- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 46 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/04/07
- 0 رائ
خداوند عالم نے اپنے حکیمانہ نظام کی بنیاد پر جہان کو اس طرح سے ترتیب دیا ہے کہ تمام چیزوں کا ایک دوسرے کے درمیان میں خاص رابطہ برقرار ہے اس نظام خلقت میں ہر چیز حکمت الہی کی بناء پر خاص اندازہ رکھتی ہے اور کوئی بھی چیز بغیر حساب و کتاب کے نہیں ہے بلکہ یہ جہان ریاضی قانون کی بنیاد پر منظم ہے ۔
شب قدر کی اہمیت اور اس کی برکات کو بیان کرتے ہوئے اہل لغت اور اصطلاح کے نظریہ کو بھی بیان کیا : قدر لغت میں اندازہ اور اندازہ گیری کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
تقدیر کے معنی بھی اندازہ گیری اور معین کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں قدر جہان کی خصوصیت اور ہر اس چیز کے وجود کو کہ اس کی خلقت کیسے ہوئی ہے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
دوسرے جملوں میں اندازہ و ہر چیز کے وجود کو مشخص کرنے کو قدر کہا جاتا ہے۔
باقری جوراسی نے فرمایا : حکمت الہی کی بناء پر اس نظام خلقت میں ہر چیز ایک خاص اندازہ رکھتی ہے اور کوئی چیز بھی بغیر حساب و کتاب کے نہیں ہے بلکہ یہ جہان قانون ریاضی کی بنیاد پر منظم ہے اور حساب و کتاب رکھتی ہے اور ماضی حال مستقبل آپس میں ارتباط رکھتے ہیں۔
جناب شہید مطہری قدر کی تعریف کو یوں بیان کرتے ہیں: قدر کے معنی اندازہ اور معین کے ہیں۔
اس جہان میں جتنے بھی حادثات اور واقعات رونما ہوتے ہیں انکی مقدار جگہ اور وقت معین ہے یہ سب خدا کی قدرت سے ہے۔
خداوند عالم کا ارشاد ہے: والذی قدّر فھدی،(سورہ اعلی آیت 3)
جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تقدیر لکھنے والا اور ہدایت کرنے والا خدا ہے۔
چونکہ انسان وہ مخلوق ہے جو ارادہ اور اختیار رکھتی ہے۔ لہذا سعادت اور شقاوت کے راستہ کا انتخاب بھی اسی کے ارادہ و اختیار پر منحصر ہے۔ اسی لیے شب قدر میں انسان کے سال بھر کے آیندہ کے اعمال کو دیکھتے ہوئے اس کی تقدیر لکھی جاتی ہے۔
شب قدر ماہ رمضان کے آخری ایام کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔
روایات کے مطابق شب قدر، انیسویں یا اکیسویں یا شب تئیسویں ماہ رمضان ہے ۔ اور اس رات کی بہت فضیلت ہے کیونکہ اس رات میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔
شب قدر میں انسان کی نیکی، برائی، ولادت، موت، رزق، حج، اطاعت، گناہ، خلاصہ یہ کہ جتنے بھی افعال اور واقعات اس سال میں اس کے اختیار سے انجام پائینگے وہ سب اسکی قسمت میں لکھ دیئے جاتے ہیں۔
(اصول کافی٬ ج 4 ص 157)
قدر کی رات ہر سال اور ہمیشہ آتی ہے اس رات میں عبادت کی فضیلت بیشمار ہے اس رات کو عبادت اور توبہ استغفار کی حالت میں گزارنا، سال بھر کی اچھی تقدیر لکھے جانے میں موٴثر ہے۔
اس رات میں، آیندہ سال کے تمام امور، امام زمانہ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں اور وہ اپنی و دوسروں کی تقدیر سے با خبر ہوتے ہیں۔
انہوں نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا : امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
انہ ینزل فی لیلة القدر الی ولی الامر تفسیر سنةً سنةً یؤمر فی امر نفسہ بکذا و کذا و فی امر الناس بکذا و کذا۔
شب قدر میں ولی امر ( امام زمان) کی خدمت میں سال بھر کے کاموں کی تفصیل پیش ہوتی ہے، وہ اپنے اور دوسرے لوگوں کے امور میں حکم دینے پر مامور ہوتے ہیں۔
(اصول کافی)
امام باقر علیہ السلام اس آیہ ” انّا انزلناہ فی لیلة مبارکة” کے معنی کے جواب میں فرماتے ہیں کہ:
شب قدر وہ رات ہے جو ہر سال ماہ رمضان کی آخری تاریخوں میں اجاگر ہوتی ہے یہ وہ شب ہے جس میں نہ صرف قرآن نازل ہوا ہے بلکہ خداوند عالم نے اس رات کے لیے فرمایا ہے:
فیھا یفرق کل امر حکیم… اس قدر کی رات میں ہر وہ حادثہ اور امور جو سال بھر میں ظاہر ہو گا جیسے نیکی برائی اطاعت اور معصیت یا وہ اولاد جسکو پیدا ہونا ہے یا وہ موت جو آئیگی یا وہ رزق جو ملے گا سب کے سب تقدیر میں لکھ دیئے جاتے ہیں۔
اسی بناء پر قرآن کریم میں شب قدر اور تقدیر الہی کی جانب خاص توجہ پائی جاتی ہے کہ جو خصوصیت جہان اور انسان کے رابطہ کو خدا سے بیان کرتی ہے اگر ہر شخص اس رابطہ پر عقیدہ رکھے اور اسی کے مطابق حرکت کرے تو اسکی سال بھر کی تقدیر لکھے جانے میں زیادہ موٴثر ہو گی۔ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شب قدر پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کے دور سے اختصاص نہیں رکھتی ہے بلکہ گذشتہ زمانوں میں بھی اسکا وجود تھا۔
علامہ مجلسی امام محمد تقی(ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہے کہ:
…لقد خلق اللہ تعالی لیلة القدر اول ما خلق الدنیا ولقد خلق فیھا اول نبی یکون واول وصی یکون…
خداوند نے شب قدر کو اس دنیا کی خلقت کے آغاز میں خلق کیا ہے اور اسی شب میں اس نے اپنے پہلے نبی اور وصی کو قرار دیا ہے۔
دوسری جانب رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے کہ:
ان اللہ وھب لامتی لیلة القدر لم یعطھا من کان قبلہم،
خداوند عالم نے میری امّت کو شب قدر کی نعمت سے نوازا ہے جبکہ پہلے والی امّتوں کو یہ نعمت عطا نہیں ہوئی تھی ۔
ان دونوں روایتوں کو جمع کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شب قدر کا وجود پہلے سے تھا لیکن اسکی فضیلتوں کو خداوند نے امّت اسلام سے مخصوص کر دیا جو پہلے والی امّتوں کو عطا نہیں ہوئی تھیں۔
اس لیے شب قدر ایک حقیقی اور واقعی چیز ہے جس کو خداوند نے قرار دیا ہے۔
سورہٴ قدر کی آیتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر سال میں ایک شب “شب قدر” کے نام سے ہے۔
جس کی فضیلت ہزار ماہ سے زیادہ ہے اس شب میں خداوند کے فرشتے بالخصوص روح الامین اللہ کے ہر فرمان اور تقدیر کو جو کہ ایک سال کے لیے مقّرر ہوتی ہے لیکر نازل ہوتے ہیں۔
وہ احادیث جو سورہ قدر اور سورہ دخان کی شروع کی آیات کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ان احادیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ شب قدر میں اللہ کے فرشتے ایک سال کی تقدیر کو امام زمان (ع) کی خدمت میں پیش کرتے ہیں یہ واقعیت پہلے تھی اور آیندہ بھی رہے گی۔
پیغمبر اکرم (ص) کی حیات میں اللہ کے فرشتے تقدیر سال کو رسول اکرم (ص) کی خدمت میں پیش کرتے تھے اس بات کو سبھی نے قبول کیا ہے۔ اور پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد بھی شب قدر کا وجود قرآن کی آیات اور روایات سے ثابت ہے۔
رشید الدین میبدی اہل سنّت کے معروف مفسر کہتے ہیں کہ: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ شب قدر پیغمبر (ص) کے زمانے میں تھی اور ان کے بعد ختم ہو گئی ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ تمام اصحاب پیغمبر (ص) اور علماء اسلام اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ شب قدر قیامت تک باقی ہے۔
شیخ طبرسی بھی اس سلسلہ میں ابوذر غفاری سے روایت نقل کرتے ہیں کہ: ابوذر نے پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا، اے پیغمبر اکرم(ص) کیا شب قدر اور فرشتوں کا اس شب میں نازل ہونا فقط پیغمبروں کے زمانے میں ہے اور پیغمبروں کے بعد شب قدر کا وجود نہیں ہے؟ رسول اکرم (ص) نے فرمایا: نہیں، بلکہ شب قدر کا وجود قیامت کے دن تک ہے۔
اس بات میں شک نہیں ہے کہ شب قدر ماہ رمضان کی ایک شب ہے کیونکہ یہ بات قرآن کی آیات سے ثابت ہے خداوند کا ارشاد ہے کہ:
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن، (سورہ بقرہ آیت185)
دوسری جانب ارشاد فرماتا ہے کہ:
انّا انزلناہ فی لیلة القدر
لیکن یہ کہ رمضان کی کون سی شب ہے اس کے لیے روایات سے رجوع کرنا بہت ضروری ہے۔
شیعہ اور اہل سنّت کی روایات میں شب قدر کے سلسلہ میں مختلف احتمالات دئیے گئے ہیں۔
مثلاً شب 29٬27٬23٬21٬19٬17 وغیرہ.
