- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- 2022/01/20
- 0 رائ
الله تعالی کا وجود ثابت هونے کے بعد نبوت اور نبی کے وجود کی ضرورت خود بخود ثابت هو جاتی ھے۔
سب سے پھلے ھم تعلیم وتربیت ِالٰھی کی ضرورت کو بیان کرتے ھیں :
ھدایت انبیاء کی انسانی ضرورت کو سمجھنے کے لئے خلقت انسان،ھدفِ خلقت اور اس ھدف ومقصد تک پھنچنے میں رکاوٹوں کی شناخت ضروری ھے اور جیسا کہ عنوان بحث سے معلوم ھے، ان مباحث کی عمیق تحقیق کواس مختصر مقدمہ میں بیان نھیں کیا جاسکتا، لیکن ضروری حد تک بعض نکات پیش کئے جارھے ھیں:
اول: انسان میں مختلف شہوتیں اورخواھشات موجود ھیں اور انسانی زندگی، نباتاتی حیات سے شروع هو کر، جو حیات کا ضعیف ترین مرتبہ ھے، عقل و شعور کے مرتبے تک جا پھنچتی ھے۔
انسانی فطرت و عقل، محدود حوائج رکھنے والے جسم اور نا محدود خواھشات رکھنے والی روح سے مرکب ھے۔ترقی اور بلندی میں فرشتوں سے بڑھ کر، جب کہ انحطاط وتنزل کے اعتبار سے جانوروں سے پست تر ھے۔
((عن عبداللّٰہ بن سنان، قال سالت اٴبا عبداللّٰہ جعفر بن محمد الصادق علیھما السلام، فقلت : الملائکة افضل ام بنو آدم ؟ فقال(ع) : قال امیر الموٴمنین علی بن ابی طالب(ع) : ان اللّٰہ عزوجل رکب فی الملائکة عقلاً بلا شھوة، ورکب فی البھائم شھوة بلا عقل،و رکب فی بنی آدم کلیھما، فمن غلب عقلہ شھوتہ فھو خیر من الملائکة، ومن غلبت شھوتہ عقلہ فھو شر من البھائم))[1]
اور اس تخلیق میں اتنی تازگی ھے کہ اس پیکر انسان کو ھر طرح سے مکمل کرنے اور اس میں حق جل و علیٰ سے منسوب روح پھونکنے کے بعد[2]، اس مخلوق کو تمام موجودات کے مقابلے میں ممتاز وجود سے سر فراز کیا، جس کی عظمت اس آیہٴ کریمہ <ثُمَّ اٴَنْشَاٴْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ>[3] سے روشن ھے۔
انسان جانتا ھے کہ اسے محدود مادی زندگی کے لئے خلق نھیں کیا گیا، کیونکہ حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ اوزار وآلات کو کام سے متناسب اور خلقت کی کیفیت کو ھدف و مقصد کے مطابق هونا چاہئے۔
اگر انسان کی زندگی اسی دنیا تک محدود هوتی تو شہوت، غضب اور ادراکِ حیوانی جو اس زندگی کے لذائذ کو جذب اور منفورات کو دفع کرتے ھیں، اس کے لئے کافی تھے۔عقل، جو لامحدود علم اور اخلاقی و عملی کمالات سے آراستگی کی خواھاں وعاشق ھے اور ایک مقام و مرتبے کو پانے کے بعد بالاتر مقام و مرتبے کی پیاسی فطرت، کا انسان کو عطا کیاجانا اس بات کی دلیل ھے کہ وہ لامحدود زندگی کے لئے خلق هوا ھے، جیسا کہ حدیث نبوی میں ھے: ((ما خلقتم للفناء بل خلقتم للبقاء و إنما تنقلون من دار إلی دار))[4]
حکیم علی الاطلاق کی حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ جس استعداد کو مخلوقاتِ کائنات میں قرار دیا ھے، اس قابلیت کو فعلیت تک پھنچانے کے عوامل بھی مھیا کرے،کیونکہ فعلیت کا روپ نہ دھارنے والی توانائی اور مطلوب کو حاصل نہ کرسکنے والی طلب بے کا ر و لغو ھیں۔
جس لا محدود علم و قدرت نے بیج کو پھلنے پھولنے کی استعداد و صلاحیت دی ھے اس نے پانی، خاک اور هوا کو بھی خلق کیا ھے، جو بیج کے پھلنے پھولنے میں موثر عوامل ھیں۔اگر انسانی نطفہ کو مختلف اعضاء و جوارح میں تبدیل هونے کی استعداد و صلاحیت دی ھے تو اس استعداد کو فعلیت تک پھنچانے کے لئے رحمِ مادر کو خلق کیا ھے، لہٰذ ا کیسے ممکن ھے کہ عقل کا بیج، جس کا ثمر علم و عمل ھیں اور روح کی لطافت کو تو خلق کر دے، جس میں علمی، عملی و اخلاقی کمال اور خدا کی معرفت حاصل کرنے کی استعداد و صلاحیت هو، لیکن عقل کے بیج کو ثمر تک پھنچنے اور استعدادِ روح کے فعلیت تک پھنچنے کے نہ تو وسائل مھیا کرے اور نہ ھی اس کی مقصدِ خلقت کی جانب ھدایت کرے ؟!
