- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
ابو الجارود! ميں نے امام باقر(ع) سے عرض کيا ، فرزند رسول ۔! آپ کو تو معلوم ہے کہ ميں آپ کا چاہنے والا، صرف آپ سے وابستہ آپ کا غلام ہوں؟ فرمايا ۔بيشک!
ميں نے عرض کيا کہ مجھے ايک سوال کرنا ہے، اميد ہے کہ آپ جواب عنايت فرما ديں گے، اس لئے کہ ميں نابينا ہوں، بہت کم چل سکتا ہوں اور بار بار آپ کي خدمت ميں حاضر نہيں ہو سکتا ہوں، فرمايا بتاؤ کيا کام ہے؟ ميں نے عرض کي آپ اس دين سے باخبر کريں جس سے آپ اور آپ کے گھر والے اللہ کي اطاعت کرتے ہيں تا کہ ہم بھي اس کو اختيار کرسکيں۔
فرمايا کہ تم نے سوال بہت مختصر کيا ہے مگر بڑا عظيم سوال کيا ہے خير ميں تمھيں اپنے اور اپنے گھر والوں کے مکمل دين سے آگاہ کئے ديتا ہوں ديکھو يہ دين ہے توحيد الہي، رسالت رسول اللہ ان کے تمام لائے ہوئے احکام کا اقرار ہمارے اولياء سے محبت ہمارے دشمنوں سے عداوت ، ہمارے امر کے سامنے سراپا تسليم ہوجانا ، ہمارا قائم کا انتظار کرنا اور اس راہ ميں احتياط کے ساتھ کوشش کرنا ۔( کافي 1 ص 21 /10۔203۔)
ابوبصير! ميں امام باقر(ع) کي خدمت ميں حاضر تھا کہ آپ سے سلام نے عرض کيا کہ خيثمہ بن ابي خيثمہ نے ہم سے بيان کيا ہے کہ انھوں نے آپ سے اسلام کے بارے ميں دريافت کيا تو آپ نے فرمايا کہ جس نے بھي ہمارے قبلہ کا رخ کيا ، ہماري شہادت کے مطابق گواہي دي، ہماري عبادتوں جيسي عبادت کي، ہمارے دوستوں سے محبت کي ، ہمارے دشمنوں سے نفرت کي وہ مسلمان ہے۔
فرمايا خيثمہ نے بالکل صحيح بيان کيا ہے… ميں نے عرض کي اور ايمان کے بارے ميں آپ نے فرمايا کہ خدا پر ايمان، اس کي کتاب کي تصديق اور ان کي نافرماني نہ کرنا ہي ايمان ہے۔ فرمايا بيشک خيثمہ نے سچ بيان کيا ہے۔( کافي 2 ص 38 /5)۔204۔
علي بن حمزہ نے ابوبصير سے روايت کي ہے کہ ميں نے ابوبصير کو امام صادق(ع) سے سوال کرتے سنا کہ حضور ميں آپ پر قربان، يہ تو فرمائيں کہ وہ دين کيا ہے جسے پروردگار نے اپنے بندوں پر فرض کيا ہے اور اس سے ناواقفيت کو معاف نہيں کيا ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئي دين قبول کيا ہے؟
فرمايا: دوبارہ سوال کرو…انھوں نے دوبارہ سوال کو دہرايا تو فرمايا لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ کي شہادت نمازکا قيام،زکٰوة کو ادائيگي، حج بيت اللہ استطاعت کے بعد، ماہ رمضان کے روزہ۔
يہ کہہ کر آپ خاموش ہوگئے اور پھر دو مرتبہ فرمايا ولايت ، ولايت ( کافي 2 ص22 /11)۔205۔
عمرو بن حريث 1 ميں امام صادق(ع) کي خدمت ميں حاضر ہوا جب آپ اپنے بھائي عبداللہ بن محمد کے گھر پر تھے، ميں نے عرض کيا کہ ميں آپ پر قربان! يہاں کيوں تشريف لے آئے؟ فرمايا ذرا لوگوں سے دور سکون کے ساتھ رہنے کے لئے۔
ميں نے عرض کي ميں آپ پر قربان کيا ميں اپنا دين آپ سے بيان کرسکتاہوں، فرمايا بيان کرو۔
ميں نے کہا کہ ميرا دين يہ ہے کہ ميں لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ کلمہ پڑھتا ہوں اور گواہي ديتا ہوں کہ قيامت آنے والي ہے، اس ميں کسي شک کي گنجائش نہيں ہے، اور پروردگار سب کو قبروں سے نکالے گا، اور يہ کہ نماز کا قيام، زکٰوة کي ادائيگي، ماہ رمضان کے روزے، حج بيت اللہ ، رسول اکرم کے بعد حضرت علي(ع) کي ولايت، ان کے بعد امام حسن (ع) ،امام حسين (ع) ، امام علي (ع) بن الحسين(ع) ، امام محمد (ع) بن علي (ع) اور پھر آپ کي ولايت ضروري ہے، آپ ہي حضرات ہمارے امام ہيں، اسي عقيدہ پر جينا ہے اور اسي پر مرناہے اور اسي کو لے کر خدا کي بارگاہ ميں حاضر ہوناہے۔
فرمايا واللہ يہي دين ميرا اور ميرے آباء و اجداد کا ہے جسے ہم علي الاعلان اور پوشيدہ ہر منزل پر اپنے ساتھ رکھتے ہيں۔( کافي 1 ص 23 /14)۔206۔
معاذ بن مسلم ! ميں اپنے بھائي عمر کو لے کر امام صادق (ع) کي خدمت ميں حاضر ہو اور ميں نے عرض کي کہ يہ ميرا بھائي عمر ہے، يہ آپ کي زبان مبارک سے کچھ سننا چاہتاہے، فرمايا دريافت کروکيا دريافت کرناہے۔
کہا کہ وہ دين بتاديجيئے جس کے علاوہ کچھ قابل قبول نہ ہو اور جس سے ناواقفيت ميں انسان معذور نہ ہو، فرمايا لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کي گواہي ، پانچ نمازيں ، ماہ رمضان کے روزے، غسل جنابت، حج بيت اللہ، جملہ احکام الہي کا اقرار اور ائمہ آل محمد کي اقتداء\…!
