- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 14 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2024/01/31
- 0 رائ
دنيا کا ظاہری رخ (روپ)
دنیاوی زندگی کا ظاہری روپ بے حد پر فریب ہے کیونکہ جس کے پاس چشم بصیرت نہ ہو اسکو یہ زندگانی دنیا دھوکے میں مبتلا کرکے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور پھراسے آرزووں ،خواہشات ، فریب اور لہوولعب کے حوالے کردیتی ہے۔جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
(وماالحیاۃ الدنیا الا لعب ولھو)(۱۷)
”اوریہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے ”
(ماھذہ الحیاۃ الدنیا الا لھوولعب) (۱۸)
”اوریہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ”
(انما الحیاۃ الدنیا لعب ولھو و زینۃ و تفاخر بینکم) (۱۹)
”یادرکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ ،آرائش باہمی فخرومباہات اوراموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے ”
خداوند عالم نے دنیا کے جس رخ کو لہو ولعب قرار دیا ہے وہ اسکا ظاہری رخ ہے۔ اور لہو ولعب سنجیدگی اور متانت کے مقابلہ میں بولاجاتا ہے۔۔
البتہ انسان اسی وقت لہو ولعب میں گرفتار ہوتا ہے کہ جب وہ دنیا کے ظاہری روپ پر نظر رکھے اور سنجیدگی و متانت سے دور رہے چنانچہ اگر وہ دنیا کے ظاہرکے بجائے اس کے باطن پر توجہ رکھے تو لہو ولعب (کھیل کود) سے بالکل دور ہوکر زاہد و پارسا بن جائیگا اور دنیا کے دوسرے معاملات میں الجھنے کے بجائے اسے صرف اپنے نفس کی فکر لاحق رہے گی۔ کیونکہ دنیا”لُماظۃ”ہے۔
مولائےکائنات (ع)فرماتے ہیں:
” ألامَن یدع ھذہ اللُّماظۃ ” (۲۰)
”کونہے جو اس لماظہ کو چھوڑ دے ”لماظہ منھ کے اندر بچی ہوئی غذا کوکہا جاتاہے ”۔
حضرت علی(ع):
” اُحذّرکم الدنیافانھا حلوۃ خضرۃ، حُفّت بالشھوات ” (۲۱)
”میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہایسی شیرین وسرسبز ہے جوشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ”
دنیاوی زندگی کے ظاہر اور باطن کا موازنہ
قرآن کریم میں دنیاوی زندگی کے دونوں رخ (ظاہر وباطن )کا بہت ہی حسین موازنہ پیش کیا گیا ہے نمونہ کے طورپر چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ (انّما مثل الحیاۃ الدنیا کماءٍ أنزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض مما یأکل الناس والانعامحتیٰ اذا أخذت الارض زُخرفھا وازّیّنت وظنّ أھلھا أنّھم قادرونعلیھا أتاھا أمرنا لیلاً أونھاراً فجعلناھا حصیداً کأن لم تغن بالامس کذٰلک نفصّل الآیات لقومٍ یتفکّرون) (۲۲)
”زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نےآسمان سے نازل کیا پھر اس سے مل کر زمین سے نباتات برآمد ہوئیں جن کو انسان اورجانور کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے سبز ہ زارسے اپنےکو آراستہ کرلیا اور مالکوں نے خیال کرنا شروع کردیا کہ اب ہم اس زمین کے صاحب اختیار ہیں تو اچانک ہمارا حکم رات یا دن کے وقت آگیا اور ہم نے اسے بالکل کٹا ہوا کھیت بنا دیا گویا اس میں کل کچھ تھا ہی نہیں ہم اس طرح اپنی آیتوں کو مفصل طریقہ سے بیان کرتے ہیں اس قوم کے لئے جو صاحب فکر ونظر ہے”