لیکن شیعوں کے درمیان آئمہ(ع) کی روایات کی بنیاد پر شب 23٬21٬19 کا احتمال زیادہ ہے۔
انہوں نے روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : سید ابن طاووس نے کتاب اقبال الاعمال میں شب قدر کے سلسلہ سے متعدد روایتوں کو جمع کیا ہے۔ جن میں مجموعی طور پر شب 23٬21٬19 میں عبادت اور دعا کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔
امام صادق (ع) سے سوال کیا گیا شب قدر کو معیّن کریں آپ نے فرمایا اسکو اکیسویں اور تئیسویں شب میں تلاش کرو۔ جب راوی نے چاہا کہ امام ایک شب کو بیان کریں کہ کون سی شب، شب قدر ہے تو آپ نے فرمایا تمہارے لیے کیا مشکل ہے کہ تم دو شبوں میں سے شب قدر کو تلاش نہیں کر سکتے ہو جبکہ مختلف روایتوں میں یہ بات آئی ہے کہ شب قدر رمضان کی تئیسویں شب ہے۔ البتہ آئمہ اطہار (ع) کے لیے شب قدر واضح ہے کیونکہ اس شب میں فرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں لیکن آئمہ(ع) کا اصرار کئی شبوں کے لیے صرف اس لیے ہے تا کہ بندہ زیادہ سے زیادہ خدا کی عبادت کرے۔
اس بنا پر روایات میں تاٴکید کی گئی ہے کہ ماہ رمضان کے آخری 10 دن یا حد اقل شب ٬19 ٬21 23 میں زیادہ سے زیادہ عبادت کی جائے۔ خود پیغمبر اکرم (ص) ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔
بعض بزرگان شیعہ نے شب قدر کو درک کرنے کے لیے پورے سال کی راتوں کو جاگ کر عبادت میں گزارا ہے تا کہ وہ یقینی طور پر شب قدر کے ثواب کو حاصل کر سکیں بہر حال شب قدر صرف ایک شب ہے اور زیادہ احتمال یہ ہے کہ ماہ رمضان کی آخری 10 شبوں بالخصوص اکیسویں یا تییسویں شب میں سے کوئی ایک شب ہے۔
چونکہ شب قدر میں فرشتوں کے نازل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی برکتیں بھی نازل ہوتی ہیں جن میں اہم ترین سال بھر کی تقدیر کا معین ہونا ہے اسکے علاوہ فرشتوں کا اکٹھا جمع ہو کر نازل ہونا نورانیت اور برکت کا باعث ہوتا ہے یہ انسان کے لیے توبہ اور دعا کا بہت اچھا موقع ہوتا ہے اس میں انسان اپنے درجات کو خدا کی بارگاہ میں بلند کر سکتا ہے اس طرح سے کہ انسان ایک شب کی عبادت سے ایک ہزار ماہ کی ارزش کو حاصل کر سکتا ہے۔
اس لیے وہ لوگ جو کسی بنا پر شب قدر سے استفادہ نہیں کر سکے ہیں انکے لیے روایات میں ذکر ہوا ہے کہ وہ لوگ دن میں عبادت کریں کہ یہ بھی شب قدر کے مانند فضیلت رکھتا ہے اور جو بھی شب قدر کی فضیلت کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسکو وہی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
اسی طرح سے روایات میں وارد ہوا ہے جو ان شبوں سے استفادہ نہ کر سکے وہ عرفہ کے دن اور رات کا منتظر رہے تا کہ اپنی تقدیر کو اس دن معین کر سکے۔
اس بنا پر ان اوقات کا معین کرنا نہ خدا کے لیے محدودیت کا باعث ہوتا ہے اور نہ انسان کے لیے لیکن یہ اوقات انسان کو سرعت کے ساتھ کمال تک پہنچانے کی خصوصیت رکھتے ہیں۔
اس لیے کہا گیا ہے کہ شب قدر کی دو قسمیں ہیں ایک حقیقی اور ایک اعتباری۔
شب قدر حقیقی وہ ایک خاص وقت ہے جسمیں حجت خدا تقدیرات کو دریافت کرتے ہیں اور یہ وقت تغیر کے قابل نہیں ہے۔
لیکن شب قدر اعتباری وہ وقت ہے جو کہ ممکن ہے 24 گھنٹے یا اس سے کم و زیادہ تک مدت رکھتا ہو اور اختلاف افق کی بنا پر ممکن ہے متعدد ہو مثلاً ممکن ہے ایک جگہ پر شب قدر ہو اور دوسری جگہ روز یعنی ایک جگہ شب قدر تمام ہو گئی ہو اور دوسری جگہ شروع ہوئی ہو۔
اسی لیے شب قدر اعتباری کی برکتیں اور رحمتیں قابل وسعت ہیں اور 24 گھنٹے تک وقت رکھتی ہیں یعنی رات اور دن فضیلت کے اعتبار سے مشترک ہیں۔
ایک طرف تو خداوند عالم نے اپنے حکیمانہ نظام کی بنیاد پر جہان کو اس طرح سے ترتیب دیا ہے کہ تمام چیزوں کا ایک دوسرے کے درمیان میں خاص رابطہ برقرار ہے ۔ مثال کے طور پہ لمبی عمر کا رابطہ صدقہ دینے، صفائی کا خیال رکھنے اور بعض گناہوں کے ترک کرنے سے برقرار ہے۔
اب ہر وہ انسان جو لمبی زندگی چاہتا ہے اسکے لیے ضروری ہے کہ وہ صدقہ نکالے اور صاف صفائی کا خیال رکھے تا کہ لمبی عمر پا سکے اور جنھوں نے ان امور کو انجام نہیں دیا اسمیں کوتاہی برتی ہے انکی عمر کم ہو گی۔
اس طرح انسان کے امور اور اختیار اور اسکے نتیجہ کے درمیان مستقیم رابطہ وجود رکھتا ہے کہ وہی تقدیر الہی ہے۔ انسان جب تک اس دنیا میں زندہ ہے اسکے سامنے دو راستے وجود رکھتے ہیں یا وہ اپنے حسن اختیار اور اعمال نیک کے ذریعے سے کمیل بن زیاد نخعی ہو جائے یا پھر بد کرداری کو اختیار کرتے ہوئے حارث بن زیاد نخعی ( قاتل فرزندان مسلم ) ہو جائے ۔ کمیل اور حارث ایک ماں باپ کے بیٹے تھے۔ ایک نے نیکی کے راستہ کو اختیار کیا تو سعید اور کامیاب ہوا۔
دوسرے نے برائی اور بد بختی کے راستہ کو اختیار کیا تو شقی اور بد کردار ہوا۔
پس تقدیر الہی یعنی جو اپنے اختیار سے نیکی کے راستہ کو چن لے وہ کمیل بنتا ہے اور جو اپنے اختیار سے برائی اور گناہ کے راستہ کو چن لے وہ حارث بنتا ہے۔
دوسری جانب شب قدر میں انسان کی تقدیر اسکے آیندہ کے اعمال اختیاری کو مدنظر رکھتے ہوئے معین ہوتے ہیں۔
ان مطالب سے یہ بات واضح ہو گئی کہ تقدیر الہی، اختیار آدمی سے کوئی اختلاف نہیں رکھتی ہے کیونکہ نتیجے تک کام کا پہنچنا اور حادثے کا ایجاد ہونا ان سب کی ایک علت خود انسان کا ارادہ ہے۔
ہر وہ انسان جس نے اپنے حسن اختیار سے نیک کاموں کو انجام دیا اور خلوص نیت سے دعا وغیرہ پڑھی ہے تو وہ اس کے نتیجہ کو اسی دنیا میں حاصل کرے گا، لیکن وہ انسان جس نے برائی کے راستے کو اختیار کیا اور گناہ کا مرتکب ہوا ہے وہ اس کے تلخ نتیجہ کو چکھے گا۔
شب قدر میں بندوں کی تقدیر میں موت، حیات، ولادت، اور زیارت وغیرہ معین ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے تاکید کی گئی ہے کہ شب قدر میں رات بھر بیدار رہیں اور دعا و عبادت میں گزاریں تا کہ یہ عمل اس خاص رات میں جو ہزار راتوں سے افضل و برتر ہے رحمت الہی کے نازل ہونے کی شرائط کو فراہم کر سکے۔
دوسرے یہ کہ خداوند عالم اس بات کا علم رکھتا ہے کہ کون سی شئ کب کہاں کس طرح اور کون سی شرائط و علت کے ساتھ موجود ہو گی اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ فلاں انسان اپنے اختیار سے کب، کہاں، کس کام کو انجام دیگا۔ انسان کے اختیاری فعل سے خدا بخوبی واقف ہے جسکی حد شب قدر میں مشخص ہوتی ہے اور یہ بات انسان کے مختار ہونے سے اختلاف نہیں رکھتی ہے۔
مثال کے طور پر ایک تجربہ کار معلم یہ بخوبی جانتا ہے کہ کون طالب علم اپنی محنت و کوشش سے اچھے نمبروں سے کامیاب ہو گا اور کون طالب علم اپنی کم محنت کی وجہ سے متوسط نمبر سے کامیاب ہو گا اور کون طالب علم اپنی کوتاہی کی وجہ سے فیل ہو گا۔ یہاں پر معلم کا علم علت اور سبب کی وجہ سے ہے، نہ یہ کہ معلم کا اپنے شاگردوں کی حالت کو جاننا، ان شاگردوں کے پاس یا فیل ہونے کا سبب بنتا ہے، اسی طرح شب قدر میں انسان کے تمام کردار اور اعمال اختیاری کی تحقیق کے بعد خدا اپنے علم سے اسکی تقدیر لکھتا ہے، خداوند عالم علت اور نظم جو اس جہان میں موجود ہے اسکی بنیاد پر برنامہ ریزی کرتا ہے ان تمام علتوں میں سے ایک علت انسان کا اختیار ہے جو اسکی تقدیر لکھے جانے میں موثر ہے۔
اگر انسان کو اختیار نہ دیا گیا ہوتا تو ہم جو کچھ بھی انجام دیتے وہ ہماری تقدیر میں تاثیر نہیں رکھتی۔ کوئی دلیل اور تاکید بھی اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ ہم رات بھر جاگ کر عبادت کریں۔
جس طرح شب قدر کا ادراک مشکل ہے اسی طرح اس کی منزلت کو سمجھنا بھی دشوار امر ہے جس کی حقیقت کو صرف وہی لوگ بیان کر سکتے ہیں جنہیں اس شب کا ادراک ہو چکا ہو ، کیونکہ قرآن پیغمبر اکرم (ص) کو مخاطب کر کے فرماتا ہے :
وما ادراک ما لیلۃ القدر،
اے پیغمبر! آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟
اس کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ہزار مہینے 83 یا 84 سال بنتے ہیں، یعنی ایک رات کی عبادت انسان کی تمام زندگی کی عبادت سے افضل ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کی دیگر فضیلتیں ہیں جن میں سے چند فضیلتیں مندرجہ ذیل ہیں :
1. قرآن بھی اسی شب میں نازل ہوا ہے جیسا کہ قرآن گواہی دیتا ہے :
شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن
ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا،
سورہ بقرہ ،آیت 185
لیکن رمضان کی کس شب میں قرآن نازل ہوا ؟ اس کا بیان دوسری آیت میں ہے کہ:
انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ،
بیشک! ہم نے قرآن کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے۔
(سورہ دخان ، آیت 3)
اور سورہ قدر میں اس بابرکت رات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ:
انا انزلناہ فی لیلۃ القدر،
بیشک! ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے،
(سورہ قدر، آیت 1)
لہذا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ قرآن کے نزول نے بھی اس شب کی عظمت میں اضافہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ قرآن کا یہ نزول دو طرح کا رہا ہے ایک نزول دفعی یعنی ایک بار نازل ہوا۔ شب قدر میں پیغمبر اکرم (ص) کے قلب مبارک پر ایک ساتھ نازل ہوا ہے اور دوسرا نزول ، نزول تدریجی ہے جو کہ پیغمبر اکرم (ص) کی چالیس کی عمر میں بعثت کے دن نازل ہونا شروع ہوا اور آنحضرت کی عمر مبارک کے 63 ویں سال تک نازل ہوتا رہا ہے، جو کہ 23 سال تک نازل ہوتا رہا ہے، یعنی قرآن ایک ساتھ ایک بار شب قدر میں نازل ہوا ہے اور دوسری مرتبہ 23 سال تک تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوتا رہا ہے۔
شب کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں:
1- ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ رات با برکت و با عظمت ہے۔ لیلۃ العظمۃ۔
اور قرآن مجید میں لفظ قدر عظمت و منزلت کے لیے استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت میں ہے کہ:
ما قدروا اللہ حق قدرہ،
انھوں نے اللہ کی عظمت کو اس طرح نہ پہچانا جس طرح کہ پہچاننے کا حق تھا،
(سورہ حج، آیت 74)
قرآن کریم بھی ارشاد فرماتا ہے کہ:
یفرق کل امر حکیم،
ہر کام خداوند عالم کی حکمت کے مطابق معین و منظم کیا جاتا ہے،
(سورہ دخان، آیت 4)
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
التقدیر فی لیلۃ القدر تسعۃ عشر والابرام فی لیلۃ احدیٰ و عشرین والامضاء فی لیلۃ ثلاث و عشرین،
انیسویں شب میں تقدیر لکھی جاتی ہے ،اکیسویں شب میں اس کی دوبارہ تائید کی جاتی ہے اور تیئیسویں شب میں اس پر مہر اور دستخط لگائی جاتی ہے ۔
(وسائل الشیعہ، ج7، ص 259)
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
