- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/12/30
- 0 رائ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلاٰمُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہِ مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الَّذِیْنَ اَذْھَبَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَ طَھَّرَھُمْ تَطْھِیْرًا۔ مدینے کے گورنر سے خطاب اَیُّھَا الْأَمیرِ اِنّٰا اَھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّةِ وَ مَعْدِنُ الرِّسٰالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلاٰئِکَةِ وَ مَھْبَطُ الرَّحْمَةِ بِنٰا فَتَحَ اللّٰہُ وَ بِنٰا یَخْتِمُ، وَ یَزِیْدُ رَجُلٌ شٰارِبُ الْخَمْرِ وَ قٰاتِلُ النَّفْسِ الْمُحْتَرَمَةِ مُعْلِنٌ بِالْفِسْقِ وَ مِثْلی لاٰ یُبٰایِعُ مِثْلَہُ وَلٰکِنْ نُصْبِحُ وَ تُصْبِحُونَ وَ نَنْظُرُ وَ تَنْظُرُوْنَ اَیُّنٰا اَحَقُّ بِالْخِلاٰفَةِ وَ الْبَیْعَةِ۔
خطبات یا فضائل حسین ابن علی حضرت امام حسين کے خطبات کی وضاحت سے پہلے اس نکتے کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ کسی مقدس و بزرگوار شخصیت کی زندگی اور شہادت کے بارے میں جب بھی کوئی کتاب لکھی جاتی ہے تو پہلے اس کے فضائل اور اس کی مذہبی و معاشرتی زندگی کے حالات پر مشتمل احادیث و روایات نقل کی جاتی ہیں لیکن ہم نے اس کتاب میں مذکورہ روش سے ہٹ کر شروع ہی سے اصل موضوع(امام حسین علیہ السلام کے خطبات و فرامین) کو اختیار کیا ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ کتاب کا آغاز حضرت امام حسینں کے واضح ترین فضائل﴿اِنّٰا اَھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّةِ وَ مَعْدِنُ الرِّسٰالَةِ﴾ اور اختتام آپ کی ایک خوبصورت مناجات﴿اَللّٰھُمَّ مُتَعَالِی الْمَکَانِ عَظِیْمُ الْجَبَرُوْتِ﴾ سے ہوتا ہے بلکہ اس کتاب کا ہر ورق اہل دل اور اہل یقین و معرفت کے لئے حضرت امام حسین کے ایک دلنشین سخن پر مشتمل ہے اور اس کا ہر صفحہ اہل فض و دانش کے لئے امام کی شخصیت و عظمت کو اجاگر کرنے والی ایک کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔
چنانچہ اگر ہم اس کتاب کا نام ”سخنانِ حسین ابن علی “ کی بجائے ”فضائل حسین ابن علی “ رکھ دیں تو بے جا نہ ہوگا۔ کلام امام کی وضاحت ۶۰ ء ہجری کے ماہ ِ رجب میں معاویہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے یزید نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اور بلا تاخیر اپنی مملکت کے تمام گورنروں اور وزراء کو خطوط لکھے اور انہیں باپ کی موت اور اپنی جانشینی کی اطلاع دی جس کے لئے اس کے باپ نے اپنی زندگی میں ہی لوگوں سے بیعت لے لی تھی۔ نیز انہیں اپنے عہدو پر برقرار رکھتے ہوئے حکم صادر کیا کہ وہ لوگوں سے دوبارہ اس کے لئے بیعت لیں۔ مدینے کے گورنر ولید بن عتبہ کو ایک مزید خصوصی مختصر سا خط بھی لکھا کہ مدینے کی تین معروف شخصیات سے ضرور بیعت لی جائے کیونکہ انہوں نے معاویہ کے دور میں بیعت ِ یزید سے انکار کر دیا تھا۔
