- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/24
- 0 رائ
امام حسین علیہ السلام سے کربلا کی طرف سفر سے پہلے بعض اہم افراد کی ملاقات
حضرت امام حسین علیہ السلام سے کربلا کی طرف سفر سے پہلے بعض اہم افراد نے ملاقاتیں کیں،مقتل شیخ الرئس میں ان ملاقاتوں کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ ملاقات کرنے والے یہ سات افراد ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ام ہانی ۲۔ ام سلمہ ۳۔ عبداللہ بن عمر۴۔ عبداللہ بن زبیر ۵۔ عبداللہ ابن عباس ۶۔ عبداللہ بن جعفر ۷۔ جابر بن عبداللہ انصاری
یہ ملاقاتیں زیادہ تر مدینہ میں ہوئی ہیں؛محمد حنفیہ اور عبداللہ بن جعفر سے دوسری مرتبہ مکہ میں بھی ملاقات ہوئی۔
۱۔ اُمّ ہانی امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں
جب حرہت امام حسین علیہ السلام مدینہ سے چلنے لگے تو بنی عبدالمطلب کی خواتین نوحہ کیلیے جمع ہوگئیں۔امام عالیمقام علیہ السلام درمیان میں تشریف لائے اور صبر کی تلقین فرمائی تو خواتین نے کہا:اگر ابھی ہم نوحہ خوانی اور گریہ و زاری نہیں کریں تو کب کریں؟
خلاصہ یہ کہ یہ خواتین ام ہانی کے پاس آئیں اور کہنے لگیں:آپ بیٹھی ہوئی ہیں جبکہ امام حسین علیہ السلام اہل وعیال کے ساتھ مدینہ چھوڑ رہے ہیں؟ ام ہانی فوراً امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔۔۔۔
یہ کہہ کر گریہ وزاری کا آغاز کیا:‘‘میں نے سنا ہے کہ بیواؤں کی خبر گیری اور کفالت کرنے والا مدینہ چھوڑ کرجانا چاہتا ہے’’حضرت نے فرمایا:پھوپھی جان جو کچھ مقدر ہے،وہی ہوگا۔
(معالی السبطین ج۱ص۱۳۲)
۲۔ ام سلمہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں
ام سلمہ جب امام حسین علیہ السلام کے ارادے سے مطلع ہوئیں تو امام علیہ السلام کی خدمت میں آئیں اور عرض کی:میرے فرزند!عراق جانے سے گھبرانا نہیں،میں نے آپ کے جد حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے:میرا بیٹا حسین عراق میں کربلا نامی سرزمین میں شہید ہوگا۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اماجان! خدا کی قسم، میں اچھی طرح جانتا ہوں، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میرا قاتل کون ہے اور میرے ساتھ کون شہید ہوں گے۔ پس امام علیہ السلام نے کربلا کی طرف اشارہ کیا، زمین نشیبی صورت میں ہوگئی، قتلگاہ، مدفن اور اپنے لشکر کی جگہ؛یہ سب مقامات امام علیہ السلام نے تمام حاضرین کو دکھائے ۔ام سلمہ نے سخت گریہ کیا اور کہا:جو کچھ خدا چاہے۔
پھر ام سلمہ نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی اس شیشی کا حوالہ دیا جس میں خاکِ کربلا تھی،امام علیہ السلام نے دست مبارک کربلا کی طرف بڑھایا، خاک اٹھائی، ایک شیشی میں ڈال کر ام سلمہ کو دی اور فرمایا یہ شیشی میرے نانا بزرگوار کی دی ہوئی شیشی کے ساتھ رکھ دیں جب بھی یہ خون میں تبدیل ہو جائیں جان لینا کہ میں شہید ہو گیا ہوں۔
(بحار الانوار ج ۴۴،ص۳۳۱)
۔ عاشور محرم ۶۱ ہجری کو جب خاک کو خون میں تبدیل دیکھا تو سمجھ گئیں،بہت زیادہ گریہ کیا اور اہل مدینہ کو باخبر کیا۔
۳۔ عبداللہ بن عمر کی ملاقات
عبداللہ بن عمر نے جب مکہ میں امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کی تو عرض کی:آپ عراق تشریف نہیں لے جائیں کہ مارے جائیں گے؛ حضرت نے یوں نہیں فرمایا کہ میں مارا نہیں جاؤں گا لیکن فرمایا: دنیا کے دَنی اور پست ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ یحییٰ بن ذکریا(پیغمبر) کا سر بنی اسرائیل کی ایک بدکارہ عورت کو ہدیہ کے طور پر دیا گیا۔
عبداللہ نے عرض کی:اب جبکہ جانے کا ہی ارادہ ہے تو اجازت دیں اُس مقام پر بوسہ دوں جہاں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسے دیتے تھے۔امام علیہ السلام نے اپنا پیراہن کچھ اوپر کو اُٹھایا،عبداللہ ابن عمر کے حضرت کے سینے اور قلب مبارک پر بوسہ دیا(اُسی مقام پر بوسہ دیا جہاں خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسے دیتے تھے اور فرماتے تھے یہ تیر کی جگہ ہے)