اس آیۂ کریمہ میں زندگانی دنیا، اس کی زینت اور آرائشوں اور اس کی تباہی و بربادی اور اس میں اچانک رو نما ہونے والی تبدیلیوں کی عکاسی مو جود ہے۔
چنانچہ دنیا کو اس بارش کے پانی سے تشبیہ دی گئی ہے جو آسمان سے زمین پر برستا ہے اور اس سے زمین کے نباتات ملتےہیں تو ان نباتات میں نمو پیدا ہوتا ہے اور وہ انسانوں اور حیوانوں کی غذا نیز زمین کی زینت بنتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب زمین اپنی آرائشوں اور زینتوں سے آراستہ ہوجاتی ہے۔۔۔ تو اچانک یہ حکم الٰہی کسی بجلی، آندھی(ہوا) وغیرہ کی شکل میں اس کی طرف نازل ہوجاتا ہے اور اسے بالکل ویرانے اور خرابے میں تبدیل کردیتا ہے جیسے کل تک وہ آباد ،سرسبز و شاداب ہی نہ تھی یہ دنیا کے ظاہری اور باطنی دونوں چہروں کی بہترین عکاسی ہے کہ وہ اگر چہ سر سبزو شاداب، پُرفریب، برانگیختہ کرنے والی، پرکشش(جالب نظر) دلوں کے اندر خواہشات کو بھڑکانے والی ہے لیکن جب دل اس کی طرف سے مطمئن ہو جاتے ہیں تو اچانک حکم الٰہی نازل ہوجاتا ہے اور اسے کھنڈر اور بنجر بناڈالتا ہے جس سے لوگوں کو کراہیت محسوس ہو تی ہے۔
اس سورہ کا پہلا حصہ دنیا کے ظاہری چہرہ کی وضاحت کر رہا ہے جو انسان کودھوکہ اور فریب میں مبتلا کردیتا ہے جب کہ دوسرا حصہ وعظ و نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کا سرچشمہ ہے۔ جو کہ دنیا کا باطنی رخ ہے۔
۲۔:” انّا جعلنا ماعلیٰ الارض زینۃً لھا لنبلوھم أیّھم أحسن عملاً” (۲۳)
”بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زینت قرار دیدیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے”
دنیا یقینا ایک زینت ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہی زینت و آرائش انسانی خواہشات کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے مگر ان آرائشوں کی کوکھ میں مختلف قسم کے امتحانات بلائیں اور آزما ئشیں پوشیدہ رہتی ہیں جن کے اندر انسان کی تنزلی کے خطرات چھپے رہتے ہیں اور یہ بالکل اسی طرح ہیں جیسے کسی شکار کو پکڑنے کے لئے چارا ڈالا جاتا ہے۔
۳۔ (اعلموا أنماالحیاۃ الدنیا لعب ولہو و زینۃ و تفاخر بینکم و تکاثر فی الاموال والاولاد کمثل غیث أعجب الکفّار نباتہ ثم یھیج فتراہ مصفرّا ثم یکون حطاماً و فی الآخرۃ عذاب شدید و مغفرۃ من اﷲ ورضوان و ما الحیاۃ الدنیا الاّٰ متاع الغرور) (۲۴)
”یاد رکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ، آرائش، باہمی فخر و مباہات، اوراموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے اور بس۔ جیسےکوئی بارش ہو جس کی قوت نامیہ کسان کو خوش کردے اور اس کے بعد وہ کھیتی خشک ہوجائے پھر تم اسے زرد دیکھو اور آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوجائے اور آخرت میں شدید عذاب بھی ہے اور مغفرت اور رضائے الٰہی بھی ہے اور زندگانی دنیا تو بس ایک دھوکہ کا سرمایہ ہے اور کچھ نہیں ہے”
دنیا کے بارے میں نگاہوں کے مختلف زاوئے
