- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- 2022/02/16
- 0 رائ
مرنے کے بعد کی دنیا
ہمارے عقیدے کے مطابق خدائے بزرگ انسان کو مرنے کے بعد دوسرے جسم میں ایک خاص دن اٹھائے گا۔ اس دن نیک لوگو کو جزا اور انعام دے گا اور گنہگاروں کو سزا دے گا۔
اس پورے کے پورے سادہ عقیدے پر (تفصیلات کو چھوڑ کر) تمام آسمانی مذہبوں اور خدا کے ماننے والے فلسفیوں کا اتفاق ہے اور ہر مسلمان کے لیے پیغمبر خدا کے لائے ہوئے قرآن کے مطابق یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ جو شخص خدا کی توحید اور پیغمبر خدا کی رسالت کا قطعی اعتقاد رکھتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ خدا نے حضرت محمد مصطفیٰ کو انسانوں کی رہنمائی اور سچے مذہب کی تبلیغ کے لیے بھیجا ہے وہ حضرت محمد مصطفیٰ کے قرآن پر بھی ضرور ایمان رکھتا ہے۔ وہ وہی قرآن ہے جو قیامت کے دن، ثواب، عذاب، جنت، دوذخ، انعام اور عتاب کی خبر دیتا ہے۔ قرآن کریم میں لگ بھگ ایک ہزار آیتیں حشر کا موضوع صاف صاف اور اشارے کنائے سے بیان کرتی ہیں۔
جب کوئی اس بارے میں شک کرتا ہے تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ حقیقت میں رسول کی رسالت یا خدا اور اس کی قدرت پر شک کرتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کی در حقیقت وہ تمام مذہبوں پر شک کرتا ہے اور تمام شریعتوں کے سچے ہونے کی تردید کرتا ہے۔
جسمانی واپسی
شیعہ اصل معاد پر اعتقاد رکھنے کے علاہ جسمانی معاد کو بھی دینی ضروریات میں شمار کرتے ہیں جیسا کہ قرآن جسمانی واپسی پر نہایت صاف صاف دلیل دیتا ہے۔
سورہ قیامت کی آیات ۳، ۴ میں ہم پڑھتے ہیں :اَیَحَسَبُ الاِنسَانُ اَلَّن نَّجمَعَ عِظَامَہُ، بَلیٰ قَادِرِینَ عَلیٰ اَن نُّسَوِّیَ بَنَانَہُ:۔ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم (قیامت کے دن) اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟ نہ صرف ایسا ہے بلکہ ہم اس کی بھی قدرت رکھتے ہی کہ ان کی انگلیوں کے سرے بھی (پہلی شکل میں) درست کردیں۔
سورہ رعد کی آیت ۵ میں ہم پڑھتے ہیں :وَاِن تَعجَب فَعَجَبٌ قَولُھُم۔ ءَ اِذَا کُنَّا تَرُاباً ءَ اِنَّا لَفِی خَلقٍ جَدِیدٍ :۔ اگر تجھ کو منکروں کے کام پر تعجب ہے تو اس سے بھی زیادہ تعجب ان کی گفتگو پر ہے جو کہتے ہیں :
کیا ہم خاک ہو چکنے کے بعد دوبارہ جنم پائیں گے؟
سورہ قٓ کی آیت ۱۵ میں ہم پڑھتے ہیں :اَفَعَیِینَا بِالخَلقِ الاَوَّلِ ۔ بَل ھُم فِی لَبسٍ مِّن خَلقٍ جَدِیدٍ :۔ کیا ہم پہلے بار دنیا کو پیدا کرنے سے عاجز اور درماندہ تھے؟ (نہیں) بلکہ یہ منکر ہی اس پر شک کر رہے ہیں کہ لوگ دوبارہ پیدا ہوں گے۔
مختصر بات یہ ہے کہ جسمانی واپسی کا مطلب یہ ہے کہ انسان قیامت کے دن زندہ ہوگا اور اس کا بدن جو مدت سے گل سڑچکا ہوگا دوبارہ دنیا کی اسی پہلی شکل میں واپس ہوگا۔