آیا ممکن ھے کہ <اٴَعْطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ ھَدیٰ>[5] جیسے عمومی قانون سے انسان مستثنی هو ؟!
یھیں سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ انسان کو مقصدِ خلقت تک پھنچانے کے لئے الٰھی ھدایت ضروری ھے۔
دوم: انسان فطری طور پر اپنے خالق کی تلاش وجستجو میں ھے اور یہ جاننا چاہتا ھے کہ اسے عدم سے وجود میں کون لایا ھے، یہ اعضاء و جوارح اسے کس نے عطا کئے ھیں اور نعمتوں کے دسترخوان پر اسے کس نے بٹھایا ھے، تاکہ بحکم عقل، منعمِ حقیقی کی شکر گذاری جیسی ذمہ داری کو انجام دے۔
ادھر اس کی ذات مقدس کو اس سے کھیں بلند و بالا سمجھتا ھے کہ خود جو سراپا جھل و خطا اور هوی ٰو ہوس ھے، اس حس و محسوس، وھم و موہوم اور عقل و معقول کے خالق کے ساتھ اپنی مشکلات کے حل کے لئے سوال و جواب کا رابطہ برقرار کرے، جس کی عظمت ِجمال و کمال لامتناھی اور ذات تمام نقائص و قبائح سے سبوح و قدوس ھے ۔
اس مسئلے کے حل کے لئے اسے ایک ایسے واسطے کی ضرورت ھے جو خلق کے ساتھ رابطے کے لئے ضروری هونے کے اعتبار سے انسانی صورت میں هو اور اور قانون تناسب فاعل اور قابل کے اعتبار سے، جو خالق کے ساتھ رابطے کا لازمہ ھے، خطا سے پاک ومنزہ عقل، هویٰ وہوس سے دور نفس اور الٰھی سیرت سے مزین هو، تاکہ اس میں یہ صلاحیت آجائے کہ نور وحی سے منور هو سکے اور ابواب ِمعارف ِالھیہ کو انسانوں کے سامنے پیش کر سکے،اور انھیں عقل کی معرفتِ حق سبحانہ سے تعطیل کی تفریط اور خدا کو خلق سے تشبیہ جیسے افراط[6] سے نجات دلاتے هوئے دین ِقیم کی صراط مستقیم کی جانب ھدایت کرے : <وَاٴَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوْہُ وَلاَ تَتَّبِعَوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ>[7]
سوم: انسان اپنی قدرت ِفکر کے ذریعے قوانین واسرارِ خلقت کو کشف کرنے اور ان کو اپنی خدمت پر مامور کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے،اس کے ساتھ ساتھ ایسی هوا و هوس اور شہوت وغضب کا مالک ھے جو انسانی طبیعت کے خاصہ کے مطابق حد شکنی اور افزون طلبی پر کمر بستہ رھنے کی وجہ سے قناعت پذیر نھیں ھے۔ان خصو صیات کی بنا پر زمین میں نیکی و بُرائی، انسان کی نیکی وبُرائی سے وابستہ ھے <ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ>[8] بلکہ <وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلاٴَرْضِ جَمِیْعاً مِنْہُ إِنَّ فِی ذٰلِکَ َلآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ>[9]کے مطابق تو دوسرے سیاروں میں نیکی و بُرائی بھی انسان کی نیکی و بُرائی سے وابستہ ھے اور اس انسان کی اصلاح فقط ھدایت پروردگار عالم سے ممکن ھے، جو اعتدال فکری کو عقائد حقہ اور اعتدال روحی کو اخلاق فاضلہ اوراعمال صالحہ کے ذریعے مھیا کرتی ھے۔
