- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2024/01/25
- 0 رائ
مقدمہ
کسی را میسر نشد این سعادت
به کعبه ولادت به مسجد شهادت(علامه اقبال)
خانہ کعبہ ایک قدیم ترین عبادت گاہ ہے اس کی بنیاد حضرت آدم(ع) نے ڈالی تھی اور اس کی دیواریں حضرت ابراہیم(ع) اور حضرت اسماعیل(ع) نے بلند کیں۔ اگر چہ یہ گھر بالکل سادہ ہے نقش و نگار اور زینت و آرائش سے خالی ہے فقط چونے مٹی اور پتھروں کی ایک سیدھی سادی عمارت ہے، مگر اس کا ایک ایک پتھر برکت و سعادت کا سرچشمہ اور عزت و حرمت کا مرکز و محور ہے۔(۱)
خداوند عالم فرماتا ہے: ” جَعَلَ اللّٰہُ الکعبۃ البیت الحرام“(۲)
”اللہ تعالیٰ نےخانہ کعبہ کو محترم گھر قرار دیا ہے“
خانہ کعبہ کی عزت و حرمت دائمی اورابدی ہے ایسا نہیں ہے کہ پہلے اس کی عزت و حرمت تھی ابن ہیں ہے۔ بلکہ جس وقت اس کی بنیاد رکھی گئی اسی وقت سے اسے بلند اور با عظمت و غیر معمولی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اور آج بھی اس کی مرکزیت و اہمیت اسی طرح قائم و دائم ہے۔
خدا کے حکم سے حضرت ابراہیم(ع) نے حجاز کے ایک ویران علاقہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی حضرت اسماعیل(ع) بھی اس کام میں شریک ہو گئے۔ اس طرح باپ بیٹوں نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کو مکمل کرکے اسے پائے تکمیل تک پہنچایا۔ یہ حسن نیت و پرخلوص عمل کا نتیجہ تھا کہ خانہ کعبہ کو تمام جزیرہ عرب میں مرکزی عبادت گاہ کی حیثیت حاصل ہو گئی ہر گوشہ و کنار سے لوگ کھنچ کر آنے لگے۔
” اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍوُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَ ھُدیً لِلعٰالَمِینَ“ (۳)
”پہلا گھر جو لوگوں کے لئےبنایا گیا وہ بکہ میں ہے جو بابرکت اور سارےعالم کے لئے ذریعہ ہدایت ہے“
مولد امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب(ع)
یہ وہی محترم و پاک و پاکیزہ اور با عظمت گھر ہے جس میں مولائے متقیان حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام پیدا ہوئے۔ تمام علماو مورخین اہل سنت و شیعہ نے با اتفاق لکھا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ حاکم نیشاپوری جو اہل سنت کے بزرگ علما میں شمار ہوتے ہیں اپنی کتاب مستدرک،ج۳، ص۴۸۳ پر اس حدیث کو با سند و متواتر لکھا ہے:
لکھتے ہیں: ”وَقَد تَوَاتِرَتِالاَخبٰارُ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنتِ اَسَد(ع) وَلَدَتاَمِیرَ المُومِنِینَ عَلِی ابنُ اَبِی طَالِبٍکَرَّمَ اللّٰہُ وَجہَہُ فِی جَو فِ الکَعبَۃ“
”امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ، فاطمہ ابنت اسد کے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ”ازالۃ الخفائ“ صفحہ ۲۵۱ پر اس حدیث کو اور واضح طور پر تحریر کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سے پہلے اور نہ ان کے بعد کسی کو یہ شرف نصیب نہیں ہوا چنانچہ لکھتے ہیں:
”تواتر الاخبار انفاطمۃ بنت اسد ولدت امیر المومنین علیاً فی جوف الکعبۃ فانہ ولد فی یوم الجمعۃ ثالث عشر من شہر رجب بعد عام الفیل بثلاثین سنۃ فی الکعبۃ و لم یولد فیھا احد سواہ قبلہ ولا بعدہ“
متواتر روایت سے ثابت ہے کہ امیر المومنین علی(ع) روز جمعہ تیرہ رجب تیس عام الفیل کو وسط کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن سے پیدا ہوئے اور آپ کے علاوہ نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہوا“
حافظ گنجی شافعی اپنی کتاب ”کفایۃالطالب“ صفحہ ۲۶۰پر حاکم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ ۱۳رجب، ۳۰ عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی بیت اللہ میں نہیں پیدا ہوا۔ نہ اس سے پہلے اورنہ اس کے بعد۔ یہ منزلت و شرف فقط حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے”۔
