- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/07
- 0 رائ
حضر ت علي(ع) کى خلافت اور آپ کا طريقہٴ کار
حضرت علي(ع) کى خلافت 35 ھ کے آخر ميں شروع ھوئى اور تقريباً چار سال نو مھينے جارى رھى ـ حضرت علي(ع) نے اپنى خلافت کے دوران پيغمبر اکرم (ص)کى سنت کو رائج کيا اور خود بھى اسى طريقہ پر کار بندرھے (۱)ـ اسلام ميں ان اکثر تبديليوں کو جو پھلے خلفائے راشدين کے زمانہ ميں پيدا ھوگئى تھيں ،اپنى اصلى حالت ميں واپس لائے اور اس کے ساتھ ھى ظالم اور نالائق حاکموں کو جو ايک مدت سے عنان حکومت اپنے ھاتھوں ميں لئے ھوئے تھے معزول کرديا (۲)يعنى حقيقت ميں آپ کى حکومت ايک انقلابى تحريک تھى مگر آپ کے سامنے مشکلات ومسائل کا ايک ڈھير موجود تھا ـ
حضرت علي(ع) نے اپنى خلافت کے پھلے ھى دن تقرير کرتے ھوئے يوں خطاب فرمايا تھا:
”خبر دار !تم لوگ جن مشکلات و مصائب ميں پيغمبر اکرم کى بعثت کے موقع پر گرفتار تھے آج دوبارہ وھى مشکلات تمھيں در پيش ھيں اور انھى مشکلات نے پھر تمھيںگھيرليا ھے ـتمھيں چاھئے کہ اپنے آپ کو ٹھيک کرلو صاحبان علم و فضيلت کو سامنے آنا چاھئے جو پيچھے ڈھکيل دئيے گئے ھيں اور وہ لوگ جو ناجائز اور بےجا طور پر سامنے آگئے ھيں ان کو پيچھے ھٹا دينا چاھئے آج حق وباطل کا مقابلہ ھے ، جو شخص اھليت و صلاحيت رکھتا ھے اسے حق کى پيروى کرنى چاھئے اگر آج ھر جگہ باطل کا زور ھے تو يہ کوئى نئى چيز نھيں ھے اور اگر حق کم ھوچکا ھے تو کبھى کبھى ھوتا ھے کہ جو چيز ايک دفعہ ھاتہ سے نکل جائے وہ پھر دوبارہ واپس آجائے ـ،،(نھج البلاغہ خطبہ 15)
حضرت علي(ع) نے اپنى انقلابى حکومت جارى رکھى اور جيسا کہ ھر انقلابى تحريک کا خاصہ ھے کہ مخالف عناصر جن کے مفادات خطرے ميں پڑ جاتے ھيں، ھر طرف سے اس تحريک کے خلاف اٹھ کھڑے ھوتے ھيں، بالکل ايسے ھى مخالفين نے خليفہ ٴسوم کے قصاص کے نام پر داخلى انتشار اور خونى جنگوں کا ايک طويل سلسلہ شروع کر ديا اور حضرت علي(ع) کے تقريبا تمام عھد خلافت کے دوران يہ سلسلہ جارى رھاـ شيعوں کے مطابق ان جنگوں کے شروع کرنے والوں کے سامنے ذاتى فوائد اور مفادات کے سوا اور کوئى مقصد نہ تھا اور خليفہ ٴسوم کا قصاص صرف ايک عوام فريب حربہ تھا اور اس ميں حتى کہ کسى قسم کى غلط فہمى بھى موجود نہ تھى ـ
پھلى جنگ کى وجہ جو جنگ جمل کے نام سے ياد کى جاتى ھے، طبقاتى امتيازات کے بارے ميں مظاھرے تھے جو خليفہ ٴاول کے زمانے ميں بيت المال کى تقسيم ميں اختلاف اور فرق کى وجہ سے پيدا ھوئے تھے ـ حضرت علي(ع) نے خليفہ بننے کے بعد بيت المال کو برابر اور مساوى طور پر لوگوں ميں تقسيم کيا(۳) جيسا کہ پيغمبر اکرم(ص) کى سيرت اور روش بھى يھى تھى ـ اس طريقے سے زبير اور طلحہ بھت برھم ھوئے اور نافرمانى کى بنياد ڈالى اور خانۂ کعبہ کى زيارت کے بھانے مدينہ سے مکے چلے گئے ـ انھوں نے حضر ت عائشہ کو جو اس وقت مکہ ميں تھيں اور حضرت علي(ع) کے ساتھ ان کے اختلافات موجود تھے، اپنے ساتھ ملا ليا اوراس طرح خليفہ سوم کے قصاص کے نام پر خونى تحريک اور جنگ کا آغاز کيا جو جنگ جمل کے نام سے مشھور ھےـ (۴)
