- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
معصومه قم کی زندگی کا مختصر تعارف تاریخ کی روشنی میں
پیغمبراکرم اور اهل بیت , آپ کا خانــدان , حضرت امــام کاظم(ع)- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : فیاض حسین
- 2024/05/09
- 0 رائ
معصومه قم، امام موسی کاظم ؑکی اولادوں میں سب سے افضل و برتر ہیں کہ جن کو “فاطمہ کبری” بھی کہا جاتا ہے اور آپ کی مادر گرامی امام رضا ؑ کی مادر گرامی حضرت نجمہ خاتون ہیں کہ جن کو ان کی معنوی طہارت اور پاکیزگی کی بنا پر طاہرہ بھی کہا جاتا ہے معصومه قم 1، ذیقعدہ، 173 ہجری قمری مدینہ میں پیدا ہوئیں اور 10 یا 12 ربیع الثانی، 201 ہجری میں 28 سال کی عمر میں دنیا کو الوداع کہا۔[1]
معصومه قم کا تعارف
معصومه قم کا نام فاطمہ ہے آپ کے بہت سارے القاب شیعوں کی معتبر کتابوں میں نقل ہوئے ہیں جیسے، اخت الرضا، راضیه، مرضیه، معصومه، تقیه، نقیه، رشیده، طاهره، حمیده و سیده ان تمام القاب میں سب سے زیادہ آپ کے لقب” معصومه قم” کو شہرت ملی اور یہ لقب آپ کے عصمت اور کمال طہارت کو بیان کر رہا ہے اور آپ کے القاب میں صرف دو ہی لقب ایسے ہیں جو بہت مشہور ہوئے ایک” معصومہ قم” اور دوسرا “کریمہ اہل بیت “۔
معصومه قم کا لقب امام رضاؑ کی زبان سے جاری ہوا ہے جیسا کہ آپ ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:
“من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی”[2] ۔
معصومه قم (س) کی سوانح عمری کے بارے میں زیادہ معلومات تاریخی مآخذ میں نہیں ملتی ۔ معصومه قم 201 ہجری میں اپنے بھائی امام رضا ؑکی درخواست پر ان کی زیارت کے لیے ایران تشریف لائیں۔ لیکن راستے میں اچانک سے بیمار ہو گئیں اور اہل قم کی درخواست پر اس شہر میں جا کر “موسیٰ بن خزرج اشعری ” نامی شخص کے گھر سکونت اختیار کی اور 17 دن کے بعد وفات پائی۔ ان کی لاش کو بابلان (اب حرم) نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ سید جعفر مرتضیٰ آملی (متوفی: 1441ھ) کا خیال ہے کہ معصومه قم (س) کو زہر دے کر شہید کیا گیا۔
شیعہ معصومه قم (س) کا احترام کرتے ہیں اور ان کی زیارت کو اہمیت دیتے ہیں۔ نیز ان کے بارے میں ایسی روایات بھی موجود ہیں جن میں شیعوں کے لیے ان کی شفاعت کا ذکر ہے اور جنت کو ان کی زیارت کا ثواب سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کے بعد وہ واحد خاتون ہیں جن کے لیے ائمہ سے زیارت نقل ہوئی ہے۔
معصومه قم کی زیارت کی عظمت
معصومه قم کے لئے امام رضا ؑ کی زبان سے جاری ہوا زیارت نامہ آپ کی عظمت کے اوپر دلیل ہے اس لیے کہ فاطمہ زہرا (س) کے بعد آپ اکلوتی ایسی خاتون ہیں کہ امام معصوم ؑ کی زبان سے جس کے لیے زیارت کے جملے ادا ہوئے ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے بعد آپ کے علاوہ کوئی ایک ایسی خاتون نہیں ہے کہ جس کے سلسلے میں یا جس کے بارے میں خاندان عصمت و طہارت کی طرف سے کوئی زیارت نقل ہوئی ہو۔
معصومه قم کی علمی شخصیت
معصومه قم (س) کے مقام و مرتبہ کے بارے میں جو اقوال نقل ہوئے ہیں ان میں سے نجف اشرف کے ایک مشہور عالم مرحوم آیت اللہ مستنبط (رح) سے نقل کیا گیا ہے، وہ فرماتے ہیں :ایک دن شیعوں کا ایک گروہ امام کاظم ؑ سے ملاقات کے لیے گیا تاکہ وہ اپنے سوالوں کے جوابات حاصل کر سکیں، مگر امام کاظم ؑ مسافرت پر گئے تھے اور آپ گھر میں موجود نہ تھے تو ان لوگوں نے مناسب سمجھا کہ ان سوالوں کو دے کر واپس چلے جائیں اور دوبارہ جب واپس آئیں تو امامؑ سے اپنا جواب دریافت کریں وہ لوگ سوالات دے کر جانے لگے تو دیکھا معصومه قم (س) نے ان سوالات کے جوابات لکھے ہیں۔
