- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 17 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/12/08
- 0 رائ
حضرت علي(ع) نے اپنى انقلابى حکومت جارى رکھى اور جيسا کہ ھر انقلابى تحريک کا خاصہ ھے کہ مخالف عناصر جن کے مفادات خطرے ميں پڑ جاتے ھيں، ھر طرف سے اس تحريک کے خلاف اٹھ کھڑے ھوتے ھيں ، بالکل ايسے ھى مخالفين نے خليفہ ٴسوم کے قصاص کے نام پر داخلى انتشار اور خونى جنگوں کا ايک طويل سلسلہ شروع کرديا اور حضرت علي(ع) کے تقريبا ً تمام عھد خلافت کے دوران يہ سلسلہ جار ى رھاـ شيعه مذهب کے مطابق ان جنگوں کے شروع کرنے والوں کے سامنے ذاتى فوائد اور مفادات کے سوا اور کوئى مقصد نہ تھا اورخليفہ ٴسوم کا قصاص صرف ايک عوام فريب حربہ تھا اور اس ميں حتى کہ کسى قسم کى غلط فہمى بھى موجود نہ تھى ـ
پھلى جنگ کى وجہ جو جنگ جمل کے نام سے ياد کى جاتى ھے ، طبقاتى امتيازات کے بارے ميں مظاھرے تھے جو خليفہ ٴاول کے زمانے ميں بيت المال کى تقسيم ميں اختلاف اور فرق کى وجہ سے پيداھوئے تھے ـ حضرت علي(ع) نے خليفہ بننے کے بعد بيت المال کو برابر اور مساوى طور پر لوگوں ميں تقسيم کيا (23)جيسا کہ پيغمبر اکرم (ص) کى سيرت اور روش بھى يھى تھى ـاس طريقے سے زبير اور طلحہ بھت برھم ھوئے اور نافرمانى کى بنياد ڈالى اور خانۂ کعبہ کى زيارت کے بھانے مدينہ سے مکے چلے گئے ـ انھوں نے حضر ت عائشہ کو جواس وقت مکہ ميں تھيں اور حضرت علي(ع) کے ساتھ ان کے اختلافات موجود تھے ، اپنے ساتھ ملا ليا اوراس طرح خليفہ سوم کے قصاص کے نام پر خونى تحريک اورجنگ کا آغاز کيا جو جنگ جمل کے نام سے مشھور ھےـ(24)
حالانکہ يھى طلحہ او رزبير خليفہ ٴسوم کے مکان کے محاصرے اور قتل کے وقت مدينہ ميں موجود تھے ـ اس وقت انھوں نے خليفہ کا ھرگز دفاع نھيں کيا تھاـ (25) خليفہ ٴسوم کے قتل کے فوراً بعد يھى لوگ تھے جنھوں نے سب سے پھلے اپنى اور مھاجرين کى طرف سے حضرت علي(ع) کى بيعت کى تھي(26) اسى طرح حضرت عائشہ بھى خود ان لوگوں ميں سے تھيں جنھوں نے خليفۂ سوم کے قتل پرلوگوں کو ابھارا تھا(27) اور جونھى انھوں نے خليفۂ سوم کے قتل کى خبر سنى تو ان کو گالياں دى تھيں او ر خوشى کا اظھار کيا تھاـ بنيادى طور پر خليفہ ٴسوم کے قتل کا اصلى سبب وہ صحابہ تھے جنھوں نے مدينہ سے دوسرے شھروں ميں خطوط لکھ کر لوگوں کو خليفہ کے خلاف ابھارا تھاـ
دوسرى جنگ کى وجہ جس کا نام جنگ صفين تھا اور تقريبا ًڈيڑھ سال تک جارى رھى، وہ خواھش اور آرزو تھى جو معاويہ اپنى خلافت کے لئے رکھتا تھاـ خليفۂ سوم کے قصاص کے عنوان سے اس نے اس جنگ کو شروع کيا تھاـ اس جنگ ميں ايک لاکہ سے زيادہ افراد ناحق ھلاک ھو گئے تھےـ البتہ اس جنگ ميں معاويہ نے حملہ کيا تھا نہ کہ دفاع کيونکہ قصاص ھرگز دفاع کى صورت ميں نھيں ھو سکتاـ
اس جنگ کا عنوان او رسبب خليفۂ سوم کا قصاص تھاـ حالانکہ خود خليفۂ سوم نے اپنى زندگى کے آخرى ايام اور شورش و بغاوت کے زمانے ميں معاويہ سے مدد کى درخواست کى تھى اور اس نے بھى ايک جرار لشکر کے ساتھ مدينہ کى طرف حرکت کى تھى ليکن راستے ميں جان بوجہ کر اس قدر دير کى کہ ادھر خليفہ کو قتل کر ديا گياـ پھر اس واقعہ کے بعد وہ راستے سے ھى شام کى طرف لوٹ گيا اور وھاں جاکر خليفہ کے قصاص کا دعوى شروع کرديا(28)