در حقیقت دنیا کو متعدد زاویوں سے دیکھنے کی وجہ سے ہی دنیا کے مختلف رخ دکھائی دیتے ہیں اسی لئے زاویہ نگاہ تبدیل ہوتے ہی دنیا کا رخ بھی تبدیل ہوجاتا ہے ورنہ دنیا تو ایک ہی حقیقت کا نام ہے مگر لوگ اس کی طرف دو رخ سے نظر کرتے ہیں۔
کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو دنیا کو پر غرور اور پرفریب نگاہوں سے دیکھتے ہیں جب کہ بعض حضرات اسے عبرت کی نگاہوں سے دیکھا کرتے ہیں ان دونوں نگاہوں کے زاویوں میں ایک انداز نگا ہ سطحی ہے جو دنیا کی ظاہری سطح پر رکا رہتا ہے اور انسان کو شہوت وغرور (فریب)میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ دوسرا انداز نظر اتنا گہرا ہے کہ وہ دنیا کے باطن کو بھی دیکھ لیتا ہے لہٰذا یہ اندازنظر رکھنے والے حضرات اس دنیا سے دوری اور زہد اختیار کرتے ہیں مختصر یہ کہ اس مسئلہ کا دارو مدار دنیا کے بارے میں ہمارے زاویہ نگاہ اور انداز فکر پر منحصر ہے۔ لہٰذا دنیا کے معاملات کو صحیح کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کے بارے میں انسان کا انداز فکر صحیح ہونا چاهئے جس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ دنیا کے بارے میں اپنا زاویۂ نگاہ صحیح کرے اس کے بعد وہ اس کو جس نگاہ سے دیکھے گا اسی اعتبار سے اس کے ساتھ پیش آئے گا۔
لہٰذا جو حضرات دنیا کو پر فریب نگاہوں سے دیکھتے ہیں انہیں دنیا دھوکہ میں ڈال دیتی ہے اور خواہشات میں مبتلا کر دیتی ہے اور ان کے لئے یہ زندگانی ایک کھیل تماشہ بن کر رہ جاتی ہے جس کی طرف قرآن مجید نے متوجہ کیا ہے۔ اور جو لوگ دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ اپنے اعمال میں صداقت اور سنجیدگی کا خیال رکھتے ہیں اور آخرت کا واقعی احساس انہیں دنیا کے کھیل تماشہ سے دور کردیتا ہے۔
مولائے کائنات(ع) کے کلمات میں دنیا کے بارے میں موجود مختلف نگاہوں کی طرف واضح اشارے موجود ہیں جن میں سے ہم یہاں بعض کا تذکرہ کر رہےہیں:
(کانلی فیما مضیٰ أخ فی اﷲ ، و کان یعظّمہ فی عینی صغر الدنیا فی عینہ) (۲۵)
”گذشتہ زمانہ میں میرا ایک بھائی تھا جس کی عظمت میری نگاہوں میں اس لئے تھی کہ دنیا اس کی نگاہ میں حقیر تھی ”
دنیا کی توصیف میں آپ فرماتے ہیں:
(ماأصف من دار أوّلھا عناء، و آخرھا فناء، فی حلالھا حساب، و فیحرامھا عقاب، من استغنیٰ فیھا فُتن، و من افتقرفیھا حزن) (۲۶)
”میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جس کی ابتدا رنج وغم اور انتہا فنا ونیستی ہے اس کے حلال میں حساب اور حرام میں عقاب ہے۔جو اسمیںغنی ہوجاتا ہے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور جو فقیر ہو جاتا ہے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجاتا ہے”
یہی رخ دنیا کا باطنی رخ اور وہ دقت نظر ہے جو دنیا کے باطنمیں جھانک کردیکھ لیتی ہے۔
پھرآپ فرماتے ہیں:
(منساعاھافا تتہ،ومنقعدعنھاواتتہ) (۲۷)
”جواس کی طرف دوڑلگاتاہے اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہوجاتی ہے”