اس سیدھے سادھے عقیدے سے زیادہ جس کا اعلان قرآن مجید کرتا ہے تفصیلات اور جسمانی واپسی کی کیفیت وغیرہ پر اعتقاد رکھنا ضروری نہیں ہے۔ بس جو کچھ ضروری ہے وہ واپسی (معاد) اور ان چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے جو اس کے تابع ہیں جیسے حساب کتاب پل صراط، میزان، بہشت، دوذخ، ثواب ، عذاب اور وہ بھی صرف اس حد تک جس حد تک قرآن مجید نے ان کے بارے میں بتایا ہے۔
بے شک ان تمام باتوں کا سمجھنا ضروری نہیں ہے جس حد تک صرف مفکر ہی پہنچ سکتے ہیں مثلاً کیا بالکل یہی بدن واپس ہوں گے یا ان جیسے واپس ہوں گے؟ روحیں بھی جسموں کی طرح ختم ہوجائیں گی یا باقی رہیں گی؟ تاکہ قیامت کے دن اپنے بدنوں سے مل جائیں کیا۔ واپسی (معاد) اور حشر و نشر صرف انسانوں ہی کے لیے ہیں یا جانداروں کی تمام قسموں کا بھی حشر ہوگا؟ کیا قیامت کے دن جسم رفتہ رفتہ زندہ ہوں گے یا ایک دم سے؟
مثال کے طور پر جنت اور دوزخ پر اعتقاد ضروری ہے لیکن یہ اعتقاد ضروری نہیں ہے کہ جنت اور دوزخ اس وقت موجود ہیں یا ہم یہ معلوم کریں کہ یہ آسمان میں ہیں یا زمین میں ہیں یا ایک آسمان میں ہے اور دوسرا زمین میں ہے۔ اسی طرح اصل اعتقاد تو میزان پر واجب ہے لیکن یہ اعتقاد لازم نہیں ہے کہ میزان ایک بخاری قسم کی ترازو ہے یا دوسری ترازووں کی طرح دو پلڑوں کی ہے یہ جاننا بھی ضروری نہیں ہے کہ صراط نہایت ہلکا (یعنی تلوار سے تیز اور بال سے باریک پل ہے یا اس سے صرف مجازی ثابت قدمی مراد ہے ۔
مختصر یہ ہے کہ یہ جاننے کی کوشش کرنا کہ صراط جسم رکھتا ہے یا نہیں، اسلامی عقیدے کی تکمیل کے لیے ضروری نہیں ہے۔
(نوٹ، اقتباس از کشف الغطاء صفحہ ۵ تالیف استاد بزرگ کا شف الغطاء )
یہ ہے وہ سادہ اور سمجھ میں آنے والا عقیدہ جو اسلام نے واپسی (معاد) کے بارے میں پیش کیا ہے
جو انسان یہ چاہتا ہے کہ واپسی (معاد) کے بارے میں قرآن مجید نے جو کچھ صاف صاف یا اشارے کنائے میں بتایا ہے اس سے زیادہ جان لے تاکہ اسے منکرو ، ڈھل مل یقینوں اور ان لوگوں کے شبہات کے مقابلے میں جو عقلی ثبوت اور مادی تجربہ مانگتے ہیں ایک مطمئن کردینے والی دلیل مل جائے اس نے گویا اپنے آپ کو مشکلات اور بے حد پیچیدہ عمل الجھنو میں پھنسا دیا ہے۔
مذہب میں یہ قاعدہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ان تمام باتوں کی طرف متوجہ کیا جائے جو علم کلام اور فلسفے کی کتابوں میںجمع ہوگئی ہیں اور ہماری دینی، سماجی اور سیاسی ضرورت بھی اس قسم کے مقالوں، بحثوں اور گتھیوں کی طرف جانے پر مجبور نہیں کرتی جو ان کتابوں میں موجود ہیں، یہ بیکار باتیں وقت کو برباد اور قوت فکر کو ضائع کرتی ہیں۔