یقدر فیھا ما یکون فی السنۃ من خیر او شر او مضرۃ او منفعۃ او رزق او اجل و لذالک سمیت لیلۃ القدر،
شب قدر میں جو بھی سال میں واقع ہونے والا ہے سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے نیکی، برائی، نفع و نقصان، رزق اور موت اسی لئے اس رات کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔
(عیون اخبار امام رضا، ص 116)
اللہ نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اختیار خود انسان کے ہاتھ میں دیا ہے، وہ سعادت کی زندگی حاصل کرنا چاہے گا اسے مل جائے گی وہ شقاوت کی زندگی چاہے گا اسے حاصل ہو جائے گی۔ یا ایھا النّاس انّما بغیکم علی انفسکم،
لوگو! اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تمہاری سرکشی صرف تمہیں نقصان پہچائے گی۔
(سورہ یونس آیت 23)
جو کوئی سعادت کا طلبگار ہے وہ شب قدر میں صدق دل کے ساتھ اللہ کی بار گاہ میں توبہ کرے، برائیوں اور برے اعمال سے بیزاری کا عہد کرے گا۔ اللہ سے اپنی خطاؤں کے بارے میں دعا اور راز و نیاز کے ذریعہ معافی مانگے گا یقینا اس کی تقدیر بدل جائے گی اور امام زمان (ارواحنا فداہ) اس تقدیر کی تائید کریں گے، اور جو کوئی شقاوت کی زندگی چاہے وہ شب قدر میں توبہ کرنے کی بجائے گناہ کرے ، یا توبہ کرنے سے پرہیز کرے ، تلاوت قرآن ، دعا اور نماز کو اہمیت نہیں دے گا ، اسطرح اس کے نامہ اعمال سیاہ ہوں گے اور یقینا امام زمان (ارواحنا فداہ) اسکی تقدیر کی تائید کریں گے۔ جو کوئی عمر بھر شب قدر میں سال بھر کے لیے سعادت اور خوشبختی کی تقدیر طلب کرنے میں کامیاب ہوا ہو گا وہ اسکی حفاظت اور اس میں اپنے لیے بلند درجات حاصل کرنے میں قدم بڑھائے گا اور جس نے شقاوت اور بد بختی کی تقدیر کو اختیار کیا ہوا وہ توبہ نہ کرکے بدبختی کی زندگی میں اضافہ کرے گا۔ شب قدر کے بارے میں اللہ نے تریاسی سالوں سے افضل ہونے کے ساتھ ساتھ اس رات کو سلامتی اور خیر برکت کی رات قرار دیا ہے۔ < سلام ھی حتی مطلع الفجر> اس رات میں صبح ہونے تک سلامتی ہی سلامتی ہے اس لئے اس رات میں انسان اپنے لئے دنیا اور آخرت کے لئے خیر و برکت طلب کرسکتا ہے۔
2- لیلۃ القدر دلیل امامت شب قدر کو شب امامت اور ولایت بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خود قرآن کہتا ہے کہ اس رات میں فرشتے ، ملائکہ اور ملائکہ سے اعظم ملک روح بھی نازل ہوتے ہیں۔
اس نکتے کو سمجھنا ضروری ہے کہ نازل ہوتے ہیں ، نازل ہوئے نہیں۔ کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے : تنزّل الملائکۃ والروح فیھا، تنزل فعل مضارع ہے یعنی نازل ہوتے ہیں نازل ہوئے نہیں کہا گیا ہے۔ تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کس پر نازل ہوتے ہیں۔ آپ اور مجھ پر تو فرشتے نازل نہیں ہوتے ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں تو آنحضرت پر نازل ہوتے تھے۔ آنحضرت کے بعد کس پر نازل ہوتے ہیں؟ ظاہر سی بات ہے اس پر نازل ہوں گے جو پیغمبر کے بعد پیغمبر کا جانشین ہو گا ، جو معصوم ہو گا، جو صاحب ولایت ہو۔ جی ہاں پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام پر نازل ہوتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے بعد حضرت حسن مجتبی اور آپ کے بعد حضرت حسین اور آپ کے بعد حضرت علی زین العابدین اور آپ کے بعد حضرت محمد باقر اور آپ کے بعد حضرت جعفر صادق اور آپ کے بعد حضرت موسی کاظم اور آپ کے بعد حضرت علی الرضا اور آپ بعد حضرت محمد جواد اور آپ کے بعد علی النقی اور آپ کے بعد حسن عسکری علیہم السلام اور آپ کے بعد قطب عالم امکان مہدی آخر الزمان ارواحنا لہ لفداہ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔
شب قدر امامت اور اس کی بقاء اور جاودانگی پر سب سے بڑی دلیل ہے ، متعدد روایات میں وارد ہوا ہے کہ شب قدر ہر زمانے میں امام کے وجود پر بہترین دلیل ہے اس لیے سورہ قدر کو اہلبیت (ع) کی پہچان کہا جاتا ہے ،جیسا کہ بعض روایات میں بھی وارد ہوا ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ:
مولائے کائنات اکثر فرمایا کرتے تھے: جب بھی تیمی اور عدوی ابوبکر و عمر پیغمبر (ص) کے پاس ایک ساتھ آتے تو پیغمبر اکرم (ص) ان کے سامنے سورہ انا انزلناہ کی تلاوت بڑے خضوع کے ساتھ فرماتے اور گریہ کرتے تھے ، وہ پوچھتے تھے کہ آپ پر اتنی رقت کیوں طاری ہوتی ہے تو پیغمبر اکرم (ص) فرماتے کہ ان باتوں کی وجہ سے جنہیں ہماری آنکھوں نے دیکھا اور میرے دل نے سمجھا ہے اور اس بات کی وجہ سے جسے یہ علی علیہ السلام ہمارے بعد دیکھیں گے ، وہ پوچھتے کہ آپ نے کیا دیکھا ہے اور یہ کیا دیکھیں گے ؟ پیغمبر (ص) نے انہیں لکھ کر دیا ” تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر،
ملائک اور روح اس رات میں خداوند عالم کے اذن سے ہر کام کی تقدیر کے لیے نازل ہوتے ہیں، پھر پیغمبر (ص) نے دریافت کیا کہ کیا “کل امر” ( ہر کام ) کے بعد کوئی کام باقی رہ جاتا ہے ؟ وہ کہتے تھے نہیں ، پھر حضرت فرماتے تھے : کیا تمہیں معلوم ہے کہ جس پر تمام امور نازل ہوتے ہیں وہ کون ہے ؟ وہ کہتے کہ ،آپ ہیں یا رسول اللہ! پھر رسول (ص) سوال کرتے کہ کیا میرے بعد شب قدر رہے گی یا نہیں ؟ وہ کہتے تھے ، ہاں ! رسول (ص) پوچھتے کہ کیا میرے بعد بھی یہ امر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے تھے ہاں ! پھر رسول پوچھتے کہ کس پر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے کہ ہم نہیں جانتے ۔ پھر حضرت میرا (علی ) سر پکڑتے اور میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرماتے : اگر نہیں جانتے تو جان لو ! وہ شخص یہ ہے ۔ پھر مولائے کائنات نے فرمایا: اس کے بعد یہ دونوں پیغمبر اکرم (ص) کے بعد بھی شب قدر میں خوفزدہ رہا کرتے تھے اور شب قدر کی اس منزلت کو جانتے تھے۔(اصول الکافی، ج 1 ص 363.364 ترجمہ: سید جواد مصطفوی)
ایک دوسرے مقام پر علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
در حقیقت شب قدر ہر سال آتی ہے اور امر خدا ہر سال نازل ہوتا ہے اور اس امر کے لیے صاحب الامر بھی موجود ہے ۔ جب دریافت کیا گیا کہ وہ صاحب الامر کون ہے تو آپ (ع) نے فرمایا :
انا و احد عشر من صلبی آئمۃ محدثون،
میں اور میرے صلب سے گیارہ دیگر آئمہ جو محدث ہیں،
(ثبوت امام، ص 256)
محدِّث یعنی ملائکہ کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے لیکن ان کی آواز سنتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ شب قدر شب ولایت اور امامت ہے اور جن روایات میں شب قدر کی تفسیر فاطمہ زہرا (س) سے کی گئی ہے ان کا بھی معنی واضح ہے کہ شب قدر ولایت اور امامت کی شب ہے اور امامت و ولایت کی حقیقت فاطمہ زہرا (س) کی ذات گرامی ہے ۔
3- گناہوں کی بخشش:
شب قدر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں گناہ گاروں کی بخشش ہوتی ہے لہذا کوشش کریں کہ اس عظیم شب کے فیض سے محروم نہ رہیں، وائے ہو ایسے شخص پر جو اس رات میں بھی مغفرت و رحمت الٰہی سے محروم رہ جائے جیسا کہ رسول اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ہے :
من ادرک لیلۃ القدر فلم یغفر لہ فابعدہ اللہ،
جو شخص شب قدر کو درک کرے اور اس کے گناہ نہ بخشے جائیں اسے خداوند عالم اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔
(بحار الانوار، ج 94 ص 80 حدیث نمبر 47)
ایک اور روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ:
من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرھا الا محروم،
جو بھی شب قدر کے فیض سے محروم رہ جائے وہ تمام نیکیوں سے محروم ہے ، اس شب کے فیض سے وہی محروم ہوتا ہے جو خود کو رحمت خدا سے محروم کر لے ۔
(کنز العمال متقی ہندی، ج 8 ص534 حدیث نمبر ،28 و 24)
بحارالانوار کی ایک روایت میں پیغمبر اکرم(ص) سے اس طرح منقول ہے:
من صلّیٰ لیلۃ القدر ایماناً و احتساباً غفر اللہ ما تقدم من ذنبہ،
جو بھی اس شب میں ایمان و اخلاص کے ساتھ نماز پڑھے گا خداوند رحمٰن اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے گا ۔
(بحار الانوار، ج 93، ص 366، حدیث 42)
شب قدر کے بہترین اعمال کیا ہیں؟
شب قدر کے بہت سارے اعمال ہیں یہاں پر ہم بعض کا تذکرہ کریں گے:
الف: شب قدر کی فرصت کو غنیمت سمجھنا:
خداوند نے قرآن کریم میں حضرت رسول اکرم (ص) سے مخاطب ہو کر فرمایا :
انّا انزلناہ فی لیلة القدر، وما ادراک ما لیلة القدر،
ہم نے قرآن کو شب قدر نازل میں کیا ہے مگر آپ کیا جانتے ہیں کہ شب قدر کیا ہے ؟
شب قدر کی فضیلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس شب میں انسان کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور جو انسان اس سے با خبر ہو وہ زیادہ ہوشیاری سے اس قیمتی وقت سے استفادہ کرے گا ۔ لہٰذا شب قدر کے بہترین اعمال میں سے ایک عمل یہی ہے کہ انسان اس فرصت کو غنیمت سمجھے یہ فرصت انسان کو بار بار نہیں ملتی ۔
(ب) توبہ :
اس شب کے بہترین اعمال میں سے ایک عمل توبہ ہے جیسا کہ شہید مطہری فرماتے ہیں:
عبادت توبہ کے بغیر قبول نہیں ہوتی پہلے توبہ کر لینا چاہیے ، پہلے اپنے آپ کو دھونا چاہیے پھر اس پاک و پاکیزہ جگہ میں وارد ہونا چاہیے ہم توبہ نہیں کرتے ہیں تو یہ کیسی عبادت کرتے ہیں ؟ ! ہم توبہ نہیں کرتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اور حج پر چلے جاتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اور قرآن پڑھتے ہیں؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اور ذکر کہتے ہیں؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اور ذکر کی مجلسوں میں شرکت کرتے ہیں ! خدا کی قسم اگر آپ پاک ہونے کے لیے ایک توبہ کریں تا کہ پھر توبہ اور پاکیزکی کی حالت میں ایک دن اور ایک رات نماز پڑھیں وہی ایک دن رات کی عبادت آپ کو دس سال آگے بڑھائے گی اور پروردگا کے مقام قرب کے قریب پہنچائے گی۔
امام علی (ع) توبہ کے چھ رکن بیان کرتے ہیں :
1۔ اپنے گناہوں پر پشیمان ہونا۔
2۔ ارادہ کرے کہ اب دوبارہ کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا۔
3۔ حقوق الناس ادا کرنا۔
4۔ حقوق الہیٰ ادا کرنا ۔
5۔ جو گوشت رزق حرام سے بدن پر چڑھا ہے وہ پگھل کے رزق حلال سے نیا گوشت بدن پر چڑھے ۔
6۔ جس طرح بدن نے گناہوں کا مزہ چکھا ہے اس طرح اطاعت کا مزہ چکھنا چاہیے پس اسی صورت میں خدا نہ صرف اس کو دوست رکھتا ہے بلکہ اپنے محبوب بندوں میں اسے قرار دیتا ہے۔
(نہج البلاغہ، حکمت 417)
(ج) دعا:
اب جبکہ بندہ گمراہی اور ضلالت کے راستے کو چھوڑ کے ہدایت اور نور کے راستے کی طرف چل پڑا ہے اور اپنے خدا کی جانب رواں دواں ہے اب خدا کو پکارے اور اس کے ساتھ ارتباط بر قرار کرے دعا کرے دعا کے اصل معنی یہی ہیں کہ انسان اپنے دل کا حال بیان کر کے در واقع خدا سے ارتباط پیدا کرے ۔
