- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/06/08
- 3 رائ
غزوۂ بنی قُرَیظہ یہودیوں کے ساتھ رسول خداؐ کے معرکوں میں سے آخری معرکہ ہے جو سن 5 ہجری میں لڑا گیا۔ اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ یہودی قبیلے بنو قریظہ نے رسول اللہؐ کے ساتھ اپنے معاہدے کو پامال کردیا تھا اور جنگ خندق میں مشرکین اور دوسرے احزاب کے ساتھ تعاون کر چکے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کیا؛ محاصرہ ایک ماہ تک جاری رہا اور بعد ازاں بنو قریظہ نے قلعے ترک کرکے ہتھیار ڈال دیئے اور یہودیوں نے سعد بن معاذ کا نام بطور ثالث پیش کیا اور آپؐ نے ان کی تجویز سے اتفاق کیا اور ایک روایت کے مطابق سعد نے ان کے جنگجو مردوں کے قتل اور بچوں اور عورتوں کی اسیری اور اموال کی ضبطی کا حکم جاری کیا۔ بعض مؤرخین نے دلائل دے کر اس روایت میں شک و تردد ظاہر کیا ہے کہ سعد نے ان کے مردوں کے قتل کا حکم دیا ہو اور اس کو خزرجیوں کے حسد کا شاخسانہ قرار دیا ہے کیونکہ سعد بن معاذ کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا۔
تاریخچہ
قبیلہ بنو قریظہ کے منشاء و مبداء (Origin) اور ان یثرب ہجرت کے بارے میں متعدد آراء و نظریات منقول ہیں۔ یہودیوں کی بعض زبانی روایات کے مطابق بنو قریظہ حضرت موسی کے بھائی حضرت ہارون کی نسل سے ہیں جو سیلِ عَرِم (عرم کے سیلاب) سے قبل ـ جو اوس و خزرج جیسے عرب قبائل کی يثرب کی طرف ہجرت کا باعث بنا تھا ـ اس شہر میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔[1]
بعض روایات کے مطابق سنہ 70 عیسوی میں بنو قریظہ، رومیوں اور یہودیوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد، حجاز کی طرف فرار ہوئے تھے اور یثرب کے نواح میں “مَہزور” کی حدود میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔[2] دوسری طرف سے بعض مآخذ میں ہے کہ یہ لوگ فلسطین میں سکونت پذیر “جذام” نامی قوم سے تعلق رکھتے تھے جو عادیا بن سموئل(یا شموئل؛ [بقول یعقوبی عادیا بن “السموأل”] حکومت حدود 1075-1045 قبل از مسیح) کے دور میں دین یہود اختیار کرچکے تھے۔[3]
بنو قریظہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مل کر شہر کی حکومت اپنے ہاتھ میں لینے میں میں کامیاب ہوئے اور ان کا القیطوان یا الفطیون نامی فرمانروا بحرین میں الزارہ کے مقام پر متعین ملک فارس کے مرزبان کا باج گزار تھا۔[4] سنہ 525 عیسوی میں حبشہ کی عیسائی سلطنت ـ جو سلطنت روم کی حمایت یافتہ تھی یمن کی یہودی حکومت کو شکست دی تو یثرب کے یہودیوں کی قوت بھی کمزور پڑ گئی۔ قبیلہ خزرج اور یہودیوں کے درمیان جنگ میں یہودی حکمران مارا گیا اور عربوں نے شہر کا انتظام سنبھالا۔[5]
یثرب پر عربوں کا غلبہ یہودیوں کو راس نہ آیا اور بہت سارے یہودی یثرب چھوڑ کر چلے گئے۔ طلوع اسلام کے قریبی دور میں یہودی قبائل شہر سے باہر واقع اپنے قلعوں میں رہائش پذیر تھے۔ بنو قریظہ اس زمانے میں یہودیوں کے افراد قوت نیز اثر و رسوخ کے لحاظ سے دوسرے دو قبائل ـ یعنی بنی قینقاع اور بنی نضير ـ سے زیادہ طاقتور تھے۔ وہ یثرب کے جنوب مشرق میں سکونت پذیر تھے۔ بنو قریظہ کے سلسلے میں واحد مستقل روایت سنہ 5 ہجری میں مسلمانوں کے ساتھ ان کی جنگ کی روایت ہے اور ان کے بارے میں دوسری روایات در حقیقت اوس و خزرج کی تاریخ کے ضمن میں بیان ہوئی ہیں اور اس تاریخ کا زيادہ تر تعلق اسلام کی آمد کے زمانے سے ہے۔
غزوے کا سبب