افسوس تويہ ھے کہ جب حضرت علي(ع) شھيد ھوگئے اورمعاويہ نے خلافت پرقبضہ کرليا تو اس وقت اس نے خليفہ کے قصاص کو فراموش کرديا تھا اور خليفہ کے قاتلوں کو سزا نھيں دى تھى اور نہ ھى ان پر مقدمہ چلايا تھا ـ
جنگ صفين کے بعدجنگ نھروان شروع ھوگئي ـ اس جنگ ميںلوگوں کى ايک بھت بڑى تعداد جن ميں بعض اصحاب رسول بھى تھے، معاويہ کى تحريص وترغيب کى وجہ سے حضرت علي(ع) کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے تھے ـ انھوں نے اسلامى ممالک ميں ھنگامے اور آشوب برپا کرديئے تھے لھذا جھاں کھيں حضرت علي(ع) کے پيروکاروں يا جانبداروں کو ديکھتے فورا ً ان کو قتل کرديتے تھے حتيٰ کہ حاملہ عورتوں کے پيٹ پھاڑ کر بچوں کونکال کران کا سر قلم کرديتے تھے ـ حضرت علي(ع) نے اس آشوب کا بھى خاتمہ کرديا تھا ليکن تھوڑے ھى عرصے کے بعد کوفہ کى مسجد ميں نماز پڑھتے ھوئے ايک خارجى کے ھاتھوں شھيد ھوگئے ـ
حضرت علي(ع) کى پانچ سالہ خلافت کے دوران شيعوں کے ذريعے کيا گيا استفادہ
اگرچہ حضرت علي(ع) اپنى چار سال او رنو مھينے کى خلافت کے دوران اسلامى حکومت کے درھم برھم حالات کو مکمل طور پر سنبھال نہ سکے او راس کو اپنى پھلى حالت ميں لانے ميں کامياب نہ ھوسکے ليکن تين پھلووٴں سے آپ کو کاميابى بھى حاصل ھوئى:
1ـ آپ نے اپنى منصفانہ سيرت کے ذريعے پيغمبر اکرم کى پرکشش اور ھردلعزيز شخصيت کو عوام او ر خاص طور پر جديد نسل کے سامنے پيش کيا ـ معاويہ کى شاھانہ شان و شوکت کے مقابلے ميں آپ ھميشہ غريبوں اور فقيروں کى طرح اور بيکس و ناداروں افراد کى مانند زندگى گزارتے تھے اور ھرگز اپنے دوستوں، اعزاء و اقارب اور خاندان کے افراد کو دوسروں پر ترجيح اور امير کو غريب پر يا طاقتور کو کمزور پر فوقيت نھيں ديتے تھےـ
2ـ ان تمام طاقت فرسا اور طولانى مشکلات کے باوجود آپنے معارف الھى اور علوم انسانى کے گرانبھا اور قيمتى ذخائردنيا کے حوالے کئے ھيں ـ
حضرت علي(ع) کے مخالفين کا دعوى ھے کہ آپ بڑے بھادر اور شجاع انسان تو تھے ليکن اچھے سياستداں نھيں تھے کيونکہ اپنى خلافت کے اوائل ميں مخالف عناصر کے ساتھ وقتى طور پر صلح کرکے ان کو راضى رکہ سکتے تھے اور اس طرح اپنى خلافت کومستحکم اور مضبوط بنانے کے بعد ان کا قلع قمع کرسکتے تھے ليکن آپ نے ايسا نھيں کياـ
ان افراد نے اس نکتہ کو نظرانداز او ر فراموش کرديا ھے کہ حضرت علي(ع) کى خلافت ايک انقلابى تحريک تھى او رايک انقلابى تحريک کو بے جا تعريف ، چاپلوسى، ظاھر پرستى اور ريا کارى سے دور رھنا چاھئے ـ ايسى ھى حالت پيغمبر اکرم کے زمانے ميں بھى پيش آئى تھى کہ کفار و مشرکين نے کئى بار آنحضرت کو تجويز پيش کى تھى کہ اگر آنحضرت ان کے خداؤں کى مخالفت اور توھين نہ کريں يا ان کو برا بھلا نہ کھيں تو وہ بھى ان کى دعوت اور تحريک کى مخالفت نھيں کريں گے ليکن پيغمبر اکرم نے ان کى يہ تجويز مسترد کردى تھى حالانکہ ان سخت حالات ميں ان کى تعريف کرکے يا ان کے ساتھ مصالحت کرکے اپنى حالت اور طاقت کو مضبوط بنا سکتے