- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : برکت الله
- 2024/11/17
- 0 رائ
امام علی (ع) نے صبر کو اسلامی وحدت اور دین کی حفاظت کے لئے ترجیح دی۔ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد منافقین اور دشمنانِ اسلام کے عزائم کو دیکھتے ہوئے امام علی (ع) نے امت میں اختلافات اور انتشار سے بچنے کے لئے خلافت بلافصل کے معاملے پر صبر کیا۔ امام علی (ع) جانتے تھے کہ خلافت بلافصل کے لئے قیام سے دین کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور دشمنوں کو فائدہ ہوگا۔ امام علی (ع) نے نہج البلاغہ میں خلافت بلافصل کو الہی میراث سمجھا، جس کا مقصد دینی قیادت تھا، نہ کہ مادی اقتدار۔ آپ (ع) نے ہمیشہ حق کا دفاع اور اسلامی اصولوں کی حفاظت کو مقدم رکھا۔
۱۔ امام علی (ع) نے صبر کو کیوں ترجیح دی؟
بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اگر امام علی (ع) خلافت بلافصل کو اپنا حق سمجھتے تھے جیسا ایسا ہی لگتا ہے تو امام علی (ع) کو صبر کرنی کی ضرورت نہیں تھی بلکہ جتنا جلدی ہو سکے امام علی (ع) کو خلافت بلافصل کے لئے قیام کرنا چاہیئے تھا۔ اب جب امام علی (ص) نے صبر کیا تو مطلب یہ ہے کہ امام علی (ع) خلافت بلافصل کو اپنا حق نہیں سمجھتے تھے۔
جواب
تاریخ گواہ ہے کہ منافقین اور دشمنان اسلام لمحہ بہ لمحہ پیغمبر اسلام (ص) کے وصال کا انتظار کر رہے تھے، ان میں سے ایک گروہ کا خیال یہ تھا کہ رسول خدا (ص) کی رحلت (یا شہادت) کے بعد مسلمانوں کی وحدت ٹوٹ جائے گی اور کسی کی بھی خلافت بلافصل کی باری نہیں آئے گی۔ چونکہ جب اسلام ختم ہو جائے تو خلافت بلافصل بے معنی ہے اور ایسے حالات پیدا ہوں گے کہ اسلام کے خلاف بغاوت ممکن ہو سکے گی، اور پھر اسلام کے نوخیز پودے کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں گے۔
اب ایسے حالات میں اگر حضرت امام علی (ع) خلافت بلافصل کے لئے یا مسلمانوں کو پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے کے اصل اسلام کی جانب پلٹا دینے کے لئے قیام کرتے اور دشمنوں نے پہلے ہی منصوبہ تیار کر لیا تھا کہ حضرت امام علی (ع) کو خلافت بلافصل کے معاملے میں منظر عام سے ہٹا دیا جائے، اس اختلاف کے نتیجے میں ٹکراؤ وجود میں آتا اور پورے اسلامی معاشرے کی عام فضا آلودہ ہوتی اور پھر بحرانی حالات میں منافقوں اور دشمنوں کو اپنی شیطانی نیتوں کو عملی جامہ پہنانے کا سنہرا موقع ہاتھ آجاتا۔ اسی لئے امام علی (ع) سے ایک لحاظ سے کچھ مدت کے لئے خلافت بلافصل سے دستبردار ہو گئے۔
اس بات کا بہترین ثبوت، رسول اکرم (ص) کی رحلت (یا شہادت) کے فوراً بعد اہل ردّہ کے نام سے مختلف گروہوں کا اسلامی حکومت کے مقابلے میں قیام کرنا اور مسلمانوں کی وحدت کی وجہ سے ان گروہوں کا سرکوب ہو جانا ہے۔ جیسا کہ تاریخ اسلام کی معروف کتابوں میں آیا ہے: لَمَّا تُولَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ ارْتَنَتِ الْعَرَبُ وَ اشْتَرَابَتِ الْيَهُودِيَّةُ وَ النَّصْرَانِيَّةُ وَنَجَمَ النِّفَاقُ وَصَارَ الْمُسْلِمُونَ كَالْغَنَمِ الْمَطِيرَةِ فِي اللَّيْلَةِ الثَّانِيَةِ[1]
جس وقت رسول اللہ (ص) کی وفات ہوئی، عرب دین سے مرتد ہو گئے (اور جاہلیت کے رسم و رواج کی جانب پلٹنے لگے)، یہود و نصاری نے سر اٹھانا شروع کر دیا اور منافق نمایاں ہو گئے، بلکہ علی الاعلان میدان میں کود پڑے، جبکہ مسلمانوں کی ایسی حالت تھی جیسے مویشیوں کا گلہ جو بغیر چرواہے کے ہے، سردیوں کی تاریک رات ہے، آسمان سے پانی برس رہا ہے اور بیابان و جنگل میں یہ راستہ بھٹک چکے ہیں۔
اگر ایسے حالات میں اگر امام علی (ع) اپنی خلافت بلافصل کے لئے قیام کرتے تو نہ صرف مسلمانوں کے اندر اختلاف وجود میں آتا بلکہ منافقین اور اسلام کے دشمن عناصر، اسلام کو کو ختم کر دیتے۔
