- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/15
- 0 رائ
اس وقت ھم مسئلہ امامت و خلافت پر گفتگو کر رھے ھيں۔ مسئلہ صلح امام حسن عليہ السلام پر بات چيت ھو چکي امام رضا(ع) کي ولي عہدي کے بارے ميں ھم گفتگو کريں گے۔ اس سلسلے ميں کئي سوالات بھي پيدا ھوتے ھيں، جن کا جواب دينا بہت ضروري ھے۔ حضرت امير(ع) حضرت امام حسن عليہ السلام اور حضرت امام رضا عليہ السلام، حضرت امام صادق عليہ السلام کي خلافت حقہ کے بارے ميں کچھ اعتراضات سننے کو آئے ھيں، ميں چاھتا ھوں ان کا تفصيل کے ساتھ جواب دوں، ايسا جواب کہ جس کے بعد کسي قسم کا ابھام نہ رھے۔ ليکن ميں اس وقت امام جعفر صادق(ع) کے بارے ميں گفتگو کروں گا۔ امام عليہ السلام کے بارے ميں دو سوالات ھمارے سامنے پيش کئے گئے ھيں۔ پہلا سوال يہ ھے کہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کا دور امامت بني اميہ کي حکومت کے آخري ايام اور بني عباس کے اوائل اقتدار ميں شروع ھوتا ھے۔
سياسي اعتبار سے امام عليہ السلام کے لئے بھترين موقع ھاتھ ميں آيا۔ بني عباس نے تو اس موقعہ پر بھر پور طريقے سے فائدہ اٹھا ليا۔ امام عليہ السلام نے ان سنھري لمحوں سے استفادہ کيوں نھيں کيا۔ بني اميہ کا اقتدار زوال پذير تھا۔ عربوں اور ايرانيوں، ديني اور غير ديني حلقوں ميں بني اميہ کے بارے ميں شديد ترين مخالفت وجود ميں آچکي تھي۔ ديني حلقوں ميں مخالفت کي وجہ ان کا علانيہ طور گناھوں کا ارتکاب کرنا تھا۔ ديندار طبقہ کے نزديک بني اميہ فاسق وفاجر اور نالائق لوگ تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بزرگان اسلام اور ديگر ديني شخصيات پر جو مظالم ڈھائے ھيں وہ انتھائي قابل مذمت اور لائق نفرت تھے۔ اس طرح کي کئي مخالف وجوھات نفرت واختلاف کا باعث بن چکي تھيں” خاص طور پر امام حسين عليہ السلام کي شھادت نے بني اميہ کے ناپاک اقتدار کو خاک ميں ملا ديا۔ پھر رھي سھي کسر جناب زيد بن علي ابن الحسين اور يحيي بن زيد کے انقلابات نے نکال دي۔ مذھبي اور ديني اعتبار سے ان کا اثر و رسوخ بالکل ناپيد ھوگيا تھا۔ بني اميہ علانيہ طور پر فسق وفجور کے مرتکب ھوئے تھے، عياشي اور شرابخوري ميں تو انھوں نے بڑے بڑے رنگين مزاج حکمرانوں کو پيچھے چھوڑ ديا تھا۔ يھي وجہ ھے کہ لوگ ان سے سخت نفرت کرتے تھے۔ اور ان کو لادين عناصر سے تعبير کيا جاتا تھا۔ کچھ حکران ظلم و ستم کے حوالے سے بہت ظالم و سفاک شمار کيے جاتے تھے ان ميں ايک نام سلاطين بني اميہ کا ھے۔ عراق ميں حجاج بن يوسف اور خراسان ميں چند حکمرانوں نے ايراني عوام پر مظالم ڈھائے۔ وہ لوگ بني اميہ کے مظالم کو ان مظالم کا سر چشمہ قرار ديتے تھے۔ اس لئے شروع ھي سے اسلام اور خلافت ميں تفريق قائم کي گئي خاص طور پر علويوں کي تحريک خراسان ميں غير معمولي طور پر موثر ثابت ھوئي ۔ اگر چہ يہ انقلابي لوگ خود تو شھيد ھو گئے ليکن ان کے خيالات اور ان کي تحريکوں نے مردہ قوموں ميں جان ڈال دي اور ان کے نتائج لوگوں پر بہت اچھے مرتب ھوئے.