دنیا سے انسانی لگاؤ کے بارے میں خداوند عالم کی یہ ایک سنت ہے جس میں کبھی بھی خلل یا تغیر پیدا نہیں ہوسکتا ہے چنانچہ جو شخص دنیا کی طرف دوڑ لگائے گا اور اس کے لئے سعی کریگا اور اس کی قربت اختیار کریگا تو وہ اسے تھکا ڈالے گی۔ اور اس کی طمع کی وجہ سے اس کی نگاہیں مسلسل اس کی طرف اٹھتی رہیں گی۔ چنانچہ اسے جب بھی کوئی رزق نصیب ہوگا تو اسے اس سے آگے کی فکر لاحق ہوجائیگی۔ اور وہ اس کے لئے کوشش شروع کردیگا مختصر یہ کہ وہ دنیا کا ساتھی ہے اور اس کے پیچھے دوڑلگاتا رہے گا مگر اسے دنیا میں اسکا مقصد ملنے والا نہیں ہے۔
البتہ جو دنیا کی تلاش اور طلب میں صبر و حوصلہ سے کام لیکرمیانہ روی اختیار کریگا تو دنیا خود اس کے قدموں میں آکر اس کی اطاعت کرے گی اور وہ بآسانی اپنی آرزو تک پہونچ جائے گا۔
پھر آپ ارشاد فرماتےہیں:
(من أبصر بھا بصّرتہ ، و من أبصر الیھا أعمتہ) (۲۸)
”جو اس کو ذریعہ بنا کر آگے دیکھتا رہے اسے بینا بنا دیتی ہے اور جو اس کومنظور نظر بنالےتاہے اسے اندھا کردیتی ہے ”
سید رضی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی یہ تشریح فرمائی ہے: کہ اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی (من ابصر بھا بصرتہ) میں غور وفکر کرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اور گہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے۔
مولائے کائنات(ع) نے دنیا کے بارے میں نگاہ کے ان دونوں زاویوں کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں سے ایک یہ ہے ”کہ دنیا کو ذریعہ بنا کر آگے دیکھا جائے ”اس نگاہ میں عبرت پائی جاتی ہے اور دوسرا زاویہ نظر یہ ہے کہ انسان دنیا کو اپنا منظور نظر اور اصل مقصد بنالے اس نگاہ کا نتیجہ دھوکہ اور فریب ہے جس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے:
یہ دنیا کبھی انسان کے لئے ایک ایسا آئینہ بن جاتی ہے جس میں وہ مختلف تصویریں دیکھتا ہے اور کبھی اس کی نظر خود اسی دنیا پر لگی رہتی ہے۔
چنانچہ جب دنیا انسان کے لئے ایک آئینہ کی مانند ہوتی ہے جس میں جاہلیت کے تمدن اور زمین پر فساد برپا کرنے والے ان متکبرین کا چہرہ بخوبی دیکھ لیتا ہے جن کو خدا نے اپنے عذاب کا مزہ اچھی طرح چکھا دیا …تو یہ نگاہ، عبرت و نصیحت کی نگاہ بن جاتی ہے۔
لیکن جب دنیا انسان کے لئے کل مقصد حیات کی شکل اختیار کرلے اور وہ ہمیشہ اسی نگاہ سے اسے دیکھتا رہے تو دنیا اسے ہویٰ وہوس اور فتنوں میں مبتلا کرکے اندھا کر دیتی ہے اور وہ اسے بہت ہی سر سبز و شیرین دکھائی دیتی ہے۔
اس طرح پہلی نگاہ میں عبرت کا مادہ پایا جاتا ہے اور دوسری نظر میں فتنہ وفریب کا مادہ ہوتا ہے۔ پہلی نگاہ میں فقط بصیرت پائی جاتی ہے جبکہ دوسری نگاہ میں عیاری اور دھوکہ ہے۔
انہیں جملوںکی شرح کے بارے میں ابن الحدید کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت کے یہ جملات پڑھے تو اس کی تشریح میں یہ دو اشعار کہے:
” دنیا کمثل الشمستدنی الیک الضوء لکن دعوۃَ المہلکِ ان أنت أبصرتالیٰ نورھا تَعْشُ وان تُبصربہ تدرک ”
تمہاری دنیا کی مثال اس سورج جیسی ہے جس کی ضیاء تمہارے سامنے ہے لیکن ایک مہلک انداز میں کہ اگر تم اس (نور) کی طرف دیکھو گے تو تمہاری نگاہ میں خیرگی پیدا ہوجائی گی اور اگر اس کے ذریعہ کسی چیز کو دیکھنا چاہو گے تو اسے دیکھ لو گے.