جنگ کی اصل وجہ یہ تھی کہ بنو قریظہ نے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا عہد و پیمان توڑ دیا اور جنگ احزاب میں مسلمانوں کے خلاف مشرکین کے ساتھ سازباز کی۔ اسلامی تواریخ میں ہے کہ جب مشرکین مکہ ـ جو بنو قریظہ کے تازہ بتازہ حلیف بن چکے تھے ـ مدینہ کے قریب آپہنچے تو جنگ احزاب کے بھڑکا دینے میں اہم کردار ادا کرنے والے اور بنو نضیر سے تعلق رکھنے والے حیی بن اخطب، قریش کے نمائندے کے طور پر بنو قریظہ کے پاس پہنچا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں قریش کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ کیا۔[6]
یہ خبر رسول اللہؐ کو ملی تو آپؐ نے صحابہ میں سے سعد بن معاذ، اسید بن حضیر اور سعد بن عبادہ کو تحقیق کے لئے بنو قریظہ کے پاس روانہ کیا۔ مروی ہے کہ بنو قریظہ نے آپؐ کے ایلچیوں کے ساتھ نہایت توہین آمیز سلوک روا رکھا اور مسلمانوں کے ساتھ اپنے عہد و پیمان کا صاف انکار کیا۔[7]
یہ وہ وقت تھا جب مسلمان خندق کے اس پار مشرکین اور ان کے حلیفوں کے خلاف برسر پیکار تھے جو مدینہ پر چڑھائی کے لئے آئے تھے۔
مدینہ کے جنوب مشرق میں بنو قریظہ کا مسکن ایسے مقام پر واقع تھا کہ وہ آسانی سے خندق کے دفاع میں مصروف مسلمانوں پر پشت سے حملہ کرسکتے تھے؛ چنانچہ بنو قریظہ کی پیمان شکنی کی خبر نے مسلمانوں کے حوصلوں پر تباہ کن اثرات مرتب کئے۔ بعض روایات کے مطابق، جس وقت مشرکین نے مدینہ کا محاصرہ کررکھا تھا، بنو قریظہ نے رات کے وقت مسلمانوں پر شب خون مارنے کا فیصلہ کیا اور اسی مقصد سے انھوں نے مشرکین کو بعض پیغامات بھی بھجوائے اور ان سے افرادی قوت کی درخواست کی۔ یہ خبر سن کر پیغمبر اسلامؐ نے 200 افراد مدینہ کے تحفظ کے لئے تعینات کئے جنہوں نے صبح تک تکبیر کہی اور اجالا پھیل گیا تو بنو قریظہ کا خطرہ ٹل گیا۔[8] ایک شب یہودیوں کے تقریبا 10 دلیر جنگجؤوں نے شہر پر حملہ کیا لیکن مسلمانوں کے ایک گروہ سے مختصر سی جھڑپ کے بعد پلٹ کر چلے گئے۔[9] ابوبکر کہا کرتے تھے کہ (غزوہ خندق کے دوران) ہم جتنے مدینہ میں بنو قریظہ کی طرف سے اپنی خواتین اور بچوں کو لاحق خطرے سے خائف تھے اتنے قریش اور غطفان سے خوفزدہ نہ تھے۔[10]
اسی وجہ سے رسول اللہؐ نے غزوہ خندق میں دشمنوں کے منتشر ہونے کے دن ہی جنگ بنی قریظہ کی طرف عزیمت فرمائی۔
بنو قریظہ کے قلعات کے باقیات
جنگ اور اس کا انجام
مسلمانوں نے بنو قریظہ کے قلعوں اور گھروں کا محاصرہ کیا۔ محاصرہ 15 سے 25 دن تک جاری رہا۔ بنو قریظہ نے خود ہی بنو نضیر کی طرح ہتھیار ڈالنے اور مسلمانوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی تجویز دی بشرطیکہ ان کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے جو قبل ازاں بنو نضیر کے ساتھ روا رکھا گیا اور انھوں نے اموال اور املاک سے چشم پوشی کرکے اپنی جانیں لے کر مدینہ ترک کردیا تھا۔ تاہم رسول خداؐ نے ان کی شرطیں ماننے سے انکار کیا اور اور ان کی تجویز یہ کہہ کر منظور کرلی کہ “جو آپؐ کہیں بنوقریظہ کو وہی ماننا پڑے گا”؛[11] [کیونکہ بنو نضیر نے مدینہ ترک کرنے کے باوجود غزوہ احزاب میں بھرپور کردار ادا کیا تھا اور اپنے وعدے کا پاس نہیں رکھ سکے تھے]۔
بنو قریظہ ہی کی تجویز پر، آنحضرتؐ نے اوس کے زعیم اور قبیلۂ بنو عبد الاشہل کے سربراہ سعد بن معاذ کو ثالث کے طور پر مقرر فرمایا۔[12]
