- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 13 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/17
- 0 رائ
یا أیّھا الّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون .
ترجمہ: اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شاید تم اس طرح متّقی بن جاؤ.
رمضان کا مہینہ ایک مبارک اور باعظمت مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا یہی وہ مہینہ ہے جس میں انسان دنیا و آخرت کی نیکیاں حاصل کرتے ہوئے کمال کی منزل تک پہنچ سکتا ہے.اور پچاس سال کا معنوی سفر ایک دن یا ایک گھنٹہ میں طے کر سکتا ہے. اپنی اصلاح اور نفس امارہ پر کنٹرول کی ایک فرصت ہے جو خدا وند متعال نے انسان کو دی ہے . خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیںایک بار پھر ماہ مبارک رمضان نصیب ہوا اور یہ خود ایک طرح سے توفیق الھی ہے تا کہ انسان خدا کی بارگاہ میں آکراپنے گناہوں کی بخشش کا سامان کر سکے ، ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیںجو پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے لیکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہو چکے ہیں .
عزیزان گرامی! اس مہینہ اور اس کی ان پر برکت گھڑیوں کی قدر جانیں اور ان سے خوب فائدہ اٹھائیں اس لئے کہ نہیں معلوم کہ اگلے سال یہ موقع اور یہ بابرکت مہینہ ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو .
ماہ مبارک عبادت و بندگی کا مہینہ ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : ((قال اللہ تبارک و تعالٰی : یا عبادی الصّدیقین تنعموا بعبادتی فی الدّنیا فانّکم تتنعّمون بھا فی الآخرة((
خدا وند متعال فرماتا ہے: اے میرے سچے بندو! دنیا میں میری عبادت کی نعمت سے فائدہ اٹھاؤ تاکہ اس کے سبب آخرت کی نعمتوں کو پا سکو .
یعنی اگر آخرت کی بے بہا نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر دنیا میں میری نعمتوں کو بجا لاؤں اس لئے کہ اگر تم دنیا میں میری نعمتوں کی قدر نہیں کرو گے تو میں تمہیں آخرت کی نعمتوں سے محروم کر دوں گا .اور اگر تم نے دنیا میں میری نعمتوں کی قدر کی تو پھر روز قیامت میں تمھارے لئے اپنی نعمتوں کی بارش کردوں گا .
انہیں دنیا کی نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک اور اس کے روزے ہیں کہ اگر حکم پرور دگار پر لبیک کہتے ہوئے روزہ رکھا ، بھوک و پیاس کو تحمل کیا تو جب جنّت میں داخل ہو گے توآواز قدرت آئے گی ))کلوا و اشربوا ھنیئا بما أسلفتم فی الأیّام الخالیة((
ترجمہ: اب آرام سے کھاؤ پیو کہ تم نے گذشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے .
ماہ مبارک کے روز و شب انسان کے لئے نعمت پروردگار ہیں جن کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہئے . لیکن سوال یہ پیدا پوتا ہے کہ ان بابرکت اوقات اور اس زندگی کی نعمت کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے ، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: من قال أربع مرّات اذا أصبح ، ألحمد للہ ربّ العالمین فقد أدّٰی شکر یومہ و من قالھا اذا أمسٰی فقد أدّٰی شکر لیلتہ
جس شخص نے صبح اٹھتے وقت چار بار کہا: ((الحمد للہ ربّ العالمین)) اس نے اس دن کا شکر ادا کردیا اور جس نے شام کو کہا اس نے اس رات کا شکر ادا کردیا
کتنا آسان طریقہ بتادیا امام علیہ السلام نے اور پھر اس مہینہ میں تو ہر عمل دس برابر فضیلت رکھتا ہے ایک آیت کا ثواب دس کے برابر ، ایک نیکی کا ثواب دس برابر،امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں :)) من قرء فی شھر رمضان آیة من کتاب اللہ کان کمن ختم القرآن فی غیرہ من الشّھور ((
جو شخص ماہ مبارک میں قرآن کی ایک آیت پڑھے تو اس کا اجر اتنا ہی ہے جتنا دوسرے مہینوں میں پورا قرآن پڑھنے کا ہے .