اسی زاویہ نگاہ کی بنیاد پر مولائے کائنات(ع) نے یہ ارشاد فرمایا ہے:
(۔۔۔جعل لکم أسماعاً لتعی ما عناھا، أبصاراً لتجلوعن عشاھا۔۔۔ و کأن الرشدَ فی احراز دنیاھا۔۔۔)(۲۹)
”اس نے تمہیں کان عطا کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں۔۔۔ اور تمہارے لئے ماضی میں گذر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں۔۔۔ لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا۔۔۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی۔۔۔ تو کیا آج تک کبھی اقرباء نے موت کو دفع کیا ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے (ہرگز نہیں) مرنے والے کو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اس کی جلد کو پارہ پارہ کررہے ہیں۔۔۔ اور آندھیوں نے اس کے آثار کو مٹا دیا ہے اور روز گار کے حادثات نے نشانات کو محو کردیا ہے۔۔۔ تو کیا تم لوگ انہیں آباء واجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جارہے ہو اور انہیں کے طریقے کو اپنائے ہوئے ہو اور انہیں کے راستے پر گامزن ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا مخاطب ان کے علاوہ کوئی اور ہے اور شاید ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کرلینے میں ہے”
اس بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:
” وانما الدنیا منتھیٰ بصر الاعمیٰ، لا یبصر مما وراء ھا شیأاً، والبصیر ینفذھا بصرہ، و یعلم أن الدار ورائھا، فالبصیر منھا شاخص، والأعمیٰ الیھا شاخص، والبصیر منھا متزود، والأعمیٰ لھا متزود”(۳۰)
”یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اس کےماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جب کہ صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنےوالا ہے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ہے بصیر اس سے زاد راہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھا کرنے والا ہے”
واقعاً اندھا وہی ہے جس کی نگاہیں دنیا سے آگے نہ دیکھ سکیں اور وہ اس سے وابستہ ہوکر رہ جائے (اس طرح دنیا اندھے کی نگاہ کی آخری منزل ہے) لیکن صاحب بصیرت وہ ہے جس کی نگاہیں ماوراء دنیا کا نظارہ کرلیتی ہیں اور اس کی عاقبت کو دیکھ لیتی ہیں آخرت اس کی نظروں کے سامنے ہے لہٰذا (اس کی نگاہیں) اور اس کے قدم اس دنیا پر نہیں ٹھہرتے بلکہ وہ اس سے عبرت حاصل کرکے آگے کی طرف کوچ کرجاتا ہے۔
ابن ابی الحدید نے اس جملہ کی مذکورہ شرح کے علاوہ ایک اور حسین تشریح کی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔ دنیا اور مابعد دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے اندھا کسی خیالی تاریکی کا تصور کرتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اس تاریکی، کو محسوس کر رہا ہے جبکہ وہ واقعاً اسکا احساس نہیں کر پاتا بلکہ وہ عدم ضیاء ہے (وہاں نور کا وجود نہیں ہے) بالکل اس طرح جیسے کوئی شخص کسی تنگ و تاریک گڑھے میں گھس جائے اور تا ریکی کا خیال کرے مگر اسے کچھ نہ دکھائی دے اور اس کی نگاہیں کسی چیز کا مشاہدہ کرتے وقت کام نہیں کرپاتیں مگر وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ تاریکی وظلمت کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن جو شخص روشنی میں کسی چیز کو دیکھتا ہے اس کی بصارت (نگاہ)کام کرتی ہے اور وہ واقعاًمحسوسات کو دیکھتا ہے۔چنانچہ دنیا اور آخرت کی بھی بالکل یہی حالت ہے:کیونکہ اہل دنیا کی نگاہوں کی آخری منزل اور ان کی پہنچ صرف ان کی دنیا تک ہے۔او ر ان کا خیال یہ ہے کہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جبکہ واقعاً انہیں کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا ہے اور نہ ان کے حواس کسی چیز کے اوپر کام کرتے ہیں۔ لیکن اہل آخرت کی نگاہیں بہت کارگر ہیں اور انہوں نے آخرت کو باقاعدہ دیکھ لیا ہے لہٰذا دنیا پر ان کی نگاہیں نہیں ٹھہرتی ہیں، تو در حقیقت یہی حضرات صاحبان بصارت ہیں”(۳۱)