(د) تفکر اور معرفت :
اس کے بعد کہ انسان نے فرصت کو غنیمت سمجھ کے اپنے افکار اور اعمال کے اشتباہات سے واقفیت حاصل کر کے یہ ارادہ کر لیا کہ اب کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا اپنی اصلاح کرے گا دل شناحت اور معرفت کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سب سے بڑی معرفت ہے اور اس سے دل نوارنی ہو جاتا ہے اور حقیقی معرفت انسان کو بندگی کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچا کے خلافت الہی کا وارث بنا دیتی ہے البتہ خود شناسی اس معرفت حقیقی کے لیے پیش خیمہ ہے جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے:
‘ ‘ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ‘ ‘
یعنی خود شناسی خدا شناسی کا سبب بنتی ہے ۔
شب قدر کے بارے میں چند اہم سوالات اور انکے جوابات:
شب قدر، کا نام کیوں شب قدر رکھا گیا ہے؟
اس بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے جیسے:
1- شب قدر کو نام شب قدر کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ بندوں کے تمام سال کے سارے مقدرات اسی رات میں تعین ہوتے ہیں ، اس معنی کی گواہ سورہ دخان ہے جس میں آیا ہے کہ:
انا انزلناہ فی لیلة مبارکة انا کنا منذرین فیا یفرق کل امر حکیم،
ہم نے اس کتاب مبین کو ایک پر بر کت رات میں نازل کیا ہے ، اور ہم ہمیشہ ہی انداز کرتے رہتے ہیں ، اس رات میں ہر امر خداوند عالم کی حکمت کے مطابق تنظیم و تعین ہوتا ہے۔
(سورہ دخان آیت 3،4)
یہ بیان متعدد روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو کہتی ہیں کہ اس رات میں انسان کے ایک سال کے مقدرات کی تعین ہوتی ہے اور رزق، عمریں اور دوسرے امور اسی مبارک رات میں تقسیم اور بیان کیے جاتے ہیں ۔
البتہ یہ چیز انسان کے اردہ اور مسئلہ اختیار کے ساتھ کسی قسم کا تضاد نہیں رکھتی ، کیونکہ فرشتوں کے ذریعے تقدیر الٰہی لوگوں کی قابلیت اور صلاحیت ، اور ان کے ایمان و تقویٰ اور نیت اعمال کی پاکیزگی کے مطابق ہوتی ہے۔
یعنی ہر شخص کے لیے وہی کچھ مقدر کرتے ہیں جو اس کے لائق ہے، یا دوسرے لفظوں میں، اس کے مقدمات خود اسی کی طرف سے فراہم ہوتے ہیں اور یہ امر نہ صرف یہ کہ اختیار کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتا، بلکہ یہ اس پر ایک تاکید ہے ۔
2- بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس رات کا اس وجہ سے شب قدر نام رکھا گیا ہے کہ وہ ایک عظیم و قدر و شرافت کی حامل ہے۔
جس کی نظیر سورہ حج کی آیہ 74 میں آئی ہے کہ:
ماقدر و اللہ حق قدرہ،
انہوں نے حقیقت میں خدا کی قدر و عظمت کو ہی نہیں پہچانا،
3- بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اپنی پوری قدر و منزلت کے ساتھ، قدر و منزلت والے رسول پر اور صاحب قدر و منزلت فرشتے کے ذریعے اس میں نازل ہوا ہے۔
4- یا یہ مطلب ہے کہ ایک ایسی رات ہے جس میں قرآن کا نازل ہونا مقدر ہوا ہے ۔
5- یا یہ کہ جو شخص اس رات کو بیدار رہے تو وہ صاحبِ قدر و مقام و منزلت ہو جاتا ہے ۔
6- یا یہ بات ہے کہ اس رات میں اس قدر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ ان کے لیے کرہ زمین تنگ ہو جاتا ہے ، کیونکہ تقدیر تنگ ہونے کے معنی میں بھی آیا ہے۔ و من قدر علیہ رزقہ، سورہ طلاق آیت 7
ان تمام تفاسیر کا ” لیلة القدر “ کے وسیع مفہوم میں جمع ہونا پورے طور پر ممکن ہے اگرچہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب اور زیادہ مشہور ہے ۔
لیکن اس بارے میں کہ ماہ رمضان کی راتوں میں سے کون سی رات ہے ، بہت اختلاف ہے ، اور اس سلسلہ میں بہت سی تفاسیر بیان کی گئی ہیں ۔ منجملہ: پہلی رات، سترہویں رات ، انیسویں رات، اکیسویں رات، تیئسویں رات، اور ستائیویں رات اور انتیسویں رات۔
لیکن روایات میں مشہور و معروف یہ ہے کہ ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے اکیسویں یا تیئسویں رات ہے ۔ اسی لیے ایک روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ماہ مبارک کی آخری دس راتوں میں تمام راتوں کا احیاء فرماتے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے ۔
ایک روایت میں امام جعفر صاق علیہ السلام سے آیا ہے کہ:
شب قدر اکیسویں یا تیئسویں رات ہے ، یہاں تک کہ جب راوی نے اصرار کیا کہ ان دونوں راتوں میں سے کون سی رات ہے اور یہ کہا کہ اگر میں ان دونوں راتوں میں عبادت نہ کر سکوں تو پھر کون سی رات کا انتخاب کروں۔ تو بھی امام نے تعین نہ فرمائی اور مزید کہا:
ما الیسر لیلتین فیما تطلب،
اس چیز (طلب حاجت) کے لیے جسے تو چاہتا ہے دو راتیں کس قدر آسان ہیں ؟
(تفسیر نور الثقلین ج 5 ص 625)
لیکن متعدد روایات میں جو اہل بیت کے طریقہ سے پہنچی ہیں زیادہ تر تیئسویں رات کا ذکر ہوا ہے ۔ جب کہ اہل سنت کی زیادہ تر روایات ستائیسویں رات کے گرد گردش کرتی ہیں ۔
ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ بھی نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
التقدیر فی لیلة القدر تسعة عشر، و الابرام فی لیلة احدی و عشرین، و الامضاء فی لیلة ثلاث و عشرین۔
تقدیر مقدرات تو انیسوں کی شب کو ہوتی ہے ، اور ان کا حکم اکیسویں رات کو ، اور ان کی تصدیق اور منظوری تیئسویں رات کو۔
(تفسیر نور الثقلین ج 5 ص 626)
شب قدر کون سی رات ہے ؟
بہت سے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ سال بھر کی راتوں یا ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں شب قدر کا مخفی ہونا اس بناء پر ہے کہ لوگ ان سب راتوں کو اہمیت دیں۔
جیسا کہ خداوند نے اپنی رضا و خوشنودی کو مختلف قسم کی عبادتوں میں پنہان کر رکھا ہے تا کہ لوگ سب عبادتوں اور اطاعتوں کی طرف رخ کریں ، اور اپنے غضب کو معاصی کے درمیان پنہان رکھا ہے ، تا کہ سب لوگ گناہوں سے پرہیز کریں ، اپنے دوستوں کو لوگوں سے مخفی رکھا ہے تا کہ سب کا احترام کریں، اور دعاوٴں کی قبولیت کو مختلف دعاوٴں میں پنہان رکھا ہے تا کہ دعاوٴں کی طرف رخ کریں ۔
اسم اعظم کو اپنے اسماء میں مخفی رکھا ہے تا کہ تمام اسماء کو بزرگ و عظیم سمجھیں ۔ اور موت کے وقت کو مخفی رکھا ہے تا کہ ہر حالت میں آمادہ و تیار رہیں۔ اور یہ فلسفہ مناسب نظر آتا ہے ۔
کیا گزشتہ امتوں میں بھی شب قدر تھی؟
اس سورہ کی آیات کے ظاہر سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ شب قدر منزل قرآن اور پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی۔ بلکہ دنیا کے اختتام تک اس کا ہر سال تکرار ہوتا رہے گا۔
فعل مضارع (تنزل)کی تعبیر، جو استمرار پر دلات کرتی ہے ، اور اسی طرح جملہ اسمیہ، سلام ھی حتی مطلع الفجر، کی تعبیر بھی، جو دوام کی نشانی ہے ، اسی معنی کی گواہ ہے ۔
اس کے علاوہ بہت سی روایات بھی ، جو شاید حدِ تواتر میں ہیں ، اس معنی کی تائید کرتی ہیں ۔ لیکن یہ بات کہ کیا گزشتہ امتوں میں بھی تھی یا نہیں ؟ متعدد روایات کی تصریح یہ ہے کہ شب قدر امت اسلام پر مواہب الٰہیہ میں سے ہے ، جیسا کہ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
انّ اللہ وھب لامتی لیلة القدر لم یعطھا من کان قبلھم،
خدا نے میری امت کو شب قدر عطا کی ہے ، گزشتہ امتوں میں سے کسی کو بھی یہ نعمت نہیں ملی تھی۔
(در المنثور ج 6 ص371)
شب قدر ہزار ماہ سے کیسے بر تر ہے؟
ظاہر ہے کہ اس شب کا ہزار ماہ سے بہتر ہونا اس رات کو بیدار رہنے اور اس کی عبادت کی قدر و قیمت کی وجہ سے ہے ، اور لیلۃ القدر کی فضیلت اور اس میں عبادت کی فضیلت کی روایات، جو شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں فراوان ہیں ، اس مطلب کی مکمل طور پر تائید کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس رات میں قرآن کا نزول اور اس میں برکات اور رحمت الہٰی کا نزول بھی اس بات کا سبب ہے کہ یہ ہزار ماہ سے برتر و بالا تر ہو۔
ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ:
آپ نے علی بن ابی حمزہ ثمالی سے فرمایا: شب قدر کی فضیلت کو اکیسویں اور تیئسویں رات میں تلاش کرو، اور ان دونوں راتوں میں سے ہر ایک میں ایک سو رکعت نماز بجا لاوٴ، اور اگر تم سے ہو سکے تو ان دونوں راتوں کا طلوعِ صبح تک بیدار رہو، اور اس رات غسل کرو۔ ابو حمزہ کہتا ہے : میں نے عرض کیا : اگر میں کھڑے ہو کر یہ سب نمازیں نہ پڑھ سکوں ؟
آپ نے فرمایا: پھر بیٹھ کر پڑھ لو ۔ میں نے عرض کیا اگر اس طرح بھی نہ پڑھ سکوں ۔ آپ نے فرمایا: پھر بستر پر لیٹ کر ہی پڑھ لو ، اور رات کے پہلے حصہ میں تھوڑا سا سو لینے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہے ، اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہو جاوٴ۔ ماہ رمضان میں آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور شیاطین طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور مؤمنین کے اعمال مقبول ہوتے ہیں ، ماہ رمضان کتنا اچھا مہینہ ہے ۔
کیونکہ شب قدر میں ایک سال کے لیے انسانوں کی سر نوشت ان کی قابلیتوں اور صلاحیتوں کے مطابق مقدر کی جاتی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسان اس رات بیدار رہے ۔ اور توبہ اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے اور خدا کی بار گاہ میں حاضر ہو کر خود میں اس کی رحمت کے لیے زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر لیاقت پیدا کرے ۔
ہاں! جن لمحات میں ہماری تقدیر و قسمت کی تعین ہوتی ہے ان میں انسان کو سویا ہوا نہیں ہونا چاہیے ، اور نہ ہی ہر چیز سے غافل اور بے خبر رہنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں ایک غم ناک اور زبردستی والی قسمت لکھی جائے گی۔
قرآن چونکہ ایک سر نوشت ساز کتاب ہے ، اور اس میں انسانوں کی سعادت و خوش بختی اور ہدایت کی باتوں کی وضاحت کی گئی ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ سر نوشتوں کی تعین کا پروگرام شب قدر میں نازل ہو۔ قرآن اور شب قدر کے درمیان کتنا خوبصورت رابطہ ہے ، اور ان دونوں کا ایک دوسرے سے تعلق اور رشتہ کس قدر پر معنی ہے؟
کیا مختلف علاقوں میں ایک ہی شب قدر ہوتی ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ تمام شہروں میں قمری مہینوں کا آغاز یکساں نہیں ہوتا اور یہ ممکن ہے کہ ایک علاقہ میں تو آج اول ماہ ہو، اور دوسرے علاقہ میں دوسری تاریخ ہو۔ اس بناء پر شب قدرِ سال میں ایک معین رات نہیں ہو سکتی ، کیونکہ مثال کے طور پر مکہ کی تیئسویں رات، پاکستان میں بائیسویں رات ہو سکتی ہے ، اس طرح اصولی طور پر ہر ایک کی علیٰحدہ شب قدر ہو گی ۔کیا یہ بات اس چیز سے ، جو آیات و روایات سے معلوم ہوتی ہے ، کہ شب قدر ایک معین رات ہے ، ساز گار و مطابق ہے یا نہیں ؟ !
