- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- 2022/01/20
- 0 رائ
قرآن اور روایات کے پیش نظر یہ ایک مسلمہ امر ھے کہ انسانوں کے دنیاوی اعمال آخرت میں ان کے سامنے مجسم ھو کر آئیں گے اچھے اعمال اچھی شکلوں میں اور بُرے اعمال بُری شکلوں میں ،آج اس بات کو قبول کرنا اور آسان ھو گیا ھے اس لئے کہ آج کی تحقیق نے یہ ثابت کر دکھایا کہ آج سے ۲۰/ سال پھلے مرنے والے مردے کی آواز کو سن کر پیش کیا جاسکتا ھے ۔
قرآن میں تجسّم اعمال کا ذکر
قرآن میں تجسّم اعمال کے بارے میں کئی آیات ھیں جن میں سے ھم چند آیات کو یھاں ذکر کرتے ھیں ۔
۱۔< یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ اٴَنَّ بَیْنَہَا وَبَیْنَہُ اٴَمَدًا بَعِیدًا>[1]
ترجمہ::”یعنی قیامت کے دن نفس نے جو بھی نیک اعمال کئے ھوں گے انھیں حاضر پائے گا اور جو بھی اس نے بُرے اعمال کئے ھوں گے چاھے گا کہ اس کے اور اس کے بُرے اعمال کے درمیان کافی فاصلہ ھو جائے ۔“
۲۔< وَبَدَا لَہُمْ سَیِّئَاتُ مَا کَسَبُوا وَحَاقَ بِہِمْ مَا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِئُون>[2]
ترجمہ:”یعنی انھوں نے جو بُرے اعمال کئے ھوں گے ان کے سامنے ظاھر
ھوجائیں گے اور انھوں نے جو مسخرہ کیا تھا اللہ اس کے سبب ان کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا۔“
۳۔<یَوْمَئِذٍ یَصْدُرُ النّاسُ اَشْتاتاً لِیُرَوْا اَعْمالَھُمْ .فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَیْراً یَرَہُ.وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَہُ>[3]
ترجمہ:”یعنی قیامت کے دن لوگ مختلف گروھوں کی صورت میں قبروں سے نکلیں گے تاکہ انھیں ان کے اعمال دکھائے جائیں لہٰذا جس نے جو بھی ذرّہ برابر نیکی کی ھوگی اسے بھی وہ دیکھے گا اور جس نے ذرّہ برابر بھی برائی کی ھوگی اسے بھی وہ دیکھے گا ۔“
۴۔<وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلاَیَظْلِمُ رَبُّکَ اٴَحَدًا>[4]
ترجمہ:”یعنی قیامت کے دن تمام لوگ اپنے اعمال کو حاضر پائیں گے اور تمھارا پرور دگار کسی ایک پر بھی ظلم نھیں کرتا ھے۔“
۵۔< یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ فَاٴَمَّا الَّذِینَ اسْوَدَّتْ وُجُوہُہُمْ اٴَکَفَرْتُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُونَ . وَاٴَمَّا الَّذِینَ ابْیَضَّتْ وُجُوہُہُمْ فَفِی رَحْمَةِ اللهِ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ>[5]
ترجمہ:”قیامت کے دن کچھ چھرے سفید اور کچھ چھرے سیاہ ھوں گے پھر جن کے چھرے سیاہ ھوں گے تو ان سے کھا جائے گا کہ کیا تم لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ھو گئے ؟
پس اب اپنے کفر کے سبب عذاب کا مزہ چکھو، اور جن کے چھرے سفید ھوں گے وہ خدا کی رحمت میں رھیں گے ھمیشہ ھمیشہ کے لئے ۔“
نکتہ:مذکورہ تمام آیات سے یھی پتہ چلتا ھے کہ قیامت کے دن خود انسانوں کے اعمال مجسم ھو کر انسانوں کے سامنے آجائیں گے اور انسان اپنی آنکھوں سے اپنے گناھوں کا مشاھدہ کریںگے۔
روایات میں تجسم اعمال کا ذکر
