- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- 2022/02/06
- 0 رائ
الله تبارک و تعالیٰ ایک ھے اور اس کا کوئی شریک نھیں ھے اس نے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ھے ، اس کے علاوہ کوئی خالق اور پیدا کرنے والا نھیں اور نہ ھی اس نے کسی کی مدد سے خلق کیا ھے اسی سلسلہ میں چند دلیلوں کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رھا ھے ۔
پھلی دلیل:
اگر دو خدا (یا اس سے زیادہ) ھوتے تو چند حالتیں ممکن ھیں۔
پھلی حالت یہ کہ دونوں نے (دنیا) موجودات کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ھے ، دوسری حالت یہ کہ ایک دوسرے کی مدد سے دنیا کو خلق کیا ھے ، تیسری حالت یہ کہ دونوں نے دنیا کو دو حصوں میں خلق کیا ھے لیکن ایک دوسرے کی خدائی میں دخالت کرتے ھیں ۔
پھلی حالت : دونوں نے دنیا کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ھے (یعنی ھر چیز دو دفعہ خلق ھوئی ھے) اس کا باطل ھونا واضح ھے۔
الف: چونکہ ھر ایک شخص میں ایک وجود سے زیادہ وجود نھیں پایا جاتا ھے اس لئے ایک سے زیادہ خدا کا تصور نھیں ھے۔
ب: ایک خدا نے کسی چیز کو پیدا کیا اور پھر دوسرا خدا اگر دو بارہ اس کو خلق کرے اس کو علماء کی اصطلاح میں تحصیل حاصل کھتے ھیں، (کہ ایک چیز موجود ھو پھر اس کو حاصل کیا جائے)۔
ج: یا حکماء اور فلاسفر کی اصطلاح میں ایک معلول (موجود) میں دو علت تامہ اثر گذاری کریں محال ھے یعنی ایک موجود کو خلق کرنے میں دو علت ایک وقت میں کار فرما ھو محال و باطل ھے۔
دوسری حالت: ان دونوں خدا نے ایک دوسرے کی مدد (شرکت) سے موجودات کو خلق کیا ھے، یعنی ھر موجود دو خدا کی مخلوق ھو اور دونوں آدھے آدھے برابر کے شریک ھوں یہ احتمال بھی باطل ھے۔
الف: دونوں خدا ایک دوسرے کے محتاج تھے یعنی تنھاموجودات کو خلق کرنے سے عاجز و مجبور تھے تو یہ بحث پھلے گذر چکی ھے کہ خدا عاجز و محتاج نھیں ھے۔
ھو سکتا ھے کوئی کھے دونوں خلق پر قادر ھیں لیکن پھر بھی دونوں شریک ھو کر موجودات کو وجود میں لاتے ھیں یہ بھی باطل ھے کیونکہ دو فاعل کسی کام پر قادر ھوتے ھوئے پھر بھی تنھاکسی کام کو انجام نہ دیں اس میں چند صورتیں ممکن ھیں :
الف: یا دونوں بخل کر رھے ھیں جو کہ نصف نصف پر کام کرتے ھیں یعنی چاھتے ھیں کہ زیادہ خرچ نہ ھو۔
ب: یا دونوں آپس میں ڈرتے ھیں اور اس ڈر کی بنا پر کم خرچ کر رھے ھیں۔
ج: یا دونوں مجبوراً آپس میں شریک ھیں ۔
جواب یہ ھے:
الف: خداوند عالم محتاج و نیاز مند نھیں ھے۔
ب: دونوں دنیا کے خلق کرنے کی مصلحت اور اس کا علم رکھتے ھیں اور اس کی پیدائش پر قدرت بھی رکھتے ھیں اور ان کی قدرت و علم عین ذات بھی ھے، اور اسی کے ساتھ بخل و کنجوسی بھی پائی جاتی ھے جو خدا کی ذات کے لئے اور مناسب نھیں ھے۔
ج: کوئی کام ایک دوسرے کے تحت خوف سے کرتے ھیں تو یہ ، شانِ خدا کے بر خلاف ھے کیونکہ جو خدا ھوتا ھے وہ متاٴثر و عاجز نھیں ھو سکتا ھے ۔
د: دونوں عالم و قادر اور بخیل و عاجز نھیں ھیں تو چاھے موجود میں فقط ایک علت ھو اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایک دنیا اور بنائیں ۔
ان باتوں سے سمجھ میں آتا ھے دونوں کو چاھیے اپنی قدرت و علم کے تحت دو دنیا بنائیں اور اس سے پھلے ثابت ھوچکا ھے کہ ایک معلول میں دو علت کا اثر انداز ھونا باطل و محال ھے ۔