کسی شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا :
))یا رسول اللہ! ثواب رجب أبلغ أم ثواب شھر رمضان؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : لیس علی ثواب رمضان قیاس((
یا رسول اللہ! رجب کا ثواب زیادہ ہے یا ماہ رمضان کا؟ تو رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ماہ رمضان کے ثواب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا.گویا خدا وند متعال بہانہ طلب کر رہا ہے کہ کسی طرح میرا بندہ میرے سامنے آکر جھکے تو سہی . کسی طرح آکر مجھ سے راز و نیاز کرے تو سہی تا کہ میں اس کو بخشش دوں .
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ مبارک کی فضیلت بیان فرماتے ہیں :
))انّ شھر رمضان ، شھر عظیم یضاعف اللہ فیہ الحسنات و یمحو فیہ السیئات و یرفع فیہ الدرجات((
ماہ مبارک عظیم مہینہ ہے جس میں خداوند متعال نیکیوںکو دو برابرکر دیتا ہے. گناہوں کو مٹادیتا اور درجات کوبلند کرتا ہے.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :((اذا أسلم شھر رمضان سلّمت السّنة و رأس السّنة شھر رمضان((
اگر کوئی شخص ماہ مبارک میں سالم رہے تو پورا سال صحیح و سالم رہے گا اور ماہ مبارک کو سال کا آغاز شمار کیا جاتا ہے. اب یہ حدیث مطلق ہے جسم کی سلامتی کو بھی شامل ہے اور اسی طرح روح کی بھی . یعنی اگر کوئی شخص اس مہینہ میں نفس امارہ پر کنٹرول کرتے ہوئے اپنی روح کو سالم غذا دے تو خدا وند متعال کی مدد اس کے شامل حال ہوگی اور وہ اسے اپنی رحمت سے پورا سال گانہوں سے محفوظ رکھے گا . اسی لئے تو علمائے اخلاق فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک خود سازی کا مہینہ ہے تہذیب نفس کا مہینہ ہے . اس ما ہ میں انسان اپنے نفس کا تزکیہ کر سکتا ہے
اور اگر وہ پورے مہنیہ کے روزے صحیح آداب کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اسے اپنے نفس پر قابو پانے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا اور پھر شیطان آسانی سے اسے گمراہ نہیں کرپائے گا .
عزیزان گرامی! جو نیکی کرنی ہے وہ اس مہینہ میں کر لیں، جو صدقات و خیرات دینا چاہتے ہیں وہ اس مہینہ میں حقدار تک پہنچائیں اس میں سستی مت کریں .مولائے کائنات امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں اے انسان تیرے پاس تین ہی تو دن ہیں ایک کل کا دن جو گذر چکا اور اس پر تیرا قابو نہیں چلتا اس لئے کہ جو اس میں تو نے انجام دینا تھا دے دیا . اس کے دوبارہ آنے کی امید نہیں اور ایک آنے والے کل کا دن ہے جس کے آنے کی تیرے پاس ضمانت نہیں ، ممکن ہے زندہ رہے، ممکن ہے اس دنیا سے جانا پڑ جائے، تو بس ایک ہی دن تیرے پاس رہ جاتا ہے اور وہ آج کا دن ہے جو کچھ بجا لانا چاہتا ہے اس دن میں بجا لا.اگر کسی غریب کی مدد کرنا ہے تو اس دن میں کر لے، اگر کسی یتیم کو کھانا کھلانا ہے تو آج کے دن میں کھلا لے ، اگر کسی کو صدقہ دینا ہے تو آج کے دن میں دے، اگر خمس نہیں نکالا تو آج ہی کے اپنا حساب کر لے ، اگر کسی ماں یا بہن نے آج تک پردہ کی رعایت نہیں کی تو جناب زینب سلام اللہ علیھا کاواسطہ دے کر توبہ کرلے، اگر آج تک نماز سے بھاگتا رہا تو آج اس مبارک مہینہ میں اپنے ربّ کی بارگاہ میںسرجھکا لے خدارحیم ہے تیری توبہ قبول کر لے گا . اس لئے کہ اس نے خود فرمایا ہے: ((أدعونی أستجب لکم((
اے میرے بندے مجھے پکار میں تیری دعا قبول کروں گا .
عزیزان گرامی! یہ مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے بخشش کامہینہ ہے. اور پھر خود رسول مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
))انّما سمّی رمضان لأنّہ یرمض الذّنوب((
رمضا ن المبارک کو رمضان اس لئے کہا جاتا ہے چونکہ وہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے .
آئیں مل کر دعا کریں کہ اے پالنے والے تجھے اس مقدس مہینہ کی عظمت کا واسطہ ہم سب کو اس ما ہ میں اپنے اپنے نفس کی تہذیب واصلاح اور اسے اس طرح گناہوں سے پاک کرنے کی توفیق عطا فرماجس طرح تو چاہتا ہے اس لئے کہ تیری مدد کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے. آمین
ماہ رمضان کی فضیلت
یا أیّھاالّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون.
ترجمہ: اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے . شاید تم اس طرح متّقی بن جاؤ.
عزیزان گرامی! ہماری گفتگو کا موضوع ماہ مبارک رمضان کی فضیلت تھا جس کے بارے میں گذشتہ درس میں کسی حدّ تک بیان کیا گیا اور آج بھی اسی موضوع پر گفتگو جاری رہے گی . تو کل ہم نے عرض کیا کہ یہ مہینہ برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے اس مہینہ کا نام رمضان اسی لئے رکھا گیا کہ اس میں روزہ دار کے گناہوں کو مٹا کر اسے کمال کی سعادت سے فیضیاب کیا جاتا ہے اس ماہ کے دن ورات کی قدر کریں. رسولخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
))أیھاالنّاس قد أقبل الیکم شھر اللہ شھر ھو عند اللہ أفضل الشھور و أیّامہ أفضل الأیّام و لیالیہ أفضل اللّیالی و ساعاتہ افضلالسّاعات((
اے لوگو! خدا کا مہینہ تمھارے پاس آیا ہے .وہ مہینہ جو تمام مہینوں پر فضیلت رکھتا ہے ، جس کے دن بہترین دن ، جس کی راتیں بہترین راتیں اور جس کی گھڑیاں سب سے بہترین گھڑیاں ہیں .
اور پھر اس ماہ کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ((أنفاسکم فیہ تسبیح و نومکم فیہ عبادة((
اس ماہ میں تمھارا سانس لینا تسبیح اور تمھارا سونا عبادت شمار ہوتا ہے. اس سے بڑھکر عزیزان گرامی اس ذات ذوالجلال کا اپنے بندوں پر کیا لطف و کرم ہو سکتا ہے کہ انسان کوئی عمل بھی نہیں کر رہا مگر وہ خدا اس قدر رؤوف ہے اپنے بندوں پر کہ انہیں اجر پہ اجر دیتا جا رہا ہے.
امام صادق علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند کونصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ((اذا دخل شھر رمضان ، فاجھدوا أنفسکم فانّ فیہ تقسیم الأرزاق و تکتب الآجال و فیہ یکتب وفد اللہ الّذین یفدون الیہ و فیہ لیلة العمل فیھا خیر من العمل فی ألف شھر ((
جب ماہ مبارک آجائے تو سعی وکوشش کرو اس لئے کہ اس ماہ میں رزق تقسیم ہوتا ہے تقدیر لکھی جاتی ہے اور ان لوگوں کے نام لکھے جاتے ہیں جو حج سے شرفیاب ہونگے .اور اس ماہ میں ایک رات ایسی ہے کہ جس میں عمل ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے .
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقدس مہینہ کے بارے میںفرماتے ہیں: ((أنّ شھرکم ھذا لیس کالشّھور ، أنّہ اذا أقبل الیکم أقبل بالبرکة و الرّحمة، و اذا أدبر عنکم أدبر بغفران الذّنوب ، ھذا شھر الحسنات فیہ مضاعفة ، و اعمال الخیر فیہ مقبولة((
یہ مہینہ عام مہینوں کے مانند نہیں ہے.جب یہ مہینہ آتا ہے تو برکت و رحمت لیکر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو گناہوں کی بخشش کے ساتھ جاتا ہے ، اس ماہ میں نیکیاں دو برابر ہوجاتی ہیں اور نیک اعمال قبول ہوتے ہیں .یعنی اسکا آنا بھی مبارک ہے اور اس کا جانا بھی مبارک بلکہ یہ مہینہ پورے کا پورا مبارک ہے لہذا اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی کوشش کریں، کوئی لمحہ ایسا نہ ہو جو ذکر خدا سے خالی ہو اور یہی ہمارے آئمہ ھدٰی علیہم السلام کی سیرت ہے .امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے :
))کان علی بن الحسین علیہ السلام اذا کان شھر رمضان لم یتکلّم الّا بالدّعا و التّسبیح والاستغفار والتکبیر((
جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو امام زین العابدین علیہ السلام کی زبان پر دعا، تسبیح ،استغفار اور تکبیر کے سوا کچھ جاری نہ ہوتا .