عمر نے کہا کہ حضور ان سب کے نام بھي بتا ديجئے ؟ فرمايا امير المومنين(ع) علي(ع)، حسن (ع) ، حسين (ع) ، علي بن الحسين (ع) ، محمد (ع) بن علي (ع) ، اور يہ خير خدا جسے چاہتا ہے عطا کر ديتا ہے۔
عرض کي کہ آپ کا مقام کياہے؟ فرمايا کہ يہ امر امامت ہمارے اول و آخر سب کے لئے جاري و ساري ہے۔( محاسن 1 ص 450 /1037 ، شرح الاخبار 1 ص 224 /209 ، اس روايت ميں غسل جنابت کے بجائے طہارت کا ذکر ہے)۔207۔
روايت ميں وارد ہواہے کہ مامون نے فضل بن سہل ذوالرياستيں کو امام رضا کي خدمت ميں روانہ کيا اور اس نے کہا کہ ميں چاہتاہوں کہ آپ حلال و حرام ، فرائض و سنن سب کو ايک مقام پر جامع طور پر پيش کرديں کہ آپ مخلوقات پر پروردرگار کي حجت اور علم کا معدن ہيں۔
آپ نے قلم و کاغذ طلب فرمايا اور فضل سے فرمايا کہ لکھو ہمارے لئے يہ کافي ہے کہ ہم اس بات کي شہادت ديں کہ خدا کے علاوہ کوئي دوسرا خدا نہيں ہے، وہ احدہے ، صمد ہے، اس کي کوئي زوجہ يا اولاد نہيں ہے وہ قيوم ہے، سميع و بصير ہے، قوي و قائم ہے، باقي اور نور ہے، عالم ہر شے اور قادر عليٰ کل شي ہے۔ ايسا غني جو محتاج نہيں ہوتاہے اور ايسا عادل جو ظلم نہيں کرتاہے، ہر شے کا خالق ہے، اس کا کوئي مثل نہيں ہے، اس کي شبيہ و نظير اور ضد يا مثل نہيں ہے اور اس کا کوئي ہمسر بھي نہيں ہے۔
پھر اس بات کي گواہي ديں کہ محمد (ع) اس کے بندہ ، رسول ، امين ، منتخب روزگار، سيد المرسلين، خاتم النبييّن ، افضل العالمين ہيں، اس کے بعد کوئي نبي نہيں ہے، ان کے نظام شريعت ميں کوئي تبديلي ممکن نہيں ہے، وہ جو کچھ خدا کي طرف سے لے کر آئے ميں سب حق ہے ، ہم سب کي تصديق کرتے ہيں اور ان کے پہلے کے انبياء و مرسلين اور حجج الہيہ کي تصديق کرتے ہيں، اس کي کتاب صادق کي بھي تصديق کرتے ہيں جہاں تک باطل کا گذر نہ سامنے سے ہے اور نہ پيچھے سے، وہ خدائے حکيم و حميد کي تنزيل ہے۔(فصلت 42)۔
يہ کتاب تمام کتابوں کي محافظ اور اول سے آخر تک حق ہے، ہم اس کے محکم و متشابہ ، خاص و عام ، وعد و وعيد، ناسخ و منسوخ، اور اخبار سب پر ايمان رکھتے ہيں، کوئي شخص بھي اس کا مثل و نظير نہيں لا سکتاہے۔
اور اس بات کي گواہي ديتے ہيں کہ رسول اکرم کے بعد دليل اور حجت خدا، امور مسلمين کے ذمہ دار، قرآن کے ترجمان، احکام الہيہ کے عالم ان کے بھائي ، خليفہ ، وصي ، صاحب منزلت ہارون علي (ع) بن ابيطالب امير المومنين ، امام المتقيم ، قائد لغراالمحجلين، يعسوب المومنين ، افضل الوصيين ہيں اور ان کے بعد حسن (ع) و حسين (ع) ہيں اور آج تک يہ سلسلہ جاري ہے، يہ سب عترت رسول اور اعلم بالکتاب و السنه ہيں۔
سب سے بہتر فيصلہ کرنے والے اور ہر زمانہ ميں امامت کے سب سے زيادہ حقدار ہيں، يہي عروة الوثقيٰ ہيں اور يہي ائمہ ہدي ميں اور يہي اہل دنيا پر حجت پروردگار ہيں، يہاں تک کہ زمين اور اہل زمين کي وراثت خدا تک پہنچ جائے کہ وہي کائنات کا وارث و مالک ہے اور جس نے بھي ان حضرات سے اختلاف کيا وہ گمراہ اورگمراہ کن ہے، حق کو چھوڑنے والا اور ہدايت سے الگ ہوجانے والا ہے، يہي قرآن کي تعبير کرنے والے اور اس کے ترجمان ہيں، جو ان کي معرفت کے بغير اور نام بنام ان کي محبت کے بغير مرجائے وہ جاہليت کي موت مرتاہے۔( تحف العقول ص 415)۔208۔
