- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/23
- 1 رائ
مقدمہ:
روایات شیعہ میں جس چیز کے بارے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے، وہ امام حسین (ع) کی زیارت کرنا ہے۔ اس بارے میں آئمہ اہل بیت (ع) نے لوگوں کو فقط زبان سے ہی شوق نہیں دلایا بلکہ خود بھی جس امام کو جب بھی زمانے کے حالات کے مطابق فرصت ملی ہے، تو اس امام نے عملی طور پر کربلاء جا کر امام حسین (ع) کی زیارت کی اہمیت کو لوگوں کے لیے ثابت کیا ہے کہ اس بارے میں روایات بھی بہت ہی بلند و عالی معنی و مفہوم کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض آئمہ معصومین (ع) نے اپنی بیماری کی شفاء کے لیے کسی کو کربلاء امام حسین (ع) کی قبر کے نزدیک بھیجا ہے تا کہ وہ وہاں جا کر اس امام معصوم کی شفاء کے لیے دعا اور زیارت کرے اور بعض آئمہ معصومین (ع) نے امام حسین (ع) کی زیارت کرنے کو اس طرح سے بیان کیا ہے کہ بعض علماء شیعہ نے ان الفاظ سے امام حسین (ع) کی زیارت کرنے کے واجب ہونے کو سمجھا اور استنباط کیا ہے۔
امام حسین (ع) کی زیارت کے بارے میں آئمہ معصومین (ع) سے نقل ہونے والی روایات ایک طرح کی نہیں ہیں، بلکہ ہر امام معصوم کے زمانے کے حالات کے مطابق روایات بھی کئی طرح کی ہیں۔ اس لیے کہ جب ہم روایات و احادیث کی کتب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آئمہ سے اس بارے میں زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں اور بعض سے اس بارے میں روایات کم نقل ہوئی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امام حسین (ع) کی زیارت کے بارے میں روایات بھی کم ہیں کیونکہ اس بارے میں روایات اس قدر زیادہ نقل ہوئی ہیں کہ یقینی طور پر تواتر کی حد سے بھی بالا تر ہیں۔
اس تحریر میں آئمہ معصومین (ع) کی سیرت میں امام حسین (ع) کی زیارت کے موضوع کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حضرت رسول اكرم(ص) اور زیارت امام حسین (ع):
شیعہ کی احادیث کی کتب میں کچھ روایات امام حسین (ع) کی زیارت کے بارے میں رسول خدا (ص) سے ذکر کی گئی ہیں کہ ان روایات سے امام حسین (ع) کی اہمیت کو رسول خدا (ص) کے نزدیک سمجھا جا سکتا ہے:
حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو مُحَمَّدٍ هَارُونُ بْنُ مُوسَى التَّلَّعُكْبَرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زَكَرِيَّا الْعَدَوِيُّ النَّصْرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُنْذِرِ الْمَكِّيِّ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ الْهَيْثَمِ قَالَ حَدَّثَنِي الْأَجْلَحُ الْكِنْدِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَفْلَحُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ طَاوُسٍ الْيَمَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلي الله عليه و آله و سلم وَ الْحَسَنُ عَلَى عَاتِقِهِ وَ الْحُسَيْنُ عَلَى فَخِذِهِ يَلْثِمُهُمَا وَ يُقَبِّلُهُمَا وَ يَقُولُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُمَا وَ عَادِ مَا [مَنْ] عَادَاهُمَا ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ كَأَنِّي بِهِ وَ قَدْ خُضِبَتْ شَيْبَتُهُ مِنْ دَمِهِ يَدْعُو فَلَا يُجَابُ وَ يَسْتَنْصِرُ فَلَا يُنْصَرُ قُلْتُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ شِرَارُ أُمَّتِي مَا لَهُمْ لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَنْ زَارَهُ عَارِفاً بِحَقِّهِ كُتِبَ لَهُ ثَوَابُ أَلْفِ حَجَّةٍ وَ أَلْفِ عُمْرَةٍ أَلَا وَ مَنْ زَارَهُ فَكَأَنَّمَا زَارَنِي وَ مَنْ زَارَنِي فَكَأَنَّمَا زَارَ اللَّهَ وَ حَقُّ الزَّائِرِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُ بِالنَّار۔
