- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/23
- 0 رائ
قیام حسینی کے اہداف
حضرت رسولِ خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانسوز شہادت کے ساتھ ہی اہلبیتِ رسالت پر انواع و اقسام کی مشکلات اور مصیبتیں آنے لگیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ خامس آل عبا، پانچتن کے پانچویں تن حضرت امام حسین علیہ السلام سے ماہ رجب المرجب سنہ ۶۰ ہجری قمری میں معاویہ ابن ابی سفیان حاکم شام کی ہلاکت کے بعد یزید ابن معاویہ کے برسرکار آتے ہی اس کیلیے بیعت کا مطالبہ کیا گیا۔
کتاب مستطاب شاہکار آفرینش(مقتل شیخ الرئس) سے تلخیص کرتے ہوئے اس واقعے کی کچھ تفصیلات ذکر کررہے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کن اسباب کے پیش نظر اس ہجرت و روانگی کا فیصلہ کرتے ہیں اور کیا اہداف سامنے لیے ہوئے مدینہ منورہ،قبر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،قبر برادراور قبر مادر گرامی سلام اللہ علیہما سے الوداع کرتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام سے بیعت کی پہلی درخواست اور امام عالیمقام کا شدید انکار
ماہ رجب سنہ ۶۰ ہجری کے درمیان معاویہ ابن ابی سفیان ۸۰ سالہ عمر میں ہلاک ہوا اور یزید پلید اس کی جگہ پر (پہلے سے بنائی گئی سازش کے عین مطابق) حاکم بن بیٹھا اور پھر بلا فاصلہ والیِ مدینہ ولید بن عُتبہ بن ابی سفیان کو ایک خط لکھا کہ کسی تأخیر کے بغیر حسین(علیہ السلام) سے بیعت لے لو اور اگر وہ بیعت نہ کریں تو سرتن سے جدا کرکے بھیج دو۔
ولید کو جیسے ہی یزید کا خط ملا،اُس نے مروان کے ساتھ مشورہ کیا۔ مروان نے کہا امام حسین(علیہ السلام) بیعت نہیں کریں گے،اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتا تو انھیں قتل کردیتا۔ولید کہنے لگا اےکاش دنیا میں میرا نام و نشان نہ ہوتا پھر امام حسین علیہ السلام کی طرف پیغام بھیجا کہ دارالامارہ میں آئیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام ۳۰ ہاشمی مسلح جوانوں کے ساتھ دارالامارہ کی طرف چل دیے اور ان جوانوں سے فرمایا:‘‘آپ لوگ دارالامارہ سے باہر ٹہرایں،اگر میری آواز بلند ہوئی تو دارالامارہ کے اندر آجانا’’
جب امام حسین علیہ السلام دارالامارہ میں داخل ہوئے تووالی مدینہ نے ہلاکت معاویہ کی خبرسنائی،امام عالیمقام علیہ السلام نے جملۂ استرجاع(انّا للہ۔۔) زبان پر جاری فرمایا۔ ولید نے یزید کا خط پڑھ کر سنایا، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا‘‘ مجھے نہیں لگتا کہ تم مخفی بیعت پر قناعت کرو’’
ولید نے کہا: جی ہاں؛ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ صبح تک فکر کرو، ولید نے کہا: آپ تشریف لے جائیں۔ مروان نے ولید سے کہا: اگر وہ چلے گئے تو پھر کبھی بھی ہاتھ نہ آئیں گے جب تک بہت زیادہ خونریزی نہ ہو، ابھی ابھی اُنہیں قیدی کرلو تاکہ یاتو بیعت کرلیں اور یا قتل کردو۔
(مقتل خوازمی ج۱،ص۱۸۳)