اس خصوصی حکم نامے میں یزید نے لکھا:﴿خُذِ الْحُسَیْنَ وَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَر وَ عَبْدَ اللهِ ابْنَ زُبَیْرٍ اَخْذًا شَدیدًا لَیْسَتْ فیہِ رُخْصَةٌ حَتّٰی یُبٰایِعُوا وَ السَّلامُ﴾ (حسین ، عبد الله بن عمر اور عبد الله ابن زبیر سے سختی کے ساتھ بیعت لو اور جب تک وہ بیعت نہ کر لیں اس امر میں کسی قسم کی نرمی کی اجازت نہیں ہے)۔ ولید بن عتبہ نے نے خط ملتے ہی مروان بن الحکم کو بلایا اور اس سے مشورہ کیا۔ اس نے رائے دی کہ معاویہ کی موت کی خبر پھیلنے سے پہلے ان افراد کو دربار میں بلا کر ان سے بیعت طلب کرو چنانچہ ولید نے اسی وقت ان حضرات کی طرف اپنا آدمی بھیجا۔ اس نے آکر انہیں کہا کہ ولید نے آپ کو ایک انتہائی حساس اور اہم مسئلے پر مشورہ کرنے کے لئے بلایا ہے۔ حضرت امام حسینں اور ابن زبیر مسجد نبوی میں مصروفِ گفتگو تھے کہ ولید کا پیغام ملا۔ ابن زبیر رات کے وقت اس بے موقع بلاوے پر خوفزدہ ہوگیا لیکن امام حسینں نے بڑی متانت کے ساتھ ابن زبیر کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:﴿اَرٰی اَنَّ طٰاغِیَتَھُمْ قَدْ ھَلَکَ﴾ (میرے خیال میں اس کا بادشاہ فوت ہو چکا ہے اور اس بلاوے کا مقصد یزدی کے لئے بیعت لینا ہے۔) امام نے اپنے نظریے کی تائید میں مزید فرمایا کہ ”میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ معاویہ کے گھر سے آگ کے شعلے بلند ہوئے ہیں اور اس کا تخت الٹ گیا ہے۔“
پھر امام نے اپنے خاندان کے تیس افراد کو حکم دیا کہ وہ مسلح ہوکر ان کے ساتھ دربار تک چلیں اور گورنر سے گفتگو کے دوران باہر تیار کھڑے رہیں تاکہ ضرورت کے وقت ان کا دفاع کر سکیں۔ امام کی پیشگوئی کے عین مطابق ولید نے آپ کو معاویہ کی موت کی اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ یزید کے لئے بیعت طلب کی۔ امام نے جواب میں فرمایا: ”مجھ جیسی شخصیت کو مخفی طور پر بیعت نہیں کرنی چاہیئے اور تمہیں بھی ایسی بیعت پرا راضی نہیں ہونا چاہیئے چونکہ تم نے مدینے کے تمام افراد کو تجدید بیعت کے لئے بلانا ہے ہم نے بھی اگر بیعت کا فیصلہ کر لیا تو سب لوگوں کے ساتھ مل کر بیعت کر لیں گے“۔ یعنی یہ بیعت خوشنودیٴ خدا کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے لی جا رہی ہے لہٰذا اس کا انعقاد اعلانیہ طور پر ہونا چاہیئے نہ کر مخفیانہ طریقے سے۔ ولید نے امام کے اس نقطہٴ نظر سے اتفاق کیا اور رات کے وقت اس طرح بیعت لینے پر اصرار نہ کیا۔ جب امام دربار سے باہر نکلنے کے لئے اٹھے تو مروان بن حکم نے (جو وہاں بیٹھا ہوا تھا) اشارے سے ولید کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر تم اس موقع پر حسین سے بیعت نہ لے سکے تو پھر تمہیں بیعت حاصل کرنے کے لئے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور شاید خونریزی کی بھی نوبت آجائے۔ بس بہتر یہ ہے کہ تم انہیں اسی دربار میں ٹھہرائے رکھو یہاں تک کہ بیعت کر لیں یا پھر یزید کے حکم کے مطابق تم انہیں قتل کر دو۔ امام نے جب مروان کا یہ اشارہ دیکھا تو فوراً خشمناک ہوکر فرمانے لگے: ”زرقا کے بیٹے! تم جھوٹ بولتے ہو اور گناہ کے مرتکب ہو۔ یہ تمہاری خام خیالی ہے کہ مجھے قتل کر سکو“۔