بنو قریظہ کی طرف سے فیصلے کے لئے سعد بن معاذ کا نام پیش کئے جانے کا سبب یہ تھا کہ ان کا قبیلہ (اوس) قبل از اسلام ان کے حلیف قبائل میں شمار ہوتا تھا۔ سعد نے تورات کے احکامات اور جنگ سے قبل رسول خداؐ کے ساتھ ان کے منعقدہ معاہدے میں مندرجہ نکات سے استناد کرکے فیصلہ سنایا کہ “جس نے بھی رسول خداؐ کے خلاف حزب و و گروہ تشکیل دیا ہو، اس کی سزا موت ہے،[13] اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا جائے گا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ سعد کا حکم اللہ کی مشیت کے مطابق تھا۔ سورہ انفال کی آیات 56، 57 اور 58 اور سورہ احزاب کی آیات 26 اور 27 جنگ بنی قریظہ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں۔[14]
بنو قریظہ کے مقتولین کے بارے میں مختلف آراء اور خیالات تاریخ میں منقول ہیں؛ جیسے: بنو قریظہ کے مردوں اور بالغ لڑکوں کو قتل کیا گیا جن کی تعداد 600 سے 800 تک تھی؛ ایک قریظی عورت بھی ایک مسلمان کے قتل کے الزام میں ماری گئی؛ بنو قریظہ کا ایک مرد بنام “رفاعہ بن سموئل سلمی بنت قیس کی سفارش پر بخش دیا گیا۔ سلمی والدہ رسول خداؐ کی والدہ کی طرف سے آپؐ کی خالاؤں میں شمار ہوتی تھیں۔[15] تاہم مستند روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ صرف ان جنگجو افراد کو مارا گیا جنہوں نے رسول خداؐ اور مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اقدامات کئے تھے۔[16]
بنو قریظہ کے اموال کو مسلمانوں میں بانٹ دیا گیا؛ پہلی بار مال غنیمت میں سواروں اور پیادوں کا حصہ معین ہوا۔ سوار کو دو حصے اور پیادے کو ایک حصہ دیا گیا۔ اموال اور بالخصوص ہتھیاروں کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معرکے میں بنو قریظہ سے ہاتھ آنے والا مال غنیمت قابل توجہ تھا، اور شاید مال غنیمت کی بڑی مقدار کی وجہ سے ہی تقسیم غنائم کی نئی روش پر عمل کرنا ممکن ہوا ہے۔
قتال کا تاریخی جائزہ
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو قبل ازاں بنو قینقاع اور بنو نضیر کے مدینہ سے جلاوطن کرنے کا تجربہ تھا چنانچہ وہ اب بنو قریظہ کی مدینہ بدری پر راضی نہيں ہوسکتے تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ وہ بھی بنو نضیر کی مانند مکہ میں مسلمانوں کے دشمنوں اور مدینہ سے باہر سکونت پذیر یہودیوں سے جا ملیں گے۔ بہر حال قرآن کا بیان اور سورہ احزاب کی آیات 26 اور 27 مذکورہ حکم کی تائید کرتی ہیں[17] لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بنو قریظہ کے تمام مرد مارے گئے ہوں۔ سید جعفر مرتضی اپنی کتاب الصحیح میں سورہ احزاب کی آیت 26 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آیت کریمہ …فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا [18] سے مراد صرف مرد ہیں کیونکہ لفظ تاسرون مردوں کے لئے قابل استفادہ ہے اور عورتوں کو اسیر بنانے کے لئے لفظ “سبایا” استعمال ہوتا ہے؛ اگرچہ بعض لوگوں نے تاسرون کو بچوں اور عورتوں کے لئے قرار دیا ہے اور “تقتلون” کا لفظ مردوں کے لئے۔[19] چنانچہ بنو قریظہ کے تمام ہالکین کی تعداد 400 بنتی ہے جیسا کہ ابن شہر آشوب نے لکھا ہے کہ بنو قریظہ کے مردوں کی تعداد 700 تھی جن میں 450 کو مار دیا گیا۔[20]
یہودیوں کے قتل کی داستان
مالک نے اس داستان کے اصل راوی یعنی ابن اسحاق کو دجال[21] میں سے قرار دیا ہے،[22] اور اس الزام کی دلیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگوں کی داستان یہودیوں کے فرزندوں سے نقل کی ہے۔[23] چنانچہ مالک بن انس کو اس داستان کے مخالفین میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
ابن حجر عسقلانی، ابن اسحاق کو ضعیف راوی کے طور پر متعارف کراتا ہے چنانچہ[24] کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھی اس داستان کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