عبد اللَّه بن عباس کہتا ہے کہ: میں رسول خدا (ص) کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ امام حسن(ع) حضرت کے کندھے پر اور امام حسین (ع) حضرت کے زانو پر بیٹھے تھے، رسول خدا ان کے بوسے لے رہے تھے اور فرما بھی رہے تھے کہ خداوندا ان سے محبت کر جو ان سے محبت کرے اور ان سے دشمنی کر جو ان سے دشمنی کرے۔ پھر فرمایا کہ اے ابن عباس میں اپنے اس بیٹے حسین کو دیکھ رہا ہوں کہ اس کی ریش مبارک اس کے خون سے رنگین ہوئی ہے اور یہ لوگوں کو اپنی مدد کے لیے پکارے گا، لیکن کوئی بھی اس کی مدد نہیں کرے گا۔
ابن عباس کہتا ہے کہ میں نے پوچھا کہ کون لوگ اس امام کی مدد نہیں کریں گے؟ فرمایا کہ میری امت کے برے لوگ کہ پتا نہیں ان کو کیا ہو گیا ہے؟ خداوند ان لوگوں کو میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔
اے ابن عباس جو بھی میرے بیٹے حسین کی صحیح معرفت کے ساتھ زیارت کرے گا، اس کے لیے ایک ہزار حج اور ایک ہزار عمرے کا ثواب لکھا جائے گا، اور جس نے اسکی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی، اور جس نے میری زیارت کی گویا اس نے خداوند کی زیارت کی اور زائر کا خداوند پر یہ حق ہے کہ خدا اس کو جہنم کی آگ سے دور رکھے۔
خزاز رازى، على بن محمد، الوفاة : القرن الرابع، كفاية الأثر في النصّ على الأئمة الإثني عشر، محقق: حسينى كوهكمرى، عبد اللطيف، ناشر: بيدار1401 ق
امام امير المؤمنين علی (ع) اور زیارت امام حسین (ع):
مولا امیر(ع) سے امام حسین (ع) کی زیارت کے بارے میں بہت ہی بہترین روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت امیر نے امام حسین کی زیارت پر نہ جانے کو اس بندے کی طرف سے جفا قرار دیا ہے کہ یہ تعبیر خود امام حسین (ع) کی زیارت کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الصَّفَّارِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي دَاوُدَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أَبِي عُمَرَ الْجَلَّابِ عَنِ الْحَرْثِ [الْحَارِثِ] الْأَعْوَرِ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ عليه السلام بِأَبِي وَ أُمِّي الْحُسَيْنَ الْمَقْتُولَ بِظَهْرِ الْكُوفَةِ وَ اللَّهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْوَحْشِ مَادَّةً أَعْنَاقَهَا عَلَى قَبْرِهِ مِنْ أَنْوَاعِ الْوَحْشِ يَبْكُونَهُ وَ يَرْثُونَهُ لَيْلًا حَتَّى الصَّبَاحِ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَإِيَّاكُمْ وَ الْجَفَاءَ ۔
حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے کہ: حسین کوفہ کے نزدیک قتل کیا جائے گا، خدا کی قسم میں دیکھ رہا ہوں کہ وحشی حیوانات اس کی قبر پرگردن رکھ کر اس پرگریہ کر رہے ہیں اور رات سے صبح تک اس پر نوحے پڑھتے ہیں، جب حیوانات کا یہ حال ہے تو تم اے انسانوں اس امام پر جفا کرنے سے بچو۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص291، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
حضرت فاطمہ زہراء (س) اور زیارت امام حسین (ع):
امام حسین (ع) کی زیارت صدیقہ کبری (س) کی نظر میں اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ وہ خود اپنے بیٹے کی قبر پر حاضر ہوتی ہیں اور اس مبارک قبر کی زیارت کرنے والوں کے لیے طلب مغفرت کرتی ہیں۔
حتی اہل سنت کی بعض کتب میں نقل ہوا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے خواب میں بعض علمائے اہل سنت کو حکم دیا ہے کہ بعض ذاکروں سے کہیں کہ امام حسین کے مصائب کو پڑھیں۔
