- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
عبد العظیم حسنی کے نام امام رضاؑ کا خط
پیغمبراکرم اور اهل بیت , آپکے اصحاب اور شاگردان , حضرت امـــام هـــادی(ع)- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : فیاض حسین
- 2024/05/11
- 0 رائ
عبد العظیم حسنی، آپ امام حسن مجتبیؑ کی نسل سے ہیں اور امام رضاؑ، امام محمد تقی، امام علی نقی، کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں خاص کر امام علی نقیؑ کے نزدیک آپ کا مرتبہ بلند ہے جب ایک شخص شہر ری کا رہنے والا امام حسینؑ کی زیارت سے آپ کی خدمت میں آیا تو آپ ؑنے عبد العظیم حسنی کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں فرمایا “اما إنَّكَ لَو زُرتَ قَبرَ عَبدِالعَظيم عِندَكمُ لَكُنتَ كَمَن زارَ الحُسَينَ عليه السلام” ۔[1]
اگر تم اپنے شہر میں عبد العظیم حسنی کی قبر کی زیارت کرو تو گویا تم نے امام حسینؑ کی زیارت کی۔
امام علی نقیؑ کے حکم سے عبد العظیم حسنی سامرا سے شہر ری آتے ہیں اور 250 ہجری میں آپ دنیا کو الوداع کہتے ہیں اور آج شہر ری میں آپ کا روضہ ہے جہاں ہر سال لاکھوں لوگ عبد العظیم حسنی کی زیارت کو دنیاسسسسسلا کے گوشے گوشے سے آتے ہیں۔
عبد العظیم حسنی کے نام امام رضاؑ کا خط
عبد العظیم حسنی کو امام رضاؑ نے ایک خط لکھا تھا جس خط کو امام ؑ نے عبد السعظیم حسنی کو دیا ان سے مطالبہ کیا کہ اے عبد العظیم حسنی آپ اس خط کے پیغام کو میرے چاہنے والوں تک پہونچا دیں عبد العظیم حسنی نے لوگوں تک آپ کا یہ پیغام پہونچایا جس کا مختصر مضمون یہ ہے:
میرے چاہنے والوں کو میرا سلام کہنا۔ اور ان سے کہنا اپنے کاموں میں شیطان کو داخل ہونے کا راستہ نہ دیں۔ ان کو صداقت اور امانت داری کا حکم دینا اور ان سے سکوت اور ایسے لڑائی جھگڑے سے کہ جس میں کوئی فائدہ نہ ہو دوری کا حکم دینا ایک دوسرے کو آپس میں ملاقات کی دعوت دینا اس لیے کہ یہ کام دلوں میں محبت اور قریبی پیدا کرتا ہے مومنین کو یہ تلقین کرنا کہ وہ آپس میں دوسرے سے دوری اختیار نہ کریں اس لیے کہ جو بھی اس کام کو کرتا ہے وہ میرے چاہنے والوں کو غمگین کرتا ہے اور میں خدا سے ایسے کام کرنے والوں کے لیے شدید عذاب کا طلبگار ہوں اور وہ آخرت میں بھی نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔[2]
1. سلام سے کلام کا آغاز
اسلام کے احکام میں سب سے بہترین روش یہ ہے کہ جب تم اپنے کسی بھائی سے ملاقات کرو تو ابتدا سلام سے کرو اس لیے کہ یہ روش ایک دوسرے کے دلوں میں محبت کا سبب قرار پائے گی۔ سلام کا مطلب ہی سلامتی ہوتا ہے لہذا جب بھی کوئی شخص کسی کو سلام کرتا ہے تو درحقیقت وہ اپنے پروردگار عالم سے اس کی دنیاوی اور اخروی حیات کے لیے سلامتی کی دعا کرتا ہے۔
لہذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام جو قرآن کے رو سے اسوہ حسنہ ہیں یعنی ہمارے لیے نمونہ عمل ہیں وہ ہمیشہ دوسروں کو سلام کرنے میں سبقت کرتے تھے اور وہ اس سلام کے ذریعے امن و امنیت اور صلح و محبت کا پیغام دیتے تھے۔
فقہی نقطہ نظر سے بھی سلام کرنا مستحب اور اس کا جواب دینا واجب ہے”وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ“[3] جب آپ کے پاس کوئی صاحب ایمان آئے تو سلام کیجئے۔
سلام کی اتنی زیادہ تاکید ہے یہاں تک کہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ اگر کوئی سلام کے بغیر کلام کرے تو اس کا جواب نہ دو”من بدا بالكلام قبل السلام فلا تجيبوہ“[4]
لہذا امام رضاؑ نے عبد العظیم حسنی کو لکھے خط کی ابتدا سلام سے کر کے سنت اسلامی کو زندہ رکھا اور سماج کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس سنت اسلامی کو جو ایک بہترین سنت اور روش ہے معاشرے میں زندہ رکھا جائے اور بجائے اس کے کہ ہم کسی اور لفظ کے ذریعے احوال پرسی کریں لفظ سلام کے ذریعے اپنے کلام کا آغاز کریں۔