چھارم: مختلف ضروریات کی وجہ سے انسان کی زندگی معاشرے سے وابستہ ھے اور یہ وابستگی مختلف اورمتقابل حقوق کا سبب بنتی ھے۔ ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم اور ادا کئے بغیر اجتماعی زندگی بقا کے قابل نھیں ھے اور یہ حقوق اس وقت تک حاصل نھیں هو سکتے جب تک قانون ساز اور ان قوانین کا اجراء کرنے والا ھر قسم کے نقص وخطا سے محفوظ اور ذاتی مصلحتوں اور حق وانصاف کے سلسلے میں ،ھر قسم کے انحراف سے پاک ومنزہ نہ هو اور یہ کام خدائی اصول و قوانین اورالٰھی نمائندوں کے بغیر نا ممکن ھے:
<لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاٴَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ>[10]
اب جب کہ ثابت هوگیا کہ مبدا ومعاد اورمقصدِ تخلیق کی جانب انسان کی ھدایت ضروری ھے اور یہ بات بھی واضح هوگئی کہ فکری وعملی اعتبار سے انسان کی کمال تک رسائی، خواھشات نفسانی کا تعادل اور انفرادی و اجتماعی حقوق کا حصول ایک لازمی امر ھے، یہ جاننا نھایت ضروری ھے کہ ان مقاصد کو وحی ونبوت کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے عملی جامہ پھنانا ممکن نھیں ۔ خطا سے آلودہ ذھن اور هویٰ وہوس کی قید میں جکڑے هوئے ھاتھوں کے ذریعے یہ اھم مقاصد حاصل نھیں هو سکتے اورصرف تفکر وتدبر کے چراغوں سے انسانی فطرت میں موجود، مبھم نقاط روشن و واضح نھیں هو سکتے۔
انسان جب اپنی مافوق العادہ استعداد، صلاحیت اور افکار کے ذریعے اسرارِ جھان کی تلاش و جستجو میں نکلا تو ناگھاں اس نے دیکھا کہ بدن کی عناصرِ اربعہ سے ترکیب اور چار مخالف طبیعتوں کو مختلف امراض و علل کی بنیاد سمجھنے کے بارے میں اس کا تصور غلط ھے اور خلقت کے بارے میں جو تانا بانا اس نے مٹی، پانی، هوا، آگ اور ناقابل رسوخ وغیر پیوستہ آسمانی سیاروں سے بن رکھا تھا سب کھل کر رہ گیا اور یہ بات واضح و ثابت هوگئی کہ وہ ترکیب ِبدن جیسی خود سے نزدیک ترین چیز اور اس کی صحت و امراض کے علل و اسباب سے ناواقف تھا اور جو کچھ نزدیک ترین آسمانی سیارے یعنی چاند کے بارے میں سمجھتا تھا سب غلط نکلا۔آیا اس انسان کا یہ چراغِ فکر، معرفت مبدا و معاد اور اسباب ِسعادت و شقاوت کی جانب اس کی ھدایت و راھنمائی کر سکتا ھے؟!
انسانی علم و دانش جو ایک ذرّے کے دل میں چھپے هوئے اسرار کے ادراک سے عاجز ھے، انسان و جھان کے آغاز و انجام کے لئے ھادی، معرفت مبدا و معاد کے لئے مشکل کشاء اور اس کی دنیوی و اخروی سعادت کے لئے رھنما کیسے ثابت هو سکتا ھے ؟!