تھے اور پھر دشمنوں کى مخالفت کرکے ان کا قلع قمع بھى کر سکتے تھے ليکن درحقيقت ايک اسلامى اور انقلابى تحريک ھرگز يہ اجازت نھيں دے سکتى کہ ايک حقيقت کو زندہ کرنے کے لئے دوسرى حقيقت کو مٹايا يا پاما ل کرديا جائے اور ايک باطل کو دوسرے باطل کے ذريعے رفع کيا جائے ـ قرآن ميں متعددآيات اس بارے ميں موجود ھيںـ اس کے برعکس حضرت علي(ع) کے مخالفين اپنے مقصد ميں کاميابى حاصل کرنے کى خاطر کسى بھى جرم، غدارى اور اسلامى قوانين کى واضح اور اعلانيہ خلا ف ورزى کو نظر انداز نھيں کرتے تھے اور ھر بدنامى کو اپنے صحابى اور مجتھد ھونے کے بھانے سے دھو ڈالتے تھے ليکن حضرت علي(ع) اسلامى قوانين پر سختى سے کار بندرھتے تھے ـ
حضرت علي(ع) سے عقلى ، دينى اور اجتماعى علوم و فنون کے بارے ميں گيارہ ھزار مختصر ليکن پر معنى متفرقہ فقرے موجود ھيں (29)آپ نے اپنے خطبوں کے دوران اسلامى علوم ومعارف (30)کونھايت فصيح و بليغ اور سليس و رواں زبان ميں بيا ن کيا ھےـ (31) آپ نے عربى زبان کى گرامر بھى تدوين کى اور اس طرح عربى زبان وادبيات کى بنيادڈالى تھى ـ آپ اسلام ميں سب سے پھلے شخص ھيں جس نے الھى اور دينى فلسفے پرغور و خوض کيا تھاـ (32)آپ ھميشہ آزاد استدلال اور منطقى دلائل کے ساتھ گفتگو کيا کرتے تھے اور وہ مسائل جن پردنيا کے فلسفيوں نے بھى اس وقت تک توجہ نھيں کى تھى ، آپ نے ان کو پيش کيا اور اس بارے ميں اس قدر توجہ اورانھماک مبذول فرماتے تھے کہ حتيٰ عين جنگ کے دوران (33) بھى آپ(ع) علمى بحث ومباحثہ ميں مشغول ھوجاتے تھے ـ
3ـ آپ نے اسلامى، مذھبى اور دينى دانشوروں پر مشتمل ايک بھت بڑى جماعت تربيت دى تھي(34)کہ ان افراد کے درميان نھايت پارسا ، زاھد اور اھل علم و معرفت افرادمثلا ً اويس قرنى، کميل بن زياد، ميثم تمار اور رشيد ھجرى وغيرہ موجود تھے جو اسلامى عرفاء اور علماء ميں علم و عرفان کے سرچشمے مانے اور پھچانے جاتے ھيں ـ اس کے علاوہ ايک دوسرى جماعت کى تشکيل اورتربيت کى تھى جس ميں بعض لوگ علم فقہ ، علم کلام ، علم تفسير اور علم قراٴت وغير ہ ميں اپنے زمانے کے بھترين علماء اور اساتذہ شمار ھوتے تھے ـ
خلافت کا معاويہ کى طرف چلاجانا اور پھر موروثى سلطنت ميں تبديل ھوجانا
حضرت على عليہ السلام کى شھادت کے بعد آپ کى وصيت اور عوام کى بيعت کے مطابق حضرت امام حسن(ع) نے خلافت سنبھالى جو بارہ امامى شيعوں کے دوسرے امام ھيں ـ
اس بيعت سے معاويہ کا چين وسکون غارت ھوگياتھاـ اس نے عراق پر چڑھائى کردى جو اس زمانے ميں خلافت کا مرکز تھااور حضرت امام حسن(ع) کے خلا ف اعلان جنگ کردياـ
معاويہ نے مختلف فريبوں ، حيلوں اور بھانوں سے نيز بھت زيادہ مال و دولت خرچ کرکے آھستہ آھستہ امام حسن بن علي(ع) کے طرفداروں اور اصحاب کو اپنے ساتھ ملاليا تھا اور آخر کار امام حسن(ع) کو مجبور کرديا کہ صلح کے عنوان سے خلافت کو معاويہ کے حوالے کرديں اور امام حسن بن علي(ع) نے بھى اس شرط پر کہ معاويہ کى وفات کے بعد خلافت دوبارہ انھيں واپس لوٹا دى جائے اور ساتھ ھى ان کے دوستوں اور پيروکاروں پر بھى کسى قسم کا جبر و تشدد يا ظلم نہ ھو، خلافت معاويہ کے سپرد کردى تھى ـ(35)
