- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/11/27
- 0 رائ
خلیفہ سوم کے قتل کے بعد، ایک بار پھر طمع و لالچ کے شعلہ بھڑکنے لگے اور لوگوں کی طرف سے علی(ع) کا انتخاب ہونا سبب ہوا کہ طلحہ و زبیر جیسے لوگوں نے اپنی اجتماعی حیثیت اور رسول اللہ(ص) کے ساتھ جنگ میں شراکت کو ایک امتیاز کے طور پر دیکھا کہ ہوسکتا ہے ان سب امتیازات کے سبب علی(ع) کی طرف کوئی خاص مقام و منصب ہاتھ آجائے۔ غرض یہ لوگ اسی لالچ میں علی کے ساتھ تھے۔ اور ان کی جو توقعات علی(ع) سے وابستہ تھیں ان کا پورا ہونا تو در کنار بلکہ حضرت نے حکومتی معاملات میں ان سے مشورہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
جنگ جمل میں اقتدار کے بھوکوں کا کردار
قارئین کرام! کبھی بھی دین اسلام نے جنگ اور خونریزی کی تائید نہیں کی اور اگر دین میں جنگ کا تصور بھی پایا جاتا ہے تو وہ بہت ہی اضطراری صورت میں ہے جیسا کہ اپنے دفاع کے خاطر اگر دشمن مرکز اسلام اور مسلمانوں پر چڑھ دوڑے تو آخری حکمت عملی کے طور پر اسلام نے جنگ کی تجویز پیش کی ہے چنانچہ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے کلام میں جنگ و جدال کو دوران جاہلیت کے رسوم، آداب و عادات میں سے قرار دیا ہے اور مالک اشتر کو آپ نے ہر طرح کی جنگ و جدال اور خونریزی سے منع فرمایا ہے۔ جب کہ خود حضرت کو پانچ برس کے مختصر سے ظاہری اقتدار کے دور میں مختلف جنگیں لڑنا پڑیں اور وہ بھی کہیں باہر سے آئے ہوئے کفار و مشرکین سے نہیں بلکہ یہ سب جنگیں مسلمانوں سے لڑی گئیں چنانچہ ان میں سے ایک جنگ جس پر ہم گفتگو کریں گے جنگ جمل ہے۔
خلیفہ سوم کے قتل کے بعد، ایک بار پھر طمع و لالچ کے شعلہ بھڑکنے لگے اور لوگوں کی طرف سے علی(ع) کا انتخاب ہونا سبب ہوا کہ طلحہ و زبیر جیسے لوگوں نے اپنی اجتماعی حیثیت اور رسول اللہ(ص) کے ساتھ جنگ میں شراکت کو ایک امتیاز کے طور پر دیکھا کہ ہوسکتا ہے ان سب امتیازات کے سبب علی(ع) کی طرف کوئی خاص مقام و منصب ہاتھ آجائے۔ غرض یہ لوگ اسی لالچ میں علی کے ساتھ تھے ۔اور ان کی جو توقعات علی(ع) سے وابستہ تھیں ان کا پورا ہونا تو در کنار بلکہ حضرت نے حکومتی معاملات میں ان سے مشورہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو علی(ع) جنگ و جدال کرنے کو قبیح شمار کررہے ہیں اور دوسری طرف خود آپ کے حکومتی کارنامہ میں جنگ جمل جیسی خطرناک و عبرتناک جنگ کا نام بھی شامل ہے کہ جس میں طرفین کے دسیوں ہزار لوگ قتل ہوئے۔(1)
مگر علی(ع) کے مد مقابل کچھ صحابہ جیسا کہ طلحہ و زبیر،کہ جو خلیفہ دوم کی تشکیل کردہ شوریٰ میں خلفیہ کو معین کرنے والے لوگوں میں سے تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ خود رسول اللہ(س) کی زوجہ ’’ جناب عائشہ‘‘ بھی تھیں اب ان لوگوں نے ایسا کیا کردیا تھا کہ حضرت نے ان لوگوں سے جنگ کرنے کے سلسلہ میں فرمایا تھا : کہ اگر میں ان لوگوں کے ساتھ جنگ نہ کروں تو دین محمد(ص) کا منکر ہوجاؤں گا‘‘واقعاً یہ مسلمانوں کے امتحان کا سخت ترین مرحلہ تھا۔
جنگ جمل کی وجوهات
حضرت علی(ع) کے ہاتھوں میں ظاہری طور پر خلافت کی باگ ڈور آجانے کے بعد بہت سے ایسے اسباب اور عوامل رونما ہوئے جیسا کہ زیادہ طلبی،لالچ، حسد، علی کی عدالت کو برداشت نہ کرپانا وغیرہ۔ ان کے سبب معروف اصحاب اور پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں مؤثر اور با نفوذ سیاسی و اجتماعی شخصیتیں رسول خدا(ص) کے بر حق جانشین کے سامنے صف آراء ہوگئے۔اگرچہ یہ دونوں(طلحہ و زبیر) ظاہری طور پر صحیح راستے پر تھے لیکن رسول خدا(ص) کے وصال کے بعد ہمیشہ ریاست و منصب کا خمار ان کے سروں کو چکرانے لگا یا بہ الفاظ دیگر انہیں تینوں خلفاء کے زمانے میں وافر مقدار میں پانی میسر نہ آیا ورنہ یہ بہت اچھی تیراکی کرسکتے تھے۔