عبدالعظيم بن عبداللہ الحسنئ کا بيان ہے کہ ميں امام علي نقي (ع) بن محمد (ع) بن علي (ع) بن موسيٰ (ع) بن جعفر (ع) بن محمد (ع) بن علي (ع) بن الحسين (ع) بن علي (ع) بن ابي طالب (ع) کي خدمت ميں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے ديکھ کر مرحبا کہا اور فرمايا کہ تم ہمارے حقيقي دوست ہو۔
ميں نے عرض کي کہ حضور ميں آپ کے سامنے اپنا پورا دين پيش کرنا چاہتاہوں کہ اگر صحيح ہے تو ميں اسي پر قائم رہوں ؟
آپ نے فرمايا ضرور ۔!
ميں نے کہا کہ ميں اس بات کا قائل ہوں کہ خدا ايک ہے، اس کا کوئي مثل نہيں ہے ، وہ ابطال اور تشبيہ دونوں حدودں سے باہر ہے، نہ جسم ہے نہ صورت ، نہ عرض ہے نہ جوہر، تمام اجسام کو جسميت دينے والا اور تمام صورتوں کا صورت گر ہے، عرض و جوہر دونوں کا خالق ہر شے کا پرورگار ، مالک ، بنانے والا اور ايجاد کرنے والا ہے۔
حضرت محمد اس کے بندہ ، رسول اور خاتم النبيين ہيں ، ان کے بعد قيامت تک کوئي نبي آنے والا نہيں ہے اور ان کي شريعت بھي آخري شريعت ہے جس کے بعد کوئي شريعت نہيں ہے۔
اور امام و خليفہ و ولي امر آپ کے بعد امير المومنين (ع) علي ابن ابي طالب ہيں۔ اس کے بعد امام حسن (ع) ، پھر امام حسين (ع) پھر علي بن الحسين (ع) پھر محمد بن علي (ع) پھر جعفر بن محمد(ع) ، پھر موسيٰ (ع) بن جعفر (ع) ، پھر علي (ع) بن موسيٰ (ع) ، پھر اس کے بعد آپ !۔
حضرت نے فرمايا کہ ميرے بعد ميرا فرزند حسن (ع) اور اس کے بعد ان کے نائب کے بارے ميں لوگوں کا کيا حال ہوگا؟
ميں نے عرض کي کيوں ؟ فرمايا اس لئے کہ وہ نظر نہ آئے گا اور اس کا نام لينا بھي جائز نہ ہوگا يہاں تک کہ منظر عام پر آجائے اور زمين کو عدل و انصاف سے اسي طرح بھرديگا جس طرح ظلم و جور سے بھري ہوگي ۔
ميں نے عرض کي حضور ميں نے اس کا بھي اقرار کرليا اور اب يہ بھي کہتاہوں کہ جو ان کا دوست ہے وہي اپنا دوست ہے اور جو ان کا دشمن ہے وہي اپنا بھي دشمن ہے، ان کي اطاعت اطاعت خدا اور ان کي معصيت معصيت خدا ہے۔
اور ميرا عقيدہ يہ بھي ہے کہ معراج حق ہے اور قبر کا سوال بھي حق ہے اور جنت و جہنم بھي حق ہے اور صراط و ميزان بھي حق ہے اور قيامت بھي يقيناً آنے والي ہے اور خدا سب کو قبروں سے نکالنے والا ہے۔
اور ميرا کہنا يہ بھي ہے کہ ولايت اہلبيت(ع) کے بعد فرائض ميں نماز۔ زکوة، روزہ، حج، جہاد، امر بالمعروف ، نہي عن المنکر سب شامل ہيں، حضرت نے فرمايا اے ابوالقاسم ! خدا کي قسم يہي وہ دين ہے جسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرماياہے اور تم اس پر قائم رہو، پروردگار تمھيں دنيا و آخرت ميں اس پر ثابت قدم رکھے۔( امالي (ر) صدوق 278 / 24 ، التوحيد 81/ 37 ، کمال الدين 379 ، روضه الواعظين ص 39 ، کفايه الاثر ص 282 ، ملاحظہ ہو