اس سوال کا جواب ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ رات وہی کرہٴ زمین کے آدھے سایہ کو ہی کہتے ہیں ، جو کرہٴ زمین کے دوسرے حصے پر پڑتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ سایہ گردش زمین کے ساتھ حرکت میں ہے ، اور اس کا ایک مکمل دورہ چوبیس گھنٹوں میں انجام پاتا ہے ، اس بناء پر ممکن ہے کہ شب قدر رات کا زمین کے گرد ایک مکمل دورہ ہو۔ یعنی تاریکی کی چوبیس گھنٹے کی مدت جو زمین کے تمام نقاط کو اپنے سائے کے نیچے لے لے ، وہ شب قدر ہے ، جس کا آغاز ایک نقطہ سے ہوتا ہے ، اور دوسرے نقطہ میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ تھوڑی دقت کے ساتھ یہ بات واضح ہو جاتی ہے!
کیا قبل از اسلام شب قدر تھی؟
ایک روایت کے مطابق شب قدر رسول اللہ (ص) کے زمانے تک محدود نہیں ہے اور سابقہ زمانوں میں بھی تھی۔ علامہ مجلسی (رح) نے امام جواد (ع) سے روایت نقل کی ہے:
خداوند متعال نے شب قدر کو اس عالم کی خلقت کی ابتداء ہی میں خلق فرمایا اور اس میں نبی اولین کو جو آئیں گے ـ خلق فرمایا اور اولین وصی کو خلق فرمایا، جو آئے گا ـ اور مقرر فرمایا کہ یہ شب ہر سال ہو اور اس رات کو امور کی تفسیر اتاری جاتی رہے۔
(بحارالانوار، ج 25، ص 73، روایت 63)
دوسری طرف سے ایک حدیث میں رسول اللہ (ص) سے مروی ہے: خداوند متعال نے میری امت کو شب قدر عطا فرمائی جبکہ مجھ سے قبل کوئی بھی امت اس نعمت سے بہرہ مند نہ تھی۔
(درالمنثور، ج 6، ص 371)
اگر ان روایات کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃالقدر اصولی طور پر پہلے بھی موجود تھی، لیکن کثیر اور غیر معمولی فضیلتیں اس رات میں اسلام کے لیے قرار دی گئی ہیں وہ سابقہ امتوں کے لیے نہ تھیں، لہذا شب قدر ایسی واقعیت اور حقیقت ہے کہ جو عالم وجود کے لیے مقدر کی گئی ہے۔ سورہ مبارکہ قدر سے سمجھا جاتا ہے کہ ہر سال ایک رات ہے “قدر” کے نام سے جو قدر و قیمت اور فضیلت کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس شب اللہ کے فرشتے اپنے بڑے فرشتے (روح) کے ہمراہ ایک سال کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ فرمان یا تقدیر کے ساتھ، نازل ہوتے ہیں۔ اس سورہ اور سورہ دخان کی ابتدائی آیات کی تفسیر میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے شب قدر کو ایک سال کے مقدرات کو “زمانے کے ولی مطلق” کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے سپرد کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہمیشہ تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں فرشتوں کے نزول کا مقام نبی مصطفٰی کا آستان مقدس تھا اور یہ امر سب کے نزدیک مسلّم ہے۔ تاہم آپ(ص) کے وصال کے بعد کے زمانے کے بارے میں کہنا چاہیے کہ: شب قدر رسول اللہ (ص) کے بعد بھی ہے۔ سورہ قدر اور سورہ دخان کی پہلی آیات کے ظاہری مفہوم کے علاوہ، روایات میں بھی یہ روایت واضح طور پر بیان ہوئی ہے۔
شیعہ تفاسیر “مجمع البیان، المیزان اور تفسیر نمونہ سے رجوع کریں،
شب قدر کے پوشیدہ ہونے کا کیا راز ہے ؟
شب قدر کے مذکورہ گیارہ راتوں میں پوشیدہ ہونے کی یقینا کوئی حکمت اور مصلحت ہے اور شاید اس کے پوشیدہ ہونے کا سبب یہ ہو کہ لوگ اس مہینے کی تمام راتوں یا کم از کم ان تین راتوں میں زیادہ عبادت کریں اور اپنے آپ کی اصلاح کریں اور اپنی روح و جان کو دنیوی پلیدگیوں سے پاک کریں تا کہ ان راتوں میں زیادہ مستفیض ہو سکیں اور زیادہ مشق و تمرین کے ذریعہ اس کے وجود میں ملکہ فاضلہ اور فضائل و اخلاق محکم تر اور پائیدار تر ہو جائیں۔
(مکتب عالی تربیت واخلاق، ص 72)
بہت سے افراد معتقد ہیں کہ شب قدر اس لیے مخفی ہے تا کہ لوگ ماہ رمضان کی تمام راتوں کو اہمیت دیں۔ اسی طرح جس طرح خداوند نے اپنی خوشنودی کو مختلف طاعات و عبادات میں پوشیدہ کر رکھا ہے تا کہ لوگ تمام عبادتیں انجام دیں ، اسی طرح اپنے غیظ و غضب کو گناہوں میں مخفی کر رکھا ہے تا کہ لوگ تمام گناہوں سے اجتناب کریں، اپنے دوستوں کو لوگوں میں چھپائے رکھا ہے تاکہ سب کا احترام کریں،اجابت کو دعا میں چھپائے رکھا ہے تا کہ لوگ سب دعاؤں کی طرف رجوع کریں اسم اعظم کو اپنے اسماء میں چھپا رکھا ہے تا کہ سب کو محترم اور بزرگ سمجھیں، موت کو پوشیدہ رکھا ہے تا کہ سب ہر حال میں تیار رہیں۔
(دیار عاشقان در تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ ، شیخ حسین انصاریان ،ج٧ ،ص 313)
شب قدر میں شب بیداری کیوں کریں؟
عارف بزرگ حضرت آیت اللہ حسن زادہ آملی دام ظلہ فرماتے ہیں:
شبہائے قدر میں قرآن کو دل میں اتارو نہ یہ کہ قرآن کو فقط سر پر رکھو۔ پہلی صورت میں قرآن تمہاری ذات کا حصہ بن جاتا ہے اور دوسری صورت میں قرآن ذات کا حصہ نہیں بنتا ہے بلکہ تیری ذات سے جدا ہو جاتا ہے۔
(ہزار و یک نکتہ،آیت اللہ حسن زادہ آملی)
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ اگر شب قدر بیداری میں گزاریں تو اس شب کی عبادت کی اہمیت دوسری راتوں سے زیادہ ہو جاتی ہے اور اس رات کے حسین لمحات میں ملائکہ جوق در جوق صبح تک مؤمنین اور مؤمنات پر درود و سلام اور رحمت بھیجتے ہیں اور ملائکہ خود اشرف المخلوقات انسان کے رکوع و سجود کے شاہد و گواہ ہوتے ہیں تا کہ یہ ملائک دوسرے ملائکوں کے سامنے انسان کے اشرف و خلیفہ خدا ہونے کی تفسیر و تشریح کریں اور حضرت آدم کے سامنے ملائکہ کے سجود کرنے کا راز کشف کریں ۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں انسان سالک سیر و سلوک کی طولانی راہ کو ایک رات میں طے کر لیتا ہے اور اس رات میں انسان بہتر طریقے سے اپنے نفس کی تہذیب و تزکیہ کر سکتا ہے کیونکہ اس رات میں تمام شیاطین قید میں ہوتے ہیں اور تمام انسان اس رات میں شیاطین کے وسوسوں سے امان میں ہوتے ہیں مگر یہ کہ انسان خدا نخواستہ اپنے ناشائستہ فعل سے شیاطین کی رسیوں کو کھول کر انہیں اسارت سے آزاد کر دے ۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں معنویات زندہ ہو جاتی ہیں، کثرت تلاوت قرآن کی وجہ سے انسان کا نفس زندہ ہو جاتا ہے، توبہ اور دعائیں قبول ہوتی ہیں ،انسان کو ایک نئی زندگی ملتی ہے بشرطیکہ انسان اس شب کی عظمت کو درک کر ے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں انسان کے ایک سالہ امور مشخص و معیّن کیے جاتے ہیں اور تمام موجودت عالم کی تقدیر اس رات میں رقم کی جاتی ہے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں حضرت امام مہدی (ع) ہر انسان کے ایک سالہ مقدّارت پر دستخط کرتے ہیں اور یہ رات امام عصر (عج) کی شناخت کی رات ہے۔ اور خلاصہ یہ کہ شب قدر انسان کامل کی رات ہے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں اہل معرفت و عرفان اپنے معشوق کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول ہو تے ہیں۔ ایک ایسی رات ہے کہ جس میں ایک انسان کامل حضرت علی (ع) کی شہادت واقع ہوئی ہے۔ ایک ایسی رات ہے کہ جس میں عاشق اپنے معشوق سے ملاقات کرتا ہے۔ ایک ایسی رات ہے کہ جس میں مسلمانان عالم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ایک ایسی رات ہے کہ اگر نہ ہوتی تو انسان کی بدبختی انتہا تک نہ پہنچتی اور اس کی نیک بختی کبھی بھی طلوع نہ کرتی، استعماری طاقتوں کی اسارت سے کبھی بھی آزاد نہ ہوتا۔
شب قدر ایک عظیم اور قیمتی فرصت کا نام ہے پس ہمیں چاہیے کہ اس رات کو قرآنی تعلیمات کی طرف توجہ دینے میں گزاریں اور یہ دیکھیں کہ ہم نے قرآنی تعلیمات کے ساتھ کتنا ارتباط برقرار کیا ہے ہم نے اپنی عملی زندگیوں کو قرآن کے مطابق کتنا چلایا ہے؟ اگر ہماری زندگیاں قرآنی تعلیمات کے مطابق ہیں تو خداوند عالم سے مزید توفیقات کا تقاضا کریں اور اگر یہ دیکھ نظر آئے کہ ہماری زندگیاں قرآن کی تعلیمات کے بجائے کسی اور سمت میں جا رہی ہیں تو ہمیں چاہیے کہ خداوند عالم سے عہد و پیمان کریں کہ آج کے بعد ہم قرآنی تعلیمات سے اپنی زندگیوں کو منور و مزیّن کریں گے۔ ان تمام تفاصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ آیا شائستہ ہے کہ ایک مسلمان انسان اس شب کی عظیم برکات و فیوضات سے اپنے آپ کو محروم کرے اور اس رات بھی غفلت کی نیند سوتا رہے۔
(مکتب عالی تربیت واخلاق،آیت اللہ صافی)
مسلمانوں کے درمیان شب قدر کا فلسفہ خطیب نے ابن مسیب اور اس نے امام حسن (ع) سے روایت نقل کی ہے کہ:
پیغمبر اسلام عالم خواب میں تھے انہوں نے خواب میں دیکھا کہ بندر مسجد میں جمع ہیں اور منبر پر چڑھتے ہیں اور اس سے اترتے ہیں۔ صبح جبرائیل پیغمبر کے پاس آئے تو انہیں غمگین پایا۔ سبب پوچھا آنحضرت نے بھی اپنا خواب ان کے سامنے بیان کیا۔ جبرائیل آسمان کی طرف گئے اور تھوڑی دیر کے بعد مسکرائے ہوئے واپس آئے اور پیغمبر کو خواب کی تعبیر سے آگاہ کیا اور کہا یہ بندر بنی امیہ کے افراد ہیں جو آپ کے بعد ناحق آپ کے منبر پر چڑھیں گے، (حکومت ہاتھ میں لیں گے) اور ان کی حکومت کی مدت 1000 مہینے ہو گی۔ پھر جبرائیل پروردگار کی طرف سے آنحضرت کے لیے سورہ قدر ہدیہ لے کر آئے اور عرض کیا: آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ:
شب قدر آپ کے لیے بنی امیہ کی حکومت کے 1000 مہینوں سے بہتر ہے۔
(در المنثور ،جلال الدین سیوطی، ج6 ص371)
من لا یحضرہ الفقیہ ، ابن بابویہ،ج 2 ص502
تفسیر نمونہ ،آیت اللہ مکارم شیرازی ،ج 27 ص153