اس موقع پر شور اُٹھا، مروان نے تلوار کھینچ لی اور والی سے کہا: حکم دو کہ انہیں قتل کردیں اس اثناء میں دارالامارہ کے دروازے کے پیچھے موجود ۳۰ ہاشمی جوان ایک دم ننگے خنجر لیے دارالامارہ کے اندر آپہنچے اور امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی میں باہر چلے گئے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام رات کے وقت حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مطہر پر حاضر ہوئے، گریہ کیا، اُن لوگوں کی شکایت کی جنہوں نے قدردانی نہیں کی اور امام علیہ السلام کا ساتھ نہیں دیا، پھر عرض کی: میں آپ کے حرم سے مجبور ہوکر ہجرت کررہا ہوں، پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا، صبح ہوئی تو گھر واپس آئے۔ دوسری رات پھرامام حسین علیہ السلام اپنے جد بزرگوار کی قبر مطہر پر حاضر ہوئے، چندرکعت نماز ادا کی،ظہر کے نزدیک تک مناجات میں مشغول رہے اور لحظہ بھر کیلیے آنکھ لگ گئی،عالم خواب میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور اُنہیں سرزمینِ کربلا میں ایک تشنہ لب گروہ کی ہمراہی میں شہید ہونے کی خبر دی۔ امام علیہ السلام نے عرض کی: مجھے(اپنے پاس ہی) ٹرمیالیں، خواب میں فرمایا: جنت میں کچھ ایسے درجات ہیں کہ شہادت کے بغیر آپ ان تک نہیں پہنچ سکیں گے(قارئیں کرام! واضح رہے کہ ان درجات سے مراد خاص درجات ہیں جو ان مقدس ہستیوں کےپیشِ نظر تھے چونکہ یہ ہستیاں جنت کی طلب میں نہیں ہوتیں بلکہ جنت تو ان کی مرضی کے مطابق ان کے چاہنے والوں کو عطا کی جاتی ہے اور یہ جنت کے مالک ہیں، ان حضرات کی معشوق ہستی کمال مطلق ہے اور اس کے انتہائی قریب ترین درجات پر پہنچنے کے لیے عاشق کو انتہائی خطر ناک مراحل سے گزرنا پڑتا ہے حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا اشارہ اُنہیں قرب کے درجات کی طرف ہے)۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے اپنا خواب اپنے اہلبیت کو سنایا تو ان کی گریہ و زاری کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام علیہ السلام مدینہ سے نکلنے کے لیے تیار ہوگئے۔تیسری رات اپنی والدہ ماجدہ کی قبر مطہر کے پاس آئے، وداع کیا، اسی طرح بقیع میں اپنے بھائی کی قبر پر آکر وداع کیا اور صبح گھر گئے۔
(با نقل از بحار ج۴۴،ص۳۲۹)
امام حسین علیہ السلام کے پاس بھائی محمد حنفیہ کا آنا
صبح سویرے محمد حنفیہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ باتیں کیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ یا تو آپ مکہ میں ٹہرلیں(رہیں)یا یمن کے شہروں یا بیابانوں اور جنگلوں کی طرف چلے جائیں۔امام علیہ السلام نے فرمایا:اگر دنیا میں میرے لیے کوئی پر امن جگہ نہ بھی ہو پھر بھی یزید کی بیعت نہیں کرونگا،دونوں بھائی کچھ دیر روتے رہے امام علیہ السلام نے فرمایا:میرا مکہ کا ارادہ ہے؛پھر قلم و کاغذ طلب کیا اور اپنا وصیت نامہ لکھا۔
امام حسین علیہ السلام کا وصیت نامہ جو اپنے بھائی محمد حنفیہ کو لکھ کر دیا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں حسین خداوند متعال کی توحید کی گواہی دیتا ہوں جو یکتا ہے اور شریک نہیں رکھتا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خداوند کے بندے(عبد) اور رسول ہیں اور حق تعالیٰ کی جانب سے رسالت کے ساتھ مبعوث ہوئے۔ جنت اور دوزخ حق ہے، بے شک قیامت آئے گی اور خداوند متعال مردوں کو قبروں سے اُٹھائے گا۔