” لم یولد قبلہ و لا بعدہ مولودفی بیت الحرام “ حضرت علی(ع) سے پہلے اور نہ آپ(ع) کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا نہیں ہو۔
علامہ امینی اپنی کتاب ”الغدیر“ جلد ۶ صفحہ ۲۱ کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب کی ولادت کے واقعہ کو کہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے، اہل سنت کی ۲۰ سے زیادہ کتابوں سے ذکر کیا ہے اور شیعوں کی پچاس سے زیادہ کتابوں سے نقل کیا ہے۔
بہر حال اصل واقعہ کو تھوڑا بہت اختلاف کے ساتھ اہل سنت علماء و مورخین نے یوں لکھا ہے: جب فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو انھوں نے جناب ابو طالب(ع) سے بتایا۔ جناب ابو طالب(ع) ان کا ہاتھ پکڑ کر بیت الحرام میں لائے اور خانہ کعبہ کے اندر لے گئے اور کہ:
” اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ خدا کا نام لے کر یہیں بیٹھ جائو
اس کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت بچہ پیدا ہوا جس کا نام جناب ابو طالب(ع) نے ”علی“ رکھا۔ اس حدیث کو ابن مغازلی نے اپنی کتاب مناقب اور ابن صباغ نے”فصول المھمہ“ میں نقل کیا ہے۔ اور بہت سے لوگوں نے ان سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
اسی سے ملتا جلتا واقعہ بعض مورخین و علماء شیعہ نے بھی لکھا ہے۔ لیکن علماء شیعہ رضوان اللہ علیہم نے کچھ اس طرح لکھا ہے:
جس وقت جناب فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو وہ خود خانہ کعبہ کے قریب تشریف لے گئیں اور خداوند عالم سے دعا کی کہ خدا یا میری اس مشکل کو آسان کر دے۔ ابھی دعا میں مشغول ہی تھیں کہ خانہ کعبہ کی دیوار پھٹی اور فاطمہ بنت اسد(ع) اندر داخل ہوگئیں اوروہیں پر حضرت علی علیہ السلا م کی ولادت ہوئی۔
بریدہ بن قعنب سےروایت ہے :
بریدہ کہتے ہیںکہ میں عباس اور بنی ہاشم کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد الحراممیں خانہ کعبہ کی طرف رخ کئے بیٹھا تھا کہ اچانک فاطمہ(ع) بنتاسد آئیں اور طواف خانہ کعبہ میں مشغول ہو گئیں، اثنائے طواف میں ان پرآثار وضع حمل ظاہر ہوئے تو خانہ کعبہ کے قریب آکر فرمایا:
”رب انی مومنۃ بکو بما جاءمن عندک من رسل و کتب،انی مصدقۃ بکلام جدی ابراھیمالخلیل، و انہ بنی البیت العتیق، فبحق الذی بنیٰ ھٰذا البیت، و بحق المولود الذی فی بطنی لما یسرت علی ّ ولادتی“
خداوندا میں تجھ پراور تیرےتمام پیغمبروں پر اور تیری کتاب پر ایمان رکھتی ہوں جو تیری طرف آئی ہے۔اور اپنے جد جناب ابراہیم خلیل کی تصدیق کرتی ہوں اور یہ کہ انھوں نے اس خانہ کعبہ کو بنایا، خدایا اس شخص کا واسطہ جس نے اس گھر کی بنیاد رکھی، اور اس بچے کا واسطہ جو میرے بطن میں ہے اس کی ولادت میرے لئے آسان کر۔
بریدہ بن قعنب کہتےہیں:
ہم لوگوں نے دیکھا کہ اچانک خانہ کعبہ کی پشت کی دیوار شق ہوئی اور فاطمہ(ع) بنت اسد کعبہ کے اندرداخل ہوکر نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ پھر دیوار کعبہ آپس میں مل گئی۔ ہم لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ خانہ کعبہ کا تالا کھول کر اندرداخل ہوں لیکن تالا نہ کھلا۔ تالے کے نہ کھلنے سے ہم لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ خداوند عالم کا معجزہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔جناب فاطمہ(ع) بنت اسد چوتھے روز حضرت علی علیہ السلام کو ہاتھوں پر لیئے ہوئے برآمد ہوئیں۔
روایت میں ہے کہ:فاطمہ بنت(ع) اسد فرماتی ہیں کہ علی(ع) کی ولادتکے بعد جب میں خانہ کعبہ سے باہر آنے لگی تو ہاتف غیبی نے ندا دی
” یا فاطمۃسمیہ علیا فھو علی واللّٰہ العلی الاعلیٰ یقول : انی شققت اسمہ من اسمی و ادبتہ بادبی، و وقفتہ علی غامض علمی۔۔۔۔“
اے فاطمہ(ع) اس بچہ کا نامعلی(ع) رکھواس لئے کہ یہ علی و بلند ہے اور خداعلیاعلیٰ ہے : میں نے اس بچہ کا نام اپنے نام سے جدا کیا ہے اور اپنے ادب سے اس کو مو ¿دب کیا ہے۔اور اسے اپنے علم کی باریکیون سے آگاہ کیا ہے۔ (۴)