مجمع البیان ، علامہ امین الاسلام طبرسی ج 7 ص204
تفسیر سورہ قدر ، محمد رضا حاج شریفی ،ص 171)
مرحوم محمد تقی شریعتی لکھتے ہیں:
شب قدر کے بنی امیہ کی حکومت سے بہتر ہونے کے موضوع کے علاوہ جو کہ شیعہ اور بعض اہل سنت تفسیروں میں امام حسن (ع) سے نقل ہوا ہے جبکہ بنی امیہ کی حکومت امام حسین (ع) کی شہادت کے کئی سال بعد ختم ہوئی اس حکومت کی مدت ٹھیک 1000 ہزار مہینے واقع ہوئی جو امام کی حقیقی تفسیر پر گواہی دیتی ہے اور قرآن کے معجزوں اور پیشین گوئیوں میں بھی شمار کی جاتی ہے رافعی کے اعجاز القرآن میں اسے علمی معجزات میں ذکر کیا گیا ہے۔
(تفسیر نوین ،محمد تقی شریعتی،ج2 ص157)
شب قدر کے فلسفہ وجودی کے سلسلے میں اور بھی اقوال ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض اقوال کو ذکر کیا جاتا ہے:
ایک دن پیغمبر اکرم نے اپنے اصحاب کے درمیان بنی اسرائیل کے چار پیغمبروں، ایوب ، ذکریا، حزقیل، یوشع کا نام لیا کہ یہ بغیر کسی نافرمانی کے 80 سال تک دن رات خدا کی عبادت کرتے رہے۔ آنحضرت کے اصحاب نے آرزو کی کہ اے کاش ہمیں بھی اس طرح کی توفیق ملتی اور خدا ہمیں لمبی عمر عطا کرتا تا کہ ہم بھی ان چار عابدوں کی طرح خدا کی عبادت کرتے ۔ اس آرزو کے بعد خدا نے پیغمبر پر یہ سورہ نازل کیا ہے اور فرمایا: تمہاری اور تمہاری ذریت اور تمہاری امت کی ایک رات کی عبادت ان کی ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔
(در المنثور ،ج 6 ص371)
ابن عطا نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ:
پیغمبر اکرم نے اپنے اصحاب سے فرمایا شمعون بنی اسرائیل کے صالحین میں سے تھا کہ جس نے ہزار مہینوں تک متواتر جہاد کا لباس پہن کر خدا کی راہ میں کفار سے جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ صحابہ نے آرزو کی کہ اے کاش انہیں بھی اس طرح کی توفیق اور عمر نصیب ہوتی تا کہ وہ شمعون کی طرح خدا کی راہ میں جہاد کرتے۔ اس آرزو کے بعد خداوند نے شب قدر پیغمبر کو عطا کیا او فرمایا: شب قدر ان ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شمعون نے خدا کی راہ میں جہاد میں صرف کیے ۔
دوسری حدیث میں ہے کہ خداوند نے اپنے پیغمبر سے خطاب کیا اور فرمایا:
میں نے تمہیں، تمہاری ذریت اور امت کو ایسی رات دی ہے کہ اگر اس رات میں صبح تک عبادت کرو گے تو یہ شمعون کے ان ہزار مہینوں سے، جو اس نے خدا کی راہ میں جہاد میں گزارے،بہتر ہے۔
(در المنثور، ج 6 ص371)
مجاہد کہتے ہیں کہ پیغمبر نے فرمایا: قوم بنی اسرائیل میں لوگ 80 سال تک دن میں روزہ رکھتے تھے اور رات بھر عبادت کرتے تھے پس پیغمبر اکرم نے خدا سے اپنی امت کے لیے اس کے مانند مانگا، خداوند نے یہ سورہ نازل کیا اور اس میں بیان فرمایا کہ: شب قدر کی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے جو کہ تقریباً 83 سال بنتے ہیں۔
شب قدر تاریخی نقطہ نظر سے آیات اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر اس کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے۔
(اصول کافی، ابو جعفر کلینی ،ج 1 ،ص 366)
اور سابقہ امتوں میں حضرت آدم کے زمانے سے لے کر اور ان کے بعد اسی طرح ہر ایک پیغمبر کے زمانے میں ایک رات شب قدر کے نام سے موجود تھی۔
(تفسیر قرآن، استاد شہید مطہری ص 345)
جس طرح گزشتہ امتوں میں ماہ رمضان بھی تھا اور یہ عظیم رات دنیا کے اختتام تک باقی رہے گی۔
ایک روایت میں ابی جعفر شب قدر کی تاریخ کے بارے میں فرماتے ہیں :
خداوند متعال نے شب قدر کو کائنات کی تخلیق کی ابتدا میں اور اس وقت جب اپنے پہلے نبی اور وصی کو پیدا کیا، وجود بخشا۔ اس نے ارادہ کر رکھا ہے کہ ہر سال ایک رات کو قرار دے کہ جس میں آئندہ سال تک کے تمام امور کی تفسیر نازل ہو۔ اور جو شخص بھی اس حقیقت کا انکار کرے گویا اس نے اس کے بارے میں خدا کے علم انکار کیا ہے کیونکہ انبیاء اور رسول اور محدثین قیام نہیں کرتے مگر یہ کہ ایسی رات میں ان کے ذریعہ اتمام حجت کی جائے … خدا کی قسم! آدم نے وفات نہیں پائی مگر یہ کہ ان کے وصی تھے اور آدم کے بعد اسی رات میں خدا کا امر ہر نبی (صاحب امر ) پر وارد ہوا اور اس نے اپنے بعد اپنے وصی کو سونپ دیا۔
حضرت امام جواد(ع) فرماتے ہیں: خداوند متعال نے شب قدر کو خلقت کائنات کے آغاز میں ہی بنایا۔ اسی طرح اس رات میں اپنے پہلے نبی اور وصی کو بھی خلق کیا۔ خدا کی قضا اور حتمی فیصلہ یہ ہے کہ ہر سال ایک ایسی رات ہو جس میں تمام امور اور مقدّرات نازل کیے جائیں اور معین کیے جائیں۔ خدا کی قسم! اس رات روح اور ملائکہ نازل ہوئے اور وہ مقدّرات امور کو ان کے پاس لائے۔ حضرت آدم نے رحلت نہیں کی مگر یہ کہ اپنے لیے وصی اور جانشین معین کیا۔ تمام انبیاء جو حضرت آدم کے بعد آئے، ان پر بھی شب قدر میں خدا کا امر نازل ہوتا تھا اور ہر نبی نے اپنے بعد اس مرتبہ اور مقام کو اپنے وصی کے سپرد کیا۔
(اصول کافی، ج1،ص 505)
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے حضرت امام صادق (ع) سے پوچھا : مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیں کہ کیا یہ ایک مخصوص رات تھی جو گزر گئی یا ہر سال آتی ہے ؟ امام نے جواب میں فرمایا: اگر شب قدر اٹھا لی جائے تو قرآن بھی اٹھا لیا جاتا۔
(من لا یحضرہ الفقیہ ، ابن بابویہ،ج2 ص 260)
اسی طرح کی ایک اور روایت میں پیغمبر کے مشہور صحابی ابوذر نے نقل کیا ہے ، ابوذر کہتے ہیں : میں نے پیغمبر سے عرض کیا: اے رسول خدا کیا شب قدر صرف انبیاء کے زمانےمیں ہوتی ہے کہ امر ان پر نازل ہوتا ہے اور جب دنیا سے گزر جائیں تو شب قدر بھی اٹھا لی جائے گی؟
حضرت نے فرمایا: نہیں بلکہ شب قدر روز قیامت تک باقی ہے،
لا بل ھو الی یوم القیامة،
(نور الثقلین ،ابن جمعہ ،ج 5 ص 620)
(مجمع البیان،ج 27،ص 199)
ابن عمر نے کہا ہے کہ: بعض صحابہ کرام نے پیغمبر اکرم سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا، میں نے سنا کہ آپ (ص) نے فرمایا:
ھی فی کلّ رمضان،
یعنی شب قدر ہر ماہ رمضان میں ہوتی ہے۔
(در المنثور ،جلال الدین سیوطی ،ج6 ،ص 371)
شب قدر کی فضیلت:
محمد بن حمران نے سفیان بن سمط سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں نے امام صادق (ع) سے ماہ رمضان میں امید دلانے والی مخصوص راتوں کے بارے میں پوچھا، امام نے فرمایا:
19، 21 اور 23 کی راتیں، میں نے کہا: اگر انسان کو سستی یا کوئی مشکل پیش آ جائے تو ان تین میں کس رات کو اعمال انجام دوں اور اس پہ اعتماد کروں ؟ امام نے فرمایا: 23 کی رات۔
اس طرح عبد اللہ بن بکیر کی روایت میں ہے کہ زرارہ نے اس روایت کو امام باقر یا امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ جس میں امام نے ماہ مبارک رمضان کی راتوں کی ان راتوں کے بارے میں سوال کیا جن میں غسل مستحب ہے ، تو امام نے فرمایا:
انیسویں رات، اکیسویں رات اور تئیسویں رات۔ پھر امام نے فرمایا: تئیسویں رات، شب جھنی (یہ ایک شخص کا نام ہے) ہے اور اس کی حکایت یوں ہے کہ جہنی نے رسول اکرم سے عرض کیا: میرا گھر مدینہ سے دور ہے لہٰذا میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں ان چند راتوں کی بیداری کی خاطر مدینہ نہیں آ سکتا ہوں۔
(وسائل الشیعہ ،حر عاملی ،ج 7،ص 259)
لہٰذا مجھے ایسی رات کے بارے میں بتائیں جس میں مدینہ آ سکوں۔ حضرت رسول اکرم نے اس شخص سے فرمایا : تئیسویں رات کو مدینہ آ جاؤ۔
(من لا یحضرہ الفقیہ ، ابن بابویہ،ج 2 ،ص 502)
لہٰذا اس بناء پر تئیسویں رات شب جھنی کے نام سے مشہور ہوئی ۔
اسی طرح سے عبد اللہ بن عمیر کہتا ہے کہ ایک شخص رسول خدا کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں نے خواب میں دیکھا کہ شب قدر ساتویں رات ہے کہ جو باقی رہ گئی ہے ، رسول اکرم نے فرمایا : میں جانتا ہوں کہ آپ کا خواب صحیح اور تئیسویں رات کے مطابق اور موافق ہے پس جو بھی آپ میں سے چاہے کہ ماہ مبارک رمضان میں کسی رات میں قیام کرے اور شب بیداری کرے پس اسے بتائیں کہ تئیسویں رات کو بیداری کرے ۔
(من لا یحضرہ الفقیہ ، ابن بابویہ،ج 2 ،ص 502)
اسی طرح دوسری روایت میں آیا ہے کہ عمر نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا ہے:
شب قدر کو آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔ آپ لوگوں کی نظر میں کونسی رات ہے ؟ اکثر افراد نے طاق رات کے بارے میں جواب دیا۔
ابن عباس کہتا ہے کہ عمر نے مجھ سے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ بات نہیں کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا :اللہ اکبر ! قرآن میں سبع کا بہت ذکر ہوا ہے خداوند عالم نے آسمانوں، زمینوں، طواف اور رمی جمرات کی تعدار سات رکھی ہے اور بنی نوع انسان کو بھی خداوند عالم نے سات چیزوں سے خلق کیا ہے اور سات چیزوں میں اس کا رزق قرار دیا ہے۔
خلیفہ دوم نے کہا : جو کچھ تو نے یہاں کہا میں نے جان لیا لیکن یہ بات جو تم نے یہاں کی ہے کہ انسان کو سات چیزوں سے خلق کیا گیا ہے اور سات چیزوں میں ہی اس کا رزق قرار دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ میں نے کہا کہ: خداوند متعال نے انسان کی خلقت کے سات مراحل بیان کیے ہیں:
و لقد خلقنا الانسان مِن سلالة مِن طِین ثم جعلناہ نطفة فِی قرار مکِین ثم خلقنا النطفة علقة فخلقنا العلقة مضغة فخلقنا المضغة عِظاما فکسونا العِظام لحما ثم انشناہ خلقا آخر فتبارک اللہ ا حسن الخالِقِین،
اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے پھر اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ تیار رکھا ہے پھر نطفہ کو علقہ بنایا ہے اور پھر علقہ سے مضغہ پیدا کیا ہے اور پھر مضغہ سے ہڈیاں پیدا کی ہیں اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑہایا ہے پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا ہے تو کس قدر با برکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے،
(سورہ مؤمنون آیت 12 الی 14)
خدا سات نعمتوں کے بارے میں جن میں انسان کا رزق قرار دیا گیا ہے فرمایا ہے کہ:
انا صببنا الماء صبا ثم شققنا الارض شقا فنبتنا فیھا حبا و عنبا وقضبا وزیتونا و نخلا و حدائق غلبا و فاکھة و ابا،
بیشک ہم نے پانی برسایا ہے پھر ہم نے زمین کو شگافتہ کیا ہے پھر ہم نے اس میں دانے پیدا کیے ہیں اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجور اور گھنے گھنے باغ اور میوہ اور چارہ،
(سورہ عبس آیت 25 الی 31)
پس میں اس کو تئیسویں ماہ مبارک رمضان سمجھتا ہوں اس کے بعد عمر نے کہا: تم لوگ اس جوان کے مانند لانے سے عاجز ہو جس کی داڑھی ابھی تک نہیں نکلی اور پھر کہا : اے ابن عباس تمہاری رائے میری رائے سے متفق ہے پھر اس کے شانے پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا : تم علم و دانش کے لحاظ سے لوگوں میں کچھ کم نہیں ہو۔
(مجمع البیان ج 27 ص201)
حضرت علی(ع) سے بھی مروی ہے کہ پیغمبر اکرم ماہ مبارک رمضان کے آخری دس دنوں میں اپنا بستر جمع کرتے تھے اور ماہ مبارک کے آخری ایام کو عبادت میں مشغو ل ہوتے تھے اور تئیسویں رات گھر کے تمام افراد کو شب بیداری کا حکم دیتے تھے اور جن پر نیند کا غلبہ ہوتا تھا ان پر پانی چھڑکا کرتے تھے تا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ شب قدر کے فیض محروم ہو جائیں۔
(معارف و معاریف ،سید مصطفی حسینی،ج 4 ص176)
اس مبارک شب میں نیز حضرت فاطمہ زہرا (س) گھر کے کسی فرد کو بھی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ سو جائے۔ شب قدر سے پہلے والے دن ان کو سونے کی دعوت دیتی تھیں تا کہ شب قدر کی رات کو بیداری میں بسر کریں اور اس رات غذا ان کو کم دیتی تھیں اور فرماتی تھیں : محروم ہے وہ انسان جو آج کی شب سے محروم ہو جائے۔
(بحار الانوار،ج 97 ص4)
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام صادق(ع) ایک شب قدر میں سخت بیمار ہو گئے امام نے اصحاب سے فرمایا کہ میرا بستر مسجد میں لے جاؤ اصحاب نے امام کے حکم کی تعمیل کی اور امام نے پوری رات صبح تک مسجد میں ذکر و عبادت میں بسر کی۔
(مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی)
ایک اور روایت میں امام صادق(ع) سے مروی ہے کہ فرمایا جو شخص شب قدر میں سورہ قدر روم اور سورہ عنکبوت کی تلاوت کرے خداوند عالم اس کو بخش دے گا۔
(تفسیر ابو الفتوح رازی ،ج 20)
ایک اور معتبر روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام باقر (ع) تئیسویں شب قدر کو بیداری میں گزارتے تھے ایک دن ایک عرب شخص نے امام باقر سے پوچھا کہ ہم شب قدر کو کیسے پہچانیں؟ امام نے فرمایا: ماہ مبارک رمضان کے داخل ہوتے ہی ہر شب سو مرتبہ سورہ حم اور سورہ دخان کی تلاوت کرو اور جب تئیسویں کی رات آئے گی تو جو سوال تو نے پوچھا ہے اس کا جواب تمہیں مل جائے گا۔
(تفسیر جامع ،آیت اللہ ابراہیم بروجردی،ج 7 ص260)
حمزہ بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ: میں قبیلہ بنی سلمہ کی جماعت میں سے تھا انہوں نے کہا کہ : کون مدینہ جائے اور حضرت رسول اکرم سے شب قدر کے بارے میں پوچھے گا؟ میں نے کہا کہ میں جاؤں گا اس کے بعد میں چل پڑا یہاں تک کہ میں رات کو مدینہ پہنچا حضرت کے گھر کھانا کھانے کے بعد ایک ساتھ ہم مسجد میں گئے ،حضرت رسول اکرم نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہیں کوئی کام ہے ؟ میں نے کہا : اے خدا کے رسول! قبیلہ بنی سلمہ نے مجھے یہاں بھیجا ہے تا کہ میں آ پ سے یہ پوچھوں کہ شب قدر کون سی رات ہے ؟ حضرت نے فرمایا: آج کی رات اس مہینے کی کونسی رات ہے ؟ میں نے عرض کیا: بائیسویں رات ہے حضرت نے فرمایا: کل کی رات تئیسویں رات ہے اور یہی شب قدر ہے۔
(تفسیر سورہ قدر ،محمد رضا حاج شریفی ،ص 51)
شب قدر کے لغوی معنی:
لغت میں قدر کے معنی مقدار اور اندازہ کرنے کے ہیں۔
(قاموس قرآن، سید علی اکبر قرشی، ج5، ص 246 و 247)
تقدیر بھی اندازہ کرنے اور معین کرنے کو کہتے ہیں،
(قاموس قرآن، سید علی اکبر قرشی، ج5 ص 248)
لیکن قدر کے اصطلاحی معنی:
کسی چیز کے وجود کی خصوصیت اور اس کی پیدائش کی کیفیت کے ہیں۔
المیزان، سید محمد حسین طباطبائی ،ج 12، ص 150 و 151۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ہر چیز کے وجود کی محدودیت اور اندازے کو قدر کہتے ہیں۔
(المیزان ، سید محمد حسین طباطبائی، ج 19، ص 110 )
حکمت الہی کے نظریہ کے مطابق خلقت کے نظام میں ہر چیز کا ایک خاص اندازہ ہے اور کسی بھی چیز کو بغیر حساب و کتاب کے خلق نہیں کیا گیا ہے ۔ اس دنیا کا بھی حساب و کتاب ہے اور یہ ریاضی کے حساب کی بنیاد پر تنظیم ہوئی ہے ، اس کا ماضی، حال اور آئندہ ایک دوسرے سے مرتبط ہے ۔
استاد شہید مطہری نے قدر کی تعریف میں لکھا ہے کہ: … قدر کے معنی اندازہ اور معین کرنے کے ہیں… حوادث جہانی … چونکہ اس کی حدیں، مقدار اور زمانی و مکانی موقعیت معین کی گئی ہیں ، لہذا یہ تقدیر الہی کے اندازے کے مطابق ہے۔
(انسان و سرنوشت ، شہید مطہری ، ص 52)
پس خلاصہ یہ کہ قدر کے معنی کسی چیز کی جسمانی اور فطری خصوصیات کے ہیں جس میں شکل، طول، عرض اور زمانی و مکانی موقعیت شامل ہے اور یہ تمام مادی اور فطری موجودات کو اپنے دائرہ میں لئے ہوئے ہے۔ یہی معنی روایات سے بھی استفادہ ہوتے ہیں ، جیسا کہ ایک روایت میں امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا گیا: قدر کے کیا معنی ہیں؟:
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
تقدیر الشئی ، طولہ و عرضہ۔
ہر چیز کا اندازہ جو طول و عرض کے اعتبار سے وسیع تر ہو۔
(المحاسن البرقی، ج 1، ص 244)
اسی طرح کی ایک روایت امام رضا علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے۔
(بحار الانوار، ج 5، ص 122)
اس بناء پر تقدیر الہی کے معنی یہ ہیں کہ مادی دنیا میں مخلوقات اپنے وجود ، آثار اور خصوصیات کے اعتبار سے محدود ہیں اور یہ محدودیت ،خاص امور سے مرتبط ہے ایسے امور جو اس کی علت اور شرایط ہیں، اور علل و شرایط اور وجود کے مختلف ہونے کی وجہ سے موجودات کے آثار اور خصوصیتیں بھی مختلف ہیں، ہر مادی موجود کو مخصوص پیمانے کے ذریعے اندر اور باہر سے اندازہ کیا جاتا ہے ۔
قدر کے معنی واضح ہونے سے شب قدر کی حقیقت کو سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے ۔ شب قدر وہ رات ہے جس میں تمام مقدرات لکھے جاتے ہیں، اور ہر چیز کا معین قالب اور اندازہ تیار کیا جاتا ہے۔
بہ عبارت دیگر، شب قدر، ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک ہے ۔ ہماری روایات کے مطابق انیسویں یا اکیسویں یا تیسویں راتوں میں کوئی ایک رات ، شب قدر ہے ۔ اس رات میں کہ جس میں قرآن کریم بھی نازل ہوا ہے لوگوں کے تمام اچھے اور برے امور، ولادت، موت، روزی، حج، طاعت، گناہ ، خلاصہ یہ کہ پورے سال میں جو بھی حادثہ رونما ہونے والا ہے وہ سب امور معین ہوتے ہیں ۔ شب قدر ہمیشہ اور ہر سال آتی ہے ، اس رات میں عبادت کرنے کا بے حد ثواب ہے اور ایک سال کی زندگی پر بہت زیادہ موثر ہے۔ اس رات میں آنے والے سال کے تمام حوادث کو امام زمان (عج) کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور آپ اپنے اور دوسروں کے حالات سے باخبر ہو جاتے ہیں۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
انہ ینزل فی لیلة القدر الی ولی الامر تفسیر الامور سنة سنہ، یومر فی امر نفسہ بکذا و کذا و فی امر الناس بکذا و کذا۔
شب قدر میں ولی امر (ہر زمانہ کے امام) کو کاموں کی تفسیر اور حوادث کی خبر دی جاتی ہے اور وہ اپنے اور دوسرے لوگوں کے کاموں کی طرف مامور ہوتے ہیں۔
(الکافی، ج 1، ص 248)
پس شب قدر وہ رات ہے:
1۔ جس میں قرآن کریم نازل ہوا ۔
2۔ آئندہ سال کے حوادث اس رات میں مقدر ہوتے ہیں ۔
3۔ یہ حوادث امام زمانہ روحی و جسمی فداہ کو پیش کیے جاتے ہیں، اور آپ کچھ کاموں پر مامور ہوتے ہیں۔
اس بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شب قدر ، تقدیر، اندازہ گیری اور دنیا کے حوادث کو معین کرنے کی رات ہے ۔ اور یہ ایسی رات ہے جس کے متعلق خداوند عالم نے فرمایا : فیھا یفرق کل امر حکیم اس رات میں حکمت آمیز امور معین اور جدا ہوتے ہیں، اس کے بعد فرمایا:’’ پورے سال میں جو بھی پیش آنے والا ہے وہ شب قدر میں معین ہوتا ہے ۔ خیر و شر، طاعت و معصیت اسی طرح اگر کوئی بچہ پیدا ہونے والا ہے یا کسی کو موت آنے والی ہے یا کسی کو رزق ملنے والا ہے وہ سب اسی رات میں معین ہوتے ہیں۔
شب قدر کا امام زمان (عج) سے تعلق:
خداوند عالم سورہ قدر کی چوتھی آیت میں فرماتا ہے: اس رات ملائکہ اور روح القدس اپنے پروردگار کے حکم سے زمین پر نازل ہوتے ہیں۔