میں نے تکبر و خود خواہی یا فساد و ظلم ایجاد کرنے کے لیے قیام نہیں کیا بلکہ میں نے قیام کیا ہے تاکہ اپنے جد بزرگوار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اور اپنے والد نامدار علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے شیعوں کی اصطلاح کروں پس جس شخص نے مجھے قبول کیا،حق کو قبول کیا ہے اور جو بھی مجھے ٹھکرادے تو میں صبر سے کام لوں گایہاں تک کہ خداوند میرے اور اس گروہ کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
اے بھائی!یہ آپ کے ہاتھوں میں میری وصیت ہے ‘‘وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب’’۔
بعد از ان خط کو بند کیا،اپنی مہر لگائی اور اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو دے دیا۔
(شاہکار آفرینش از ص ۷۷ تا ۷۹)
یزید پلید کی بیعت کرنا اور اس کی حکومت قبول کرنا؛اسلام کے ساتھ وداع ہے
کتاب مستطاب ‘‘سیرۂ امام حسین علیہ السلام از طلوع اشکبار تا عروج خونین،تالیف محسن غفاری’’میں مندرجہ بالا عنوان کے تحت مرقوم ہے کہ جس رات دارالامارہ میں بلوا کر حضرت امام حسین علیہ السلام سے ولید بن عتبہ نے یزید پلید کی بیعت کا سوال کیا،جب صبح ہوئی تو گھر سے باہر امام عالیمقام علیہ السلام کامروان بن حکم سے آمنا سامنا ہوا۔مروان نے عرض کی:یااباعبداللہ!میں آپ کی بھلائی چاہتا ہوں،آپ کیلیے میری ایک تجویز ہے کہ اگر قبول کرلیں تو آپ کی خیروصلاح میں ہے۔
امام علیہ السلام نے پوچھا:کیا تجویز رکھتے ہو؟
مروان کہنے لگا:جیسا کہ کل رات ولید بن عتبہ کے سامنے پیش آیا تھا، آپ یزید ابن معاویہ کی بیعت کرلیں کیونکہ یہ کام آپ کے دینی اور دنیوی فائدے میں ہے۔
امام عالیمقام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
انّا للہ و انا الیہ راجعون وعلی الاسلام سلام اذا بلیت الامّۃُ براعٍ مثل یزید۔
یعنی بے شک ہم اللہ کیلیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں(یہ کلمات کلمۂ استرجاع کہلاتے ہیں اور کسی مصیبت آپڑنے کے موقع پر ادا کیے جاتے ہیں،اُس ملعون کی تجویز ایک عظیم مصیبت سے کم نہ تھی لہٰذا امام علیہ السلام نے یہ کلمات ادا کیے)اور اسلام پر سلام ہے(یعنی ایسی صورتْحال میں اسلام سے وداع کرنا ہے اور سلامِ آخر کہنا ہے)کہ جب امت یزید جیسے نالائق فرد کی سرپرستی میں گرفتار ہوجائے۔
ولقد سمعت جدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول:
الخلافۃ محرّمۃٌ علی آل ابی سفیان،فاذا رایتُم معاویۃ علی منبری ۔۔۔۔۔۔۔ فابتلاھم اللہ بیزید الفاسق۔
یعنی میں نے اپنے جد بزرگوار حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا:خلافت ابو سفیان کی اولاد پر حرام ہے،پس اگر معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے میرے منبر سے ہٹادو،اہل مدینہ نے ایسا ہی دیکھا لیکن قولِ رسول پر عمل نہیں کیا پس خداوندمتعال نے انہیں یزید جیسے فاسق(معاویہ سے بدتر)حکمران کی حکومت میں گرفتار کردیا۔
(سیرۂ امام حسین علیہ السلام ص ۱۳۱،۱۳۲)