- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 2 دقیقه
- 2022/01/16
- 0 نظر
خداوندِ متعال کی عدالت کو ثابت کرنے کے لئے متعدد دلائل ھیں جن میں سے ھم بعض کا تذکرہ کریں گے
۱۔ھر انسان، چاھے وه کسی بھی دین و مذھب پر اعتقاد نہ بهی رکھتا ہو، اپنی فطرت کے مطابق عدل کی اچھائی اور حسن اور ظلم کی بدی و برائی کو درک کر سکتا ھے۔حتی اگر کسی ظالم کو ظلم سے نسبت دیں تو اس سے اظھار نفرت اور عادل کھیں تو خوشی کا اظھار کرتا ھے۔ شہوت وغضب کا تابع ظالم فرمانروا، جس کی ساری محنتوں کا نچوڑ نفسانی خواھشات کا حصول ھے، اگر اس کا واسطہ محکمہ عدالت سے پڑه جائے اور قاضی اس کے زور و زر کی وجہ سے اس کے کسی دشمن کا حق پامال کر کے اس ظالم کے حق میں فیصلہ دے دے، اگر چہ قاضی کا فیصلہ اس کے لئے باعث مسرت و خوشنودی ھے لیکن اس کی عقل و فطرت حکم کی برائی اور حاکم کی پستی کو سمجھ جائیں گے۔جب کہ اس کے برعکس اگر قاضی اس کے زور و زر کے اثر میں نہ آئے اور حق و عدالت کا خیال کرے، ظالم اس سے ناراض تو هو گا لیکن فطرتاً وہ قاضی اور اس کے فیصلے کو احترام کی نظر سے دیکھے گا۔
تو کس طرح ممکن ھے کہ جس خدا نے فطرت انسانی میں ظلم کو برا اور عدل کو اس لئے اچھا قرار دیا هو تاکہ اسے عدل کے زیور سے مزین اور ظلم کی آلودگی سے دور کرے اور جو وَاْلإِحْسَانِیَادَاودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً جیسی آیات کے مطابق عدل کا حکم دے وہ خود اپنے ملک وحکم میں ظالم هو؟!
۲۔ ظلم کی بنیاد یا تو ظلم کی برائی سے لاعلمی، یا مقصد و ھدف تک پھنچنے میں عجز یا لغو و عبث کام ھے، جب کہ خداوندِ متعال کی ذات جھل، عجز اور سفاہت سے پاک و منزہ ھے۔
لہٰذا، علم، قدرت اور لا متناھی حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ خداوند متعال عادل هو اور ھر ظلم و قبیح سے منزہ هو۔
۳۔ ظلم نقص ھے اور خداوندِ متعال کے ظالم هونے کا لازمہ یہ ھے کہ اس کی ترکیب میں کمال و نقصان اور وجود و فقدان بیک وقت شامل هوں، جب کہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ترکیب کی بدترین قسم ھے، کمال و نقص سے مرکب هونے والا موجود محتاج اور محدود هوتا ھے اور یہ دونوں صفات مخلوق میں پائی جاتی ھیں نہ کہ خالق میں۔
لہٰذا نتیجہ یہ هوا کہ وہ تخلیق کائنات قوانین و احکام اور قیامت کے دن لوگوں کے حساب و کتاب میں عادل ھے۔
عن الصادق(ع) :((إنہ ساٴلہ رجل فقال لہ :إن اٴساس الدین التوحید والعدل، وعلمہ کثیر، ولا بد لعاقل منہ، فاٴذکر ما یسھل الوقوف علیہ ویتھیاٴ حفظہ، فقال: اٴما التوحید فاٴن لا تجوّز علی ربک ماجاز علیک، و اٴما العدل فاٴن لا تنسب إلی خالقک ما لامک علیہ)) اور ھشام بن حکم سے فرمایا: ((اٴلا اٴعطیک جملة في العدل والتوحید ؟ قال: بلی، جعلت فداک، قال: من العدل اٴن لا تتّھمہ ومن التوحید اٴن لا تتوھّمہ))
اور امیر المومنین (ع) نے فرمایا:((کل ما استغفرت اللّٰہ منہ فھو منک،و کل ما حمدت اللّٰہ علیہ فھو منہ))