حالانکہ يھى طلحہ او رزبير خليفہ ٴسوم کے مکان کے محاصرے اور قتل کے وقت مدينہ ميں موجود تھے ـ اس وقت انھوں نے خليفہ کا ھرگز دفاع نھيں کيا تھا ـ(۵) خليفہ ٴسوم کے قتل کے فوراً بعد يھى لوگ تھے جنھوں نے سب سے پھلے اپنى اور مھاجرين کى طرف سے حضرت علي(ع) کى بيعت کى تھي(۶) اسى طرح حضرت عائشہ بھى خود ان لوگوں ميں سے تھيں جنھوں نے خليفۂ سوم کے قتل پرلوگوں کو ابھارا تھا(۷) اور جونھى انھوں نے خليفۂ سوم کے قتل کى خبر سنى تو ان کو گالياں دى تھيں اور خوشى کا اظھار کيا تھا ـ بنيادى طور پر خليفہ ٴسوم کے قتل کا اصلى سبب وہ صحابہ تھے جنھوں نے مدينہ سے دوسرے شھروں ميں خطوط لکھ کر لوگوں کو خليفہ کے خلاف ابھارا تھا ـ
دوسرى جنگ کى وجہ جس کا نام جنگ صفين تھا او رتقريبا ڈيڑھ سال تک جارى رھى، وہ خواھش اور آرزو تھى جو معاويہ اپنى خلافت کے لئے رکھتا تھاـ خليفۂ سوم کے قصاص کے عنوان سے اس نے اس جنگ کو شروع کيا تھاـ اس جنگ ميں ايک لاکه سے زيادہ افراد ناحق ھلاک ھوگئے تھےـ البتہ اس جنگ ميں معاويہ نے حملہ کيا تھا نہ کہ دفاع کيونکہ قصاص ھرگز دفاع کى صورت ميں نھيں ھوسکتاـ
اس جنگ کا عنوان اور سبب خليفۂ سوم کا قصاص تھاـ حالانکہ خود خليفۂ سوم نے اپنى زندگى کے آخرى ايام اور شورش و بغاوت کے زمانے ميں معاويہ سے مدد کى درخواست کى تھى اور اس نے بھى ايک جرار لشکر کے ساتھ مدينہ کى طرف حرکت کى تھى ليکن راستے ميں جان بوجہ کر اس قدر دير کى کہ ادھر خليفہ کو قتل کرديا گياـ پھر اس واقعہ کے بعد وہ راستے سے ھى شام کى طرف لوٹ گيا اور وھاں جاکر خليفہ کے قصاص کا دعوى شروع کرديا(۸)
افسوس تو يہ ھے کہ جب حضرت علي(ع) شھيد ھوگئے اور معاويہ نے خلافت پرقبضہ کر ليا تو اس وقت اس نے خليفہ کے قصاص کو فراموش کرديا تھا اور خليفہ کے قاتلوں کو سزا نھيں دى تھى اور نہ ھى ان پر مقدمہ چلايا تھا ـ
جنگ صفين کے بعدجنگ نھروان شروع ھوگئي ـ اس جنگ ميں لوگوں کى ايک بھت بڑى تعداد جن ميں بعض اصحاب رسول بھى تھے، معاويہ کى تحريص و ترغيب کى وجہ سے حضرت علي(ع) کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے تھےـ انھوں نے اسلامى ممالک ميں ھنگامے اور آشوب برپا کر ديئے تھے لھذا جھاں کهيں حضرت علي(ع) کے پيروکاروں يا جانبداروں کو ديکھتے فورا ان کو قتل کر ديتے تھے حتيٰ کہ حاملہ عورتوں کے پيٹ پھاڑ کر بچوں کو نکال کر ان کا سر قلم کر ديتے تھےـ حضرت علي(ع) نے اس آشوب کا بھى خاتمہ کر ديا تھا ليکن تھوڑے ھى عرصے کے بعد کوفہ کى مسجد ميں نماز پڑھتے ھوئے ايک خارجى کے ھاتھوں شھيد ھو گئےـ
