- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/10/20
- 0 رائ
خدا کے نزدیک سب سے بہترین اور پسندیدہ دین جو ہے وہ دین اسلام ہے اور اس میں کچھ اصول دین ہے اور کچھ فروع دین اور اسی فروع دین میں ایک عبادت ہے۔ جس کو حج کہتے ہیں۔ جس میں لوگ خانہ کعبہ میں جا کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ تحریک حسینی کے واقعات میں سے کچھ واقعات ایسے ہیں جو عبرت آمیز اور سوال طلب ہیں۔ انہیں واقعات میں سے اہم ترین واقعہ “روز ترویہ” کا ہے جس دن امام حسینؑ، مکہ چھوڑ کر چلے۔ مورخین، محققین اور فقہاء نے اس بارے میں اپنی اپنی آراء بیان کی ہیں۔ جن میں سے دو آراء کو ہم یہاں پر نقل کر رہے ہیں۔ پہلی رائے علامہ مجلسیؒ اور دوسری رائے شیخ جعفر شوشتریؒ کی ہیں۔
۱- نظریہ علامه مجلسی
علامہ مجلسیؒ، بحار الانوار “کتاب امامت” اور “کتاب الفتن” میں لکھتے ہیں کہ ایسی بہت سی روایات موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ تمام ائمہ علیہم السلام کو کچھ خاص ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ جو پیغمبر اکرمﷺ پر نازل شدہ آسمانی صحیفوں میں موجود تھیں اور سزاوار نہیں ہے کہ ہم ان سے مربوط احکام کو اپنے اوپر نازل کئے گئے احکامات کے معیار سے پرکھیں۔ اس لئے کہ ہم انبیاء علیہم السلام کے حالات سے مطلع ہیں کہ ان میں سے کتنے ایک ایسے نبی ہیں جنہیں اکیلا ہزاروں کافروں کے درمیان مبعوث کیا گیا اور جو انہیں اپنے دین کی دعوت دیتے تھے۔ مگر اس کے با وجود اذیتوں، صعوبتوں، زندانوں، قتل ہوجانا، آگ میں پھینک دیئے جانا اور اس طرح کی مشکلات کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ لہذا ایسے موارد میں دین کے پیشواؤں پر اعتراض درست نہیں ہے اس لئے کہ ان کی عصمت متواتر روایات اور دلائل سے ثابت ہو چکی ہے جس پر کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ جو کچھ ان سے صادر ہو، ہم اس کی پیروی کریں۔
علاوہ بریں، اگر بغور دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ امام حسینؑ نے اپنی جان کو اپنے نانا کے دین پر قربان کردیا اور امام حسینؑ کی شہادت کے بعد بنی امیہ کی حکومت کے ستون متزلزل ہوگئے اور امام حسینؑ کے اس بلند مرتبہ مقام پر فائز ہونے کے بعد ان کا کفر سب پر آشکار ہو گیا۔ چنانچہ امام حسینؑ اگر بنی امیہ کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے اور ان سے صلح کر لیتے تو یہ ان کی حکومت کو تقویت پہنچانا تھا اور یوں حقیقت لوگوں پر مخفی رہ جاتی، یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصہ بعد دین کی نشانیاں بوسیدہ ہوجاتیں اور ہدایت کے آثار مٹ جاتے۔
مندرجہ بالا روایات سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ امام حسینؑ، اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے لیکن جب وہاں بھی یقین ہوگیا کہ قتل کر دیئے جائیں گے اور حج بھی بجا نہ لاسکیں گے تو خانہ خدا سے باہر نکلے اس لئے کہ ان ملعونوں نے ان پر عرصہ حیات کو تنگ کر دیا تھا۔
