- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/18
- 0 رائ
(عقائد کے لحاظ سے)
(۱) تنزيہ خالق يعني خداوند عالم کے کمال ذات کے خلاف کسي طرح کے بھي نقص، کسي طرح کي جسمانيت، خدا کي غير خدا کے ساتھ کسي طرح کي بھي مشابھت کو گوارا نہ کرنا۔
اسي بناء پر، دنيا يا آخرت کسي بھي عالم ميں، وہ جسماني آنکھ سے خالق کے ديدار کو صحيح نھيں سمجھتے۔
اس کے لئے ذات کے علاوہ صفات نھيں سمجھتے کيونکہ اس طرح ذات اپنے کمال ميں صفات کي محتاج قرار پاتي ھے۔ صفات خدا عين ذات خدا ھے ۔
ذات خالق کے سوا کسي قديم کا تصور نھيں کرتے مثلاً اگر ذات کے علاوہ اس کے کلام کو بھي قديم سمجھا جائے يا مزيد آٹھ صفتوں کو قديم سمجھا جائے تو صفت قِدَم ميں ذات الٰھي کے شريک دوسرے امور ھو جاتے ھيں۔ اس لئے جس طرح تمام اديان عالم ميں دين اسلام ميں توحيد سب سے زيادہ مکمل ھے اُسي طرح تمام فرق اسلاميہ ميں شيعي مذھب کي توحيد سب سے زيادہ خالص ھے۔
(۲) عدل الٰھي کو اس کے پورے تقاضوں کے ساتھ تسليم کرنا جيسا کہ پھلے عرض کيا گيا اور اس کے معني يہ ھيں کہ خالق کے افعال ميں کوئي غلط، برا کام نھيں ھو سکتا۔
(۳) شيعہ اتني ھمہ گيري کے ساتھ ” حق کو طاقت “ مانتے ھيں کہ خالق کے افعال ميں بھي سوائے حقانيت اور انصاف کے کسي دوسرے تصور کے قائل نھيں ھيں۔
يہ خيال کہ وہ قادر مطلق ھے لھذا اس پر کوئي پابندي نھيں ” طاقت کو حق “ سمجھنے کا نتيجہ ھے جو شھنشاھان خود مختار کي مطلق العناني کا سنگ بنياد ھے۔ شيعہ اس تصور کے شروع سے آخر تک خلاف ھيں۔
(۴) شيعہ ” تقدير “ يا مشيئت الٰھي “ کے کسي ايسے تصور کو درست نھيں جانتے جو ظالموں اور بد کاروں سے ان کے افعال کي ذمہ داري کو سلب کر دے، اس طرح نہ خالق کے افعال ميں شرکا تصور رکھتے ھيں اور نہ دنيا ميں کسي شر کے وقوع ميں اس کے ارادہ اور عمل کي کار فرائي کو صحيح سمجھتے ھيں۔ اسي سے ظلم اور ظالموں سے نفرت کي بنياد مضبوط ھوتي ھے اور يھي صحيح معني ميں اصول ” تبّرا “ کا سنگ بنياد ھے۔
(۵) شيعہ حسن و قبح کو عقلي قبول کرتے ھيں يعني شريعت کے احکام سے قطع نظر کرتے ھوئے بجائے خود افعال ميں اچھائي اور برائي ھے يہ اور بات ھے کہ بعض چيزوں کي اچھائي اور برائي کے پھلوؤں تک ھمارا ذھن نہ پھونچ سکے مگر ذاتاً ان ميں اچھائي يا برائي ضرورھے اور اسي اچھائي يا برائي کي بنا پر شريعت ميں حلال و حرام کے احکام نافذ ھوتے ھيں، نہ يہ کہ اندھا دھند جس چيز کو خالق نے چاھا حلال کر ديا اور جسے چاھا حرام کر ديا۔
شيعي مذھب کے اس اصول کي بناء پر عقل انساني کے لئے شرعي احکام کے فلسفہ ٴ تشريع پر غور و خوض کي راھيں کھلتي ھيں اور انساني بصيرت کو جلا ملتي ھے۔
(۶) شيعہ حکومت الھيہ کو اس کے پورے تقاضوں کے ساتھ تسليم کرنے کے حامي ھيں۔ اسلام کے معني ايک ” سر نھادن بطاعت “ اور دوسرے ” سپردن “ کے ھيں۔ دونوں کا نتيجہ يھي ھوتا ھے کہ اللہ کي مرضي کے مقابلہ ميں انسان کا حقّ خود ارادي خواہ شخصي ھو يا جمھوري کوئي چيز نھيں ھے ۔ حاکم مطلق صرف اللہ ھے اور جسے وہ اپنا نائب بنائے صرف اس کي اطاعت انسان پر فرض ھے ۔ اس کے مقابلہ ميں کوئي دوسرا حقّ حکومت نھيں رکھتا اور جو حکومت اس کے مقابلہ پر قائم ھو وہ نا جائز ھے۔