حضرت علي(ع) کى پانچ سالہ خلافت کے دوران شيعوں کے ذريعے کيا گيا استفادہ
اگرچہ حضرت علي(ع) اپنى چار سال او رنو مھينے کى خلافت کے دوران اسلامى حکومت کے درھم برھم حالات کو مکمل طور پر سنبھال نہ سکے او راس کو اپنى پھلى حالت ميں لانے ميں کامياب نہ ھوسکے ليکن تين پھلووٴں سے آپ کو کاميابى بھى حاصل ھوئى:
1ـ آپ نے اپنى منصفانہ سيرت کے ذريعے پيغمبر اکرم کى پرکشش اور ھر دلعزيز شخصيت کو عوام اور خاص طور پر جديد نسل کے سامنے پيش کيا ـ معاويہ کى شاھانہ شان و شوکت کے مقابلے ميں آپ ھميشہ غريبوں اور فقيروں کى طرح اور بيکس وناداروں افراد کى مانند زندگى گزارتے تھے اور ھرگز اپنے دوستوں، اعزاء و اقارب اور خاندان کے افراد کو دوسروں پر ترجيح اور امير کو غريب پر يا طاقتور کو کمزور پر فوقيت نھيں ديتے تھےـ
2ـ ان تمام طاقت فرسا اور طولانى مشکلات کے باوجود آپنے معارف الھى اور علوم انسانى کے گرانبھا اور قيمتى ذخائر دنيا کے حوالے کئے ھيں ـ
حضرت علي(ع) کے مخالفين کا دعوى ھے کہ آپ بڑے بھادر اور شجاع انسان تو تھے ليکن اچھے سياستداں نھيں تھے کيونکہ اپنى خلافت کے اوائل ميں مخالف عناصر کے ساتھ وقتى طور پر صلح کرکے ان کو راضى رکہ سکتے تھے اور اس طرح اپنى خلافت کو مستحکم اور مضبوط بنانے کے بعد ان کا قلع قمع کر سکتے تھے ليکن آپ نے ايسا نھيں کياـ
ان افراد نے اس نکتہ کو نظر انداز او ر فراموش کرديا ھے کہ حضرت علي(ع) کى خلافت ايک انقلابى تحريک تھى اور ايک انقلابى تحريک کو بے جا تعريف، چاپلوسى، ظاھرپرستى اور ريا کارى سے دور رھنا چاھئےـ ايسى ھى حالت پيغمبر اکرم کے زمانے ميں بھى پيش آئى تھى کہ کفار و مشرکين نے کئى بار آنحضرت کو تجويز پيش کى تھى کہ اگر آنحضرت ان کے خداؤں کى مخالفت اور توھين نہ کريں يا ان کو برا بھلا نہ کھيں تو وہ بھى ان کى دعوت اور تحريک کى مخالفت نھيں کريں گے ليکن پيغمبر اکرم نے ان کى يہ تجويز مسترد کردى تھى حالانکہ ان سخت حالات ميں ان کى تعريف کرکے يا ان کے ساتھ مصالحت کرکے اپنى حالت اور طاقت کو مضبوط بنا سکتے تھے اور پھر دشمنوں کى مخالفت کرکے ان کا قلع قمع بھى کر سکتے تھے ليکن درحقيقت ايک اسلامى اور انقلابى تحريک ھرگز يہ اجازت نھيں دے سکتى کہ ايک حقيقت کو زندہ کرنے کے لئے دوسرى حقيقت کو مٹايا يا پاما ل کرديا جائے اور ايک باطل کو دوسرے باطل کے ذريعے رفع کيا جائے ـ قرآن ميں متعددآيات اس بارے ميں موجود ھيںـ اس کے برعکس حضرت علي(ع) کے مخالفين اپنے مقصد ميں کاميابى حاصل کرنے کى خاطر کسى بھى جرم، غدارى اور اسلامى قوانين کى واضح اور اعلانيہ خلا ف ورزى کو نظر انداز نھيں کرتے تھے اور ھر بدنامى کو اپنے صحابى اور مجتھد ھونے کے بھانے سے دھوڈالتے تھے ليکن حضرت علي(ع) اسلامى قوانين پر سختى سے کار بند رھتے تھے ـ