وہ لوگ اپنے سؤالوں کے جواب پاکر خوش ہوئے اور اسے لے لیا۔ راستے میں امام کاظم ؑ سے ان لوگوں کی ملاقات ہوئی اوران لوگوں نے پورا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا ذرا مجھے جواب دکھاؤ جب آپ نے سوالات کے جواب دیکھے تو مسکرائے اور تین بار فرمایا: “فداھا ابوھا“[3] ان کے بابا ان پر قربان جائیں۔
ان سوالوں کے جواب آپ نے اس وقت دیا جب آپ کی عمر محض 10 سال تھی۔
معصومه قم کی کرامت
آپ کی کرامات کے سلسلے میں تاریخ میں بہت سے واقعات ملتے ہیں جیسے کہ ایک مرتبہ آپ کے حرم کا خادم مریض ہوا جس کا نام مرزا اسد اللہ تھا اور اس کا مرض اتنا شدید تھا کہ اس کے پیروں کی انگلیاں سیاہ ہوتی جا رہی تھیں ڈاکٹروں نے یہ تجویز کیا کہ اس کے پیر کی انگلیوں کو کاٹ دیا جائے تاکہ اس کا مرض اور زیادہ نہ پھیلنے پائے اور اس کے اگلے دن اس کے آپریشن کی تاریخ مقرر کی گئی۔
مرزا اسد اللہ کہتے ہیں کہ جب میری حالت یہ ہو چکی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ مجھے آج کی رات اس حرم میں لے چلو جہاں میں نے اتنے سالوں اپنی شہزادی کی خدمت انجام دی ہے گھر والے ان کے اصرار پر ان کو معصومه قم کے حرم میں لے گئے رات کے وقت خادموں نے حرم کے دروازے کو بند کر دیا اور اسد اللہ ضریح کے نزدیک بیٹھ کر اپنے پیر کے درد کی شدت سے گریا کر تے کرتے سو گئے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اچانک سے حرم کے خادموں نے مرزا اسد اللہ کی آواز سنی وہ کہہ رہے تھے حرم کے دروازے کو کھولو بی بی نے مجھے شفا دی ہے۔
دروازہ کھولا گیا دیکھا کہ مرزا اسد اللہ خوشی سے ہنس رہے ہیں اور خادموں کو دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک باعظمت خاتون میرے قریب آئیں اور مجھ سے میرے مرض کے بارے میں سوال کیا تو میں نے فرمایا کہ اس مرض نے مجھے وہ تکلیف دی ہوئی ہے کہ بس اتنا سمجھ لیجیے کیا خداوند عالم اس درد سے مجھے شفا دے دے یا اب مجھے موت دے دے اس خاتون نے ایک کپڑے کو میرے پیروں پر کھینچا اور کہا کہ جاؤ تمہیں شفا مل گئی میں نے پوچھا آپ کون ہے؟
فرمایا: تم میری نوکری بھی کرتے ہو اور مجھے پہچانتے بھی نہیں ہو؟ میں فاطمہ، دختر موسی ابن جعفر ہوں میں اس کے بعد فورا بیدار ہوا میں نے دیکھا ایک کپڑا ہے میں نے اس کو ہٹایا تو دیکھا پیر بالکل صحیح و سالم ہیں اور اس کپڑے کو میں نے اپنے پاس محفوظ رکھا یہاں تک کہ جب بھی کسی بھی مریض کو درد ہوتا میں اس درد کی جگہ پر اس کپڑے کو کھینچ دیتا تھا اور اس کو شفا مل جاتی تھی اور وہ کپڑا اس وقت تک میرے گھر میں تھا جب تک ایک سیلاب نہیں آیا تھا کہ جس کے بعد میرا گھر خراب ہو گیا اور وہ کپڑا بھی نہ جانے اس سیلاب میں کہاں بہہ گیا کہ مجھے دوبارہ پھر کبھی نہیں۔[4]
معصومه قم کی زائرین سے محبت
مرحوم جناب روحانی جو قم کے علماء اور امام حسن عسکری ؑکی مسجد کے امام جماعت تھے وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک زمانے میں معصومه قم کے حرم کا خادم اور مکبر تھا سردی بہت زیادہ تھی ایک رات میں نے خواب میں معصومه قم کو دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ اٹھو اور جاؤ میرے مینار کے چراغوں کو روشن کر دو میں نیند سے بیدار ہوا لیکن میں نے کوئی توجہ نہیں دی دوسری مرتبہ پھر خواب میں یہی بات آپ نے تکرار کی میں نے پھر توجہ نہیں کی لیکن تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا کہ:
کیا میں تم سے نہیں کہہ رہی ہوں کہ تم اٹھو اور جاؤ مینار کے چراغوں کو روشن کر دو میں فورا نیند سے اٹھا اور بغیر اس کے جانے ہوئے کہ آخر اتنی سردی میں آدھی رات میں آپ نے میناروں کے چراغوں کو روشن کرنے کے لیے کیوں کہا میں نے چراغ روشن کیا اور دوبارہ جا کے سو گیا جب صبح اٹھا اور حرم کے دروازے کو کھولا تو طلوع آفتاب کے بعد میں اپنے دوستوں کے ساتھ حرم کی دیوار کے نزدیک باہر آکر بیٹھ گیا اور دھوپ کی گرمی لینے لگا دیکھا کہ کچھ زائرین ہیں جو آپس میں یہ بات کر رہے ہیں کہ دیکھا اس معصومه قم کی کرامت کو کہ اگر کل کی اس برفیلی اور ٹھنڈی رات میں اس حرم کے میناروں کے چراغ روشن نہ ہوتے تو ہم رات بھر یوں ہی بھٹکتے رہتے اور اس نا آشنا جگہ پر ہلاک ہی ہو جاتے ہیں خادم کہتا ہے میں تعجب میں پڑ گیا اور سوچنے لگا کہ آپ اپنے زائرین سے کس قدر محبت رکھتی ہیں۔[5]