تنزل، فعل مضارع ہے جو استمرار اور دوام پر دلالت کرتا ہے یا سورہ دخان کی آیت، فیھا یفرق کل امر حکیم، میں بھی یفرق باب تفعل سے ہے کہ جو ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ تفریق امور ہر سال انجام پاتے ہیں جیسا کہ نزول ملائکہ ہر سال ہوتا ہے۔
رسول خدا(ص) کے زمانے میں نزول ملائکہ کا مرکز آپ کی مقدس ذات تھی اور آپ کے بعد ہر سال شب قدر کو کوئی ایسا ہونا چاہیے جو افق نبوت سے اتنا قریب ہو کہ فرشتے اس کے پاس آ جا سکیں۔ اصل ولایت اور رسول اسلام کی وصایت و جانشینی اور امامت کو قبول کرنا اسی بنیاد پر قائم ہے۔
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:
اے لوگوں! سورہ انا انزلناہ کے ساتھ ہماری امامت کے مخالفین کے ساتھ مجادلہ و بحث کرو ان پر حجت قائم کرو تا کہ کامیاب ہو جاؤ۔ خدا کی قسم یہ سورہ پیغمبر اکرم کے بعد خدا کی حجت ہے لوگوں پر۔ یہ سورہ تمہارے دین کا سردار اور ہمارے علم و آگاہی کی انتہا ہے۔ اے لوگوں!سورہ حم و الکتاب المبین، انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین، کے ذریعے ہمارے دشمنوں کے ساتھ مناظرہ کرو۔ اس لیے کہ یہ آیتیں رسول اسلام کے بعد امر امامت سے مخصوص ہیں۔ جو شخص قرآن کو کلام خدا ہونے کے عنوان سے قبول کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام سوروں اور آیات کو قبول کرتا ہے اور ایک واقعی مسلمان بھی وہی ہے کہ جو قرآن کریم کے سامنے تسلیم کامل ہو۔ ہر مسلمان کو مجبوراً سورہ قدر ، اس کے ساتھ ساتھ شب قدر اور اس کا ہمیشہ تکرار ہونا اور اس آیت تنزل الملائکۃ کے ضمن میں فرشتوں کے نزول کو قبول کرنا پڑے گا۔ کہ شب قدر کو فرشتے اللہ کے حکم سے ولی خدا اور وارث دین کے پاس آتے ہیں، اور سورہ دخان کی آیتوں کے مطابق کہ اس رات میں ہر حکم اس کی حکمت کے مطابق صادر ہوتا ہے ہماری جانب سے اور ہم ہمیشہ اس حکم کو نازل کرنے والے ہیں۔ شب قدر تکرار ہوتی ہے اور ہر سال یہ کام انجام پاتا ہے فرشتے احکام خدا کو لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ پس ہمیشہ ایک شخص ایسا روئے زمین پر ہونا چاہیے کہ جس کے پاس ملائکہ ان امور کے ساتھ نازل ہوں۔ اور وہ وہی جانشینان پیغمبر آئمہ معصومین (ع) میں کا ایک فرد ہے، کہ جس کی اطاعت تمام اہل زمین پر واجب ہے۔ اسی وجہ سے ہر کسی نے یہ دعوی کیا کہ میں ولی امر ہوں، پس اگر اس کے پاس فرشتے نازل ہوتے رہے ہیں یا ہو رہے ہیں تو ٹھیک ہے، لیکن معصوم کے علاوہ کوئی اس بات کا دعوی نہیں کر سکتا کہ فرشتے اس کے پاس آتے ہیں۔ پیغمبر کے معصوم اوصیاء میں سے ایک شخص ہمیشہ روئے زمین پر باقی ہے جو اس بات کی صلاحیت اور لیاقت رکھتا ہے۔ شب قدر اور امام زمانہ (عج) زیر بحث آیت قرآن کریم کی ایک محکم ترین آیت ہے اس بات پر کہ ایک ولی امر کا وجود خدا کی جانب سے ہمیشہ روئے زمین پر ہونا چاہیے کہ جو حکم الٰہی کی حفاظت ، پاسداری اور اسے اجراء کرتا ہو۔ اور وہ وہی امام معصوم ہے۔ اور جو شخص بھی شب قدر میں فرشتوں کے ہمیشگی نزول کو قبول کرتا ہے اگر قرآن پر ایمان رکھتا ہے اسے یقینی طور پر ایک ولی امر کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ ورنہ قرآن کے بعض کی نسبت مومن اور بعض کی نسبت کافر کہلائے گا۔ اور اس صورت میں قرآن ہی کے بقول کافر واقعی ہو گا۔
رسول اکرم سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: شب قدر پر ایمان لاؤ اس لیے کہ یہ رات میرے بعد علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد سے گیارہ افراد کی امامت کی دلیل ہو گی۔
جیسا کہ سورہ نساء کی 150 ویں اور 151 ویں آیت میں ارشاد ہے: بیشک وہ لوگ جو اللہ اور رسول کا انکار کرتے ہیں اور خدا اور رسول کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان اور کفر کے درمیان میں سے کوئی نیا راستہ نکالیں ، تو در حقیقت یہ لوگ کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے بڑا رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ خدا ان لوگوں کو جو قرآن کی بعض آیات کو قبول کرتے ہیں اور بعض کے منکر ہیں کافر کہتا ہے۔ اس بنا پر مؤمن واقعی وہ ہے جو شب قدر کے قیامت تک باقی رہنے پر ایمان رکھے اور اس کے ساتھ ایک حجت خدا کے ہر زمانے میں موجود ہونے پر ایمان لائے کہ جو امر خدا کو اس رات قبول کرتا ہے اور اس کا محافظ اور نافذ کرنے والا ہوتا ہے یعنی وہی بزرگوار جسے ہم اس زمانے میں بقیۃ اللہ الاعظم امام مہدی (عج) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اسی وجہ سے پیغمبر اکرم نے فرمایا جیسا کہ شیعہ اور سنی دونوں نے نقل کیا ہے:
من انکر المھدی فقد کفر،
جس نے مہدی کا انکار کیا وہ کافر ہے۔
(علامه مجلسی، بحار الأنوار، ج 51، ص 51)
منتخب الاثر، فصل 10، ب 1، جز 1، ص 492
شیعہ کتابوں میں اس قسم کی بہت ساری احادیث ہیں اور ان میں سے ایک امام صادق کی حدیث ہے کہ آپ نے اپنے پدر بزرگوار سے انہوں نے اپنے پدر بزگوار سے یہاں تک کہ رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:
القائم من ولدي اسمه إسمي و كنيته كنيتي و شمائله شمائلي و سنّته سنتي يقيم النّاس علي ملتّي و شريعتي و يدعوهم إلي كتاب الله عزّوجلّ، من أطاعة أطاعني و من عصاه عصاني، و من أنكره في غيبته فقد أنكرني، و من كذبه فقد كذّبني، و من صدّقه فقد صدّقني، إلي الله اشكو المكذّبين لى فى أمره، و الجاهدين لقولي والمضلّين لأمتّي عن طريقته و سيعلم الذين ظلموا ايّ منقلبٍ ينقلبون۔
قائم میری اولاد میں سے ہے اس کا نام میرا نام (محمد) اس کی کنیت میری کنیت (ابو القاسم) اور اس کی شکل و صورت میری شکل و صورت جیسی ہے اس کی سیرت میری سیرت ہے۔ میرے دین اور آئین کو لوگوں کے درمیان پھیلائے گا اور انہیں کتاب خدا کی طرف دعوت دیگا۔ جو شخص اس کی اطاعت کرے گا گویا اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو اس کی نافرمانی کرے گا اس نے میری نافرمانی کی ہے جس نے اس کا اس کی غیبت کے دوران انکار کیا در حقیقت اس نے میرا انکار کیا ہے اور جس نے اس کو جھٹلایا در حقیقت اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے اس کی تصدیق کی اس نے میری تصدیق کی، اور جو لوگ مجھے اس کے بارے میں جھٹلاتے ہیں اور میری بات کو اس کے سلسلے میں قبول نہیں کرتے اور میری امت کو اس راستے سے گمراہ کرتے ہیں، میں ان لوگوں کی بارگاہ خداوندی میں شکایت کروں گا، اور عنقریب جن لوگوں نے ستم کیا جان لیں گے کہ ان کی بازگشت کہاں ہو گی اور ان کا سر انجام کیا ہو گا۔
(علامه مجلسی، بحارالانوار، ج 51، ص 73)
منتخب الاثر، فصل2، ب 3، ح 4 ، ص 183)
اس حدیث میں امام مہدی کا انکار اور تکذیب پیغمبر اکرم کا انکار اور ان کی تکذیب بیان ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم کی تکذیب کا مطلب تمام انبیاء کی تکذیب ہے کہ جس کا نتیجہ کفر اور جہنم ہے۔
علی بن ابراہیم قمی نے شب قدر فرشتوں کے نزول کی تفسیر میں لکھا ہے:
فرشتے اور روح القدس شب قدر کو امام زمان (ع) پر نازل ہوتے ہیں اور اگلے سال تک انسانوں کی جو سرنوشت مقرر ہوتی ہے اسے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
اور پھر امام محمد باقر سے ایک حدیث میں نقل کیا ہے کہ آپ سے پوچھا گیا ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ شب قدر کونسی رات ہے ؟ تو آپ نے فرمایا:
کیف لانعرف و الملائکة تطوف بنا فیھا،
ہم کیسے نہ جانیں گے حالانکہ شب قدر فرشتے ہمارے اوپر نازل ہوتے ہیں اور ہمارا طواف کرتے ہیں۔
(تفسیر برہان ج 4 ص 488)
تفسير القمي، ص 731)
(امراء هستی، ص 190)
علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج 97، ص 14)
امام صادق(ع) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے میں، شب قدر سے مراد فاطمہ ہیں اور قدر خدا ہے۔ پس جو شخص جناب فاطمہ کو جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، پہچانے اس نے شب قدر کو درک کر لیا ہے۔
امام سجاد علیہ السلام نے اس سلسلے میں فرمایا ہے کہ:ہر سال شب قدر کو تمام کاموں کی تفصیل وقت کے امام معصوم کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
اسی طرح رسول خدا (ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ:
شب قدر پر ایمان لاؤ، اس لیے کہ وہ شب میرے بعد علی بن ابی طالب علیہ السلام اور انکی اولاد سے گیارہ آئمہ کے لیے ہو گی۔
(علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج 97، ص 14)
ان چند مطالب سے آسانی سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ شب قدر قیامت تک باقی ہے اور ہر شب قدر میں ولی امر اور صاحب امر ہے کہ جو اس شب میں خداوند کی طرف سے نازل ہونے والے امور کو حاصل کرتا ہے، کہ اس ہمارے زمانے میں وہ ولی امر اور صاحب امر حضرت حجۃ ابن الحسن المہدی، ارواحنا فداه کی مقدس ذات ہے۔
سُبْحانَكَ يا لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ خَلِّصْنا مِنَ النّارِ يا رَبِّ سُبْحانَكَ يا لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَ خَلِّصْنا مِنَ النّارِ يا رَبِّ يا ذَاالْجَلالِ وَالاْكْرامِ يا ارْحَمَ الرّاحِمينَ اَللّهُمَّ اِنّى اَسْئَلُكَ بِاسْمِكَ يا اَللّهُ يا رَحْمنُ يا رَحيمُ يا كَريمُ يا مُقيمُ يا عَظيمُ يا قَديمُ يا عَليمُ يا حَليمُ يا حَكيمُ سُبْحانَكَ يا لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ خَلِّصْنا مِنَ النّارِ يا رَبِّ۔۔۔۔۔۔۔
التماس دعا..
https://www.valiasr-aj.com/urdu