ان تمام شکوک اور شبہات کو زائل کرنے کے لیے جو ان تفصیلات سے ذهن میں پیدا ہوتے ہیں، یہ بات سامنے رکھنا کافی ہے کہ انسان ان تمام معاملات کے سمجھنے سے قاصر ہے جو اس سے پوشیدہ ہیں اور جو ہماری مادی زندگی سے ماوراء ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خداوند عالم جاننے والا اور طاقتور ہے۔ اس نے ہمیں بتا دیا ہے کہ واپسی اور حشر و نشر کا دن بالکل یقینی ہے علموں، تجربوں اور بحثوں سے انسان میں یہ سکت پیدا نہیں ہوسکتی کہ وہ ان چیزوں کو جو اس تک نہیں پہنچتیں اور اس کے تجربے اور جانچ پڑتال میں نہیں آتیں سمجھ سکے یا چھوسکے۔ جب تک وہ اس احساس ، تجربے اور بحث کی دنیا سے کسی دوسرے دنیا میں نہ چلا جائے۔
ایسی صورت میں انسان اپنی سوچ بچار اور محدود تجربے کے زور پر واپسی کے مسئلے کا اقرار یا انکار کیسے کر سکتا ہے؟ اس کی خصوصیات اور تفصیلات کے جاننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سوائے اس صورت کے کہ وہ کہانت، غیبی بجھارتوں یا احتمال اور غیر واقعیت کی راہ سے اس کی کوشش کرے۔
اسی طرح انسان اپنی طبیعت کے اعتبار سے ایسا واقع ہوا ہے کہ وہ ان چیزوں کو جن کا وہ عادی نہیں ہے اور جنہیں نہ وہ جانتا ہے نہ چھو سکتا ہے اس آدمی کی طرح عجیب و غریب شمار کرتا ہے جو حشر و نشر پر حیران ایک گلی سڑی ہڈی ہاتھ میں یے پیغمبر خدا کے پاس آیا اور اس نے ہڈی کو اس طرح مسلا کہ اس کے ذرات ہوا میں اڑنے لگے اور بولا: قَالَ مَن یُّحیِ العِظَامَ وَھِیَ رَمِیمٌ ؟ کیا کسی میں یہ طاقت ہے کہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو انسان کی صورت میں زندہ کردے ؟(سورہ یسین ۔ آیت ۷۸)
وہ شخص اس بات کو اس لیے عجیب و غریب سمجھتا ہے کہ اس نے کسی مردے کو گل سڑ جانے کے بعد پہلی شکل میں زندہ ہوتے نہیں دیکھا ہے لیکن یہ شخص اپنی پیدائش کی ابتدا بھول گیا کہ کس طرح عدم سے وجود میں آیا، اس کے بدن کے ذرات بھی پیدائش سے پہلے زمین اور فضا میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے لیکن آخر میں وہ انسان کی متناسب صورت میں عقل اور بیان کا مالک بن کر آموجرد ہوا۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں :اَوَلَم یَرَاِنسَانُ اَنَّا خَلَقنٰہُ مِن نُظفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیمٌ مُّبِینٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَّنَسِیَ خَلقَہُ :۔ کیا یہ انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے (بے مقدار) نطفے سے پیدا کیا، وہ اب (عاجزی اور شکر گزاری کے بجائے)ہمارا کھلا ہوا دشمن ہوگیا، اس نے ہمارے سامنے ایک مثال پیش کی ہے لیکن وہ اپنی پیدائش کی ابتدا بھول جچکا ہے۔(سورۃ یسین ۔ آیت ۷۷۔۷۸)
ایسے بھولنے والے آدمی کے جواب میں قرآن مجید کہتا ہے :قُل یُحیِیھَا الَّذِیٓ اَنشَاَھَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۔ وَھُوَ بِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمٌ :۔ وہی جو انسان کو پہلی بار وجود میں لایا اس کو زندہ کردے گا اور وہ ہر شے کی پیدائش جانتا ہے۔(سورہ یسین ۔ آیت ۷۹)