40 ھ ميں معاويہ نے خلافت پر قبضہ کرليا اور فورا ً عراق آيا ـ اس نے اپنے خطبوں ميں لوگوں کو متنبہ کيا او رکھا : ”ميں تمھارے ساتھ نماز ، روزہ کے لئے جنگ نھيں کررھا تھا بلکہ ميں چاھتا تھا کہ تم پر حکومت کروں اور اب ميں اپنے مقصد ميں کامياب ھوگياھوں“ (36)
اور پھر کھا: ”ميں نے حسن کے ساتھ جو معاھدہ کيا تھا وہ اب باطل اور منسوخ ھوچکا ھے “ (تارى طبرى ج 4، ص 124) اور دوسرى تمام تاريخى کتابيں ـ
معاويہ نے اپنے خطبے ميں اشارہ کيا کہ وہ سياست کو دين سے الگ کردے گا اوراس طرح دينى قوانين کے بارے ميں بھى کوئى ضمانت نھيں دے گا ـ البتہ يہ واضح ھے کہ ايسى حکومت ، سلطنت اور بادشاھت ھے نہ کہ خلافت يا پيغمبر اکرم کى جانشينى ـيھى وجہ ھے کہ بعض لوگ جو معاويہ کے پاس پھنچے تھے اور اس کے دربار ميں رسائى حاصل کرسکے تھے ، انھوں نے بادشاہ کى طرح اس کو سلام کيا تھا (37)ـ وہ خود بھى بعض خصوصى مجالس ميں اپنى حکومت کو خصوصى ملوکيت اور بادشاھى سے تعبير کيا کرتا تھا (38)ـ اگرچہ وہ عام او ر ظاھرى طور پر لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو خليفہ ھى کھا کرتاتھا ليکن وہ بادشاھت ياسلطنت جوزور اور طاقت کے بل بوتے پرقائم ھو اس ميں وراثت خو د بخود آجاتى ھے اور آخر کار اس نے اپنى نيت او رخواھش کوعملى جامہ پھنايا اور اپنے بيٹے يزيد کو جو ايک نھايت ھى لاابالى ، آوارہ اور عياش شخص تھا، جسے ذرہ برابر بھى دينى شعور نہ تھا اور نہ ھى کوئى مذھبى شخصيت رکھتا تھا ، اپنا جانشين اورولى عھد بنايا(39)ـجس نے اپنى حکومت اور سلطنت کے دوران اس قدر شرمناک حوادث اور واقعا ت کو جنم ديا کہ قيامت تک تاريخ اس پر شرمندہ رھے گى ـ
معاويہ اپنے بيانات ميں ھميشہ اشارہ کيا کرتا تھا کہ وہ کبھى امام حسن کو دوبارہ خليفہ نھيں بننے دے گاـ خلافت کے بارے ميں اپنے مرنے سے پھلے اس کے دماغ ميں کچھ اور ھى خيال تھااور يہ وھى خيال تھا جس کے ذريعے اس نے امام حسن(ع) کوزھر دے کر شھيد کراديا تھا (40)اور اس طرح اپنے بيٹے يزيد کے لئے راستہ ھموار کرديا تھا ـ معاويہ نے اپنے معاھدے کى خلاف ورزى کرکے عوام کوسمجھاديا تھا کہ وہ کبھى بھى اھلبيت(ع) کے شيعوں کو امن وامان کے ماحول ميں زندگى گزارنے کى اجازت نھيں ديگاکہ پھلے کى طرح اپنى دينى سرگرمياں جارى رکہ سکيں اور آخر کار اس نے اپنے خيالات کو عملى جامہ پھناھى دياـ
اس نے اعلان کيا کہ جو شخص بھى اھلبيت(ع) کى تعريف اور شان ميں کوئى حديث بيان کرے گا اس کے جان ومال کى حفاظت کى کوئى ضمانت نھيں دى جائے گى ـ(41) اسى طرح اس نے حکم ديا کہ جو شخص تمام اصحاب رسول اور خلفاء کى تعريف ميں کوئى حديث بيان کرےگا اس کو بے حد انعام و اکرام سے نوازا جائے گاـ اس حکم کے نتيجے ميں صحابہ کى شان ميں بھت زيادہ احاديث گھڑھ لى گئيں ـ(42) اس نے حکم ديا کہ تمام اسلامى ممالک ميں منبروں پر خطبوں کے دوران علي(ع) پر شب وستم کياجائے گا ( يہ حکم اموى خليفہ عمربن عبد العزيز 99ـ101 ھجرى قمرى کے زمانے تک جارى رھا) اس نے اپنے مددگاروں اور پيروکاروں کى مدد اور کوشش کے ذريعے جن ميں بعض اصحاب رسول بھى تھے ، حضرت علي(ع) کے شيعوں اورمخصوص پيروکاروں کو شھيد کروا ديا تھا ـان ميں سے بعض کے سروں کو نيزوں پر چڑھا کر شھروں ميں پھرايا تھا ـ وہ عام شيعوں کو جھاں کھيں بھى ديکھتاتھا تکليفيں ، آزار او ر شکنجے ديا کرتا تھاـ ان کو تلقين وتاکيد کى جاتى تھى کہ وہ حضرت علي(ع) کى پيروى کرنے سے باز رھيں اور جو شخص اس حکم کو قبول نہ کرتا اس کوقتل کرديا جاتاتھا ـ(43)