میں نے ایک معتبر کتاب میں پڑھا ہے کہ یزید نے عمرو بن سعید بن عاص کو ایک بہت بڑا لشکر دے کر اسے حج کے امور کا سر براہ بنا دیا اور ساتھ ہی مخفیانہ طور پر اسے یہ ذمہ داری سونپ دی کہ حسین کو گرفتار کرکے لایا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اچانک حملہ کرکے اسے قتل کر دینا۔ اس سال بنی امیہ کے تیس شیطانوں کو حاجیوں کے لباس میں بھیج دیا اور دستور دیا کہ ہر صورت میں حسینؑ کو قتل کیا جائے۔ جب امام حسینؑ کو اس سازش کی خبر ملی تو آپ نے احرام حج کو عمرہ مفردہ میں بدلا اور حج کو ترک کردیا۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ جب محمد بن حنفیہ نے امام حسینؑ کو کوفہ جانے سے روکا تو آپ نے ان کےجواب میں فرمایا: اے برادر عزیز! خدا کی قسم! اگر میں کسی جانور کی بل میں بھی چلا جاؤں تب بھی وہ مجھے تلاش کر کے قتل کر ڈالیں گے۔ [1]
بنابریں، اگر امام حسینؑ بنی امیہ سے صلح کر بھی لیتے تب بھی وہ اپنی دشمنی اور بغض کی وجہ سے کسی نہ کسی حیلہ کے ذریعے امام حسینؑ کو اپنے راستہ سے ہٹا کر ہی دم لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی امیہ نے ابتدا ہی میں بیعت کی پیشکش کی اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ امام حسینؑ نہیں مانیں گے۔
کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ مروان نے بیعت کی تجویز سے پہلے ہی والی مدینہ کو امام حسینؑ قتل کی تجویز دے دی تھی؟ کیا یہ ابن زیاد ملعون نہیں تھا جس نے کہا تھا کہ پہلے انہیں بیعت کی تجویز پیش کرنا اور جب بیعت کرلیں گے تو پھر ان کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا؟ کیا اس ابن زیاد نے جناب مسلم کو امان دے کر قتل نہیں کردیا تھا؟
جبکہ معاویہ اہل بیت علیہم السلام سے بدترین دشمنی کے با وجود انتہائی ہوشیار اور چالاک انسان تھا اسے یہ معلوم تھا کہ انہیں کھلے عام قتل کرنے سے لوگ اس کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور قیام کریں گے۔ لہذا ہمیشہ ان سے مصلحت سے پیش آتا رہا۔ اسی وجہ سے امام حسنؑ نے اس سے صلح کی اور امام حسینؑ بھی خاموش رہے۔ اس نے اپنے بیٹے کو بھی یہی نصیحت کی تھی کہ حسینؑ سے مت ٹکرانا ورنہ یہ کام تیری حکومت کے نابود ہونے کا باعث بنے گا۔ [2]
۲ نظریہ شیخ جعفر شوشتری
شیخ جعفر شوشتری نے امام حسینؑ کے ایّام حج میں مکہ کو ترک کرنے اور عراق کی جانب روانہ ہونے سے متعلق انتہائی دقیق مطلب بیان کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں: امام حسینؑ کی دو ذمہ داریاں تھیں: ایک واقعی اور دوسری ظاہری۔
1. واقعی ذمہ داری
واقعی ذمہ داری اس بات کا تقاضہ کر رہی تھی کہ آپ اپنے اور اپنی اولاد کو شہادت اور اپنی خواتین کو اسیری کے لئے پیش کریں اور اس کی دلیل یہ تھی کہ بنی امیہ کے سرکش حکمران معتقد تھے کہ وہ حق پر ہیں اور علیؑ و آل علیؑ اور ان کے شیعہ باطل پر ہیں۔ یہاں تک کہ ان پر لعنت اور سبّ و شتم کرنے کو نماز جمعہ کا جزء قرار دے دیا۔ اور پھر نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ایک شخص نماز جمعہ کے خطبہ میں آپ پر لعنت کرنا بھول گیا اور جیسے ہی اسے راستہ میں یاد آیا تو وہیں رک کر اس عمل کی قضا بجالایا اور پھر اس مقام پر مسجد بنوائی جس کا نام “مسجد ذکر” رکھا۔