روایات کے مطابق جب انسان کوموت آجائے گی اور عالم برزخ میں پھنچ جائے گا پھر میدان قیامت میں اس کے اعمال اچھے ھوں یا بُرے مختلف شکلوں میں ا س کے سامنے آئیں گے اگر نیک اعمال ھوں گے تو اچھی صورتوں میں آئیں گے اور اپنے صاحب کی خوشی و سرور کا باعث ھوں گے اور اگر بُرے اعمال ھوں گے تو بُری شکلوں میں ظاھر ھو کر اپنے صاحب کی اذیت وآزار کا موجب بنیں گے۔
اس سلسلے میں روایات اسلامی اس قدر زیادہ ھیں کہ شیخ بھائی (رہ)(متوفیٰ ۱۰۳۰ ھ) لکھتے ھیں: ”تَجَسُّمُ الْاَعْمالِ فِی النَّشْاٴَةِ الْاُخْرَوِیَّةِ قَدْوَرَدَفِی اَحادیثٍ مُتَکَثِّرَةٍ مِنْ طُرُقِ الْمُخالِفِ وَ الْمُوٴالِفِ“یعنی دوسری دنیا میں تجسم اعمال کا مسئلہ کثرت کے ساتھ اھل سنت اور شیعہ دونوں سے نقل ھوا ھے ۔[6]
مطلب کو واضح کرنے کے لئے ، روایات کو ذکر کرنے سے پھلے آپ کے سامنے ایسے واقعہ کو پیش کرتا ھوں جو کہ عالم برزخ میں تجسم اعمال کی حکایت کرتا ھے ،بہت بڑے عالم دین آیة ۔۔۔ علامہ حاج مرزا علی شیرازی (رہ)جنھوں نے سالھا سال حوزہ علمیہ اصفھان میں تدریس کی ھے اور استاد مطھری نے درس عرفان و نہج البلاغہ انھیں سے پڑھے ھیں ،ان کے بارے میں نقل کرتے ھیں کہ مرحوم مرزاعلی (رہ)کا ارتباط پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور اھل بیت (ع)سے کافی قوی تھا اور یہ فقیہ حد اجتھاد تک پھنچنے کے علاوہ حکیم و عارف اورطبیب و ادیب بھی تھے اور حکیم بوعلی سینا کی کتاب قانون کی بھی تدریس کرتے تھے حضرت آیة ۔۔۔ بروجردی (رہ)محرم کے عشرے میں ان کو ھی پڑھنے کے لئے بلواتے تھے ،
اور ان کی مجلس میں گریہ بہت ھوا کرتا تھا شیخ مطھری نقل کرتے ھیں کہ ایک دن استاد مرزا علی شیرازی(رہ) درس میں گریہ کرتے ھوئے اپنے اس خواب کو نقل کرتے ھیں کہ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا میری موت واقع ھو چکی ھے میں اپنے بدن کو غسل دیتے ھوئے کفن پھناتے ھوئے اور دفن ھوتے ھوئے دیکھ رھا ھوں اوریہ کہ لوگ مجھے دفن کرکے قبر میں واپس چلے گئے اور اچانک ایک سفید رنگ کا کتا میری قبر میں داخل ھوا اسی حالت میں میںنے محسوس کیا کہ یہ میرا غصہ ھے جو مجسم ھو کر اس طرح سے مجھے تکلیف پھنچانے کے لئے آیا ھے مضطرب ھوا اسی اثناء میں سیدالشھداء امام حسین (ع) کو دیکھا کہ انھوں نے کھا گھبراوٴنھیں میں اس کتے کو تم سے دور کردوں گا، انھوں نے اس کتے کو مجھ سے دور کیا تب جاکر مجھے سکون ھوا۔ [7]
بیشک بُری صفات ِانسانی مجسم ھو کر انسان کی اذیت و آزار کو آتی ھیں لیکن اگر اس کا معنوی ارتباط اولیاء خدا(ع) سے ھو تو وہ اس کی مدد کو پھنچتے ھیں ،لہٰذا اس اعتبار سے ھم دیکھتے ھیںکہ عالم برزخ جوکہ ایک طرح کی قیامت صغریٰ ھے جو ھمارے پانچ یا دس قدم پر واقع ھے اور قیامت کبریٰ کی نشاندھی کر رھی ھے تجسم اعمال کے مسئلے کو ھمارے لئے واضح کر رھی ھے مزید اس مسئلے کو روشن کرنے کے لئے ھم چند روایات کو آپ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ھیں :
۱۔پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:”مجھے جبرائیل (ع) نے اس طرح سے نصیحت کی :
”یامُحَمَّدُ عِشْ ماشِئْتَ فَاِنَّکَ مَیِّتٌ،وَاَحْبِبْ ماشِئتَ فَاِنَّکَ مُفارِقُہُ، وَاْعمَلُ ماشِئْتَ فَاِنَّکَ مُلاقِیہِ۔“[8]