شيعوں کے لئے سب سے مشکل زمانہ
شيعہ افراد اور شيعہ مذھب کے لئے تاريخ ميں سب سے زيادہ مشکل حالات معاويہ کى بيس سالہ حکومت کے دوران تھے جس ميں شيعوں کے لئے کسى قسم کا امن و چين موجود نہ تھا ـ ادھر شيعوں کے دو امام (امام دوم اور امام سوم )معاويہ کے زمانے ميں حالات کو بھتربنانے او ر خلافت کو لوٹانے ميں بے بس اور بے اختيار تھے حتيٰ کہ تيسرے امام امام حسين(ع) يزيد کى سلطنت کے پھلے چہ مھينوں کے دوران ھى اس کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے ـ آپ(ع)اپنے دوستوں او ر اصحاب و اولاد کے ساتھ يزيد کى مخالفت کرتے ھوئے شھيد ھوگئے ـ معاويہ کى آخرى دس سالہ خلافت کے دوران اس بات کا امکان بھى نہ تھا کہ خلافت دوبارہ اھل بيت(ع) کو واپس مل جائے ـ
اھلسنت کے اکثر افراد اس قسم کى خلاف ورزيوں او ر ناحق قتل و غارت جو بعض اصحاب رسول اور خصوصا ً معاويہ کے ھاتھوں ھوئيں ،کى اس طرح توجيہ کرتے ھيں کہ وہ رسول اکرم (ص)کے اصحاب تھے اور اصحاب رسول مجتھد اور پيغمبر اکرم (ص) کى احاديث کے مطابق ھرکام ميں معذور ھوتے ھيں ـلھذا خدا ان سے راضى ھے اورکسى بھى قسم کے جر م او ر قتل کا خداوند تعاليٰ ان سے حساب نھيں ليتا اورہ بخش دئے جاتے ھيں ليکن شيعہ اس عذر کو تسليم نھيںکرتے ـ
سب سے پھلے تو يہ بات معقول او رصحيح نظر نھيں آتى کہ پيغمبر اکرم (ص) جيساايک عمومى اورمعاشرتى رھبر ايک جماعت ياگروہ کو عدل و آزادى کى خاطر اپنا ھم عقيد ہ بنائے اور اس کو ظلم و ستم کے خلاف ابھارے ساتھ ھى اپنى تمام زندگى اسى مقدس او ر پاک مقصد کى خاطر وقف کردے اور اپنے خدائى نظريے کو عملى جامہ پھنائے ليکن جب اپنے مقصد اور مطلب کوحاصل کرنے ميں کامياب ھوجائے تو اپنے دوستوں اوراصحاب کو عوام اور مقدس قوانين کے بارے ميںمکمل آزادى ديدے تاکہ ھر قسم کى حق کشي، خلاف ورزى ، تخريب کارى اور لاقانونيت وغيرہ ان کے لئے معاف ھو جائے ـ اس کا مطلب يہ ھوگا کہ اس رھبرنے جن ھاتھوں سے اور جن ذرائع سے ايک عظيم الشان عمارت کى بنياد رکھى تھى انھيں ھاتھوں سے اسے تباہ وبرباد کردياـ
دوسرے يہ کہ وہ روايات جن سے صحابہ کرام کو مقدس ، پا ک اور ان کے ھر ناجائز اعما ل کو صحيح اور جائز کھے جانے کے ساتھ ساتھ ان کو قابل بحشش سمجھا جاتا ھے ،خود صحابہ ھى سے ھم تک پھنچى ھيں يا ان سے منسوب کردى گئى ھيں ـ تاريخى شواھد کے مطابق خود صحابہ آپس ميں ايک دوسرے کے بارے ميں اس قسم کى معذوريت اور بخشش کے قائل نھيں تھے کيونکہ يہ اصحاب ھى تھے جنھوں نے سب سے پھلے ايک دوسرے کوبدنام کرنے اور ايک دوسرے کو برا بھلا کھنے کے لئے زبان کھولى تھى اورايک دوسرے کے عيوب اور اشتباھات کوقطعاً نظر انداز نھيں کيا کرتے تھے ـ