طرز نگاہ کا صحیح طریقہ کار
جس طرح انسان کے تمام اعمال وحرکات میں کچھ صحیح ہوتے ہیں اور کچھ غلط۔ اسی طرح کسی چیزکے بارے میں اس کا طرز نگاہ بھی صحیح یا غلط ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم نے رفتار و کردار کے صحیح طریقوں کی تعلیم دیتے ہوئے صحیح طرز نگاہ کی تعلیم ان الفاظ میں دی ہے:
(ولا تمدّن َّعینیک الیٰ ما متّعنابہ أزواجاً منھم زھرۃ الحیاۃ الدنیا لنفتنھم فیہ ورزق ربک خیرو أبقیٰ)(۳۲)
”اورخبر دار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالامال کردیا ہے اس کی طرف آپ نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں کہ یہ ان کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے”
نظر اٹھا کر دیکھنا بھی کسی چیز کو دیکھنے کا ایک طریقہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی نگاہ اس مال ودولت اور رزق کے اوپر پڑتی رہے جو خداوند عالم نے دوسروں کو عنایت فرمائی ہے اس مد نظر (نگاہیں اٹھا کر دیکھنے) میں اپنی حد سے تجاوز کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ گویا انسان کی نگاہیں اپنے پاس موجود خداوند عالم کی عطا کردہ نعمتوں سے تجاوز کرکے دوسروں کے دنیاوی راحت وآرام اور نعمتوں کی سمت اٹھتی رہیں اور مسلسل انہیں پر جمی رہیں۔
حد سے یہ تجاوز ہی انسانی مشکلات اور عذاب کا سرچشمہ ہے۔۔۔ کیونکہ جب تک خداوند عالم اسے مال نہ دیگا اسے مسلسل اس کی تمنا رہے گی اور وہ اس کے لئے کوشش کرتا رہے گا۔ اور جب خداوند عالم اسے اس نعمت سے نواز دیگا تو پھر وہ ان دوسری نعمتوں کی خواہش اور تمنا شروع کردیگا جو دوسروں کے پاس ہیں اور اس کے پاس نہیں ہیں۔۔۔ اور اس طرح دنیا سے اس کی وابستگی اور اس کے لئے سعی و کوشش میں دوام پیدا ہوجاتا ہے۔ (جیسا کہ مولائے کائنات(ع) نے ارشاد فرمایا ہے) نیز اس کے پیچھے دوڑنے سے عذاب مزید طولانی ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آخری مقصد تک نہیں پہونچ پاتا ہے، دنیا کے بارے میں اس طرز نگاہ سے انسا ن کو یاس وحسرت کے علاوہ اور کچھ ہاتھ آ نے والا نہیں ہے۔
واضح رہے کہ لوگوں کے پاس موجود نعمتوں پر نگاہیں نہ جمانے اور ان کی طرف توجہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان سعی و کوشش اور محنت ومشقت کرنا ہی چھوڑ دے کیونکہ ایک مسلمان ہمیشہ متحرک رہتا ہے۔ مگر لوگوں کے پاس موجود نعمتوں کو دیکھ کر حسرت اورغصہ کے گھونٹ پینےکی وجہ سے نہیں۔
مختصر یہ کہ: کسی بھی چیز کے بارے میں انسان کی طرز نگاہ اس کےنفس کی سلامتی یا بربادی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کیونکہ کبھی کبھی ایک نظر انسان کی روح کو آلودہ اور گندھلا بنا دیتی ہے اور اسے ایک طولانی مصیبت اور عذاب میں مبتلا کردیتی ہے۔ جیسا کہ روایت میں ہے:
(رُبَّ نظرۃ تورث حسرۃ) (۳۳)
”کتنی نگاہوں سے حسرت ہی ہاتھ آتی ہے”
جب کہ کبھی کبھی یہی نگاہ انسان کی استقامت اور استحکام عمل کا سرچشمہ قرار پاتی ہے بیشک اسلام ہمیں”نگاہ ونظر”سے منع نہیں کرتا ہے بلکہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں ہمارا زاویہ نگاہ کیا ہونا چاهے!