حضرت علي(ع) سے عقلى، دينى اور اجتماعى علوم و فنون کے بارے ميں گيارہ ھزار مختصر ليکن پر معنى متفرقہ فقرے موجود ھيں (۹) آپ نے اپنے خطبوں کے دوران اسلامى علوم ومعارف(۱۰) کو نھايت فصيح و بليغ اور سليس و رواں زبان ميں بيا ن کيا ھےـ (۱۱) آپ نے عربى زبان کى گرامر بھى تدوين کى اور اس طرح عربى زبان وادبيات کى بنيادڈالى تھى ـ آپ اسلام ميں سب سے پھلے شخص ھيں جس نے الھى اور دينى فلسفے پرغور و خوض کيا تھاـ(۱۲) آپ ھميشہ آزاد استدلال اور منطقى دلائل کے ساتھ گفتگو کيا کرتے تھے اور وہ مسائل جن پر دنيا کے فلسفيوں نے بھى اس وقت تک توجہ نھيں کى تھى، آپ نے ان کو پيش کيا اور اس بارے ميں اس قدر توجہ اور انھماک مبذول فرماتے تھے کہ حتيٰ عين جنگ کے دوران (۱۳) بھى آپ(ع) علمى بحث و مباحثہ ميں مشغول ھو جاتے تھےـ
3ـ آپ نے اسلامى، مذھبى اور دينى دانشوروں پرمشتمل ايک بھت بڑى جماعت تربيت دى تھي(۱۴) کہ ان افراد کے درميان نھايت پارسا، زاھد اور اھل علم و معرفت افراد مثلا اويس قرنى، کميل بن زياد، ميثم تمار اور رشيد ھجرى وغيرہ موجود تھے جو اسلامى عرفاء اورعلماء ميں علم و عرفان کے سرچشمے مانے اور پھچانے جاتے ھيں ـ اس کے علاوہ ايک دوسرى جماعت کى تشکيل اور تربيت کى تھى جس ميں بعض لوگ علم فقہ، علم کلام، علم تفسير اور علم قراٴت وغيرہ ميں اپنے زمانے کے بھترين علماء اور اساتذہ شمار ھوتے تھےـ
خلافت کا معاويہ کى طرف چلا جانا اور پھر موروثى سلطنت ميں تبديل ھوجانا
حضرت على عليہ السلام کى شھادت کے بعد آپ کى وصيت اور عوام کى بيعت کے مطابق حضرت امام حسن(ع) نے خلافت سنبھالى جو بارہ امامى شيعوں کے دوسرے امام ھيں ـ
اس بيعت سے معاويہ کا چين وسکون غارت ھوگيا تھاـ اس نے عراق پر چڑھائى کردى جو اس زمانے ميں خلافت کا مرکز تھااور حضرت امام حسن(ع) کے خلا ف اعلان جنگ کر ديا ـ
معاويہ نے مختلف فريبوں، حيلوں اور بھانوں سے نيز بھت زيادہ مال و دولت خرچ کرکے آھستہ آھستہ امام حسن بن علي(ع) کے طرفداروں اور اصحاب کو اپنے ساتھ ملا ليا تھا اور آخر کار امام حسن(ع) کو مجبور کر ديا کہ صلح کے عنوان سے خلافت کو معاويہ کے حوالے کرديں اور امام حسن بن علي(ع) نے بھى اس شرط پر کہ معاويہ کى وفات کے بعد خلافت دوبارہ انھيں واپس لوٹا دى جائے اور ساتھ ھى ان کے دوستوں اور پيروکاروں پر بھى کسى قسم کا جبر و تشدد يا ظلم نہ ھو، خلافت معاويہ کے سپرد کردى تھى ـ(۱۵)