(۷) شيعہ تعليمات اسلامي اور کتاب و سنت کے علم کے لئے اس مرکز سے وابستہ ھيں جو خود پيغمبر خدا کا بتايا ھوا تھا آپ نے فرمايا کہ:
” اني تارک فيکم الثقلين کتاب اللہ و عترتي اھل بيتي ما ان تمسکتم بھما لن تضلّوا بعدي “ ميں تمھارے درميان دو گرانقدر چيزيں چھوڑ کر جا رھا ھوں ايک اللہ کي کتاب اوردوسري ميري عترت جو ميرے اھل بيت(ع) ھيں جب تک ان دونوں سے وابستہ رھوگے کبھي گمراہ نہ ھو گے۔
کبھي فرمايا:
” مثل اھل بيتي کمثل سفينة نوح من رکبھا نجا و من تخلف عنھا غرق و ھويٰ “ ميرے اھلبيت (ع) کي مثال کشتيٴ نوح کي سي ھے جو اس پر سوار ھوا اس نے نجات پائي اور جو اس سے الگ ھوا وہ غرق ھوا۔
کبھي فرمايا:
” انا مدينة العلم و علي بابھا فمن اراد العلم فليات الباب “ ميں علم کا شھر ھوں اور علي (ع) اس کا دروازہ ھيں لھذا جو علم کا طلبگار ھو اسے دروازہ پر آنا چاھئے۔
فرقه شيعہ نے رسول اللہ کے بعد جس طرح حکومت کا حقدار صرف انھيں کو سمجھا جن کے لئے خدا و رسول کا اعلان ھو چکا تھا اسي طرح ديني تعليمات کے باب ميں بھي صرف انھي کي رھنمائي قبول کي اور صرف انھيں ارشادات کو ديني تعليم کا سر چشمہ مانا جو قرآن ،حديث رسول اور ان اھل بيت معصومين(ع) سے پھنچے ھوں جنھيں پيغمبر نے اپنے علوم کا ورثہ دار بنايا اور بتايا تھا۔
اسلام کے عملي ارکان اور احکام شرعي
قانون الٰھي کے تحت کچھ فرائض مقرر ھيں جو انفرادي اور اجتماعي زندگي کي درستي کے لئے ضروري ھيں، ان ميں سے جو بھت اھم حيثيت رکھتے ھيں وہ ” ارکان اسلام “ کھے جاتے ھيں جنھيں عام طور پر ” فروع دين “ کھا جاتا ھے اس لئے کہ ان فروع کا اصول عقائد کے ساتھ وھي تعلق رکھتے ھيں جو شاخوں کو درخت کے ساتھ ھوتا ھے، ان پر عمل کرنا ھر مسلمان کے لئے ضروري ھے اور بغير ان پر عمل کے اسلام کا مقصد حاصل نھيں ھو سکتا۔
قانون الٰھي کو مذھب کي زبان ميں ” شريعت “ کھتے ھيں اور جو اس قانون کے تقاضے ھوں انھيں احکام شرعي کھا جاتا ھے ۔
ضروريات دين
وہ شرعي احکام جو تمام مسلمانوںکے لئے مسلّم اور ثابت شدہ ھوں انھيں ” ضروريات دين“ کھا جاتا ھے جيسے نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰة کا واجب ھونا ، شراب ، زنا اور سود خواري کا حرام ھونا بلکہ نماز کے کچھ شرائط اور کچھ کيفيات مثلاً نماز کے لئے طھارت کا ضروري ھونا ، قبلہ ، شب و روز کي واجب نمازوں کي تعداد ، ان کي رکعتيں اور قيام و قعود اور رکوع و سجود کا جزء نماز ھونا وغيرہ ۔ ضروريات دين ميں داخل ھيں جن کا منکر کافر ھے۔ اس طرح اگر فھرست ضروريات دين مرتب کي جائے تو کافي بسيط ھو گي۔
احکام شرع کے ماخذ
احکام شرع حاصل کرنے کے چار ذريعے ھيں:
(۱) قرآن ۔ اس ميں جن آيات کے معني ظاھر ھيں انھيں خود سمجہ کر عمل کرنا فرض ھے اور جن کے معني مجمل يا مبھم ھيں ان کي شرح کو احاديث معصومين (ع) سے معلوم کرنا چاھئے ان آيتوں ميں رائے زني کرنا درست نھيں ھے ۔