سید احمد برکات بھی مخالف دلائل دے کر یہود بنی قریظہ کے بارے میں ابن اسحاق کی نقل کردہ داستان کی نفی کرتا ہے۔
ولید عرفات نے بھی ابن اسحاق اور بنو قریظہ کی داستان کے درمیان حائل طویل مدت اور اس داستان کے لئے (ابن اسحاق کی طرف سے) کوئی قابل اعتماد اور صحیح سند کے فقدان کو اس داستان کے ضعف کی دلیل سمجھتا ہے اور اس کی داستان کی نفی کے لئے دوسری دلیلیں بھی پیش کرتا ہے۔
ڈاکٹر سید جعفر شہیدی لکھتے ہیں: لگتا ہے کہ بنو قریظہ کی داستان واقعۂ بنی قریظہ کے برسوں بعد جب اس محاصرے میں موجود نسل کا خاتمہ ہوچکا تو قبیلۂ خزرج کے کسی داستان گو شخص کے ہاتھوں تحریف کا شکار ہوکر تحریر کی گئی ہے تا کہ وہ اس ذریعے سے جتا سکے کہ رسول خداؐ کے نزدیک قبیلۂ اوس کی حرمت اور وقعت قبیلۂ خزرج جتنی نہ تھی اور یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے خزرج کے حلیفوں کو نہیں مارا لیکن اوس کے حلیفوں کے سر قلم کردیئے۔ نیز اس داستان گو شخص نے یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ گویا قبیلۂ اوس کے سربراہ نے اپنے حلیفوں کا حق ادا نہیں کیا ہے!، جب کہ عہد شکنی اور حلیفوں کی عدم رعایت، عربوں کے ہاں معیوب اور مذموم تھی۔
…………………..
حوالہ جات
۱- ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، ج22، ص107؛ المقدسی، کتاب البدء والتاریخ، ج4، ص129ـ 130؛ الحموی، معجم البلدان، ج5، ص83۔
۲- ابوالفرج اصفهانی، ج22، ص108ـ 109۔
۳- الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص52۔
۴- الحموی، معجم البلدان، ج5، ص83، 85۔
۵- المقدسی، کتاب البدء والتاریخ، ج4، ص130۔
۶- الواقدی، المغازی، ج2، ص 454-456؛ ابن هشام، السیرة النبویة، ط بیروت، ج2، ص 220-221۔
۷- الواقدی، المغازی، ج2، 458-459؛ ابن هشام، السیرة النبویة، ط بیروت، ج2، ص 221-222۔
۸- الواقدی، المغازی، ج2، ص 460۔
۹- الواقدی، المغازی، ج2، ص 462۔
۱۰- واقدی، المغازی، ج1 ص460۔
۱۱- الواقدی، المغازی، ج2، ص501۔
۱۲- العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج11، ص11۔
۱۳- العاملی، وہی ماخذ۔
۱۴- طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج2، ص588-587؛ ابن هشام، ط قاهره، ج3، ص265-266؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص75۔
۱۵- طبری، تاریخ الرسل والملوک، ج2، ص587؛ ابن هشام، السیرة النبویة، ط قاهره، ج3، ص591۔
۱۶- العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج11، ص12۔
۱۷- سید قطب، في ظلال القرآن، ج6، ص569۔
۱۸- عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج 12، ص 148۔
۱۹- عاملی، الصحیح، ج11، ص148 بحوالہ از: ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج1، ص173۔
۲۰- لفظ دجال مادہ “د ج ل” سے ماخوذ ہے جس کے معنی بہت زیادہ جھوٹے اور فریبی شخص کے ہیں: ابن منظور، لسان العرب، ج11، ص236۔
۲۱- عسقلانی، تهذیب التهذیب، ج 9ص36۔
۲۲- عسقلانی، وہی ماخذ، ج9ص 40-39۔
۲۳- عسقلانی، وہی ماخذ، ج9، ص40-39۔
۲۴- شهیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 90۔
ماشاء اللہ آپ کا یہ اس ٹاپک پر اتنی تفصیل سے بات کرنا مجھے بہت پسند آیا اور یہ میرے لیے بہت ہی فائدہ مند ثابت ہوا۔
آپ کا شکریہ! مجھے خوشی ہے کہ آپ کو یہ موضوع پسند آیا اور یہ آپ کے لیے مفید ثابت ہوا۔ اگر مزید معلومات چاہیے تو بلا جھجھک پوچھیں۔
ماشاءاللہ بہت عمدہ مطالب ہے ،کافی استفادہ ہوا جزاک اللہ