40 ھ ميں معاويہ نے خلافت پر قبضہ کر ليا اور فورا عراق آياـ اس نے اپنے خطبوں ميں لوگوں کو متنبہ کيا اور کھا: ”ميں تمھارے ساتھ نماز ، روزہ کے لئے جنگ نھيں کر رھا تھا بلکہ ميں چاھتا تھا کہ تم پر حکومت کروں اور اب ميں اپنے مقصد ميں کامياب ھو گيا ھوں“ (۱۶)
اور پھر کھا: ”ميں نے حسن کے ساتھ جو معاھدہ کيا تھا وہ اب باطل اور منسوخ ھوچکا ھے“ (تارى طبرى ج 4، ص 124) اور دوسرى تمام تاريخى کتابيں ـ
معاويہ نے اپنے خطبے ميں اشارہ کيا کہ وہ سياست کو دين سے الگ کردے گا اوراس طرح دينى قوانين کے بارے ميں بھى کوئى ضمانت نھيں دے گا ـ البتہ يہ واضح ھے کہ ايسى حکومت، سلطنت اور بادشاھت ھے نہ کہ خلافت يا پيغمبر اکرم کى جانشينى ـ يھى وجہ ھے کہ بعض لوگ جو معاويہ کے پاس پھنچے تھے اور اس کے دربار ميں رسائى حاصل کرسکے تھے، انھوں نے بادشاہ کى طرح اس کو سلام کيا تھا(۱۷)ـ وہ خود بھى بعض خصوصى مجالس ميں اپنى حکومت کو خصوصى ملوکيت اور بادشاھى سے تعبير کيا کرتا تھا (۱۸)ـ اگر چہ وہ عام اور ظاھرى طور پر لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو خليفہ ھى کھا کرتا تھا ليکن وہ بادشاھت يا سلطنت جو زور اور طاقت کے بل بوتے پر قائم ھو اس ميں وراثت خود بخود آجاتى ھے اور آخر کار اس نے اپنى نيت اور خواھش کوعملى جامہ پھنايا اور اپنے بيٹے يزيد کو جو ايک نھايت ھى لاابالى، آوارہ اور عياش شخص تھا، جسے ذرہ برابر بھى دينى شعور نہ تھا اور نہ ھى کوئى مذھبى شخصيت رکھتا تھا، اپنا جانشين اور ولى عھد بنايا(۱۹)ـ جس نے اپنى حکومت اور سلطنت کے دوران اس قدر شرمناک حوادث اور واقعا ت کو جنم ديا کہ قيامت تک تاريخ اس پر شرمندہ رھے گى ـ
معاويہ اپنے بيانات ميں ھميشہ اشارہ کيا کرتا تھا کہ وہ کبھى امام حسن کو دوبارہ خليفہ نھيں بننے دے گاـ خلافت کے بارے ميں اپنے مرنے سے پھلے اس کے دماغ ميں کچھ اور ھى خيال تھااور يہ وھى خيال تھا جس کے ذريعے اس نے امام حسن(ع) کوزھر دے کر شھيد کراديا تھا(۲۰) اور اس طرح اپنے بيٹے يزيد کے لئے راستہ ھموار کرديا تھا ـ معاويہ نے اپنے معاھدے کى خلاف ورزى کرکے عوام کو سمجھا ديا تھا کہ وہ کبھى بھى اھلبيت(ع) کے شيعوں کو امن و امان کے ماحول ميں زندگى گزارنے کى اجازت نھيں ديگا کہ پھلے کى طرح اپنى دينى سرگرمياں جارى رکہ سکيں اور آخر کار اس نے اپنے خيالات کو عملى جامہ پھنا ھى دياـ
اس نے اعلان کيا کہ جو شخص بھى اھلبيت(ع) کى تعريف اور شان ميں کوئى حديث بيان کرے گا اس کے جان ومال کى حفاظت کى کوئى ضمانت نھيں دى جائے گى ـ(۲۱) اسى طرح اس نے حکم ديا کہ جو شخص تمام اصحاب رسول اور خلفاء کى تعريف ميں کوئى حديث بيان کرے گا اس کو بے حد انعام و اکرام سے نوازا جائے گا ـ اس حکم کے نتيجے ميں صحابہ کى شان ميں بھت زيادہ احاديث گھڑھ لى گئيں ـ(۲۲) اس نے حکم ديا کہ تمام اسلامى ممالک ميں منبروں پر خطبوں