2. صداقت
اسلام کا ایک اور بہترین پیغام صداقت اور سچائی ہے جو اجتماعی زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہے اس لیے کہ ایک دوسرے پر اس وقت انسان کو اعتبار پیدا ہوتا ہے جب آپس میں رشتوں کی بنیاد سچائی اور صداقت پر رکھی گئی ہو اسی لیے امام رضاؑ نے اس مبارک خط میں جسے عبد العظیم حسنی کو لکھا تاکید فرمائی کہ میرے شیعوں کو صداقت کی وصیت کرو اور سچائی کا حکم دو۔
3. امانت داری
اسلام کی تعلیمات میں امانت داری کو صداقت کے ساتھ ہی بیان کیا گیا ہے اور ان دونوں کا مرتبہ اتنا زیادہ ہے کہ اکثر ائمہ نے امانت داری اور صداقت کے سلسلے میں حدیثیں بیان کی ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان دونوں کی رعایت اپنے امور میں کرتے رہیں امام رضاؑ فرماتے ہیں:
“لا تنظروا إلى كثرة صلاتهم وصومهم وكثرة الحج والمعروف وطنطنتهم بالليل، ولكن انظروا إلى صدق الحديث وأداء الأمانة”۔[5]
آپ فرماتے ہیں لوگوں کے کثرت نماز، روزہ، حج اور ان کی راتوں کی عبادت کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ وہ اپنی باتوں میں کتنے سچے ہیں اور امانت کو کس طریقے سے ادا کرتے ہیں۔
آپ نے عبد العظیم حسنی کو لکھے خط میں اس امر کی تاکید فرمائی کہ میرے دوستوں کو امانت داری کا حکم دو۔
4. گفتگو میں عدالت
اجتماعی زندگی میں اپنی گفتگو میں عدالت سے کام لینا یہ ایک سخت مرحلہ ہوتا ہے لیکن پروردگار عالم نے اسی کام کے اندر خیر و برکت کو قرار دیا ہے امام رضا نے اس خط میں جو عبد العظیم حسنی کو بھیجا بڑی صراحت اور واضح الفاظ میں اس اہم موضوع کی طرف حکم دیا تاکہ ایک اسلامی معاشرہ آپنے اجتماعی زندگی میں اس چیز کا خیال رکھے
گفتگو میں عدالت رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان نہ تو بےجا سکوت اختیار کرے اور نہ ہی بے جا اپنی زبان کھولے اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں پر ضرورت ہو اگر وہاں انسان نہ بولے تب بھی وہ عدالت نہیں ہے اور جہاں پر خاموش رہنا ہی بہتر ہو وہاں پر زبان کھول دے تو یہ بھی عدالت نہیں ہے امام رضاؑ نے پیغمبرؐ کی صفات میں ایک صفت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:” کان رسول اللہ يخزن لسانه الا عما يعنيه”۔[6]
آپؐ اس وقت گفتگو کرتے تھے جب وہ فائدے مند اور اس گفتگو کی ضرورت ہوتی تھی۔
5. لڑائی جھگڑے سے پرہیز
آپؑ نے عبد العظیم حسنی کو لکھے خط میں ایک اور نصیحت فرمائی کہ میرے چاہنے والوں کو یہ حکم دو کہ وہ بے جا لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں اس لیے کہ یہ لڑائی جھگڑا سماج کو پستی اور ناکامی کی طرف لے جاتا ہے اور بعض موقع اس کا نقصان اتنا زیادہ ہوتا ہے جو آئندہ نسلوں تک دیکھا جاتا ہے اور اس کی بھرپائی ناممکن یا مشکل ہو جایا کرتی ہے اگر کوئی ایسا موقع آ بھی جائے کہ انسان پر غیض و غضب طاری ہو جائے تو اسے قرآن مجید کی اس آیت کو فورا ذہن نشین کرنا چاہئے کہ جس میں ارشاد ہوا الَّذِينَ يُنفِقُونَ فىِ السَّرَّاءِ وَ الضرَّاءِ وَ الْكَظِمِينَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَ اللَّهُ يحُبُّ الْمُحْسِنِين [7]
6. احسان
امام نے عبد العظیم حسنی کو لکھے کے خط میں ایک اور بہترین صفت احسان کی طرف اشارہ کیا “احسان” سے مراد ہر وہ اچھا کام کہ جو عقل اور فطرت الہی کی نظر میں نیک اور پسندیدہ شمار کیا گیا ہو قرآن مجید میں یہ الفاظ اپنے مشتقات کے ساتھ متعدد مقامات پر آیا ہے اور اس احسان( نیک عمل) کا سب سے بڑا مرتبہ خداوند عالم کی عبودیت اور بندگی ہے کہ انسان اپنے پروردگار عالم کے اوپر ایمان رکھے اور عمل صالح انجام دے جیسا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا :الاحسان:ان تعبد اللہ تعالیٰ کانک تراہ[8]