ولادت علی(ع) کے سلسلہ میں علماء،
مو ¿رخین ومحدثین اہل سنت کا نظریہ
۱۔ حاکم نیشابوری
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ میںفاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے یہ روایت تواتر کی حد تک ہے۔ (۵)
۲۔حافظ گنجی شافعی
امیرالمو ¿منین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ ۳۱رجب، ۰۳ عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہ ہوا۔ یہ مقام و منزلت و شرف فقط حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے۔ (۶)
۳۔علامہ ابن صبّاغ مالکی
علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۳۱رجب،۰۳عام الفیل، ۳۲سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔حضرت علی علیہ السلام کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے۔ (۷)
۴۔احمد بن عبد الرحیم دہلوی :
شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم د معروف محدث دہلوی نقل کرتے ہیں:
”بغیر کسی شک وشبہ کے یہ روایت متواتر ہے کہ علی بن ابی طالب علیہالسلام شب جمعہ ۱۳رجب،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت،مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر فاطمہبنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی بھی شخصخانہ کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا۔ حضرت علی(ع) کی جلالتوبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے “(۸)
۵۔ علامہ ابن جوزی جنفی کہتے ہیں کہ حدیث میں وارد ہے :
”جناب فاطمہ(ع) بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھےں کہ وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اسی وقت خانہ کعبہ کا دروازہ کھلااورجناب فاطمہ(ع) بنت اسد کعبہ کے اندر داخل ہوگئےں۔اسی جگہ خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی علیہ السلام پیدا ہوئے۔ “(۹)
۶۔ابن مغازلی شافعی زبیدہ بنت عجلان سے نقل کرتے ہیں :
”جس وقت فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور درد شدت اختیار کرگیا، تو جناب ابو طالب(ع)بہت زیادہ پریشان ہوگئے اسی اثناءمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہاںپہنچ گئے اور پوچھا چچا جان آپ کیوں پریشان ہیں ! جناب ابو طالب(ع) نے جناب فاطمہ بنت اسد کا قضیہ بیان کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاطمہ(ع)بنت اسد کے پاس تشریف لے گئے۔اور آپ (ص) نے جناب ابو طالب(ع) کاہاتھ پکڑکر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوگئے،فاطمہ(ع) بنت اسد بھی ساتھ ساتھ تھیں۔ وہاں پہنچ کر آپ نے فاطمہ(ع) بنت اسد کو خانہ کعبہ کے اندر بھیج کر فرمایا : ”اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ اللہ کا نام لے کر آپ اس جگہ بیٹھ جائیے۔ پس کچھ دیر کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت وپاکیزہ بچہ پیدا ہوا۔ اتنا خوبصورت بچہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔جناب ابوطالب(ع) نے اس بچہ کا نام ” علی “رکھا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بچہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر فاطمہ(ع) بنت اسد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے۔ (۱۰)
۷۔علامہ سکتواری بسنوی:
اسلام میں وہ سب سے پہلا بچہ ہے جس کا تمام صحابہ کے درمیان ”حیدر “ یعنی شیر نام رکھاگیاہے۔ وہ ہمارے مولا اور سید و سردار حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ جس وقت حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابو طالب(ع) سفر پرگئے ہوئے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام کی مادر گرامی نے ان کانام تفاول کرنے کے بعد”اسد“ رکھا۔ کیوں کہ” اسد“ ان کے والد محترم کا نام تھا۔(۱۱)