تیسری حالت: دونوں (مفروض)خدا دنیا کو نصف نصف تقسیم کر کے اپنے اپنے حصہ میں مستقلا موجودات کو خلق کرے (اورمثل بادشاھوں کے اپنے حصہ میں حاکم بنے رھیں، ایسا فرض ھی باطل ھے اس لئے کہ دو خدا نھیں ھو سکتے اور نہ دنیا کے دو حصے ھوسکتے ھیں) اور ایک دوسرے کے حصے میں دخالت کرے یہ احتمال بھی باطل ھے ، اس لئے کہ ھر وہ فرضی خدا آپس میں مستقلاً ایک دوسرے کے حصہ میں دخالت (خلق) کی صلاحیت رکھتے ھیں تو چاھیے کہ جدا اور اسے الگ خلق کرے ورنہ اس کا لازمہ یہ ھوگا کہ دو علت ایک معلول میں موثرھوگی، جب کہ اس کا بطلان پھلے گذر گیا ھے یا اگر صلاحیت و استعداد نھیں رکھتا یا خلق پر قادر نھیں ھے یا کنجوسی کر رھا ھے تو وہ ناقص ھے اور ناقص، خدائی کی صلاحیت نھیں رکھتا ھے ۔
دوسری دلیل :
اگر خدا کسی موجود کو پیدا کرے اور دوسرا اس موجود کو تباہ کرنے کا ارادہ کرے تو کیا پھلا خدا اپنی خلق کی ھوئی چیز کا دفاع کر سکتا ھے ؟ اور دوسرے کے شر سے اس کو محفوظ رکھ سکتا ھے؟ اگر پھلا اپنی موجودہ چیز کی حفاظت نھیں کر سکتا تو عاجز ھے اور عاجز خدا نھیں ھو سکتا، اور اگر یہ دفاع کر سکتا ھے تو دوسرا خدا نھیں ھو سکتا اس لئے کہ عاجز ھے اور عاجز خدا نھیں ھو سکتا ھے۔
نتیجہ
ھم خدا کو ایک اور لا شریک موجودات کو خلق کرنے والا جانتے ھیں اور اس کے علاوہ جو بھی ھو اس کو ناتوان ، مجبور و عاجز اور مخلوق شمار کرتے ھیں ، ھم فقط اللہ تبارک و تعالیٰ کو لائق عبادت جانتے ھیں کسی دوسرے کے لئے سجدہ نھیں کرتے اور نہ ھی کسی اور کے لئے جھکتے ھیں ھم آزاد ھیں اپنی آزادی کو کسی کے حوالے نھیں کرتے اور کسی کی بے حد و انتھاتعریف نھیں کرتے اور چاپلوسی کو عیب جانتے ھیں ۔
ھم انبیاء اور ائمہ (ع) کا احترام اور ان کے بیان کئے گئے احکام کی پیروی اس لئے کرتے ھیں کہ خدا نے ان کو واجب الاحترام اور واجب الاطاعت قرار دیا ھے ، یعنی ان کے احترام و اتباع کو واجب قرار دیا ھے ، ان کے احکام و قوانین ھمیشہ خدا کے احکام کی روشنی میں رھے ھیں اور ان لوگوں نے کبھی بھی زیادتی اور اپنے حدود سے تجاوز نھیں کیا ھے ، ھم انبیاء و ائمہ (ع) کے مرقد پر جاتے ھیں اور ان کے مزار و روضہ کا احترام کرتے ھیں ،لیکن یہ پرستش اور ان کی بندگی کے عنوان سے نھیں بلکہ خدا کی بارگاہ میں بلند مقام اور پاکیزگی و بزرگی کا خیال رکھکران کی تکریم کرتے ھیں اور ان کے روضہ کی تعمیر اور ان کی فداکاری و جانثاری و قربانیوں کی قدر دانی کرتے ھیں ،اور دنیا کو بتانا چاھتے ھیں کہ جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زحمت و مشقت کو برداشت کرے اور اس کے احکام و پیغام و ارشاد کو لوگوں تک پھنچائے، تو نہ اس دنیا میں بھلایا جائے گا اور نہ آخرت میں ، ھم ان مقدس اللہ کے بندوں،پاک سیرت نمائندوں اور اس کے خاص چاھنے والوں کے حرم میں خداوند ذوالجلال کی بارگاہ میں اپنے گناھوں کی بخشش اور اپنی حاجت کی قبولیت اور رازونیاز کرتے ھیں ، اور اپنی دعا و مناجات میں ان مقدس بزرگوں کی ارواح طیباہ کو خدا کے حضور میں واسطہ و وسیلہ قرار دیتے ھیں ۔
خداوند عالم عادل ھے یعنی کسی پر ظلم نھیں کرتا اور اس سے کوئی بُرا کام صادر نھیں ھوتا ھے بلکہ اس کے تمام کام میں حکمت اور مصلحت پائی جاتی ھے اچھے کام کرنے والوں کو بھترین جزا دے گا کسی چیز میں جھوٹ اور وعدہ خلافی نھیں کرتا ھے ، کسی کو بے گناہ اور بے قصور جھنم میں نھیں ڈالے گا ، اس مطلب پر دو دلیل پیش خدمت ھے ۔
پھلی دلیل:
جو شخص ظلم کرتا ھے یا برے کام کو انجام دیتا ھے اس کی صرف تین صورتیں پائی جاتی ھیں[1] یا وہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف نھیں ھے اس وجہ سے ظلم و زیادتی انجام دیتا ھے[2] یاوہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف و آگاہ ھے لیکن جو چیزیں دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتا ھے چونکہ اس کے پاس وہ شی نھیں ھوتی اس لئے اس کو لینے کے لئے ان پر ظلم کرتا ھے تا کہ ان کے اموال کو لے کر فائدہ اٹھائے اپنے عیب و نقص (کمی) کو پورا کرے اس کا مطلب یہ ھے کہ اپنے کام کرنے والوں (کارگروں) پر ستم کرتا ھے اور ان کے حقوق کو ضائع و برباد کرتا ھے اور خود قوی ھے اس لئے کمزوروں اور مجبوروں پر ظلم کرتا ھے ، اور ان کے اموال و اسباب سے چاھتا ھے کہ اپنی کمی کو برطرف اور اپنے نقص کو پورا کرے[3] یا ظلم و زیادتی سے آگاھی رکھتا ھے اس کو ان کی ضرورت بھی نھیں ھے ، بلکہ انتقام اور بدلہ یا لھو و لعب کے لئے ایسا کام انجام دیتا ھے۔
عموما ًھر ظلم و ستم کرنے والے انھیں اسباب کی وجہ سے ان کاموں کے مرتکب ھوتے ھیں ، لیکن خداوند عالم کی ذات اس سے منزہ اور پاکیزہ ھے ، وہ ظلم و ستم نھیں کرتا اس لئے کہ جہالت و نادانی اس کے لئے قابل تصور نھیں ھے، اور وہ تمام چیزوں کی اچھائی اور برائی کی مصلحتوں سے خوب واقف ھے وہ ھر چیز سے مطلقا بے نیاز ھے ، اس کو کسی کام اور کسی چیز کی ضرورت و حاجت نھیں ھے ، اس سے لغو و بےھودہ کام بھی صادر نھیں ھوتا اس لئے کہ وہ حکیم ھے در نتیجہ اس کے پاس صرف عدالت ھی عدالت موجود ھے ظلم و ستم کا شائبہ بھی نھیں پایا جاتا ھے ۔
دوسری دلیل:
ھماری عقل، ظلم و ستم کو ناپسند اور برا کھتی ھے اور تمام عقلمندوں کا بھی اس پر اتفاق ھے کہ خداوند عالم نے اپنے بھیجے ھوئے انبیاء کو بھی لوگوں پر ظلم و ستم نیز برے کاموں کے انجام دینے سے منع فرمایا ھے ، اس بنا پر کیسے ھو سکتا ھے کہ جس چیز کو تمام عقلمندافراد برا اور ناپسند کریں اور خدا اپنے بھیجے ھوئے خاص بندوں کو ان کاموں سے منع کرے اور خود ان غلط کاموں کو انجام دے؟!
البتہ سماج اور معاشرے میں دیکھنے کو ملتا ھے کہ تمام لوگ ھر جھت سے برابر نھیں ھیں، بلکہ بعض ان میں فقیر اور بعض غنی، بد صورت و خوبصورت، خوش فھم و نا فھم، سلامت و بیمار وغیرہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا ھے۔
بعض اشخاص پریشانیوں میں مبتلا رھتے ھیں یہ تمام کی تمام چیزیں بعض اسباب اور علتوں کی بنا پر انسان کے اوپر عارض ھوتی ھیں جس سے فرار اور چھٹکارا ممکن ھے ، کبھی یہ اسباب طبعی علتوں کی بنیاد پر اور کبھی خود انسان ان میں دخالت رکھتا ھے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود خدا کے فیض کا دروازہ کھلا ھوا ھے اور ھر شخص اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اس سے فیض حاصل کرتا ھے خداوند عالم کسی بھی شخص کو اس کی قدرت و طاقت سے زیادہ تکلیف و ذمہ داری نھیں دیتا ، انسان کی کوشش اور محنت کبھی رائگاں نھیں ھوتی، ھر فرد بشر کی ترقی کے لئے تمام حالات و شرائط میں راستے کھلے ھوئے ھیں۔
حواله جات
[1] سورہ موٴمنون
[2] آیت ۱۱۵< اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاکُم عَبَثًا وَ اَنکُّم اِلَینَا لَا تُرجَعُونَ > کیا تم یہ گمان کرتے ھو کہ ھم نے تم کو بے کار پیدا کیا ھے اور تم ھمارے پاس لوٹا کر نھیں لائے جاؤ گے ۔
[3] آیت ۱۱۵< اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاکُم عَبَثًا وَ اَنکُّم اِلَینَا لَا تُرجَعُونَ > کیا تم یہ گمان کرتے ھو کہ ھم نے تم کو بے کار پیدا کیا ھے اور تم ھمارے حضور میں لوٹا کر نھیں لائے جاؤ گے ۔