اس کے بعد امام نے ولید سے مخاطب ہوکر فرمایا: ﴿اَیُّھَا الْأَمیرِ اِنّٰا اَھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّةِ﴾ (اے امیر! ہم خاندان نبوت ہیں، رسالت کی کان ہیں ہمارا خاندان فرشتوں کی آمد و رفت کی آماج گاہ، اور رحمت خدا کے نزول کی جگہ ہے، خداوند عالم نے ہمارے خاندان کے لئے اسلام کی ابتدا فرمائی اور آخر تک یہ اسلام ہمارے ہی خاندان کے ذریعے ترقی کی منازل طے کرے گا، البتہ یزید جس کی بیعت کی تم مجھ سے توقع رکھتے ہو، وہ تو شرابی ہے اس کے ہاتھ بے گناہ افراد کے خون سے آلودہ ہیں وہ ایسا شخص ہے جو احکام الٰہی د کی حرمت کو پامال، اور لوگوں کے سامنے اعلانیہ طور پر فسق و فجور کرتا ہے، آیا مجھ جیسے نمایاں اور پاکیزہ ترین خاندان کے فرد کے لئے جائز ہے کہ ایسے فاسق و فاجر کی بیعت کرے اور تم دونوں کو چاہیئے کہ مستقبل کو پیش ِ نظر رکھیں اور تم عن قریب جان لو گے کہ خلافت اور امت ِ مسلمہ کی رہبری کرنے اور لوگوں سے بیعت لینے کے لئے کون زیادہ حق دار و سزاوار ہے۔
اس موقع پر دربارِ ولید میں شور و غوغا اٹھا اور امام حسینں کے ان سخت کلمات کی آواز جب نوجوانانِ بنی ہاشم تک پہنچی تو انہیں خطرے کا احساس ہوا۔ چنانچہ فوراً ہی چند جوان دربار میں داخل ہوگئے۔ لیکن اما م نے انہیں روک لیا اور ولید و مروان کو حیران و پریشان چھوڑ کر اور ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے دربار سے واپس لوٹ ۱ آئے۔ نتیجہ : امام کے اس کلام سے چند نکات حاصل ہوتے ہیں:
۱۔ امام نے معاویہ کے بیٹے کی بیعت کرنے کے سلسلہ میں اپنا موقف بڑی وضاحت سے بیان فرمایا۔ پھر اپنے خاندان کی صفات بیان فرمائیں اور آگاہ کیا کہ یہی خاندان امت مسلمہ کی رہبری و امامت کا زیادہ حقدار اور سزاوار ہے پھر آپ نے یزید کی صفات رذیلہ بیان فرمائیں اور واضح فرما دیا کہ اس شخص میں صلاحیت ہی نہیں کہ وہ امت مسلمہ کی رہبری کر سکے۔
۲۔ امام نے اس گفتگو میں اپنے مستقبل کے پروگرام کو بھی مشخص و معین کیا اور یہ انتہائی توجہ طلب نکتہ ہے کہ ابھی اہل کوفہ کی طرف سے خطوط نہیں لکھے گئے تھے اور نہ ہی اہل کوفہ نے بیعت کی پیش کش کی تھی کیونکہ وہ ابھی تک معاویہ کی موت سے بے خبر تھے اور ان کی اسی ناآگاہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تو یزید نے مدینے کے گورنر کو امام حسینں سے جلد از جلد بیعت لینے کا حکم دیا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ دربار ولید میں امام کے جرأت مندانہ کلام، واقعہ طلب ِ بیعت اور امام کی مکہ روانگی سے مطلع ہونے کے بعد اہل کوفہ نے امام کو خطوط لکھے تھے۔
خلاصہ یہ کہ اگرچہ ظاہری طور پر یزید کے خلاف امام حسین کے مسلح قیام کے بہت سے اغراض و مقاصد تھے لیکن سب سے بڑا مقصد اس طاقت کا خاتمہ تھا جو بغیر کسی صلاحیت کے مسلمانوں کے امور کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھی اور امت مسلمہ میں ظلم و فساد کو رواج دے رہی تھی اور اسے حقیقی راستے سے منحرف کرکے تباہی و بربادی کی طرف لے جا رہی تھی۔ درحقیقت یزید یہ چاہتا تھا کہ اپنے دادا ابو سفیان کی خواہشات کی تکمیل کے لئے راستے کی ساری رکاوٹیں دور کرکے خلافتِ اسلامیہ کا لباس پہن کر اور منافقانہ طریقے سے ان پلید مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کی خواہش لے کر ابو سفیان اس دنیا سے چل بسا تھا چنانچہ امام حسینں کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جب بھی تذکرہ آتا ہے اس کی تعبیر اسی یزیدی طاقت کو نابود کرنے سے کی جاتی ہے۔ امام حسینں نے صرف دربار ولید ہی میں اس مقصد کی طرف اشارہ نہیں کیا بلکہ اس واقعے کے بعد خاندان عصمت و طہارت کے دیرینہ دشمن (مروان بن حکم) سے جب امام کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو اس وقت بھی امام نے بڑی وضاحت کے ساتھ تاکیداً چند کلمات ارشاد فرمائے۔