۸۔ علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی(فرنگی محلی):
حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی اس پاک و پاکیزہ اور مقدس جگہ پر پیدا نہ ہوا۔ خداوند عالم نے اس فضیلت کو فقط حضرت علی(ع) ہی سے مخصوص کیا ہے اور خانہ کعبہ کو بھی اس شرف سے مشرف فرمایا ہے۔(۱۲)
۹۔ صفی الدین حضرمی شافعی لکھتے ہیں:
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی۔آپ(ع) وہ پہلے اور آخری شخص ہیں جو ایسی پاک اور مقدس جگہ پیدا ہوے۔(۱۳)
۱۰۔ حافظ شمس الدین ذہبی:
حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد ذہبی ” تلخیص مستدرک “ میں تحریر فرماتے ہیں: یہ خبر تواتر کی حد تک ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ (۱۴)
۱۱۔ آلوسی بغدادی:
یہ واقعہ اپنی جگہ بجا اور بہتر ہے کہ خداوند عالم نے ارادہ کیا ہے کہ ہمارے امام اور پیشوا کو ایسی جگہ پیدا کرے جو سارے عالم کے مومنین کا قبلہ ہے۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ پر وردگار کہ ہر اس چیز کو اسی کی جگہ پر رکھتا ہے۔وہ بہترین حاکم ہے۔(۵۱)
وہ آگے لکھتے ہیں:
جیسا کہ کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بھی چاہتے تھے کہ خانہ کعبہ جس کے اندر پیدا ہونا ان کے لئے باعث افتخار تھااس کی خدمت کریں۔یہی وجہ تھی کہ انھوں نے بتوں کو بلندی سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا۔ حدیث کے ایک ٹکڑے میں آیا ہے کہ خانہ کعبہ نے بارگاہ خداوندی میں شکایت کرتے ہوئے کہا : بار الٰہا کب تک لوگ میرے چاروں طرف بتوں کی پوجا کرتے رہیں گے۔ خداوند عالم نے اس سے وعدہ کیا کہ اس مکان مقدس کو بتو ں سے پاک کرے گا۔(۱۶)
۱۲۔ عبد الحق دہلوی:
عبد الحق بن سیف الدین دہلوی اپنی کتاب ” مدارج النبوہ“ میں تحریر فرماتے ہیں: جناب فاطمہ بنت اسد نے امیر المومنین کا نام حیدر رکھا، اس لئے کہ معنی کے اعتبار سے باپ (اسد) اور بیٹے کا نام ایک ہی رہے۔ لیکن جناب ابو طالب(ع) اس نام کو پسند نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آپ کا نام ” علی(ع) “ رکھا۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو ”صدیق “ کہہ کر پکارا اور آپ کی کنیت ” ابو ریحانتین“ رکھی۔ ” امین، شریف، ہادی، مہتدی، یعسوب الدین وغیرہ القاب سے آپ کو نوازا۔اس کے بعد عبد الحق بن سیف الدین دہلوی تحریر فرماتے ہیں: ”حضرت علی(ع) کی ولادت باسعادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی“ (۱۷)
۱۳۔اخطب خوارزمی:
موفق بن احمد جو اخطب خوارزمی سے مشہور ہیں اپنی کتاب ” مناقب“ میں تحریر فرماتے ہیں: ”علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۱۳رجب،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت اور بعثت سے ۱۰ یا ۱۲ سال پہلے مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“۔ (۱۸)
۱۴۔ شیخ مومن بن حسن شبلنجی:
شیخ مومن بن حسن شبلنجی کہتے ہیں کہ حضرت علی ابن طالب(ع) حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور خداوند عالم کی برہنہ تلوار ہیں جو مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر ۱۳رجب الحرام جمعہ کے دن ۳۰ عام الفیل ہجرت کے ۲۳سال قبل خانہ خدا میں پیدا ہوئے۔(۱۹)
۱۵۔عباس محمود عقاد:
عقاد کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پید ا ہوئے۔ خداوند عالم نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے کو پاک و پاکیزہ اور بلند قرار دیا تھا کہ وہ بتوں کا سجدہ نہ کریں لہٰذا وہ چاہتا تھا کہ ایک نئے انداز اور نئی جگہ ان کی ولادت ہو پس خانہ کعبہ کو انتخاب کیا جو عبادت گاہ تھی۔قریب تھا کہ علی علیہ السلام مسلمان پیدا ہوتے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمان پیدا ہوئے، لہٰذا ہم ان کی ولادت پر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوئے کیوں کہ وہ بتوں کی پرستش سے ناواقف تھے اور نہ کبھی بتوں کی پوجا کی۔ وہ اس مبارک جگہ پیدا ہوئے جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔ (۲۰)