پروردگار عالم کی مخلوقات میں جب اس نے احسان کے برترین مصداق کو بیان کیا تو قرآن مجید میں ارشاد ہوا “واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شئیا و بالوالدین احسانا”[9] اللہ کی عبادت کرو اور اس کو کسی چیز کا شریک قرار نہ دو اور اپنے والدین کے ساتھ احسان اور نیکی کرو۔
7. دوسرے کی احوال پرسی
امامؑ نے عبد العظیم حسن کو خط لکھتے ہوئے اس صفت کی طرف بھی اشارہ کیا اس لئے کہ شریعت اسلامی میں ایک دوسرے کی احوال پرسی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے روایات میں جسے”مزاورہ” کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دونوں طرف کے لوگوں کا ایک دوسرے کی زیارت، احوال پرسی اور خبرگیری کرتے رہنا اور اسی چیز کو”صلہ رحم” بھی کہا جاتا ہے کہ جس کی بہت زیادہ تاکید بھی کی گئی ہے اور اس کے مثبت اثرات دنیاوی اور اخروی زندگی میں بیان بھی کیے گئے ہیں جیسے کہ عمر میں اضافہ، رزق میں برکت، جنت میں دخول وغیرہ
8. تفرقہ سے پرہیز
قرآن مجید نے مومنین کے درمیان عدم تفرقہ کو بہت اہمیت دی ہے کہ مومنین ہمیشہ آپس میں مل جل کر رہیں اور کسی طریقے کی کوئی تفرقہ بازی نہ کریں“وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا”[10]
اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو۔
امام رضاؑ نے عبد العظیم حسنی کو لکھے گئے خط میں اس صفت کے بارے میں فرمایا کہ لوگوں کو حکم دو کہ وہ آپس میں جدا جدا نہ ہوں اور تفرقہ بازی سے پرہیز کریں اس لیے کہ یہ کام مجھے اور میرے خدا کو غضبناک کرتا ہے اور آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں بھی رہو گے۔
نتیجہ
عبد العظیم حسنی امام رضاؑ، امام محمد تقیؑ اور امام علی نقیؑ کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں۔ عبد العظیم حسنی کی زیارت کا بہت زیادہ ثواب بیان کیا گیا ہے۔ آپ کو امام رضا ؑ نے ایک خط لکھا تھا جس میں اپنے چاہنے والوں کے بارے میں کچھ صفات حسنہ کی نصیحت فرمائی تھی، جیسے سلام کرنا، صداقت اور امانت داری سے کام لینا، ایک دوسرے کی احوال پرسی کرنا، احسان اور نیکی کرنا، تفرقہ اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا ۔ عبد العظیم حسنی امام علی نقیؑ کے حکم سے سامرا سے “شہر ری” تشریف لائے اور اسی شہر ری میں آپ نے دنیا کو الوداع بھی کہا۔
حوالہ جات
[1] ۔ نوری، مستدرک الوسائل، ج۴، ص۴۰۶
[2] ۔مفید، الاختصاص، ص247، مجلسی، بحار الانوار، ج71، ص230، نوری، مستدرک الوسائل، ج9، ص102
[3] ۔آل عمران، 54
[4] ۔کلینی، ج2، ص64، ابن بابویہ، الخصال، ج1، ص19
[5] ۔ ابن بابویہ، الخصال، ج۲، ص۵۱
[6] ۔ ابن بابویہ، الخصال، ج۱، ص۳۱۹
[7] ۔آل عمران، 134
[8] ۔فیض کاشانی، الوافی، ج11، ص 26
[9] ۔نساء، 36
[10] ۔انفال، 46
منابع و مآخذ
1. قرآن مجید
2. ابن بابویہ، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، قم :انتشارات اسلامی، 1414ق۔
3. فیض کاشانی، محمد محسن، الوافی، اصفہان: کتابخانہ امیر المومنین، 1406ق۔
4. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران: دارالکتب الاسلامیہ 1407ق۔
5. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت: دار احیاء التراث العربی 1403ق۔
6. مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تہران: شرکت انتشارات علمی و فرھنگی، 1388۔
7. نوری،حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل، بیروت: موسسہ آل البیت(ع) لاحیاء التراث، 1408ق۔
مضمون کا مآخذ
علی، سروری مجد، تعاملات اجتماعی مطلوب در آموزہ ہای امام رضاؑ با تاکید بر نامہ حضرت بہ عبد العظیم حسنی، فرھنگ رضوی سال چہارم، شمارہ 16، زمستان 1395.