معصومه قم کی شفاعت
مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے شفاعت کا عقیدہ ہے اور اس میں کسی طریقہ کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ قیامت کے دن انبیاء اور اولیاء شیعوں کی شفاعت کریں گے معصومه قم (س) کی زیارت میں آپ کو شفیعہ روز جزا کہا گیا ہے امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ آپ کی شفاعت کے ذریعے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔
شیعہ کتابوں میں معصومه قم کی زیارت کی فضیلت میں چند روایات نقل کی گئی ہیں جو آپ کی فضیلت اور شان ومنزلت کی نشان دہی کرتی ہیں جیسا کہ امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا:
إِنَّ لِلَّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَکةُ أَلَا إِنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ حَرَماً وَ هُوَ الْمَدِینَةُ أَلَا وَ إِنَّ لِأَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ حَرَماً وَ هُوَ الْکوفَةُ أَلَا وَ إِنَّ قُمَّ الْکوفَةُ الصَّغِیرَةُ أَلَا إِنَّ لِلْجَنَّةِ ثَمَانِیةَ أَبْوَابٍ ثَلَاثَةٌ مِنْهَا إِلَی قُمَّ تُقْبَضُ فِیهَا امْرَأَةٌ مِنْ وُلْدِی اسْمُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ مُوسَی وَ تُدْخَلُ بِشَفَاعَتِهَا شِیعَتِی الْجَنَّةَ بِأَجْمَعِهِم[6]
اللہ کا حرم مکہ، رسول خدا ﷺ کا حرم مدینہ منورہ، حضرت علی بن ابی طالب کا حرم کوفہ، جب کہ ہمارا حرم قم، جو کہ کوفہ صغیر ہے کا جنت کے آٹھ دروازوں میں تین دروازے قم میں کھلتے ہیں کہ جہاں میری اولاد میں سے ایک خاتون دفن ہوں گی جن کا نام فاطمہ بنت موسی کاظم ہوگا جن کی شفاعت پر میرے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔
نتیجہ
معصومه قم، امام رضاؑ کی حقیقی بہن اور امام موسیٰ کاظمؑ کی بیٹی ہیں۔ معصومه قم، حضرت زہرا (س) کے بعد تنہا وہ خاتون ہیں جن کے بارے میں امام معصوم کی زبان سے زیارت کے جملے ادا ہوئے ہیں اور آپ کو شفیعہ روز جزا کہا گیا ہے آپ کے القاب میں دو لقب “معصومه قم” اور “کریمہ اہلبیت” بہت مشہور ہیں۔ آپ کا مزار شہر قم کے مرکز میں واقع ہے جس کی زیارت کے لیے لاکھوں کی تعداد میں ایران اور ایران سے باہر کے زائرین تشریف لاتے ہیں۔ معصومه قم کے حرم مطہر میں بہت سے سارے علما، شعرا، مجتہدین، بادشاہ اور دیگر شخصیات دفن ہیں۔
حوالہ جات
[1] ۔ شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج8، ص257 و 261.
[2] ۔ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج5، ص35.
[3] ۔ مہدی پور، کریمہ اہلبیت، ص63 و 64.
[4] ۔ قمی، انوارالمشعشعین، ج1، ص216.
[5] ۔ انساری، ودیعہ آل محمد، ج1،ص14.
[6] ۔ مجلسی، بحار الانوار، ج57، ص228.
منابع
1۔ انصاری، محمد صادق، ودیعہ آل محمد، قم، چاپخانہ بہمن، 1413.
2۔ قمی، محمد علی بن حسین نائینی، انوارالمشعشعین، قم، کتاب خانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1381.
3۔ مجلسی، محمدباقر، تحفة الزائر، تحقیق و تصحیح مؤسسه امام هادی، قم، مؤسسه امام هادی، ۱۳۸۶.
4۔ محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعہ، دارالکتب الاسلامیہ، تہران، بی تا.
5۔ مهدی پور، علیاکبر، زندگانی کریمه اهلبیت(ع)، قم، حاذق، ۱۳۸۴.
6۔ نمازی شاہرودی، علی، مستدرک سفینۃ البحار، قم، موسسہ نشر اسلامی، 1419.
مضمون کا مآخذ
سایت اندیشه قم، «شخصیت حضرت معصومه»،کے مقالے سے اخذ شماره ۷۵.