جناب زيد بن زين العابدين(ع) نے کوفہ کي حدود ميں انقلاب برپا کيا وھاں کے لوگوں نے ان کے ساتھ عھد و پيمان کيا اور آپ کي بيعت کي، ليکن چند افراد کے سوا کوفيوں نے آپ کے ساتھ وفا نہ کي، جس کي وجہ سے اس عظيم سپوت اور بھادر و جري نوجوان کو بڑي بيدردي کے ساتھ شھيد کر ديا گيا۔ ان ظالموں نے آپ کي قبر پر دو مرتبہ پاني چھوڑ ديا تاکہ لوگوں کو آپ کي قبر مبارک کے بارے ميں پتہ نہ چل سکے، ليکن وہ چند دنوں کے بعد پھر آئے قبر کو کھود کر جناب زيد کي لاش کو سولي پر لٹکا ديا اور کچھ دنوں تک اسي حالت ميں لٹکتي رھي اور کہا پر وہ لاش خشک ھو گئي۔ کہا جاتا ھے کہ جناب زيد کي لاش چار سالوں تک سولي پر لٹکتي رھي۔ جناب زيد کا ايک انقلابي بيٹا تھا ان کا نام يحيي تھا۔ انھوں نے انقلاب برپا کيا ليکن کامياب نہ ھو سکے اور خراسان چلے گئے۔ پھر جناب يحيي بني اميہ کے ساتھ جنگ کرتے ھوئے شھيد ھو گئے۔ آپ کي محبت لوگوں کے دلوں ميں گھر کرتي چلي گئي۔ آپ کي شھادت کے بعد خراسان کے عوام کو پتہ چلا کہ خاندان رسالت کے ان نوجوانوں نے ايک ظالم حکومت کے خلاف جھاد کيا اور خود اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرتے ھوئے شھيد ھو گئے۔ اس زمانے ميں خبريں بہت دير سے پھنچا کرتي تھيں۔ جناب يحيي نے امام حسين عليہ السلام اور جناب زيد کي شھادت کو از سر نو زندہ کر ديا۔ لوگوں کو بعد ميں پتہ چلا کہ آل محمد(ص) نے بني اميہ کے خلاف کس پاکيزہ مقصد کے تحت قيام کيا تھا۔
مورخين لکھتے ھيں جب جناب يحيي شھيد ھوئے تو خراسان کے عوام نے ستر روز تک سوگ منايا۔ اس سے معلوم ھوتا ھے انقلابي سوچ رکھنے والے لوگوں کا اثر پھلے ھي سے تھا ليکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ھے لوگوں کے اذھان ميں انقلابي اثرات گھرتے جاتے ھيں۔ ايک انقلابي اپنے اندر کئي انقلاب رکھتا ھے۔ بہر حال خراسان کي سرزمين ايک بڑے انقلاب کيلئے سازگار ھو گئي۔ لوگ بني اميہ کے خلاف کھلے عام نفرت کرنے لگے
اس آيت سے بني نوع انسان کو سمجھايا جا رھا ھے کہ اسلام اگر کسي کو دوسرے پر ترجيح ديتا ھے تو وہ اس کا متقي ھونا ھے چونکہ اموي خاندان عربوں کو غير عربوں پر ترجيح ديتے تھے اسلام نے ان کے اس نظريہ کي نفي کرکے ايک بار پھر اپنے دستور کي تائيد کي ھے کہ خانداني وجاھت، مالي آسودگي کو باعث فخر سمجھنے والو! تقوي ھي معيار انسانيت ھے۔
ايک حديث ھے اور اس کو ميں نے کتاب اسلام اور ايران کا تقابلي جائزہ ميں نقل کيا ھے کہ پيغمبر اکرم(ص) نے فرمايا ھے يا ايک صحابي نے نقل کيا ھے کہ ميں نے خواب ميں ديکھا کہ سفيد رنگ کے گوسفند کالے رنگ کے گوسفند ميں داخل ھو گئے اور يہ ايک دوسرے سے ملے ھيں اور اس کے نتيجہ ميں ان کي اولاد پيدا ھوئي ھے۔ پيغمبر اکرم(ص) نے اس خواب کي تعبير ان الفاظ ميں فرمائي کہ عجمي اسلام ميں تمھارے ساتھ شرکت کريں گے، اور آپ لوگوں ميں شادياں کريں گے۔ آپ کي عورتيں ان کے مردوں اور ان کي عورتيں آپ کے مردوں کے ساتھ شادیاں کرئيں گي۔ يعني آپ لوگ ايک دوسرے کے ساتھ رشتے کريں گے۔ ميں نے اس جملہ سے يہ سمجھا کہ آپ(ص) نے فرمايا کہ ميں ديکھ رھا ھوں کہ ايک روز تم عجم کے ساتھ اور عجم تمھارے ساتھ اسلام کي خاطر جنگ کريں گے يعني ايک روز تم عجم کے ساتھ جنگ کر کے انھيں مسلمان کرو گے اور ايک روز عجم تمھارے ساتھ لڑيں گے اور تمھيں اسلام کي طرف لوٹائيں گے اس حديث کا مفھوم يھي ھے کہ اس قسم کا انقلاب آئے گا۔
بني عباس انتھائي مضبوط پروگرام اور ٹھوس پاليسي پر عمل کرتے ھوئے تحريک کو پروان چڑھا رھے تھے۔ ان کا طريقہ کار بہت عمدہ اور منظم تھا انھوں نے ابو مسلم کو خراسان اپنے مقصد کي تکميل کيلئے بھيجا تھا۔ وہ يہ ھر گز نھيں چاھتے تھے کہ انقلاب ابو مسلم کے نام پر کامياب ھو بلکہ انھوں نے چند مبلغوں کو خراسان بھيجا کہ جا کر لوگوں ميں اچھے انداز ميں تقريريں کرکے عوام کو امويوں کے خلاف اور عباسيوں کے حق ميں جمع کريں۔ ابو مسلم کے نسب کے بارے ميں آج تک معلوم نھيں ھو سکا تاريخ ميں تو يھاں تک بھي پتہ نھيں ھے کہ ابو مسلم ايراني تھے يا عربي۔ پھر اگر ايراني تھے تو پھر کيا اصفھاني تھے يا خراساني۔ وہ ايک غلام تھا اس کي عمر ۱۸ برس کي تھي کہ ابراھيم امام نے اس غير معمولي صلاحيتوں کو بھانپ ليا اور اس کو تبليغ کے لئے خراسان روانہ کيا تاکہ وہ خراسان کے عوام کے اندر ايک انقلاب برپا کر دے۔ اس نوجوان ميں قائدانہ صلاحيتيں بھر پور طريقے سے موجود تھيں۔ يہ شخص سياسي لحاظ سے تو خاصا با صلاحيت تھا ليکن حقيقت ميں بہت برا انسان تھا۔ اس ميں انسانيت کي بو تک نہ آتي تھي۔ ابو مسلم حجاج بن يوسف کي مانند تھا، اگر عرب حجاج پر فخر کرتے ھيں تو ھم بھي ابو مسلم پر فخر کرتے ھيں.