ترجمہ:”یعنی اے محمد(ص)!جتنی چاھو زندگی گزارو لیکن آخر کار ایک دن موت آنی ھے اور جنتا بھی کسی چیز کو دوست رکھوگے یاد رکھو کے ایک دن تمھیں اس سے جدا ھونا ھے اور جو عمل بھی انجام دو یاد رکھو ایک دن اسی عمل سے ملاقات کرنی ھے ۔“
۲۔امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
”اِنَّ الْعَمَلَ الصّالِحَ یَذْھَبُ اِلَی الْجَنَّةِ ،فَیُمَھِّدُ لِصاحِبِہِ،کَمایَبْعَثُ الرَّجُلُ غُلٰامَہُ فَیَفْرِشُ لَہُ۔“[9]
ترجمہ:”یعنی عمل صالح بہشت کی طرف جاکر انسان کے لئے بہشت کو آمادہ کرتا ھے جس طرح ایک شخص اپنے غلام کو کھیں بھیجتا ھے تاکہ اس جگہ کو اپنے آقا کے لئے آمادہ کرے ۔“
۳۔حضرت علی(ع) نے ارشاد فرمایا:”ھر انسان کے تین طرح کے دوست ھوتے ھیں ایک دوست کہتا ھے میں فقط تیری موت تک تیرا ساتھ دے سکتا ھوں وہ اس کا مال ھے جو انسان کے مرتے ھی اس سے جدا ھو کر وارثوں کے پاس چلاجاتا ھے ،دوسرا دوست کہتاھے میں قبر تک تمھارا ساتھ دے سکتا ھوں اس سے زیادہ تمھار ا ساتھ نھیں دے سکتا یہ اس کی اولاد اور رشتہ دار ھیں تیسرا دوست جو اس سے کہتا ھے ”اَنَا مَعَکَ حَیّاً وَ مَیِّتاً وَھُوَ عَمَلُہُ“کہ میں تمھارے ساتھ ھوں زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی وہ اس کا عمل ھے ۔[10]
۴۔قیس بن عاصم صحابیٴ پیغمبر(ص)نقل کرتے ھیں کہ ایک دفعہ ھم کچھ اصحاب جمع ھو کر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے پاس گئے اور عرض کی یا رسول اللہ(ص) ھمیں کچھ وعظ و نصیحت کریں تو آنحضرت(ص) نے فرمایا:
”لابُدَّ لَکَ مِنْ قَرِینٍ یُدْفَنُ مَعَکَ،وَھُوَ حَیٌّ وَ تُدْفَنُ مَعَہُ وَ اَنْتَ مَیِّتٌ ،فَاِنْ کانَ کریماً اَکْرَمَکَ،وَ اِنْ کانَ لَیئماً اَسْلَمَکَ،ثُمَّ لایُحْشَرُ اِلاَّمَعَکَ،وَلا تُحْشَرُ اِلاَّمَعَہُ،ولاتُسئَلُ اِلاَّعَنْہُ،فَلا تَجْعَلْہُ اِلاَّصالِحاً،فَاِنَّہُ اِنْ صَلُحَ آنَسْتَ بِہِ،وَ اِنْ فَسَدَلا تَسْتَوحِشْ اِلاَّمِنْہُ وَھُوَ فِعْلُکَ۔“[11]
ترجمہ:”یعنی اے قیس!ایسے دوست کے ساتھ قرارپاوٴگے جو تمھارے ساتھ دفن ھوگا جب کہ وہ زندہ ھوگا،اور تم اس کے ساتھ دفن ھوگے اس حالت میں کہ تم مردہ ھوگے اگر وہ اچھا ھوگا تو تمھیں بھی اچھا رکھے گا ،اگر وہ بُراھوگا تو تمھیں بھی عذاب و تکلیف میں رکھے گا ،وہ قیامت میں ضرور تمھارے ساتھ محشور ھوگا اور تم اس کے ساتھ محشور ھوگے اور تم سے صرف عمل کے بارے میں سوال ھوگا ،لہٰذا عمل کو اچھا کرو کیونکہ اگر وہ اچھا ھوگا تو تمھیں آرام سے رکھے گا اور اگر وہ بُرا ھوگا توتمھارے لئے وحشت اور عذاب کا سبب بنے گا۔“
یعنی جب بندہٴ موٴمن قیامت کے دن قبر سے باھر آئے گا تو اس کا نیک عمل ایک اچھے شخص کی صورت میں اس کے سامنے آئے گا ،یہ پوچھے گاتم کون ھو،تم تو اچھے شخص معلوم ھوتے ھو،وہ کھے گا میں تمھارا عمل ھوں ،لہٰذا وہ عمل نیک اس کے لئے قیامت کے دن نورانیت اور بہشت میں لے جانے کے سلسلے میں رھنما ثابت ھوگا ۔
انسانو ں کے اعمال پر گواہ
جیسا کہ آیات اور روایات سے معلوم ھوتا ھے کہ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کے علاوہ بھی گواہ ھوں گے کیونکہ قیامت کے بارے میں ارشاد ھوا:<یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبارَھا>[12]”یعنی قیامت کے دن زمین اپنی تمام خبریں بیان کرے گی۔“
