- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : sadiqabbas
- 2023/06/06
- 0 رائ
والدین پر بچوں کی ذمہ داریاں
اولاد کی تعریف
قال اللهتعالی: (وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ) -(1) ۔ اور جان لو یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموا ل ایک آزمائش ہیں اور خدا کے پاس اجر عظیم ہے۔ قال رسول اللہ(ص): انّهمثمرةالقلوبوقرةالاعین–(2) رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اولاد دلوں کا ثمرہ ہے اور آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اور فرمایا: انّ لکل شجرة ثمرة وثمرةالقلب الولد-(3)
ہر درخت کا پھل ہوتا ہے اور دل کا پھل اولاد ہے۔اولاد کی اتنی فضیلت کے باوجود ایک دن حسن بصری نے کہا: اولاد کتنی بری چیز ہے !اگر وہ زندہ رہے تو مجھے زحمت میں ڈالتی ہے اور اگر مرجائے تو مجھے مغموم کرجاتی ہے۔ امام سجاد(ع) نے یہ سنا تو فرمایا:
رُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ بِئْسَ الشَّيْءُ الْوَلَدُ إِنْ عَاشَ كَدَّنِي وَ إِنْ مَاتَ هَدَّنِي فَبَلَغَ ذَلِكَ زَيْنَ الْعَابِدِينَ ع فَقَالَ كَذَبَ وَ اللَّهِ نِعْمَ الشَّيْءُ الْوَلَدُ إِنْ عَاشَ فَدَعَّاءٌ حَاضِرٌ وَ إِنْ مَاتَ فَشَفِيعٌ سَابِقٌ–(4)
خدا کی قسم اس نے جھوٹ بولا ہے بہترین چیز اولاد ہے اگر یہ زندہ رہے تو چلتی پھرتی دعا ہے، اور اگر مر جائے تو شفاعت کرنے والا ہے۔یہی وجہ ہے کہ روایت میں ملتا ہے کہ حضور (ص)نے فرمایا: سقط شدہ بچے سے جب قیامت کے دن کہا جائے گا کہ بہشت میں داخل ہوجاؤ۔ تو وہ کہے گا : حتییدخل ابوای قبلی -5 خدایا جب تک میرے والدین داخل نہیں ہونگے تب تک میں داخل نہیں ہونگا۔
____________________
1 ۔ انفال٢٨.
2 ۔ بحار الانوار،ج ١٠٤،٩٧.
3 ۔ میزان الحکمة،٢٨٦٠٨.
4 ۔ مستدرک الوسائل،ج١٥،ص١١٢ .
5 . ہمان،ص٩٦.
تربیت اولاد کیلئے زمینہ سازی
تربیت اولاد کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ہر مکتب اور مذہب انسانی تربیت کی ضرورت کو درک کرتے ہیں اگر اختلاف ہے تو روش اور طریقے میں ہے۔تربیت کی اہمیت کو پیامبر اسلام (ص)یوں فرماتے ہیں: وَ كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ يَدُورُ فِي سِكَكِ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ وَ هُوَ يَقُولُ عَلِيٌّ خَيْرُ الْبَشَرِ فَمَنْ أَبَى فَقَدْ كَفَرَ يَا مَعَاشِرَ الْأَنْصَارِ أَدِّبُوا أَوْلَادَكُمْ عَلَى حُبِّ عَلِيٍّ فَمَنْ أَبَى فَانْظُرُوا فِي شَأْنِ أُمِّهِ-(1) جابر بن عبداللہ انصاری مدینے میں انصار کے کانوںمیںیہ کہتے ہوئے گھوم رہے تھے : علی سب سے بہتر اور نیک انسان ہیں ۔پس جس نے بھی ان سے منہ پھیرا وہ کافر ہوگیا ۔ اے انصارو! تم لوگ اپنے بچوں کومحبت علی کی تربیت دو ،اگر ان میں سے کوئی قبول نہیں کرتا ہے تواس کی ماں کو دیکھو کہ وہ کیسی عورت ہے ۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: اپنی اولادوں کو تین چیزوں کی تربیت دو: اپنے نبی(ص) اور اس کی آل پاکA کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کریں اور قرآن مجید کی تعلیم دیں۔
رَوَى فُضَيْلُ بْنُ عُثْمَانَ الْأَعْوَرُ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ اللَّذَانِ يُهَوِّدَانِهِ وَ يُنَصِّرَانِهِ وَ يُمَجِّسَانِه(2) امام صادق نےپیامبر اسلام (ص)سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:دنیا میں آنے والا ہربچہ فطرت (توحید) پر پیداہوتا ہے۔لیکن اس کے والدینیا اسے یہودییا نصرانییا مجوسی بناتے ہیں۔