نفس کے اوپر طرز نگاہ کے اثرات اورنقوش
محبت یا زہد دنیا
انسان اپنی زندگی میں کسی چیز کے بارے میں چاہے جو طرز نگاہ اپنا لے اس کے کچھ نہ کچھ مثبت یا منفی (اچھے یا برے) اثرات ضرور پیدا ہو تے ہیں اور انسان اسی زاویۂ دید کے مطابق اس کی طرف قدم ا ٹھاتا ہے اس طرح انسان دنیا کے بارے میں چاہے جو زاو یہ نگاہ رکھتا ہو یا اسے جس زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہو اس کے فکر وخیال اور رفتار وکردار حتی اس کے نفس کے اوپر اس کے واضح آثار ونتائج اور نقوش نظر آئیں گے جن میں اس وقت تک کسی قسم کا تغیّریا تبدیلی ممکن نہیں ہے جب تک انسان اپنا انداز فکر تبدیل نہ کرلے۔
اس حقیقت کی بی حدا ہمیت ہے اور یہ اسلامی نظام تربیت کی ریڑھ کی ہڈی کا ایک حصّہ ہے اسی بنیاد پر ہم دنیا کے بارے میں سطحی طرز نگاہ۔(جو دنیا سے آ گے نہیں دیکھتی) اور جسے مولا ئے کائنات(ع) نے۔ (الابصار الی الدنیا) دنیا کو منظور نظر بنا کر دیکھنے سے تعبیر کیا ہے۔۔۔ اور دنیا کے بارے میں عمیق طرز نگاہ جسے امیرالمو منین(ع) نے (ابصاربالدنیا) دنیا کو ذریعہ بنا کر دیکھنے سے تعبیر کیا ہے ان دونوں کے نفسیاتی اور عملی اثرات کا جائزہ پیش کریں گے البتہ ان دونوں نگاہوں کا سب سے بڑا اثرحب دنیا یا زہد دنیا ہے۔۔۔ کیونکہ حب دنیا دراصل دنیا کے بارے میں سطحی طرز نگاہ کا فطری نتیجہ ہے اورزہد دنیا اس کے بارے میں عمیق طرز نگاہ کا فطری نتیجہ ہے۔
لہٰذا اس مقام پر ہم انسانی زندگی کی ان دونوں حالتوں پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
حـــب دنیا
جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ حب دنیا دراصل دنیا کے بارے میں سطحی انداز فکر کا نتیجہ ہے اور اس انداز نگاہ میں ماور ائے دنیا کو دیکھنے کی طاقت نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا یہ دنیا کی رنگینیوں اور آسائشوں تک محدود رہتی ہے اور اسی کی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے۔جبکہ زہد وپارسائی،دنیا کے بارے میں باریک بینی اور دقت نظر کا نتیجہ ہے۔
حب دنیا ہر برائی کا سر چشمہ
انسانی زندگی میں حب دنیا ہی ہر برائی اور شروفساد کا سرچشمہ ہے چنانچہ حیات انسانی میں کوئی برائی اور مشکل ایسی نہیں ہے جس کی کل بنیاد یااس کی کچھ نہ کچھ وجہ حب دنیا نہ ہو!