۱۶۔ علامہ صفوری:
علامہ صفور ی کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اپنی مادر گرامی کے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر جس کو خدا نے شرف بخشا ہے پیدا ہوئے۔ یہ وہ فضیلت ہے جس کو خداوند عالم نے ان کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔ (۲۱)
۱۷۔ علامہ برہان الدین حلبی شافعی:
علامہ برہان الدین حلبی شافعی نے حضرت علی ابن ابی طالب کی ولادت کے سلسلہ میں کافی طولانی بحث کی ہے مختصر یہ کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیداہوئے۔ اس وقت حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمرمبارک تیس سال تھی۔(۲۲)
۱۸۔ عبد الحمید خان دہلوی:
عبد الحمید خان دہلوی لکھتے ہیں: اکثر مورخین کا اتفاق و اعتقاد ہے کہ حضرت علی علیہ السلام مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر جمعہ کے دن ۱۳ رجب تیس عام الفیل کو پیدا ہوئے اُس سے پہلے اور اُس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا۔(۲۳)
۱۹۔ باکثیر حضرمی:
”علی بن ابی طالب علیہ السلام ۱۳رجب،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ (۲۴)
۲۰۔ مولوی اشرف
”علی بن ابی طالب علیہ السلام ۱۳رجب،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ (۲۵)
۲۱۔ علّامہ سعید گجراتی:
علامہ سعید گجراتی اہل سنت کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں،اپنی کتاب ” الاعلام با ¿ علام مسجد الحرام “ میں اس روایت کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ” حضرت علی(ع) ابو قبیس نامی پہاڑ کے دامن میں پیدا ہوئے“ جس کو دشمنان اہلبیت(ع) نے لکھا ہے۔
” خدا یا! تو بہترجانتا ہے کہ یہ بہتان دشمنان اہلبیت(ع) کی طرف سے ہے۔ دشمنان علی(ع) نے اس واقعہ کو گڑھا ہے۔ جب کہ متواتر روایتیں دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ خدایا! تو مجھے رسول اکرم (ص) کی سنت پر باقی رکھ اور ان کے اہلبیت(ع) کی دشمنی سے دور رکھ “ (۲۶)
۲۲۔ عبد المسیح انطاکی مصری:
عبد المسیح انطاکی مصری شاعرنے مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی ولادت سےمتعلق تقریبا پانچ سو (۵۰۰) شعر کہیں ہیں کہ حضرت علی(ع) خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ میں ان تمام اشعار کو یہاں ذکر نہیں کر سکتا شاہد کے طور پر مطلع آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:
فی رحبۃالکعبۃ الزھراءقد انبثقت
انوار طفل وضائت فی منافیھا (۲۷)
تحریر: مولانا صفدر حسین یعقوبی
………………………….
حواله جات
۱۔ سیرہ امیر المومنین، ج۱۱۴۔ تالیف علامہ مفتی جعفر حسین صاحب ( ناشر امامیہ کتب خانہ لاہور)
۲۔ سورہ مائدہ ۹۷
۳۔ سورہ آل عمران ۹۶
۴۔ زندگانی امیر المومنین(ع) ،ص۷۲،مصنف سید ہاشم رسولی محلاتی (ناشردفتر فرہنگ اسلامی قم)
۵۔ مستدرک حاکم نیشاپوری،ج۳ص۴۸۳۔۵۵۰( حکیم ابن حزام کے شرح میں)وکفایۃ الطالب،ص۲۶۰
۶۔ کفایۃ الطالب، ص۴۰۷
۷۔ الفصول المہمۃ،ص۳۰
۸۔ ازالۃ الخلفاءج۲ص۲۵۱
۹۔ تذکرۃ الخواص،ص۲۰
۱۰۔ مناقب ابن مغازلی،ص ۶، ح۳۔الفصول المہمۃ،ص۳۰
۱۱۔ محاضرۃ الاوائل،ص۷۹
۱۲۔ وسیلۃ النجاۃ،محمد مبین حنفی،ص۶۰( چاپ گلشن فیض لکھنو ¿)
۱۳۔ وسیلۃ المآل،حضرمی شافعی، ص۲۸۲
۱۴۔ تلخیص مستدرک ج۲ص۴۸۳
۱۵۔ غالیۃ المواعظ،ج ۲ص۸۹ والغدیر،ج۶، ص۲۲
۱۶۔ ازاحۃ الخلفاءعن خلافۃ الخلفاء،ص۲۵۱
۱۷۔ مدارج النبوہ ج۲ص۵۳۱
۱۸۔ کفایۃ الطالب، ص۴۰۷
۱۹۔ نور الابصار، ص۸۵
۲۰۔ عبقریۃ الامام علی(ع)،ص۴۳
۲۱۔ نزھۃ المجالس،ج۲ص۴۵۴
۲۲۔ السیرۃ الحلبیۃ،ج۱ص۱۳۹و ج۳ص۳۶۷
۲۳۔ سیرہ خلفاءج ۸ ص ۲
۲۴۔ وسیلۃ المال،ص۱۴۵
۲۵ – ریاض الجنان،ج۱ص۱۱۱
۲۶۔ الاعلام الا ¾ علام مسجد الحرام خطی بہ نقل علی و کعبہ،ص۷۶
۲۷۔ قصیدہ علویہ ص۶۱