اسی لئے اسلام نے بچے کے دنیا میں آنے سے پہلے سے تربیت کرنے کا حکم دیا :
____________________
1 ۔ من لا یحضر ،ج۳، ص ۴۹۳۔
2 ۔ من لایحضرہ الفقیہ،ج۲، ص۴۹۔
پیدائش سے پہلے باایمان ماں کاانتخاب
آپ (ص)نے فرمایا: اپنے نطفوں کیلئے مناسب اور پاکدامن رحم تلاش کرو۔پہلے ذکر کرچکا کہ خاندانی صفات بھی قانون وراثت کے مطابق اولادوں میں منتقل ہوتی ہیں خواہ وہ صفات اچھی ہو یا بری۔ اسی لئے حضرت زہرا کی شھادت کے بعد امیرالمؤمنین نے نئی شادی کرنا چاہی تو اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ کسی شجاع خاندان میں رشتہ تلاش کرو۔تاکہ ابوالفضل جیسے شجاع اور با وفا فرزند عطا ہوں۔
دلہن باعث خیر و برکت
رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ ص عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِذَا دَخَلَتِ الْعَرُوسُ بَيْتَكَ فَاخْلَعْ خُفَّيْهَا حِينَ تَجْلِسُ وَ اغْسِلْ رِجْلَيْهَا وَ صُبَّ الْمَاءَ مِنْ بَابِ دَارِكَ إِلَى أَقْصَى دَارِكَ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ أَخْرَجَ اللَّهُ مِنْ بَيْتِكَ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْفَقْرِ وَ أَدْخَلَ فِيهِ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْبَرَكَةَ وَ أَنْزَلَ عَلَيْهِ سَبْعِينَ رَحْمَةً وَتَأْمَنَالْعَرُوسُ مِنَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ الْبَرَصِ أَنْ يُصِيبَهَا مَا دَامَتْ فِي تِلْكَ الدَّارِ(1) ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خد نے علی ابن ابی طالب نصیحت کی اور فرمایا : یا علی ! جب دلہن آپ کے گھر میں داخل ہوجائے تو اس کا جوتا اتارکر اس کے پاؤں دھلائیں ۔ اور اس پانی کو گھر کے چاروں کونوں میں چھڑکائیں ۔ جب آپ ایسا کروگے تو خدا تعالی ستر قسم کے فقر اور مفلسی کو آپ کے گھر سے دور کرے گا ، اور ستر قسم کی برکات کو نازل کرے گا، اور دلہن بھی جب تک تیرے گھر میں ہوگی ؛دیوانگی، جزام او ر برص کی بیماری سے محفوظ رہےگی۔
دلہن کچھ چیزوں سے پرہیز کرے
وَ امْنَعِ الْعَرُوسَ فِي أُسْبُوعِهَا مِنَ الْأَلْبَانِ وَ الْخَلِّ وَ الْكُزْبُرَةِ وَ التُّفَّاحِ الْحَامِضِ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لِأَيِّ شَيْءٍ أَمْنَعُهَا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ الْأَرْبَعَةَ قَالَ لِأَنَّ الرَّحِمَ تَعْقَمُ وَ تَبْرُدُ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ عَنِ الْوَلَدِ وَ لَحَصِيرٌ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنِ امْرَأَةٍ لَا تَلِدُ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَالُ الْخَلِّ تَمْنَعُ مِنْهُ قَالَ إِذَا حَاضَتْ عَلَى الْخَلِّ لَمْ تَطْهُرْ أَبَداً بِتَمَامٍ وَ الْكُزْبُرَةُ تُثِيرُ الْحَيْضَ فِي بَطْنِهَا وَ تُشَدِّدُ عَلَيْهَا الْوِلَادَةَ وَ التُّفَّاحُ الْحَامِضُ يَقْطَعُ حَيْضَهَا فَيَصِيرُ دَاءً عَلَيْهَا(2) دلہن کو پہلے ہفتے میں دودھ، سرکہ ،پودینہ اور ترش سیب کھانے سے منع کریں ۔ امیر المؤمنین نے عرض کیا : یا رسول اللہ کس لئے ان چار چیزوں کے کھانےسے اسے منع کروں؟! تو فرمایا: ان چار چیزوں کے کھانے سے اس کی بچہ دانی ٹھنڈی اور نازا ہوجاتیہے،اور گھر کے کونے میں محصور ہوکر رہنا بھانج عورت سے بہتر ہے۔پھر امیرالمؤمنین نے سوال کیایا رسول اللہ !سرکہ یا ترشی سے کیوں روکا جائے؟ تو فرمایا: اگر ترشی پر حیض آجائے تو کبھی حیض سے پاک نہیں ہوگی۔اور پودینہ تو حیض کو عورت کے پیٹ میں پھیلاتی ہےاور بچہ جننے میں سختی پیدا کرتی ہے۔اور ترش سیب حیض کو بند کردیتا ہے، جو عورت کے لئے بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
