لیے امام کے وجود کو ختم کرنا چاہتا تھا
۲- امام کو قتل کرنے کے داغ سے اپنے دامن کو بھی بچانا چاہتا تھا
۳- وہ امام کے قتل سے بھی سیاسی فوائد حاصل کرنا چاتا تھا
اور آخر کار ایسا ہی ہوا اور مامون نے اپنا کام کر دکھایا بہت سے شیعوں کو امام سے دوری کے غم میں مبتلا کر دیا۔
………………………….
حواله جات
۱- شيخ عباس قمى، منتهى الامال ۔ بخش حالات حضرت رضا(ع)
۲- المفید، الارشاد، چاپ ،قم
۳- دائرة المعارف تشیع)
۴- یعقوبی، تاریخ یعقوبی
۵- حسینی، جعفر مرتضی،سیاسی زندگی امام ھشتم
۶- صدوق، عیون اخبار الرضا،
۷- زندگانى امام رضا عليه السلام، ترجمه حياة الامام الرضا(ع) ، باقر شريف قرشى / مترجم سيد محمد صالحى ، جلد دوم ، انشارات اسلامیة ، تهران
منبع: تبیان