مندرجہ بالانکات کى روشنى ميں خود صحابہ کى گواھى کے مطابق يہ روايات واحاديث صحيح نھيں ھيں اور اگر ھوں بھى تو انکے معنى کچھ اور ھوں گے،ان سے صحابہ کى تقديس (مقدس اور پا ک ھونے )حا قابل بخشش ھونے کا مقصد ھرگز نھيںھوگا ـ
اور اگر فرض کريں کہ اللہ تعاليٰ نے صحابہ کے بارے ميں کسى وقت اپنے کلام پاک ميں ان کى خدمت دين کے صلہ ميں ياکسى خدائى فرمان کے جارى اور نافذ کرنے کى خاطر ان سے راضى ھوجانے کا اعلان فرماياھے تو اس کا مطلب ان اصحاب کى گزشتہ فرمانبردارى اور اطاعت کى ستائش ھوگا نہ کہ آئندہ اورمستقبل ميں ھرقسم کى نافرمانى اورخلاف ورزى يا اپنى مرضى سے کام کرنے کى اجازت کے متعلق تصديق ـ
بنى اميہ کى سلطنت کاقيام
60 ھ ميں معاويہ فوت ھوگيا اور اس کے بيٹے يزيد نے اس بيعت کے مطابق جو اس کے باپ نے اس کے لئے عوام سے حاصل کى تھى ، اسلامى حکومت کى باگ ڈور سنبھالى ـ
تاريخى شواھد کے مطابق يزيد کوئى دينى شخصيت نہ رکھتا تھا ، وہ ايک ايسا جوان تھا جو حتيٰ کہ اپنے باپ کى زندگى ميں بھى اسلامى قوانين و اصول کوقابل اعتنا نھيں سمجھتا تھا بلکہ عياشى ، لاقانونيت اور شھوت رانى کے سوا اسے کوئى کام ھى نہ تھا ـ اس نے اپنى تين سالہ حکومت کے دوران ايسى تباھى اوربربادى مچائى اورايسے جرائم کامرتکب ھوا جن کى مثال تاريخ اسلام ميں ھرگز نھيں ملتى ، اگرچہ اسلامى تاريخ ميں اس سے پھلے بھت سے فتنے منظر عام پر آچکے تھے مگر يزيد ان سب پر بازى لے گيا تھا ـ
اس نے اپنى حکومت کے پھلے سال ميں حضرت حسين ابن علي(ع)جو پيغمبر اکرم کے نواسے تھے ، کوان کے اصحاب و اولاد ، بچوں اور عورتوں سميت بڑى بے دردى اور بے رحمى سے شھيد کرديا تھا اورحرم اھلبيت(ع) کوشھيدوں کے سروں کے ساتھ شھر بشھر پھرايا تھا ـ (44)
پھر دوسرے سال اس نے مدينہ منورہ ميں قتل عام کيا جھاں عوام کے مال وجان کوتين دن تک کے لئے اپنى افواج پر حلال کرديا تھاـ (45)تيسرے سال خانۂ کعبہ کوگرا کرآگ لگادى تھى ـ (46) يزيد کے بعد بنى اميہ کے خاندان آل مروان نے حکومت اپنے ھاتھوں ميں لى جيسا کہ تاريخ ميں اس کى تفصيل موجود ھے ـ اس خاندا ن کے گيارہ حکمرانوں نے تقريبا ً 70/سال تک حکومت کى ـ انھوں نے مسلمانو ںاور اسلام کے لئے بدترين اور مشکل ترين حالات پيدا کردئے تھے ـ لھذا اس زمانے ميں اسلامى ممالک ميں ايک استبداد ى اور ظالمانہ بادشاھت وجود ميں آگئى تھى جس کواسلامى خلافت کانام دے دياگياتھا اور اس دوران حالات يھاں تک پھنچ گئے تھے کہ خليفہ ٴوقت جوپيغمبر اکرم کا جانشين اوردين مبين کا حامى سمجھا جاتا تھا ، نے يہ فيصلہ کياکہ خانۂ کعبہ کے اوپر ايک بارہ درى بنائے تاکہ زمانہ حج ميں وھاں بيٹھ کر خاص طور پر عياشى کر سکے ـ (47)
خليفہٴ وقت نے قرآن مجيد کو تيرکا نشانہ بنايا اورقرآن مجيد کے متعلق ايک نظم لکھى جس ميں کھا گيا تھا :”اے قرآن ! قيامت کے دن تو اپنے خدا کے حضور ميںحاضرھوگا تو اس وقت خدا سے کھنا کہ خليفہ نے مجھے پھاڑ ديا تھا ـ“(مروج الذھب جلد 3 ص 238)