عزیزان گرامی! وہ خدا کتنا مہربان ہے کہ اپنے بندوں کی بخشش کے لئے ملائکہ کوحکم دیتا ہے کہ اس ماہ میں شیطان کو رسیوں سے جکڑدیں تاکہ کوئی مومن اس کے وسوسہ کا شکار ہوکر اس ماہ کی برکتوں سے محروم نہ رہ جائے لیکن اگر اس کے بعد بھی کوئی انسان اس ماہ مبارک میں گناہ کرے اور اپنے نفس پر کنٹرول نہ کرسکے تو اس سے بڑھکر کوئی بدبخت نہیں ہے.رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:((قد وکّل اللہ بکلّ شیطان مرید سبعة من الملائکة فلیس بمحلول حتّیٰ ینقضی شھرکم ھذا))
خدا وند متعال نے ہر فریب دینے والے شیطان پر سات فرشتوںکو مقرر کر رکھا ہے تاکہ وہ تمہیں فریب نہ دے سکے، یہاں تک کہ ماہ مبارک ختم ہو .
کتنا کریم ہے وہ ربّ کہ اس مہینہ کی عظمت کی خاطر اتنا کچھ اہتمام کیا جارہا ، اب اس کے بعد چاہئے تو یہ کہ کوئی مومن شیطان رجیم کے دھوکہ میں نہ آئے اور کم از کم اس ماہ میں اپنے آپ کو گناہ سے بچائے رکھے اور نافرمانی خدا سے محفوظ رہے ورنہ غضب خدا کا مستحق قرار پائے گا . اسی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (( من أدرک شھر رمضان فلم یغفرلہ فأبعدہ اللہ)) جوشخص ماہ رمضان المبارک کو پائے مگر بخشا نہ جائے تو خدا اسے راندہ درگاہ کردیتاہے .
اس میں کوئی ظلم بھی نہیں اس لئے کہ ایک شخص کے لئے آپ تمام امکانات فراہم کریں اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود وہ آپکی امید پر پورا نہ اترے تو واضح ہے کہ آپ اس سے کیا برتاؤ کریں گے.
عزیزان گرامی!اس مبارک مہینہ سے خوب فائدہ اٹھائیں اسلئے کہ نہیں معلوم کہ آئندہ سال یہ سعادت نصیب ہو یا نہ ہو ؟تا کہ جب یہ ماہ انتھاء کو پہنچے تو ہمارا کوئی گناہ باقی نہ رہ گیا ہو . جب رمضان المبارک کے آخری ایّام آتے تورسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعافرمایا کرتے: (( اللّھمّ لاتجعلہ آخر العھد من صیامی شھر رمضان ، فان جعلتہ فاجعلنی مرحوما ولا تجعلنی محروما ))
خدایا! اس ماہ رمضان کو میرے روزوں کا آخری مہینہ قرار نہ دے ، پس اگر یہ میرا آخری مہینہ ہے تو مجھے اپنی رحمت سے نواز دے اور اس سے محروم نہ رکھ.
آئیں ہم سب بھی مل کر یہی دعا کریں کہ اے پالنے والے ہمیں اگلے سال بھی اس مقدس مہینہ کی برکتیں نصیب کرنا لیکن اگر تو اپنی رضا سے ہمیں اپنے پاس بلا لے توایسے عالم میں اس دنیا سے جائیں کہ تو ہم راضی ہو اور ہمارے امام ہم سے خوشنود .
روزے کا فلسفہ
یاأیّھاالّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون.
ترجمہ: اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے تاکہ شاید اس طرح تم متّقی بن جاؤ.
عزیزان گرامی! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند متعال نے روزے کا فلسفہ تقوٰی کو قرار دیاہے یعنی روزہ تم پر اس لئے واجب قرار دیا تا کہ تم متقی بن سکو، پرہیز گار بن سکو.اور پھر روایات میں اسے روح ایمان کہا گیا .امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
)) من أفطر یوما من شھر رمضان خرج روح الایمان منہ((
جس شخص نے ماہ رمضان میں ایک دن روزہ نہ رکھا اس سے روح ایمان نکل گئی .