(بحار ج۴۴ ص۳۱۳)
۴۔ عبداللہ بن زبیر کی ملاقات
عبداللہ بن زبیر نے امام حسین علیہ السلام کو عراق جانے سے منع کیا، امام علیہ السلام نے فرمایا:خانۂ خدا میں قریش کا ایک بڑا شخص ماردیا جائے گا،جس کے قتل ہونے سے بیت اللہ کی بے حرمتی ہوگی،میں نہیں چاہتا کہ وہ شخص میں ہو جاؤں۔
(تاریخ طبری ج۴ص۲۸۹)
گردشِ ایام سے بعد میں معلوم ہوگیا کہ امام علیہ السلام نے جو قریش کے ایک فرد کے قتل ہونے کی خبر دی تھی وہ خود عبداللہ بن زبیر ہی نکلا کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اُس نے یزید اور امویوں پر خروج کیا اور نتیجے میں امویوں نے خانہ کعبہ کو منجنیق کے استعمال سے ویران کرکے حرمت شکنی کی۔
۵۔ عبداللہ بن عباس کی ملاقات
عبداللہ بن عباس نے امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی:
اے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے فرزند!آپ یا تو مکہ میں ٹھہریں اور یا پھر یمن کو چلے جائیں کیونکہ وہاں آپ کے شیعہ ہیں۔حضرت نے فرمایا:بنی امیہ مجھ سے ہاتھ نہیں اُٹھائے لہٰذا یا تو یزید کی بیعت کرلوں(جوکہ محال ہے)اور یا پھر شہید ہو جاؤں؟
(تاریخ طبری ج۴ص۳۸۸)
۶۔ عبداللہ بن جعفر کی ملاقات
مکہ سے ہجرت کرتے وقت عبداللہ بن جعفر نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کی اور امام علیہ السلام کو سفر پر جانے سے منع کیا،جب امام علیہ السلام نے قبول نہیں کیا تو عبداللہ نے اپنے دو فرزند امام کے ساتھ بھیج دیے جو دونوں کربلا میں شہید ہوگئے۔
۷۔ مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت کرتے وقت جابر کی ملاقات
علامہ بحرانی لکھتے ہیں:جب حسین ابن علی علیہما السلام عراق جانے کے لیے تیار ہوئے،جابر بن عبداللہ امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور عرض کی:آپ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند اور حضرت کے دونواسوں میں سے ایک ہیں،آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام نے صلح کی،کامیاب رہے،آگاہ تھے،آپ بھی ایسا ہی کریں۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:میرے بھائی امام حسن علیہ السلام نے وہ کام خدااور رسولِ خدا کے حکم کے مطابق انجام دیا اور میں بھی خدا اور اُس کے رسول کے حکم کے مطابق عمل کروں گا۔پھر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:کیا آپ چاہتے ہیں کہ ابھی ابھی حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حضرت علی علیہ السلام اور میرے بھائی کی میرے اس عمل پر تصدیق و گواہی دیکھیں؟
جابر نے عرض کی :جی ہاں۔پس امام علیہ السلام نے آسمان کی طرف نگاہ کی،جابر نے دیکھا کہ آسمانی دروازے کھل گئے ہیں،حضرت پیغمبر،حضرت علی، حضرت حسن،حضرت حمزہ اور حضرت جعفر(علیہم السلام)آسمان سے اُترے اور زمین پر آگئے۔جابر کہتے ہیں:میں وحشت زدہ ہوکر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:‘‘اے جابر!کیا میں نے تمہیں حسین سے پہلے حسن کے بارے میں بتایا نہیں تھا کہ مومن نہیں ہومگر یہ کہ آئمہ کے سامنے تسلیم رہو اور ان پر اعتراض نہیں کرو’’پس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیا پسند کرتے ہو کہ معاویہ،میرے فرزند حسین اور اس کے قاتل یزید کے مقامات دیکھو؟عرض کیا:جی ہاں اے اللہ کے رسول۔حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ نے زمین پر پاؤں سے ٹھوکر ماری،زمین شکافتہ ہوئی،ایک سمندر ظاہر ہوا،پھر سمندر شکافتہ ہوا اور زمین ظاہر ہوئی دوبارہ ایسا ہی ہوا یہاں تک کہ اسی طرح سے سات زمین اور سات سمندر شکافتہ ہوئے ،ان کے نیچے آگ دیکھی کہ ولید بن مغیرہ،ابوجہل،معاویہ اور یزید اس آگ کے اندر سرکش شیاطین کے ساتھ ایک زنجیر میں بندھے ہوئے تھے اور یہ سب بدترین جگہ اور شدید ترین عذاب میں گرفتار تھے۔