(۲) حديث ۔ يعني رسول اللہ اور آپ کے جانشين ائمہ (ع) کے اقوال و افعال ۔
(۳)اجماع ۔ اس ميں عام اشخاص کا کسي بات پر متفق ھونا کو ئي حيثيت نھيں رکھتاجب تک کسي ذريعے سے يہ يقين نہ ھو جائے کہ امام (ع) بھي ان سے متفق ھيں ۔ اس کا موجودہ زمانہ ميں حاصل ھونا غير ممکن ھے ۔
(۴)عقل ۔ يقيني طور پر جو عقل کے فيصلے ھوں جيسے امانتداري کا مستحسن ھونا ، خيانت کا فعل قبيح ھونا ، يہ فيصلے عقل کے نزديک مستند ھيں مگر قياس يعني ايک چيز کے شرعي حکم سے دوسري چيز کے شرعي حکم کا صرف گمان کي بناء پر اپنے دل سے نکالنا ھمارے نزديک بے اصل ھے اور اس پر عمل کرنا جائز نھيں ھے ۔
اصول عمليّہ
جس چيز کے بارے ميں مذکورہ ماخذوں سے کوئي علم حاصل نہ ھو سکے اور اس ميں شک ھوکہ اسے کيا سمجھا جائے اور عملاً کيا کيا جائے ؟ اس کے قوائد و ضوابط جو مذکورہ بالا ماخذوں ھي سے حاصل ھوئے ھيں اصول عمليّہ کھلاتے ھيں ۔ يہ چار ھيں :
(۱) استصحاب ۔ يعني جو بات پھلے ھو اسے باقي سمجھا جائے جب تک کہ اس ميں تبديلي کے وقوع کا علم نہ ھو ۔
(۲) برائت ۔ يعني جس شے کے متعلق شرع کي جانب سے فعل يا ترک کي پابندي ثابت نہ ھو اسے جائز سمجھنا چاھئے ۔
( ۳) احتياط ۔ يعني جب شرع کي جانب سے وجوب يا حرمت کي پابندي عائد ھونا ثابت ھو مگر پتہ نہ ھو کہ کيا واجب ھے يا کيا حرام ھے يا اس پابندي کے ادا کرنے کے طريقہ ميں شک ھو تو ايسا طريقہ اختيار کرنا کہ يقيني طور پر انسان بري الذمہ ھو جائے اور حکم مولا کي تعميل يقيني طور پر ھو جائے ۔
( ۴) تخيیر۔ جب کہ فعل يا ترک کي پابندي عائد ھونے کا يقين ھو مگر تعين کے ساتھ معلوم نہ ھو اور احتياط کي کوئي صورت ھو ھي نہ تو کسي بھي ايک پھلو پر عمل کرنے کا اختيار ھو گا۔
يہ تمام قاعدے جيسا کہ کھا گيا طبع زاد يا خود ساختہ نھيں ھيں بلکہ انھيں شرع کے ماخذوں سے ثابت ھيں لھذا ان پر عمل در حقيقت انھيں شرعي دلائل پر عمل ھے، کوئي الگ چيز نھيں ھے۔
اجتھاد و تقليد
مذکورہ بالا ماخذوں اور ان سے مستفاد اصول و قواعد سے احکام شرعيہ کو سمجھنے کي کوشش کا نام اجتھاد ھے نہ کہ دل بخواہ احکام تراشنے کا اور جو لوگ اس طرح احکام کوخود سمجہ سکيں، وہ ” مجتھد “ کھلاتے ھيں اور جو اتني قابليت نھيں رکھتے کہ وہ خود اس طرح احکام کو سمجہ سکتے ھوں تو ان کے لئے احکام شرعيہ پر عمل کرنے کا صحيح طريقہ يھي ھو سکتا ھے کہ وہ کسي اپنے بھروسے کے مجتھد کي طرف رجوع کريں اور اس سے مسائل کو دريافت کر کے ان پر عمل کريں ۔ اس کا نام ” تقليد“ ھے۔
تقليد و اجتھاد کوئي پيري مريدي کي طرح کي چيز نھيں ھے اس لئے نہ مجتھد سے بيعت کرنا ھوتي ھے اور نہ کسي رسم کے ادا کرنے کي ضرورت ھوتي ھے بلکہ مجتھد کو اطلاع تک دينے کي ضرورت نھيں ھے کہ ميں آپ کا مقلد ھوتا ھوں ۔
تقليد مابين خود و خدا احکام الٰھي پر عمل کرنے کاايک امکاني ذريعہ ھے اور اس کے سوا کچھ نھيں ۔
تقليد فقط فروع دين ميں کي جاتي جن کا تفصيلي بيان توضيح المسائل ميں موجود ھے۔