2. ظاہری ذمہ داری
اور ظاہری ذمہ داری کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ ہر ممکن طریقہ سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگی کو نجات دیں اور ان کی حفاظت کریں۔ جو میسر نہ ہوئی اور انہوں نے عرصہ حیات کو امام حسینؑ پر تنگ کر دیا۔ یزید نے والی مدینہ کو قتل امام حسینؑ کا دستور دیا اور امام حسینؑ نے اپنی جان بچانے کی خاطر حرم خدا میں پناہ لی جو ہر پناہ لینے والے کے لئے پناہ گاہ ہے۔ لیکن انہوں نے پھر بھی امام حسینؑ کا پیچھا نہ چھوڑا اور کہا: اگر خانہ کعبہ کے پردہ سے جا کر لپٹ جائیں تب بھی ان کو قتل کر دیا جائے۔
لہذا امام حسینؑ نے مجبور ہو کر حج کے احرام کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کیا اور حج کو چھوڑ کر کوفہ کی جانب نکل پڑے کیونکہ اہل کوفہ نے امام حسینؑ کو خط لکھ کر امام حسینؑ کی بیعت کا مطالبہ کیا تھا اور ان سے درخواست کی تھی کہ کوفہ آئیں اور انہیں بنی امیہ کے شر سے نجات دلائیں۔ جس پر آپ نے بھی موافقت کردی تا کہ ان پر اتمام حجت کرسکیں اور وہ روز قیامت یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم نے تو ان سے درخواست کی تھی کہ ہمیں نجات دیں لیکن انہوں نے ہمارے اندر اختلاف کو بہانا بنا کر ہماری مدد نہیں کی۔ علاوہ ازیں اگر امام حسینؑ کوفہ نہ جاتے تو پھر کہاں جاتے اس لئے کہ انہوں نے ان کا گھیرا تنگ کر دیا تھا؟ اور یہ امام حسینؑ کے اس جملہ کی تفسیر ہے جو امام حسینؑ نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا: اگر میں کسی جانور کی بل میں بھی گھس جاؤں تب بھی وہ مجھے تلاش کر کے ضرور قتل کر ڈالیں گے۔ [3]
بلاشک، شیخ شوشتری کا کلام انتہائی دقیق ہے خصوصاً یہ نکتہ کہ آپ کی دو ذمہ داریاں تھیں۔ ایک واقعی اور دوسری ظاہری اور ان دونوں میں کسی قسم کا تضاد بھی نہیں پایا جاتا۔ اور انہوں نے اپنا یہ نظریہ بیان کرنے کے بعد اس نظریہ کی جزئیات کو بھی روشن کر دیا تھا۔ لیکن پھر بھی ان کے اس جملہ “اگر امام حسینؑ کوفہ نہ جاتے تو کہاں جاتے؟” کو قبول کرنا دشوار ہے اس لئے کہ اکثر تاریخی روایات کا یہ کہنا ہے کہ امام حسینؑ کے لئے دوسری جگہ جانا بھی ممکن تھا۔
جیسا کہ محمد بن حنفیہ نے بھی عرض کیا: “اے حسینؑ، آپ مکہ چلے جائیں اور اگر وہاں اطمینان ہو تو آپ اپنے مقصد پر پہنچ گئے اور اگر وہاں بھی اطمینان نہ ہو تو یمن چلے جائیں کیونکہ اہل یمن آپ کے والد اور نانا کے چاہنے والے ہیں وہ سب سے مہربان اور ان کے دل سب سے نرم ہیں اور ان کی سر زمین سب سے زیادہ وسیع ہے۔ اگر وہاں اطمینان حاصل ہو جائے تو آپ اپنے مقصد تک پہنچ گئے ورنہ ریگستانوں کی طرف نکل جائیں اور ایک شہر سے دوسرے شہر ہجرت کریں یہاں تک کہ لوگوں کی عاقبت معلوم ہو جائے اور خداوند متعال ہمارے اور اس ظالم قوم کے درمیان فیصلہ کرے۔” [4]
ایک اور نقل کے مطابق بیان ہوا ہے کہ: “چنانچہ آپ جنگ کے لئے مصمّم ہیں تو “کوہ اجا” پر چلے جائیں جو انتہائی بلند پہاڑ ہے خدا کی قسم ہم نے آج تک کبھی شکست نہیں کھائی اور جب تک ہمارے قبیلہ کے درمیان رہو گے پورا قبیلہ آپ کا دفاع کرے گا۔” [5] بنابریں، شیخ شوشتری کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ امام حسینؑ کے پاس مکہ سے کوفہ جانے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔
شاید شیخ شوشتریؒ اور علامہ مجلسیؒ کے اقوال کی نسبت یہ کہنا زیادہ مناسب ہو کہ امام حسینؑ کا مقصد مکہ اور مدینہ میں قتل ہونے سے بچنا تھا اس لئے کہ وہاں پر آپ کے قتل ہو جانے سے انقلاب اپنے پہلے ہی مرحلہ میں مٹ کے رہ جاتا اور خانہ خدا کی حرمت پامال ہو جاتی۔ جیسا کہ خود آنحضرت نے بھی فرمایا: “اے برادر! مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ یزید بن معاویہ مجھے اچانک قتل کر ڈالے اور میری وجہ سے خانہ خدا کی حرمت پامال ہو جائے۔” [6]
اس لئے کہ ایسی صورت حال چاہے وہ مکہ یا مدینہ یا راستے میں پیش آتی تو بنی امیہ اپنے کو بےگناہ ثابت کر لیتے اور یوں اپنی ظاہری اسلامی حکومت کو باقی رکھنے میں کامیاب ہو جاتے۔ یا اس سے بھی بڑی مصیبت اٹھ کھڑی ہوتی اور بنی امیہ خود انتقام خون امام کے مدعی بن جاتے اور یوں لوگوں کو فریب دیتے۔ اس طرح لوگ بھی دھوکہ کھا جاتے اور ان کے دل میں بنی امیہ کی محبت پیدا ہو جاتی اور ان کی ظاہری دین داری اور اسلامی احکام کی پابندی کی تائید کرنے لگتے۔
ایسے میں اسلام پر آنے والی دردناک اور تلخ مصیبت مزید دردناک ہو جاتی۔ چونکہ امامؑ جانتے تھے کہ بیعت نہ کرنے کی صورت میں قتل کر دیئے جائیں گے۔ لہذا یہ کوشش کی کہ ایسے زمان و مکان کا انتخاب کیا جائے کہ دشمن قتل گاہ کو مخفی نہ رکھ سکے اور اس کے نتیجہ میں اس قتل کے پس پردہ وہ اہداف حاصل ہو سکیں جو امت مسلمہ کی تقدیر بدل دیں اور جن کی خاطر امام حسینؑ نے یہ قیام کیا ہے۔
نیز امام حسینؑ کی یہ کوشش رہی کہ یہ حادثہ روز روشن میں پیش آئے نہ کہ شب کی تاریکی میں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی شہادت دے سکیں اور دشمن اسے پس پشت ڈالنے میں کامیاب نہ ہو۔ اور یہی وہ مخفی ہدف تھا۔ جسے امام حسینؑ نے 9 محرم کو مہلت مانگ کر حاصل کرنا چاہا، جب فرمایا کہ ہمیں عاشور کی صبح تک مہلت دی جائے۔
نتیجہ
حوالہ جات
[1] سوره مبارکه احزاب، آیت نمبر ۲۳
[2] طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۲۹۶ -۳۰۰
[3] شوستری، الخصائص الحسينيۃ، ص ۸۳
[4] ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج۵، ص ۲۲
[5] حلی، مثیر الاحزان، ص ۳۹-۲۰
[6] ابن طاوؤس، اللھوف، ص۲۷
منابع
۱-ابن اعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح، دار الاضواء، بیروت، ۱۴۱۱ ھ ق.
۲-ابن طاوؤس، علی بن موسی، اللھوف علی قتلی الطفوف،دار الأسوة للطباعة و النشر، تھران، ۱۴۲۲ ھ ق.
۳-ابن نما حلی، نجم الدین، مثیر الحزان و منیر سبل الاشجان، مدرسۃ الامام المھدی عج، قم، تیسری اشاعت ۱۴۰۶ ھ ق.
۴-شوستری، شیخ جعفر بن حسین،الخصائص الحسينيۃ، دار السرور، بیروت، ۱۴۱۴ھ ق.
۵-طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، موسسۃ عز الدین، بیروت، ۱۴۱۳ ھ ق.
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
امام حسینؑ کے مکّی ایّام، شیخ نجم الدین طبسی، ترجمہ ناظم حسین اکبر، دلیل ما، قم، ۱۳۹۲ ھ ش.