شيعہ جو اھلسنت سے بنيادى طور پر خلافت اور دينى رھبرى کے مسائل ميں اختلاف نظر رکھتے تھے ، اس تاريک دور ميں سخت حالات ميں زندگى گزاررھے تھے ليکن اس زمانے کى حکومتوں کے ظلم و ستم اورلا قانونيت نيز دوسرى طرف ائمہ اطھار(ع) کى مظلوميت ، تقويٰ وپاکيزگى وغيرہ ان کو اپنے عقائد ميں مضبوط اور مستحکم کررھى تھى خصوصاً تيسرے امام حضرت حسين عليہ السلام کى دلخراش شھادت شيعوں کى افزائش کا باعث بنى خاص کر مرکز خلافت (دارالخلافہ)سے دور ـدراز علاقوں مثلا ً عراق ، يمن اور ايران ميں ـ
اس دعوے کا ثبوت يہ ھے کہ کے پانچويں امام کے زمانۂ امامت ميں جبکہ پھلى صدى ھجرى ابھى ختم نھيں ھوئى تھى اور تيسرے امام کى شھادت کو چاليس سال بھى نھيں ھوئے تھے ، اموى حکومت ميں کمزورى اور ضعف کے باعث شيعہ ، اسلامى ممالک کے کونے کونے سے پانچويں امام کے اردگر د جمع ھونا شروع ھوگئے تھے تاکہ علم حديث اور علم دين حاصل کرسکيں ـ (48)ابھى پھلى صدى ھجرى اختتام کو نھيں پھنچى تھى کہ حکومت کے چند اعليٰ عھديداروں نے ايران ميں شھر قم کى بنياد رکھى اور اس شھر ميں شيعوں کو لا کرآباد کيا (49)ليکن اس کے باوجود شيعہ چھپ چھپا کراوراپنے مذھب کا اعلان کئے بغير زندگى گذارتے رھے ـاس دوران کئى بارعلوى سادات نے اپنے اپنے زمانے کى حکومتوں کے ظلم و ستم اوردباؤ کے خلاف تحريکيں شروع کيں ليکن ان کو ھر بار شکست کا منہ ديکھنا پڑا اور آخر کار اس راہ ميں اپنى جان کى بازى لگاتے رھےـ اس وقت کى حکومتوں نے ان کے جان ومال کو پامال کرنے ميں کوئى کسر اٹھانھيں رکھى تھى ـ حضرت زيد بن علي(ع) جوشيعہ زيديہ کے اما م تھے ، کى لاش کو قبر سے نکال کر سولى پرچڑھا يا گيا اور يہ لاش تين سال تک سولى پر لٹکى رھيـ اس کے بعد لاش کوسولى سے اتار کر آگ ميں جلا ديا گيا اور راکہ کو ھوا ميں اڑا ديا گيا ـ (50)يھاں تک کہ اکثر شيعہ جوچوتھے اور پانچويں امام کے معتقد اور پيروکار تھے، بنى اميہ کے ھاتھوں زھر دے کر شھيد کردئے گئے اسى طرح امام دوم اور امام سوم کى شھادت بھى انھى کے ھاتھوں ھوئى تھى ـ
امويوں کے ظلم و ستم اس قدر واضح اور زيادہ تھے کہ اکثر اھلسنت اگرچہ عام طور پر خلفاء کى اطاعت کو اپنا فرض سمجھتے تھے ليکن ان کے ظلم و ستم کى وجہ سے مجبور ھوگئے تھے کہ خلفاء کو دوگروھوں ميں تقسيم کرديں يعنى ايک طرف خلفائے راشدين جو پھلے چار خلفا ء تھے اور پيغمبر اکرم کى وفات کے بعد آپ کے جانشين بنے (ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علي(ع) ) اور دوسرى طرف خلفائے راشدين کے علاوہ دوسرے خلفاء جو معاويہ سے شروع ھوتے ھيں ـ
اموى خاندان اپنى حکومت ميں ظلم و ستم اور بيداد گردى ولا قانونيت کى وجہ سے لوگوں کے لئے باعث نفرت بن چکا تھا ـ امويوں کى شکست اوراس خاندان کے آخرى خليفہ کے قتل کے بعد خليفہ کے دو بيٹے اپنے خاندان کے ھمراہ دارالخلافہ سے بھاگ کھڑے ھوئے ـ وہ جھاں کھيں بھى جاتے ان کو پناہ نھيں ملتى تھى ـآخر کار پريشانى اورسرگردانى کى حالت ميں نوبہ ، حبشہ اور بجادہ کے ميدانوں اور صحراؤں ميں اس خاندان کے اکثر افراد بھوک و پياس سے ھلاک ھوگئے ـجو افراد بچے وہ يمن کے جنوبى حصے ميں پھونچ گئے تھے اور لوگوں سے راستے کا خرچ حاصل کرنے کے لئے گداگرى کيا کرتے تھے ـآخرکار ذى حمالان شھرسے مکہ کى طرف روانہ ھوئے اوروھاں جاکر لوگوں کے درميان روپوش ھوگئے ـ
…………………….