دوسرا ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جیسے ہی علی(ع) مسند خلافت پر تشریف لائے بیت المال میں چلی آرہی عرصہ کی امتیازی دھندلے بازی کا اصول لغو کردیا گیا اور بیت المال سے حصہ پانے میں سب لوگ مساوی ہوگئے اب نہ کوئی مہاجر تھا اور نہ انصاری،نہ کوئی گورا تھا اور نہ کوئی کالا۔بلکہ حضرت علی(ع) بھی بیت المال سے اتنا ہی حصہ لیتے تھےجتنا ایک حبشی غلام کو ملتا تھا۔
اب جب علی(ع) کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ اب سب کو بیت المال سے برابر حصہ ملے گا تو ظاہر ہے ایک عرصہ سے مفت کی کھانے والوں کو یہ عدالت علوی کا منشور گراں گذرنے لگا لہذا کچھ لوگوں نے ایک ساتھ ملکر ان دونوں صحابیوں (طلحہ و زبیر) کے اعتراضات میں شراکت کی اور اسی درمیان خود زوجہ رسول اللہ(ص) چونکہ علی(ع) سے دیرینہ بغض و حسد رکھتی تھیں انہوں نے اپنی اجتماعی حیثیت و وقار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ہم مقصد ہو گئیں اور اس طرح علی(ع) کے مقابل ایک عظیم لشکر آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
جنگ جمل میں معاویہ کا کردار
معاویہ بن ابی سفیان خلیفہ دوم کی حکومت کے زمانے سے لیکر عثمان کے قتل ہونے تک تقریباً 17 برس مسلسل شام کا بے رقیب حاکم تھا اور اس کی ساری کوشش یہ تھی کہ لوگ اسلام کو اس کے سلیقہ اور آئینہ سے پہچانیں۔ لہذا جب مدینہ میں لوگوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو مروان نے معاویہ کو ان تمام واقعات سے اگاہ کیا لہذا حالات سے آگاہی کے بعد معاویہ نے مدینہ کے بہت سے سربرآوردہ افراد جیسا کہ طلحہ بن عبیداللہ، زبیر بن عوام، سعید بن عاص، ولید بن عقبہ اور مروان بن حکم جیسے لوگوں کو فرداً فرداً خطوط تحریر کئے اور بہت ہوشیاری اور اپنی سیاسی مکاری سے جنگ جمل کے لئے جمع کی گئی لکڑیوں میں فتنہ کی چنگاریاں رکھ دیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی سیاست بازی میں طلحہ و زبیر جیسے لوگوں کی زندگیاں اور سیاسی تجربات بھی بازیچہ اطفال بن کر رہ گئے اگرچہ یہ دونوں علی(ع) سے راضی نہیں تھے لیکن علی(ع) کے خلاف بغاوت کرنے کا حوصلہ ان میں نہیں تھا۔لہذا معاویہ کے خطوط،مروان کی دسیسہ کاری، اور زوجہ پیغمبر(ص) کی مخالفت، حسد اور دیرینہ دشمنی یہ وہ سب اسباب تھے جن سے ملکر ایک عظیم لشکر علی(ع) کے مد مقابل آگیا۔ اور جنگ کے شعلے بھڑکنے لگے۔
جنگ کا آغاز کس نے کیا؟
اگرچہ یہ اتنا عظیم لشکر حضرت علی(ع) کے مد مقابل آگیا تھا لیکن آپ نے آخر تک اس اصول پر عمل کیا کہ جہاں تک ہوسکے جنگ واقع نہ ہو چنانچہ آپ نے اسی سلسلہ میں متعدد لوگوں کو خطوط لکھے،بصرہ کے لوگوں کے سامنے خطبات پڑھے تاکہ ان پر واضح ہوجائے اور سب کو حقیقت حال کا علم ہوجائے اور اپنے اصحاب سے بھی یہ تأکید فرمائی کہ تم میں سے کوئی بھی جنگ کا آغاز نہ کرے لیکن بلوائیوں اور فتنہ گر جنگ کرنے پر مُصر تھے یہاں تک کہ جنگ کے باقاعدہ آغاز سے پہلے ناکثین کی طرف آپ نے ایک تفصیلی خط تحریر کیا اور اپنے قاصد کے ذریعہ ان تک پہونچایا اور ان سب کو اتحاد کی دعوت دی لیکن انہوں نے حضرت کے قاصد اور اس کے ہمراہ چند دیگر ساتھیوں کو قتل کردیا۔
اس حادثہ کے بعد ہی سے ناکثین کی طرف سے سازشوں کا سلسلہ طولانی ہوتا گیا اور ایک عبرت ناک جنگ ہوئی جس میں علی(ع) کا لشکر فتح مند و ظفر یاب ہوکر لوٹا۔
اور تاریخی شواہد اور حقائق نیز خود علمائے اہل سنت نے جا بجا یہ اعتراف کیا ہے کہ علی(ع) نے کسی بھی جنگ کا آغاز نہیں کیا بلکہ آپ نے ہمیشہ لوگوں کو دین پر عمل کرنے کی دعوت دی اور آپ نے آخر تک مخالفین سے گفتگو کے ذریعہ مسائل کے حل کرنے کی کوششیں کیں۔(2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1- مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۳۷۱؛ خلیفة بن خیاط، تاریخ خلیفة بن خیاط، ۱۴۱۵ق، ص۱۱۲؛ ابن أعثم كوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۴۸۷.2۔
۲- بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۱۷۰ـ۱۷۱؛ یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۱۸۲؛ طبری، تاریخ، ج۴، ص۵۰۹، ۵۱۱؛ ابناعثم کوفی، کتاب الفتوح، ج۲، ص۴۷۳.3۔