یعنی روزے کی اہمیت اور اس کے فلسفہ کا پتہ اسی فرمان سے چل جاتا ہے کہ روزے کے واجب قرار دینے کا مقصد ایمان کو بچانا ہے اوراسی ایمان کو بچانے والی طاقت کا دوسرا نام تقوٰی ہے جسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٨٣ میں روزے کا فلسفہ بیان کیا گیا.
تو یہ تقوٰی کیا ہے جسے پروردگار عالم نے روزے کا فلسفہ اور اس کا مقصد قرار دیا ہے؟ روایات میں تقوٰی کی تعریف میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں :
١۔ اطاعت پروردگار
٢۔ گناہوں سے اجتناب
٣۔ ترک دنیا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
)) علیک بتقوی اللہ فانّہ رأس الأمر کلّہ((
تمہارے لئے تقوٰی ضروری ہے اس لئے کہ ہر کام کا سرمایہ یہی تقوٰی ہے .
حقیقت یہ ہے کہ ایسا روزہ جو انسان کو گناہوں سے نہ بچاسکے اسے بھوک و پیاس کا نام تو دیا جاسکتا ہے مگر روزہ نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ روزہ کا مقصد اور اس کا جو فلسفہ ہے اگر وہ حاصل نہ ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ جس روزہ کا حکم دیا گیا تھا ہم نے وہ نہیں رکھا ، بلکہ یہ ہماری اپنی مرضی کا روزہ ہے جبکہ خدا ایسی عبادت کو پسند ہی نہیں کرتا جو انسان خداکی اطاعت کے بجائے اپنی مرضی سے بجا لائے ورنہ شیطان کو بارگاہ ربّ العزّت سے نکالے جانے کا کوئی جواز ہی رہتا چونکہ اس نے عبادت سے تو انکار نہیں کیا تھا .حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ((قلت یا رسول اللہ! ما افضل الأعمال فی ھذا الشھر؟ فقال یا ابا الحسن أفضل الأعمال فی ھذا الشّھر، ألورع من محارم اللہ ۔عزّوجلّ۔((
امیرالمؤمنین علیہ السّلام فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! اس مہینہ میں کونسا عمل افضل ہے؟ فرمایا: اے ابوالحسن! اس ماہ میں افضل ترین عمل گناہوں سے پرہیز یعنی تقوٰی الھی ہے.
نیز مولائے کائنات فرماتے ہیں:
)) علیکم فی شھر رمضان بکثرة الاستغفار و الدّعا فأمّا الدّعا فیدفع بہ عنکم البلاء و أمّا الاستغفار فیمحٰی ذنوبکم((
ماہ رمضان میں کثرت کے ساتھ دعا اور استغفار کرو اس لئے کہ دعا تم سے بلاؤں کو دور کرتی ہے اور استغفار تمھارے گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتا ہے .
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ((من صام شھر رمضان فاجتنب فیہ الحرام والبھتان رضی اللہ عنہ و أوجب لہ الجنان((
جو شخص ماہ رمضان کا روزہ رکھے اور حرام کاموں اور بہتان سے بچے تو خدا اس سے راضی اور اس پر جنّت کو واجب کردیتا ہے .
اور پھر ایک دوسری روایت میں فرمایا: ((انّ الجنّة مشتاقة الی أربعة نفر : ١۔ الی مطعم الجیعان . ٢۔ وحافظ اللّسان. ٣۔ و تالی القرآن . ٤۔ وصائم شھر رمضان.
جنّت چار لوگوں کی مشتاق ہے:
١۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانے والے
٢۔ اپنی زبان کی حفاظت کرنے والے
٣۔ قرآن کی تلاوت کرنے والے
٤ ۔ ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والے
روزے کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان حرام کاموں سے بچے اور کمال حقیقی کی راہوں کو طے کرسکے .رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
))شھر رمضان شھر فرض اللہ ۔ عزّوجلّ ۔ علیکم صیامہ ، فمن صامہ ایمانا و احتسابا ، خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ أمّہ((
ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں خدا وند متعال نے تم پرروزے واجب قرار دیئے ہیں پس جو شخص ایمان اور احتساب کی خاطر روزہ رکھے تو وہ اسی طرح گناہوں سے پاک ہو جائے گا جس طرح ولادت کے دن پاک تھا .