ان دونوں موارد کے بارے میں ایک ایک روایت کو ذکر کیا جاتا ہے:
روایت اول:
حَدَّثَنِي حَكِيمُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه و آله و سلم تَحْضُرُ لِزُوَّارِ قَبْرِ ابْنِهَا الْحُسَيْنِ عليه السلام فَتَسْتَغْفِرُ لَهُمْ ذُنُوبَهُمْ۔
حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: حضرت فاطمہ(س) بنت حضرت محمّد(ص) اپنے بیٹے حسین کی قبر کی زیارت کرنے والے زائرین کے پاس حاضر ہوتی ہیں اور ان کے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کرتی ہیں۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367، كامل الزيارات ج1 ص118، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت دوم:
کتب اہل سنت میں صحيح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ حضرت زہرا (س) اہل سنت کے عالم کی خواب میں آتی اور اس سے کہا کہ کربلا جاؤ…
أنبأنا أحمد بن أزهر بن السباك قال أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي الأنصاري في كتابه عن أبي القاسم علي بن المحسن التنوخي عن أبيه أبي علي قال حدثني أبي قال خرج إلينا أبو الحسن الكرخي يوما فقال تعرفون ببغداد رجلا يقال له ابن أصدق فلم يعرفه من أهل المجلس غيري و قلت أعرفه فكيف سألت عنه قال أي شيء يعمل قالت ينوح على ابن علي عليهما السلام قال فبكى أبو الحسن و قال عندي عجوز تزينني من أهل كرخ جدان يغلب على لسانها النبطية و لا يمكنها أن تقيم كلمة عربية فضلا عن أن تحفظ شعرا و هي من صوالح النساء و تكثر من الصلاة و الصوم و التهجد و انتبهت البارحة في جوف الليل و منامها قريب من منامي فصاحت أبو الحسن أبو الحسن قلت ما لك قالت إلحقني فجئتها و وجدتها ترعد وقلت ما أصابك قالت رأيت في منامي و قد صليت وردي و نمت كأني في درب من دروب الكرخ فيه حجرة محمرة بالساج مبيضة بالأسفيداج مفتوحة الباب و عليه نساء وقوف فقلت لهم ما الخبر فأشاروا إلى داخل الدار و إذا امرأة شابة حسناء بارعة الجمال و الكمال و عليها ثياب بياض مروية من فوقها إزار شديد البياض قد التفت به و في حجرها رأس يشخب دما ففزعت و قالت لا عليك أنا فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه و سلم و هذا رأس الحسين صلوات الله على الجماعة فقولي لابن أصدق حتى ينوح لم أمرضه فأسلو *** لا و لا كان مريضا *** و انتبهت مذعورة
قال أبو الحسن و قالت العجوز ( أمرظه ) بالظاء لأنها لا تتمكن من إقامة الضاد فسكنت منها إلى أن عاودت نومها و قال أبو القاسم ثم قال لي مع معرفتك بالرجل فقد حملتك الأمانة في هذه الرسالة فقلت سمعا و طاعة لأمر سيدة النساء رضوان الله تعالى عليها قال و كان هذا في شعبان و الناس في إذ ذاك يلقون أذى شديدا و جهدا جهيدا من الحنابلة و إذا أرادوا زيارة المشهد بالحائر خرجوا على استتار و مخافة فلم أزل أتلطف في الخروج حتى تمكنت منه و حصلت في الحائر ليلة النصف من شعبان و سألت عن أصدق فدللت عليه و دعوته و حضرني فقلت له إن فاطمة عليها السلام تأمرك أن تنوح بالقصيدة التي فيها
لم أمرضه فأسلوا لا و لا كان مريضا
فانزعج من ذلك و قصصت عليه و على من كان معه عندي الحديث فأجهشوا بالبكاء و ناح بذلك طول ليلته و أول القصيدة
أيها العينان فيضا و استهلا لا تغيضا