اس وقت حریت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:سراوپر اٹھاؤ،میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ آسمان کے دروازے کھل گئے ہیں،بہشت کو آسمانوں کی انتہائی بلندی پر دیکھا،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ آسمان کی طرف تشریف لے گئے جس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمان کی طرف تشریف لے جارہے تھے انہوں نے فریاد بلند کی:اے میرے فرزند حسین!میرے ساتھ ملحق ہوجاؤ،حسین علیہ السلام ان کے ساتھ ملحق ہوگئے اور اوپر چلے گئے اور میں نے دیکھا کہ جنت کے اعلیٰ درجات میں پہنچ گئے۔
اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ نے امام حسین علیہ السلام کا ہاتھ جنت میں پکڑ لیا اور فرمایا:یہ حسین میرے فرزند اور یہاں میرے ساتھ ہیں،اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم رہو اور بالکل شک نہیں کرو تاکہ مومن رہو؛جابر (آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کے بعد)کہتے ہیں:
جو کچھ میں نے بیان کیاس ہے یہ سب کچھ اگر آنکھوں سے نہ دیکھا ہو تو دونوں آنکھوں سے محروم ہو جاؤں۔
(شاہکار آفرینش ص۸۰ تا ۸۴ ۔اور جابر والا مفصل واقعہ مذکورہ کتاب میں الثاقب فی المناقب ص۳۲۲ سے نقل کیا گیا ہے)۔
مدینہ سے ہجرت کے وقت کاروانِ حسینی
امام حسین علیہ السلام نے قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(اوربھائی اور مادر گرامی کی قبور) سے وداع کرنے کے بعد ۲۸ رجب سنہ۶۰ ہجری کو اپنے اہلبیت اور اعوان و انصار کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ کے قصد سے ہجرت فرمائی۔(بروز جمعہ تین شعبان مکہ پہنچے)۔
اس کاروان میں ۲۲۲ افراد تھے۔
(ایضاًاز معالی السبطین ج۱ ص۱۳۴)
کربلا میں داخل ہونےوالے سواری کے حیوانوں میں ۲۵۰ عدد گھوڑے اور ۲۵۰ عدد اونٹ تھے؛ماہ رجب کے ختم ہونے سے تین راتیں باقی تھیں جب مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت کی۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گو ڑا ‘‘مرتجز’’ کہ غزوۂ احد میں حضور اس پر سوار ہوئے تھے،پھر حضرت علی علیہ السلام کو منتقل ہوا اور حضرت جنگ صفین میں اس پر سوار ہوئے؛امام حسین علیہ السلام نے اپنے ساتھ لیا،اسی طرح حضرت پیغمبر کی شمشیر جس کا نام‘‘بتّار’’ تھا،ساتھ اٹھائی،رسول خدا کی ‘‘ ذات الفضول ’’ نامی زرہ جسم پر باندھی اور ‘‘سحاب’’نامی عمامۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سرمبارک پر رکھا۔
(ایضاً ص۸۷،۸۸)۔
ہجرت کی کیفیت
تاریخ میں ثبت و ضبط ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام اپنا وصیت نامہ لکھا تو وصیت نامے کو تہ کیا پھر اپنی مہر لگائی اور اپنے بھائی محمد حنفیہ کو دے دیا،بھائی سے خدا حافظی کی اور آدھی رات گذرچکی تو اپنے کاروان کے ہمراہ حضرت موسیٰ کی طرح انتہائی خوف کی حالت میں اپنے جد بزرگوارحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ منورہ چھوڑا اور مکہ کی طرف روانہ ہوگئے(واضح رہے کہ اس خوف سے مراد قطعاً جانی یا مالی خوف نہیں تھا کیونکہ امام علیہ السلام شہادت کی طلب میں اس سفر پر روانہ ہورہے تھے بلکہ ظاہراً اس سے مراد یہ اندیشہ تھا کہ جو بہت بڑا ہدف لے کر ہجرت کررہے ہیں وہ ہدف پورا ہو جائے)۔
اس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے:
فخرج منھا خائفا یترقب قال رب نجنی من القوم الظالمین
(سورہ قصص آیت ۲۱)
یعنی:موسیٰ خوف و پریشانی کی حالت میں(مصر سے) باہر نکلے اور کہہ رہے تھے:بارالہٰا! مجھے اس ستمگر و ظالم قوم کے شر سے نجات عطا فرما’’۔
(شاہکار آفرینش ص۷۹،از ارشاد مفید ج۲ ص۳۵)