((فبعث فیھم رسلہ و واتر إلیھم اٴَنبیائہ لیستاٴدوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسی نعمتہ و یحتجوا علیھم بالتبلیغ و یثیروا لھم دفائن العقول و یروھم آیات المقدرة)) [11]
حواله جات
________________________________________
[1] علل الشرایع ،ج۱ ،ص۵، باب ۶، حدیث ۱۔(عبد اللہ بن سنان نے کھا میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا ملائکہ افضل ھیں یا بنی نوع آدم؟
امام نے علیہ السلام نے فرمایا: حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ھیں:خد اوند متعال نے ملائکہ کو عقل بغیر شہوت وھواء پرستی کے عطا کی ھے اور جانوروں میں شہوت بغیر عقل کے اور انسان میں ان دونوں کو جمع کیا ھے بس جو اپنی عقل کے ذریعہ شہوت کو قابو میں رکھے وہ ملائکہ سے افضل ھے اور وہ جس کی عقل پر اس کی شہوت غلبہ کر لے وہ جانور وں سے بدتر ھے۔
[2] سورہ حجر کی آیت نمبر ۲۹ کی طرف اشارہ ھے:<فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ>
”بس جس وقت میں نے اس کا پتلا بنایا اور اس میں روح پھونکی(اور کھا )آدم کے لئے سجدہ میں گر جاوٴ“۔
[3] سورہ مومنون، آیت ۱۴۔”اس کے بعد ھم نے اس کو ایک دوسری صورت میں پیدا کیا تو (سبحان اللہ )خدا با برکت ھے جو سب بنانے والوں سے بہتر ھے“۔
[4] بحار الانوارج۶ ص۲۴۹۔”تم فنا کے لئے نھیں پیدا هوئے هو بلکہ باقی رھنے کے لئے خلق هوئے هو اور بے شک اس کے علاوہ کچھ بھی نھیں کہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل هو رھے هو“۔
[5] سورہ طہ، آیت ۵۰۔”ھر چیز کو اس نے خلق کیا پھر ھدایت کی“۔
[6] افراط در تشبیہ:(یعنی خدا کو مخلوق کی طرح سمجھنا)
[7] سورہ انعام ، آیت۱۵۳۔”اور بے شک یھی میرا سیدھا راستہ ھے بس اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو جو تم کو اللہ کے راستہ سے بھٹکا کر تتر بتر کردیں گے یہ وہ باتیں ھیں جن کا خدا نے تم کو توصیہ کیا ھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو“۔
[8] سورہ روم ، آیت ۴۱۔”خود لوگوں ھی کے اپنے ھاتھوں کی کارستانیوں کی بدولت خشک وتر میں فساد پھیل گیا“۔
[9] سورہ جاثیہ ، آیت ۱۳۔”خدانے تمھارے لئے تسخیر کردیا ان سب کو جو زمین وآسمان میں ھے یہ سب خدا کی طرف سے ھے بے شک ان سب میں لوگوں کے لئے نشانیاں ھیں جو تفکر کرتے ھیں“۔
[10] سورہ حدید ، آیت ۲۵۔”بہ تحقیق ھم نے اپنے پیغمبروں کو دلائل کے ساتھ بھیجا ھے اور ان کے ساتھ کتاب میزان کو نازل کیا ھے تاکہ لوگ عدل کو برپا کریں“۔
[11] نھج البلاغہ خطبہ نمبر۱۔(پس خدانے ان کے درمیان اپنے رسولوں کو مبعوث کیا اور لگا تار وہ بھیجتا رھا تاکہ وہ لوگ اس عھد وپیمان کو جو خدانے ان کی فطرت کے ساتھ باندھا تھا طلب کر سکیں اور لوگوں کو فراموش شدہ نعمت کو یاد دلائیں<وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ وَمِیثَاقَہُ الَّذِی وَاثَقَکُمْ بِہِ>( سورہ مائدہ ، آیت ۷)”اور تبلیغ وحیٴ الٰھی کے ذریعہ ان پر حجة کو تمام کردیں اور عقل کے چھپے خزانوں کو آشکار کردیں اور قدرت کی نشانیوں کو ان کے سامنے پیش کریں“۔