مروان بن حکم کے جواب میں
انّٰا لِلّٰہِ وَ اِنّٰا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ وَ عَلَی الْإِسْلاٰمِ السَّلاٰمُ اِذٰا بُلِیَتِ الْاُمَّةُ بِرٰاعٍ مِثْلِ یَزیدَ وَ لَقَدْ سَمِعْتُ جَدّی رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ: اَلْخِلاٰفَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلٰی آلِ اَبی سُفْیٰانَ فَاِذٰا رَاَیْتُمْ مُعٰاوِیَةَ عَلٰی مِنْبَری فَابْقَرُوْا بَطْنَہُ وَقَدْ رَآہُ اَھْلُ الْمَدینَةِ عَلَی الْمِنْبَرِ فَلَمْ یَبْقَرُوا فَابْتَلاٰھُمُ اللّٰہُ بِیَزیدَ الْفٰاسِقِ۔
ترجمہ و توضیح
دوسرے روز: ابا عبد الله الحسین میں آپ کا خیر خواہ ہوں اور آپ کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں اگر آپ اسے قبول فرما لیں تو یہ آپ کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ امام نے فرمایا: اپنی تجویز پیش کرو۔ اس نے عرض کی: ”جب کل رات ولید بن عتبہ نے آپ کو بلا کر آپ سے بیعت کا مطالبہ کیا تھا تو آپ کو یزید کی بیعت کر لینی چاہیئے تھی اور یہ چیز آپ کے لئے دنیا و آخرت میں سود مند ثابت ہوتی“۔
امام نے اس کے جواب میں فرمایا: ﴿اِنّٰا لِلّٰہِ وَ اِنّٰا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ وَ عَلَی الْإِسْلاٰمِ ۔ الخ﴾ اب اسلام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیئے چونکہ مسلمانوں کا حاکم یزید بن گیا ہے۔ ہاں، میں نے اپنے جد امجد رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ ”ابو سفیان کے خاندان پر خلافت حرام ہے اور اگر تم معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے فوراً مار ڈالنا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مدینہ کے لوگوں نے اسے منبر رسول پر دیکھا لیکن اسے قتل نہ کیا۔ اب خداوند تعالیٰ نے ان پر یزید جیسے فاسق و فاجر کو مسلط کر دیا ہے۔“ ۱ امام کے گزشتہ کلام کی توضحیح کے ضمن میں بھی ہم نے اشارہ کیا تھا اور اس کلام سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام نے مدینہ ہی میں اپنا یہ موقف واضح طور پر بیان کر دیا تھا کہ یزید کی حکومت کے خلاف ان کا احتجاج آخر دم تک جاری رہے گا۔
ظلم و جور کے خلاف آئمہ ہدیٰ نے ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے جو جرأت مندانہ موقف اختیار کیا اس کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے۔ ظالم اور استبدادی حکومتوں سے نبرد آزمائی صرف حسین ابن علیں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ تمام آئمہ ھدیٰ علیہم السلام چونکہ اسلام کی حفاظت اور بقا کے لئے موٴثر ترین علم بردار تھے اس لئے انہوں نے اپنے اپنے دور میں ظلم و بربریت کے خلاف جد و جہد جاری رکھی البتہ زمانے کے حالات اور دیگر سیاسی اور مذہبی وجوہ کی بنا پر آئمہ ھدیٰ علیہم السلام کی علمی جدوجہد کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
- غیر مسلح جد و جہد۔
- مسلح جد و جہد۔