حضرت علی (ع) کا ارشاد گرامی ھے :
”مامِنْ یَوْمٍ یَمُرُّ عَلٰی ابْنِ آدَمَ اِلَّاقالَ لَہُ ذلِکَ الْیَوْمُ:اَنَا یَوْمٌ جَدیدٌ وَاَنَا عَلَیْکَ لَشَھیدٌ،اَشْھَدُ لَکَ بِہِ یَوْمَ الْقیامَةِ ۔“[13]
یعنی کوئی دن انسان پر ایسا نھیں گزرتا مگر یہ کہ وہ دن اس سے کہتا ھے میں نیا دن ھوں اور میں تم پر گواہ ھوں (جو بھی کام آج تم انجام دوگے) میں قیامت کے دن اس پرگواھی دوں گا۔“
امام محمد باقر (ع) نے ارشاد فرمایا:”وَلَیْسَتْ تَشْھَدُ الْجَوارِحُ عَلی مُوٴمِنٍ ،اِنَّما تَشْھَدُ عَلیْ مَنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ کَلِمَةُ الْعَذابِ۔“[14]
ترجمہ:”یعنی موٴمن کے اعضاء و جوارح اس کے خلاف گواھی نھیں دیں گے بلکہ صرف اس کے خلاف گواھی دیں گے جس کے لئے عذاب برحق ھو چکا ھوگا۔“
قرآن میں انسانوں کے اعمال پر گواھوں کا ذکر
۱۔خود خدا کا گواھی دینا جیسا کہ ارشاد ھوا< وَلاَتَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُودًا>[15]”یعنی تم لوگوں سے کوئی عمل سرزد نھیں ھوتا ھے مگر یہ کہ ھم اس پر گواہ ھیں ۔“
۲۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور ائمہ معصومین (ع) کا گواھی دینا جیسا کہ ارشاد ھوا <فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اٴُمَّةٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاَءِ شَہِیدًا>[16]”یعنی اس وقت ان کا حال کیا ھوگا جب ھم ھر امت سے گواھوں کو طلب کریں گے اور آپ کو ان گواھوں پر گواہ بنا کر پیش کریں گے۔“
۳۔ملائکہ کا گواھی دینا جیسا کہ ارشاد ھوا <وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰافِظینَ> [17]
یعنی بیشک ملائکہ تم لوگوں پر محافظ ھیں ۔(جو انسانوں کے اعمال لکھ کر قیامت کے دن گواھی دیںگے )
۴۔اعضاء و جوارح کا گواھی دینا جیسا کہ ارشاد ھوا ۔<الْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اٴَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا اٴَیْدِیہِمْ وَتَشْہَدُ اٴَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ>[18]
ترجمہ:”یعنی قیامت کے دن ھم ان کے منھ پر مھر لگا دیں گے اور ان کے ھاتھ ،پیر ھمارے سامنے ان کے اعمال پر گواھی دیں گے۔“
۵۔خود انسانوں کے اعمال کا گواھی دینا جیسا کہ ارشاد ھوا۔<ھذا کِتابُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ اِنّا کُنّا نَسْتَنْسِخُ ماکُنْتُمْ تَعْلَمُونَ>[19]
ترجمہ:”ھماری کتاب جو تم سے حق بات کرتی ھے جو کچھ تم کرتے تھے ھم لکھتے جاتے تھے ۔“
________________________________________
[1] سورہٴ آل عمران آیت ۳۰ ۔
[2] سورہٴ زمر آیت ۴۸۔
[3] سورہٴ زلزال آیت ۶۔۷۔
[4] سورہٴ کہف آیت ۴۹۔
[5] سورہ ٴ آل عمران آیت۱۰۶۔۱۰۷۔
[6] بحار الانوار ج۷ص۲۲۸۔
[7] کتاب عدل الٰھی ص۲۱۲۔
[8] کنزل العمال ج۱۵ص۵۴۶،بحارالانوار ج۷۱ص۱۸۸۔
[9] بحارالانوار ج۷۱ص۱۸۵۔
[10] بحارالانوار ج۷۱ص۱۷۵۔
[11] کنزل العمال ج۱۴ ص۳۶۶۔
[12] سورہٴ زلزال آیت ۴۔
[13] تفسیر نور الثقلین ج۵ص۱۱۲۔
[14] بحارالانوار ج۷ ص۳۱۸۔
[15] سورہٴ یونس آیت ۶۱۔
[16] سورہٴ نساء آیت ۴۱۔
[17] سورہٴ انفطار آیت ۱۰۔
[18] سورہٴ یٰس آیت ۶۵۔
[19] سورہٴ جاثیہ آیت ۲۹۔