ویسے بھی گناہ سے اپنے آپ کو بچانا اور حرام کاموںسے دور رہنا مومن کی صفت ہے اس لئے کہ گناہ خود ایک آگ ہے جو انسان کے دامن کو لھی ہوئی ہو اور خدانہ کرے اگر کسی کے دامن کو آگ لگ جائے تو وہ کبھی سکون سے نہیں بیٹھتا جب تک اسے بجھا نہ لے اسی طرح عقل مند انسان وہی ہے جو گناہ کے بعد پشیمان ہو اور پھر سچی توبہ کرلے اس لئے کہ معصوم تو ہم میں سے کوئی نہیں ہے لہذااگر خدانہ کرے غلطی سے کوئی گناہ کربیٹھے تو فورا اس کی بارگاہ میں آکر جکھیں ، یہ مہینہ توبہ کے لئے ایک بہترین موقع ہے کیونکہ اس میں ہر دعاقبول ہوتی ہے.آئیں اہل بیت علیہم السلام کا واسطہ دیں اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا وعدہ کریں، یقینا خداقبول کرے گا .رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ((من صام شھر رمضان فحفظ فیہ نفسہ من المحارم دخل الجنّة((
جو شخص ماہ مبارک میں روزہ رکھے اور اپنے نفس کو حرام چیزوں سے محفوظ رکھے، جنّت میں داخل ہوگا .
امام صادق علیہ السلام روزہ کا ایک اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
))انّما فرض اللہ عزّوجلّ الصّیام لیستوی بہ الغنیّ والفقیر و ذٰلک أنّ الغنیّ لم یکن لیجد مسّ الجوع فیرحم الفقیر لأنّ الغنیّ کلّما أراد شیئا قدر علیہ ، فأراد اللہ عزّ وجلّ أن یسّوی بین خلقہ، و أن یذیق الغنیّ مسّ الجوع والألم لیرقّ علی الضّعیف فیرحم الجائع((
خداوند متعال نے روزے اس لئے واجب قرار دیئے تاکہ غنی و فقیر برابر ہو سکیں. اور چونکہ غنی بھوک کا احساس نہیں کرسکتا جب تک کہ غریب پر رحم نہ کرے اس لئے کہ وہ جب کوئی چیز چاہتا ہے اسے مل جاتی ہے. لہذا خدا نے یہ ارادہ کیا کہ اپنی مخلوق کے درمیان مساوات برقرار کرے اور وہ اس طرح کہ غنی بھوک و درد کی لذت لے تاکہ اسکے دل میں غریب کے لئے نرمی پیداہو اور بھوکے پر رحم کرے .
عزیزان گرامی! یہ ہے روزے کا فلسفہ کہ انسان بھوک تحمل کرے تاکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس ہو لیکن افسوس ہے کہ آج تو یہ عبادت بھی سیاسی صورت اختیار کر گئی ہے بڑی بڑی افطار پارٹیاں دی جاتی ہیں جن میں غریبوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کے بھوکے بچوں اور انہیں مزید اذیت دی جاتی ہے نہ جانے یہ کیسی اہل بیت علیہم السلام اور اپنے نبیۖکی پیروی ہو رہی اس لئے کہ دین کے ہادی تو یہ بتا رہے کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ غریبوں اور فقیروں کی مدد کرو جبکہ ہم علاقہ کے ایم این اے اور ایم پی اے یا پیسے والے لوگوں کو دعوت کر رہے اور باقاعدہ کارڈ کیے ذریعہ سے کہ جن میں سے اکثر روزہ رکھتے ہی نہیں.
عزیزان گرامی! روزہ افطار کروانے کا بہت بڑا ثواب ہے لیکن کس کو؟ روزہ دار اور غریب لوگوں کو. ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ ان لوگوں کو افطار نہ کروائیں ان کو بھی کروایئں لیکن خدا را غریبوں کا خیال رکھیں جن کا یہ حق ہے. خداوند متعال ہمیں روزے کے فلسفہ اور اس کے مقصد سے آگاہ ہونے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے .اور اس با برکت مہینہ میں غریبوں کی مددکرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے .آمین یا ربّ العالمین.