حوالہ جات :
(1) تاريخ طبرى ج/2 ص / 63 ، تاريخ ابو الفداء ج/ 1 ص / 116 ، البدايہ و النہايہ ج/ 3 ص / 39 ، غاية المرام ص / 320
(2) مختلف تواريخ اور جامع کتب احاديث
(3) حديث غدير خم شيعہ اور اہلسنت کے درميان مسلمہ احاديث ميں سے ہے اور ايک سو سے زيادہ اصحاب نے اسنا د اور مختلف عبارات کے ساتھ اس کو نقل کيا ہے اور عام و خاص کتابوں ميں لکھى ہوئى ہے تفصيل کے لئے ديکھئے کتاب غاية المرام ص /79 ،اور طبقات جلد غدير اور کتاب الغدير
(4) تاريخ يعقوبى طبع نجف ج/ 2 ص / 137 140 ، تاريخ ابو الفداء ج/ 1 ص / 156 ، صحيح بخارى ج / 4 ص /107 ، مروج الذہب ج/ 2 ص /437 ، تاريخ ابى الحديد ج/ 1 ص 127 161
(5) صحيح مسلم ج / 15 ص / 176 ، صحيح بخارى ج / 4 ص / 207 ، مروج الذہب ج/ 2 ص 23 437 ، تاريخ ابو الفداء ج/ 1 ص / 127 181
(6) آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے مرض الموت کى حالت ميں اسامہ بن زيد کى سر کردگى ميں ايک لشکر تيار کيا اور تاکيد کى کہ سب لوگ اس جنگ ميں شرکت کريں اور مدينے سے باہر نکل جائيں ايک جماعت نے آپ کے حکم کى خلاف ورزى کى اس ميں ابو بکر اور عمر بھى تھے اس واقعہ نے پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کو بہت زيادہ صدمہ پہنچايا (شرح ابن ابى الحديد طبع مصر ج/ 1 ص / 53 ) پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے رحلت کے وقت فرمايا کہ قلم اور دوات لاؤ تاکہ ميں تمہارے لئے ايک چٹھى لکھوں کہ تمہارى ہدايت اور راہنمائى کا باعث بنے اور تم گمراہ ہونے سے بچ جاؤ حضرت عمر نے اس کام سے منع کر ديا اور کہا کہ آپ کا مرض بہت زيادہ بڑھ گيا ہے اور شديد بخار کى حالت ميں آپ کو ہذيان ہے ( تاريخ طبرى ج /2 ص / 436 ، صحيح بخارى ج / 3 ، صحيح مسلم ج/ 5 ، البدايہ و النہايہ ج / 5 ص / 227 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص 133 )
(7) شرح ابن ابى الحديد ج/ 1 ص/ 58 123 تا 135 ، تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص / 102 ، تاريخ طبرى ج/ 2 ص / 445 تا 460
(8) البدايہ و النہايہ ج/ 7 ص 360
(9) تاريخ يعقوبى ص/ 111 126 129
(10) تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص /110 ، تاريخ ابى الفداء ج/ 1 ص / 158
(11) کنز العمال ج / 5 ص / 237 ، طبقات ابن سعد ج/ 5 ص /140
(12) تاريخ ابى الفداء ج/ 1 ص / 151
(13) تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص / 131 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص / 160
(14) اسد الغابہ ج / 4 ص / 386 ، الاصابہ ج / 3
(15) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص /150 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص /168 ، تاريخ طبرى ج / 3 ص / 377
(16) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 150 ، تاريخ طبرى ج / 3 ص / 397
(17) تاريخ طبرى ج / 3 ص / 377
(18) صحيح بخارى ج/ 6 ص / 98 ، تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 113
(19) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 111 ، تاريخ طبرى ج / 3 ص / 129 132
(20) تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص / 13، تاريخ ابن ابى الحديد ج/ 1 ص/ 9
(21) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 154
(22) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 155 ، مروج الذہب ج / 2 ص / 36
(23) نہج البلاغہ خطبہ /15
(24) مروج الذہب ج / 2 ص / 392 ، نہج البلاغہ خطبہ / 122 ، تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 160 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص / 180
(25) تاريخ يعقوبى ج / 2 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص / 172 ، مروج الذہب ج / 2 ص / 366
(26) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152
(27) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص / 171، تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152
(28) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152 ، مروج الذہب ج / 3 ص / 25 ، تاريخ طبرى ص / 402 ، مروج الذہب ج / 2 ص / 415
(29) کتاب الغرر و الدرر آمدى و متفرقات جوامع الحديث
(30) مروج الذہب ج / 2 ص / 43 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص / 181
(31) اشباہ و نظائر سيوطى در نحو ج / 2 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج/ 1 ص / 6
(32) نہج البلاغہ کى طرف رجوع کريں
(33) بحار الانوار ج/ 2 ص / 65
(34) تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص / 69
(35)تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 191 اور دوسرى تمام کتب تواريخ
(36) تاريخ ابن ابى الحديد ج / 4 ص / 160 ، تاريخ طبرى ج / 4 ص / 124 ، تاريخ ابن الاثير ج / 3 ص / 203
(37) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 193
(38) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 202
(39) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 196 ، مروج الذہب ج / 3 ص / 77
(40) مروج الذہب ج / 3 ص / 5 ، تاريخ ابو الفداء ج / 1 ص / 183
(41) النصائح الکافيہ ص / 194
(42) النصائح الکافيہ ص / 7273
(43) النصائح الکافيہ ص / 58647778
(44) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 216 ، تاريخ ابو الفداء ج / 1 ص / 190 ، مروج الذہب ج / 3 ص / 64
(45) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 243 ، تاريخ ابو الفداء ج / 1 ص / 192 ، مروج الذہب ج / 3 ص /78
(46) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 224 ، تاريخ ابو الفداء ج / 1 ص / 192 ، مروج الذہب ج / 3 ص / 81
(47) وليد بن يزيد تاريخ يعقوبى ج / 3 ص / 73
(48) بحث امام شناسى ،مروج الذہب ج / 3 ص / 228
(49) معجم البلدان ، مادہٴ قم
(50) مروج الذہب ج / 3 ص / 217 219 ، تاريخ يعقوبى ج / 3 ص / 66
(51) تاريخ يعقوبى ج/3ص/84