ہم منکر سے کہتے ہیں کہ اس کے بعد کہ تونے کائنات کے پیدا کرنے والے کو اس کی قدرت کو، پیغمبر اسلام کی رسالت کو اور ان کی لائی ہوئی خبروں کو صحیح مان لیا اور اپنے علم اور سمجھ کی طرف سے تو اپنی پیدائش کے بھید کو سمجھنے سے بھی عاجز ہے اور اس بات سے بھی بے خبر ہے کہ تو کس طرح پلا بڑھا، تو نے اس نطفےسے جو ہوش ، ارادہ اور عقل نہیں رکھتا تھا کتنی منزلیں طے کیں، یہاں تک کہ آخر کار بکھرے ہوئے ذروں کے مل جانے کے بعد انسان کی موزوں ، چھلی چھٹی اور عقل، تدبیر ، ہوش اور احساس والی صورت پر آگیا، اب اپنی پیدائش کے آغاز کی کیفیت جانتے ہوئے تو کس لیے اس پر تعجب کرتا ہے کہ تو مرنے کے بعد گل سڑکر دوبارہ زندہ ہوگا ، تو لازمی طور پر یہ چاہتا ہے کہ علم اور تجربے کے ذریعے سے یہ بات سمجھ لے کہ مردے کس طرح زندہ ہوں گے لیکن اس کے ذریعے سے تجھے کامیابی نہیں ہوگی، اب تیرے لیے صرف ایک راسته کھلا ہوا ہے اور وہ یہ ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔
کائنات کو پیدا کرنے والی اس ذات کو مان لے جس نے تجھے عدم سے اور گلے سڑے اور بکھرے ہوئے ذرات سے پیدا کیا اور جس نے قرآن میں واپسی اور قیامت کے دن کی اطلاع دی ہے تو چاہے جس شعبدے اور سازش سے کام لے اس حقیقت کا انکشاف ناممکن ہے اور تیرا علم اور تیری سمجھ اس تک نہیں پہنچ سکتی، وہ شعبدہ اور سازش بے فائدہ اور جھوٹے ہیں اور جنگلوں میں بھٹکنے اور گھپ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے برابر ہیں۔
اس انسان نے اس کے باوجود کہ اس دور میں مختلف علوم میں ترقی کرلی ہے، بجلی اور ریڈار دریافت کرکے ان سے کام لے رہا ہے، ایٹم توڑ لیا ہے اور ایسی ہی دوسری ایجادات حاصل کرلی ہیں جن کا نام اگرکوئی پچھلی صدیوں میں لیتا تو لوگ انہیں ناممکن کہتے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے، ابھی وہ بجلی اور ایٹم کو بھی پوری طرح نہیں سمجھ پایا ہے بلکہ ان کے ایک خاصے کی بھی حقیقت نہیں جانتا۔ ایسی صورت میں وہ کس طرح چاہتا ہے کہ پیدائش کے بھید سمجھ لے پھر اس سے بھی اوپر جائے اور معاد اور قیامت کی حقیقت جان لے؟
ہاں! انسان جس بات کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ وہ اسلام پر ایمان لانے کے بعد اپنی خواہشات کی تکمیل سے بچے اور ایسے کاموں می لگے جو اس کی دنیا اور آخرت کی حالت سدھاریں اور خدا کی بارگاہ میں اس کی شخصیت اور منزلت کی ترقی کا سبب بنیں وہ ایسی باتیں سوچے جو اس کی راہ میں مدد کریں اور اس پر دھیان دے کر مرنے کے بعد کی حالت میں کیسے معاملات سامنے آئیں گے، جیسے قبر کی سختیاں، حساب کتاب اور قدرت والے خدا کے حضور میں پوچھ گچھ وغیرہ، وہ تقویٰ اپنائے اور قیامت کے دن کے لیے تیار ہو جائے، جبکہ :””کوئی اس کو عذاب سے نہیں بچائے گا اور نہ اس کے لیے کسی کی سفارش مانی جائے گی، نیز اس سے گناہ کے بدلے میں کوئی معاوضہ قبول نہیں ہوگا اور کوئی اس کی مدد کی بھی نہیں پہنچے گا””(سورہ بقرہ ۔ آیت ۴۸ ملخصاً)
source : http://wilayat.net