کے دوران علي(ع) پر شب وستم کياجائے گا ( يہ حکم اموى خليفہ عمربن عبد العزيز 99ـ101 ھجرى قمرى کے زمانے تک جارى رھا) اس نے اپنے مددگاروں اور پيروکاروں کى مدد اور کوشش کے ذريعے جن ميں بعض اصحاب رسول بھى تھے، حضرت علي(ع) کے شيعوں اور مخصوص پيروکاروں کو شھيد کروا ديا تھا ـ ان ميں سے بعض کے سروں کو نيزوں پر چڑھا کر شھروں ميں پھرايا تھا ـ وہ عام شيعوں کو جھاں کھيں بھى ديکھتا تھا تکليفيں، آزار اور شکنجے ديا کرتا تھاـ ان کو تلقين و تاکيد کى جاتى تھى کہ وہ حضرت علي(ع) کى پيروى کرنے سے باز رھيں اور جو شخص اس حکم کو قبول نہ کرتا اس کو قتل کر ديا جاتا تھا ـ(۲۳)
………………….
حواله جات:
(۱) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 154
(۲) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 155 ، مروج الذہب ج / 2 ص / 36
(۳) نہج البلاغہ خطبہ /15
(۴) مروج الذہب ج / 2 ص / 392 ، نہج البلاغہ خطبہ / 122 ، تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 160 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص / 180
(۵) تاريخ يعقوبى ج / 2 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص / 172 ، مروج الذہب ج / 2 ص / 366
(۶) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152
(۷) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص / 171، تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152
(۸) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152 ، مروج الذہب ج / 3 ص / 25 ، تاريخ طبرى ص / 402 ، مروج الذہب ج / 2 ص / 415
(۹) کتاب الغرر و الدرر آمدى و متفرقات جوامع الحديث
(۱۰) مروج الذہب ج / 2 ص / 43 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص / 181
(۱۱) اشباہ و نظائر سيوطى در نحو ج / 2 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج/ 1 ص / 6
(۱۲) نہج البلاغہ کى طرف رجوع کريں
(۱۳) بحار الانوار ج/ 2 ص / 65
(۱۴) تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص / 69
(۱۵)تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 191 اور دوسرى تمام کتب تواريخ
(۱۶) تاريخ ابن ابى الحديد ج / 4 ص / 160 ، تاريخ طبرى ج / 4 ص / 124 ، تاريخ ابن الاثير ج / 3 ص / 203
(۱۷) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 193
(۱۸) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 202
(۱۹) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 196 ، مروج الذہب ج / 3 ص / 77
(۲۰) مروج الذہب ج / 3 ص / 5 ، تاريخ ابو الفداء ج / 1 ص / 183
(۲۱) النصائح الکافيہ ص / 194
(۲۲) النصائح الکافيہ ص / 7273
(۲۳) النصائح الکافيہ ص / 7778.