____________________
1 ۔ من لایحضرہ الفقیہ ،ج۳،ص ۵۵۱۔
2 ۔ ہمان۔
آداب مباشرت
آپ (ص)نے حضرت علی (ع)سےمخاطب ہوکر ایک طویل خطبہ دیا جس کا پہلا حصہ اوپر کے دو عناوین میں بیان ہوا اور بقیہ حصہ مندرجہ ذیل عناوین میں تقسیم کر کے بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان آداب کی رعایت کا سختی سے حکم دیا گیا ہے:
مہینے کی تاریخوں کا خیال رکھے:
یا علی !یاد کرلو ھ سے میری وصیت کو جس طرح میں نے اسے میرے
بھائی جبرائیل سے یاد کیا ہے۔
ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ وَ وَسَطِهِ وَ آخِرِهِ فَإِنَّ الْجُنُونَ وَ الْجُذَامَ وَ الْخَبَلَ لَيُسْرِعُ إِلَيْهَا وَ إِلَى وَلَدِهَا ۔
اے علی! مہینے کی پہلی ،درمیانی اور آخری تاریخ کو اپنی بیوی کیساتھ مباشرت نہ کرو کیونکہ ان ایام میں ٹھہرا ہوا بچّہ پاگل، جزام اور ناقص الاعضاء پیدا ہوگا۔
*بعد از ظہر مباشرت ممنوع : يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بَعْدَ الظُّهْرِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ يَكُونُ أَحْوَلَ وَ الشَّيْطَانُ يَفْرَحُ بِالْحَوَلِ فِي الْإِنْسَانِ ۔ اے علی! ظہرین کے بعد ہمبستری نہ کرو کیونکہ اس سے اگر حمل ٹھہرے تو وہ نامرد ہوگا ۔ اور شیطان انسانوں میں نامرد پیدا ہونے سے بہت خوش ہوتا ہے ۔
ذکر الہی میں مصروف رہے:
يَا عَلِيُّ لَا تَتَكَلَّمْ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ لَا يُؤْمَنُ أَنْ يَكُونَ أَخْرَسَ ۔
اے علی ! ہمبستری کرتے وقت باتیں نہ کرو ۔ اگر اس دوران بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ گونگا ہوگا۔
شرم گاہ کو نگاہ نہ کرے :
وَ لَا يَنْظُرَنَّ أَحَدٌ إِلَى فَرْجِ امْرَأَتِهِ وَ لْيَغُضَّ بَصَرَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّ النَّظَرَ إِلَى الْفَرْجِ يُورِثُ الْعَمَى فِي الْوَلَدِ–(3)اے علی ! مباشرت کرتے وقت شرم گاہ کو نہ دیکھو ۔ اس دوران اگر حمل ٹھہر جائے تو وہ اندھا پیدا ہوگا۔
اجنبی عورت کا خیال ممنوع :
يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بِشَهْوَةِ امْرَأَةِ غَيْرِكَ فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ أَنْ يَكُونَ مُخَنَّثاً أَوْ مُؤَنَّثاً مُخَبَّلًا يَا عَلِيُّ مَنْ كَانَ جُنُباً فِي الْفِرَاشِ مَعَ امْرَأَتِهِ فَلَا يَقْرَأِ الْقُرْآنَ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْهِمَا نَارٌ مِنَ السَّمَاءِ فَتُحْرِقَهُمَا قَالَ مُصَنِّفُ هَذَا الْكِتَابِ رَحِمَهُ اللَّهُ يَعْنِي بِهِ قِرَاءَةَ الْعَزَائِمِ دُونَ غَيْرِهَا –(4) اے علی! اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرتے وقت کسی اور نامحرم کا خیال نہ آنے پائے۔ مجھے خوف ہے کہ اگر اس موقع پر کوئی بچہ حمل ٹھہر جائے تو وہ خنثیٰ پیدا ہوگا اور اگر بچی ہو تو وہ بھانج ہوگی۔
میاں بیوی الگ تولیہ رکھے:
يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ إِلَّا وَ مَعَكَ خِرْقَةٌ وَ مَعَ أَهْلِكَ خِرْقَةٌ وَ لَا تَمْسَحَا بِخِرْقَةٍ وَاحِدَةٍ فَتَقَعَ الشَّهْوَةُ عَلَى الشَّهْوَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُعْقِبُ الْعَدَاوَةَ بَيْنَكُمَا ثُمَّ يُؤَدِّيكُمَا إِلَى الْفُرْقَةِ وَ الطَّلَاقِ–(5) اے علی! بیوی کے ساتھ مباشرت کرتے وقت الگ الگ تولیہ رکھے ۔ ایک ہی تولیہ سے صاف نہ کرے کیونکہ ایک شہوت دوسری شہوت پر واقع ہوجاتی ہے جو میاں بیوی کے درمیان دشمنی پیدا کرتا ہے اور بالآخرہ جدائی اور طلاق کا سبب بنتا ہے۔
کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا:
َیا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ مِن قِيَامٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِ الْحَمِيرِ فَإِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ كَانَ بَوَّالًا فِي الْفِرَاشِ كَالْحَمِيرِ الْبَوَّالَةِ فِي كُلِّ مَكَانٍ-(6) اے علی! کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا کیونکہیہ گدھے کی عادت ہے ۔ ایسی صورت میں اگر بچہ ٹھہر جائے تو وہ بستر میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہوجائے گا ۔
شب ضحی کو مباشرت نہ کرو:
يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي لَيْلَةِ الْأَضْحَى فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ يَكُونُ لَهُ سِتُّ أَصَابِعَ أَوْ أَرْبَعُ–(7)اے علی ! عید الضحیٰ کی رات کو مباشرت کرے تو اگر بچہ ٹھہر جائے تو اس کی چھ یا چار انگلیاں ہوگی۔
مضطرب حالت میں نہ ہو :
امام حسن مجتبی (ع) فرماتے ہیں:اگر آرامش ، سکون اور اطمنان قلب وغیر مضطرب حالت میں مباشرت کرے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کی شکل میں پیدا ہوگا –(8) لیکن اگر مضطرب حالت میں ہو تو ماموں اور ننھیال کی شکل و صورت میں پیدا ہوگا۔
جب ایک عورت نے پیامبر(ص)کی خدمت میں آکر عدالت الہی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: کہ میں خدا کو عادل نہیں مانتی کیونکہ اس نے ہمیں نابینا بیٹا دیا ، میرے بیٹے اور میرے شوہر کا کیا قصور تھا؟آپ (ص)نے کچھ تأمل کرنے کے بعد فریایا: کیا تیرا شوہر تیرے پاس آتے وقت نشے کی حالت میں تو نہیں تھا؟ تو اس نے کہا : ہاں ایسا ہی تھا کہ وہ شراب پیا ہوا تھا۔ تو اس وقت فرمایا: بس تو اپنے آپ پر ملامت کرو۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مباشرت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ بچہ اندھا پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو جسمانی تأثیر ہے ۔روحانی تأثیر کے بارے میں امام صادق(ع) فرماتے ہیں: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَأَتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا أَفْلَحَ أَبَداً إِنْ كَانَ غُلَاماً كَانَ زَانِياً أَوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة–(9)
اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی
کیساتھ مباشرت کرے اور اس کمرے میں چھوٹا بچہ جاگ رہا ہو اور انہیں دیکھ رہا ہو اور ان کی باتوں اور سانسوں کو سن رہا ہو تو کبھی بھی وہ نیک اولاد نہیں ہوگی، اگر بچہ ہو تو وہ زانی ہوگا اور اگر وہ بچی ہو تو وہ زانیہ ہوگی۔
____________________
1 ۔ ہمان، مکارم الاخلاق،ص.١٢٩
2 ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔
3 ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔
4 ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔
5 ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔
6 ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔
7 ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔
8 ۔ بحارالانوار۔
9 ۔ وسائل الشیعہ ج۲۰، ص۱۳۳۔،الکافی،ج۵، ص۵۰۰۔