- غیر مسلح جد و جہد: تاریخ کے ان ادوار میں جب معاشرے پر مسلط طاغوت اپنے عروج پر تھا اور دین مبین کے مخلص پیروکاروں کی کمی تھی ایسے وقت میں آئمہ ھدیٰ کے لئے مسلح جدوجہد کرنا قطعاً نامناسب تھا کیونکہ اس طرح دشمن کو مزید طاقتور بننے کا موقع مل سکتا تھا۔ ان ادوار میں آئمہ طاہرین علیہم السلام نے مسلح جدوجہد کی بجائے غیر مسلح جدوجہد کو ترجیح دی یعنی مخالفین اسلام کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی البتہ جابر حکمرانوں کے خلاف امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی صورت میں اپنی جدوجہد جاری رکھی اور یہ اسی کا ردعمل تھا کہ ان کی آزدای سلب کی گئی انہیں زندان میں قید رکھا گیا اور انہیں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ آئمہ طاہرین علیہم السلام کی غیر مسلح جدوجہد کا ایک نمونہ یہ تها کہ انہوں نے ایوان ہائے حکومت سے تعلق رکھنے، کسی قسم کا منصب قبول کرنے اور کسی بھی قسم کی کمک کرنے حتیٰ کہ عدالت میں شکایات لے جانے اور وہاں سے انصاف طلب کرنے کو بھی حرام قرار دیا۔
اس کی مثال امام موسیٰ کاظمں کی وہ گفتگو ہے جو امام نے صفوان جمّال سے کی۔ اس نے اپنے اونٹ تاریخ کے سب سے بڑے ڈکٹیٹر ہارون رشید کے درباریوں کو حج کے سفر کے لئے کرائے پر دیے تھے۔ امام نے صفوان کو اس عمل پر سخت تنبیہہ کی۔ صفوان نے امام کے حکم پر یہاں تک عمل کیا کہ وقت سے پہلے تمام اونٹ بیچ ڈالے۔ یہ بات ہارون الرشید سے مخفی نہ رہی۔ چنانچہ اس نے صفوان کو دربار میں طلب کیا اور اسے قتل کی دھمکی۱ دی۔
آئمہ طاہرین علیہم السلام کی یہ غیر مسلح جدوجہد اسلام دشمن حکومت کی کمزوری کا سبب بنی اور حکومت سے لاتعلقی اس بات کی علامت بنی کہ یہ حکومتیں غیر شرعی ہیں۔ چنانچہ اکثر لوگوں کو خلفاء کی اصلیت معلوم ہوگئی اور بعد میں یہی غیر مسلح جدوجہد، مسلح جدوجہد کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
۲۔ مسلح جدوجہد: جہاں پر مسلح جہاد ممکن تھا اور اس کے مفید اور ثمر بخش اثرات مدت دراز تک باقی رہنے کا امکان تھا وہاں آئمہ طاہرین علیہم السلام نے میدان جہاد میں قدم رکھا اور ایسے ہی مقامات پر (حضرت امام علی نقی ں کے فرمان کے مطابق) ظالم اور جابر سلطان کے سامنے خاموشی کو کفر قرار دیا ہے۔ امام حسینں کی اس جدوجہد میں بھی دونوں قسم کے مبارزے شامل ہیں اس لئے کہ ۵۰ ھ سے لے کر ۶۰ ھ تک یعنی امام حسنں کی شہادت اور ہلاکت معاویہ کی درمیانی مدت میں امام نے بعض آئمہ ھدیٰ کی طرح غیر مسلح جدوجہد کا طریقہ اختیار کیا لیکن معاویہ کی ہلاکت کے بعد چونکہ زمانے کے حالات بدل چکے تھے اور مسلح جدوجہد کے تمام اسباب فراہم ہو چکے تھے
لہٰذا امام نے بھی بغیر کسی تأمل کے اپنے دوستوں، اعزاء و اقربا اور قوم کے شدید مخالفت کے باوجود اس جدوجہد کا آغاز کیا اور یزید کے مقابلے میں اپنے اسلامی موقف کو واضح کر دیا اور قلیل یاران و انصار کے ساتھ (یہ جانتے ہوئے بھی کہ لوگوں میں خوف و ہراس بدرجہ اتم موجود ہے) ایسی راہ کا انتخاب کیا جس کا انجام شہادت تھا۔ اس راہ میں آپ کا وجودِ اقدس تیروں، تلواروں اور نیزوں کی آماجگاہ بنا، گھوڑوں کے سموں تلے پامال ہوا لیکن آپ نے زمانے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عظیم فریضہ اس طرح انجام دیا کہ بنو امیہ اپنی تمام شیطانی قوتوں اور وسائل کے باوجود یہ خون نہ چھپا سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ مسلح جدوجہد معاویہ کے دور میں بھی مناسب تھی؟ حالات سازگار ہوتے تو یقینا امام اس دور میں بھی اپنے پدر بزرگوار امیر المؤمنین حضرت علیں کی طرح ایسا ہی کرتے۔