رسولاکرم (ص):
(حب ّالدنیا أصل کل معصیۃ،وأول کل ذنب) (۳۴)
”دنیا کی محبت ہر معصیت کی بنیاد اور ہر گناہ کی ابتدا ہے”
حضرت علی (ع) کا فرمان ہے: (حبّ الدنیا رأس الفتن وأصل المحن) (۳۵)
”محبت دنیا فتنوں کا سر اور زحمتوں کی اصل بنیاد ہے”
امام جعفر صادق(ع) کا ارشاد ہے: (رأس کل خطیئۃ حبّ الدنیا) (۳۶)
”ہربرائی کی ابتدا (سر چشمہ) دنیا کی محبت ہے”
حب دنیا کا نتیجہ کفر؟
حب دنیا کا سب سے خطر ناک نتیجہ کفر ہے جیسا کہ قرآن مجید میں محبت دنیا اور کفر کے درمیان موجود رابطہ اور حب دنیا کے خطر ناک نتائج کا تذکر ہ بار بار کیا گیا ہے۔
۱۔ خداوند عالم کا ارشاد ہے:
(ولکن من شرح با لکفرصدر اًفعلیھم غضب من اﷲ ولھم عذاب عظیم ذلک بأنھم استحبوا الحیاۃ الدنیاعلیٰ الآخرۃ وأن اﷲ لا یھدی القوم الکافرین) (۳۷)
” لیکن جو شخص کفر کےلئے سینہ کشادہ رکھتا ہو ان کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے زندگانی دنیا کو آخرت پر مقدم کیا اور اﷲ، ظالم قوموں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا ہے”
اس آیۂ کریمہ میں صرف کفرہی کو حب دنیا کا اثر نہیں قراردیا گیا ہے بلکہ آیۂ کریمہ نے اس سے کہیں آگے اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ حب دنیا سے کفر کے لئے سینہ کشادہ ہو جاتا ہے اور انسان اپنے کفر پر اطمینان خاطر پیدا کر لیتا ہے اور اس کے لئے کھلے دل (سعہ صدر) کا مظاہرہ کرتا ہے اور یہ صورتحال کفر سے بھی بدتر ہے ایسے لوگوں پر خداوند عالم غضبناک ہوتا ہے اور انھیں اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔
۲۔ ارشاد الٰہی ہے:
(وویل للکافرین من عذاب شدید٭الذین یستحبون الحیاۃ الدنیا علیٰ الآخرۃ و یصدّ ون عن سبیل اﷲ ویبغونھا عوجاً)
”اور کافروں کے لئے تو سخت ترین اورا فسوسناک عذاب ہے وہ لوگ جو زندگانی دنیا کو آخرت کے مقابلے میں پسند کرتے ہیں اور لوگوں کو راہ خدا سے روکتے ہیں اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں”
اس آیۂ کریمہ میں حب دنیا اور کفر یا راہ خدا سے روکنے کے درمیان موجود رابطہ کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
………………………..
حواله جات
۱۷۔ سورئہ انعام آیت ۳۲
۱۸۔ سورئہعنکبوت آیت ۶۴۔
۱۹۔ سورئہ حدید آیت ۲۰۔
۲۰۔ بحارالانوارج۷۳ص ۱۳۳۔
۲۱۔ بحارالانوارج ۷۳ص۹۶۔
۲۲۔ سورئہ یونس آیت ۲۴۔
۲۳۔ سورئہ کہف آیت ۷۔
۲۴۔ سورئہ حدیدآیت ۲۰۔
۲۵۔ نہج البلاغہ حکمت۲۸۹۔
۲۶۔ نہج البلاغہ خطبہ۸۲۔
۲۷۔ نہج البلاغہ خطبہ۸۲۔
۲۸۔ نہج البلاغہ خطبہ۸۲۔
۲۹۔ نہج البلاغہ خطبہ۸۳۔
۳۰۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۳۳۔
۳۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ص۲۷۶۔
۳۲۔ سورئہ طہ آیت ۱۳۱
۳۳۔ وسائل الشیعہ ج۱۴ص۱۳۸۔فروعکافی ج۵ص۵۵۹۔میزانالحکمت ج۱۰۔
۳۴۔ میزان الحکمت ج۳ص۲۹۴۔
۳۵۔ غرر الحکم ج۱ص۳۴۲۔
۳۶۔ بحارالا نوار ج۷۳ص۷۔
۳۷۔ سورئہ نحل /۱۰۶و۱۰۷