میرے والد نے نقل کیا ہے کہ ایک دن ابو الحسن کاتب کرخی ہمارے پاس آیا اور کہا کہ کیا تم بغداد میں ابن اصدق نامی ایک بندے کو جانتے ہو؟ اس محفل میں اس کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں نے کہا میں اس کو جانتا ہوں، کیوں کیا ہوا ہے کہ اس کے بارے میں اس طرح پوچھ رہے ہو؟ ابو الحسن نے کہا: یہ ابن اصدق کیا کام کرتا ہے ؟ میں نے امام حسین (ع) کے لیے نوحہ خوانی کرتا ہے۔ یہ سن کر ابو الحسن نے گریہ کیا اور کہا میرے پاس ایک بوڑھی عورت ہے کہ بچپن سے اس نے ہی مجھے پالا ہے۔ وہ کرخ کے محلے جدان کی رہنے والی ہے اور اس کی زبان اب اس قابل نہیں رہی کہ عربی کا ایک لفظ بھی صحیح طریقے سے بول سکے، کوئی شعر یا کوئی روایت اس کے لیے پڑھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ایک رات وہ اچانک بیدار ہو گئی کیونکہ اس کے سونے کی جگہ میرے سونے کی جگہ کے نزدیک تھی، اس نے اونچی آواز سے کہا کہ اے ابو الحسن اٹھو میرے پاس آؤ۔ میں نے کہا کیا ہوا ہے؟ میں اس کے پاس گیا دیکھا کہ وہ کانپ رہی ہے۔ میں نے کہا کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں کرخ کے دروازوں میں سے ایک دروازے کے سامنے ہوں۔ میں نے ایک خوبصورت کمرے کو دیکھا کہ جس کی دیواریں سفید اور سرخ رنگ کی تھیں، اس کمرے کا دروازہ کھولا ہوا تھا اور عورتیں دروازے کے سامنے کھڑی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کون فوت ہوا ہے؟ یہاں پر کیا ہوا ہے؟ انھوں نے کمرے کے اندر کی طرف اشارہ کیا۔ میں بھی کمرے کے اندر چلی گئی۔ میں نے دیکھا کہ کمرہ بہت ہی خوبصورت ہے اور اس کے وسط میں جوان عورت بیٹھی ہے کہ میں نے اس جیسی خوبصورت عورت آج تک نہیں دیکھی تھی اور اس نے سفید رنگ کا لمبا سا لباس پہنا ہوا تھا کہ اس لباس کے ایک کونے سے خون نکل رہا تھا۔
میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ فرمایا میں رسول خدا(ص) کی بیٹی فاطمہ ہوں اور یہ میرے بیٹے حسین کا سر ہے۔ میری طرف سے ابن اصدق سے کہو کہ اس شعر کو نوحے کے طور پر پڑھے کہ: میرا بیٹا بیمار نہیں تھا کہ بیماری کی وجہ سے دنیا سے گیا ہو حتی واقعہ کربلا سے پہلے بھی بیمار نہیں ہوا تھا۔ ابو الحسن نے کہا اے ابو القاسم اب کہ تم ابن اصدق کو جانتے ہو۔ امانتداری کے ساتھ اس خبر کو اس تک پہنچا دو۔ میں نے کہا بی بی فاطمہ(س) کی خاطر میں یہ خبر ضرور ابن اصدق تک پہنچاؤں گا۔
ابو القاسم تنوخی کہتا ہے کہ: یہ ماہ شعبان کا واقعہ ہے اور جب لوگ امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جاتے تھے تو راستے میں ان کو حنبلی مذہب کے لوگ بہت تنگ کیا کرتے تھے۔ میں نے کوشش اور تلاش کر کے آخر کار خود کو 15 شعبان کی شب کربلاء پہنچا ہی لیا۔ ادھر پہنچ کر ابن اصدق کا معلوم کرتے کرتے میں نے اس کو ڈھونڈ ہی لیا اور اس سے کہا کہ حضرت زہرا (س) نے تم کو حکم دیا ہے کہ تم اس مرثیے کو پڑھو کہ جس کا عنوان امام حسین کا نوحہ ہے۔ میں نے ابن اصدق سے کہا کہ مجھے اس واقعے سے پہلے اس مرثیے کا پتا نہیں تھا۔ یہ سن کر ابن اصدق کی عجیب سی حالت ہو گئی۔ میں نے اس خواب کو اس کے لیے اور محفل میں حاضر سب لوگوں کے لیے مکمل طور پر بیان کیا۔ سب نے بہت ہی زیادہ گریہ کیا اور ساری رات اسی مرثیے کے ساتھ نوحہ خوانی ہوتی رہی۔ اس مرثیے کا پہلا شعر یہ ہے:
اے میری دو آنکھو اشک بہاؤ، بہت ہی شدید گریہ کرو، اس طرح گریہ کرو کہ تمہارے اشک کبھی خشک نہ ہوں،
ابن العدیم نے لکھا ہے کہ: ابو الحسن کرخی ابو حنیفہ کے بزرگترین اصحاب میں سے ہے۔
يافعی نے ابو القاسم تنوخی کے بارے میں لکھا ہے کہ:
ابو القاسم علی ابن محمد تنوخی حنفی قاضی اور بہت زیادہ ذہین تھا، اشعار کو بیان کیا کرتا تھا، علم کلام اور علم نحو میں بہت مہارت رکھتا تھا اور اس کی اپنی بھی اشعار کی ایک کتاب تھی۔
كمال الدين عمر بن أحمد بن أبي جرادة الوفاة: 660، بغية الطلب في تاريخ حلب ج 6 ص 2655، دار النشر : دار الفكر ، تحقيق : د. سهيل زكار
ماشاء اللہ بھترین کاوش ہے