امام علی (ع) کے صبر کا دوسرا رخ
یہ پورے قصے کا ایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ یہ ہے کہ یار و یاور نہ ہونے کے باوجود امام علی (ع) قیام کرتے تو کامیابی کے امکانات کم تھے اور اگر قیام کرتے بھی تو بہت سے نادان لوگ اس قیام کو فریضہ الہی کے بجائے امام علی (ع) کے ذاتی مفادات کی جنگ سمجھتے۔
خلافت بلافصل کا اپنے اصل محور اور مرکز سے ہٹ جانا، اسلام کے لئے ایک ایسا دھچکا تھا جس کی وجہ سے پہنچنے والے نقصانات کو شمار کرنا ہی بڑا مشکل کام ہے اور روز بروز بڑھتی ہوئی مشکلات ہی تھیں۔ اور یہی وہ چیز تھی کہ امام علی (ع) نے فرمایا: ’’خار اور خاشاک سے آنکھیں زخمی ہیں اور حلق میں ایسی ہڈی اٹکی ہوئی ہے کہ جو نہ تو نگلی جاسکتی ہے اور نہ اگلی جاسکتی ہے۔‘‘
اب تک کی بحث سے ہم یہ بنیادی اصول سیکھتے ہیں کہ جب بھی امام علی (ع) اپنے حق کے لئے قیام کریں، احتجاج برپا کریں اور امام علی (ع) کا یہ آواز بلند کرنا دین کی بنیادوں کو ہلانے کا باعث بننے جارہا ہو تو وہاں امام علی (ع) اپنے حق کو ترک کر کے اصل دین کی حفاظت کا بیڑا اٹھا لیں اور اصول دین کو اپنی زندگی کا ہم و غم بنا لیں، نیز کسی بھی صورت میں امام علی (ع) نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
اس سے ملتی جلتی بات خطبہ 26، نہج البلاغہ میں بھی موجود ہے، امام علی (ع) فرماتے ہیں: ’’فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي مُعِينٌ إِلَّا أَهْلُ بَيْتِي… أَغْضَيْتُ عَلَى الْقَذَى وَ شَرِبْتُ عَلَى الشَّجَی‘‘
’’میں نے غور کیا تو دیکھا کہ اس حق (خلافت بلافصل) کو حاصل کرنے کے لئے اگر کوئی میرا ساتھ دینے والا ہے تو وہ صرف میرا اپنا خاندان ہے۔ میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے بخل کیا۔ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا، مگر میں نے چشم پوشی کی، حلق میں گویا ہڈی تھی مگر میں نے غم و غصے کے گھونٹ پی لئے اور تلخ حالات پر صبر کیا۔‘‘
۲۔ امام علی (ع) کیوں خلافت بلافصل کو ’’میراث‘‘ سے موسوم کرتے ہیں؟
یہ سوال اہم ہے کہ امام علی (ع) نے خلافت بلافصل کو “میراث” کیوں کہا؟ اس کے پیچھے کیا معنوی پیغام پوشیدہ ہے؟ میراث کا مفہوم عام طور پر دنیاوی وراثت اور مال و دولت کی تقسیم سے جڑا ہوتا ہے، مگر یہاں امام علی (ع) نے اس لفظ کو استعمال کرکے کیا پیغام دینا چاہا؟
کیا خلافت بلافصل کو “میراث” کہنا اس کی دینی، روحانی اور الٰہی حیثیت کو بیان کرنے کا ذریعہ ہے؟ یا اس کا مقصد رسول خدا (ص) کی تعلیمات اور اسلامی نظام کو امام علی (ع) اور اہل بیت (ع) کے ذریعے جاری رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا؟ مزید برآں، یہ کہنا کہ “میری میراث کو غارت کیا گیا”، ایک گہرے دکھ اور حق تلفی کا اظہار کرتا ہے۔ اس پس منظر میں، کیا خلافت کو محض سیاسی اختیار سمجھنا کافی ہے یا اس کی معنوی وراثت پر بھی غور ضروری ہے؟
جواب
احتمال اول
ایک جواب یہ ہے کہ در اصل پیغمبر اسلام (ص) کی خلافت بلافصل ایک خدائی اور معنوی (روحانی) میراث ہے، جو پیغمبر اسلام (ص) سے ان کے معصوم جانشینوں من جملہ امام علی (ع) تک پہنچتی ہے اور اس سے کوئی ذاتی، مادی نیز ظاہری حکومت کی گڈی مراد نہیں۔ اس مضمون کی حامل قرآن کی آیات بھی موجود ہیں جیسا کہ حضرت زکریا (ع) نے خدا سے ایک فرزند کی درخواست کی، جو ان کا وارث اور خاندان حضرت یعقوب (ع) کا وارث بن سکے اور نبوت کا وارث جو خلق خدا کی پیشوائی کا حق ادا کر سکے:
فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا · يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ[2]
’’اے خدا! اپنے پاس سے مجھے ایک ولی عہد اور جانشین عطا فرما جو میرا اور خاندان حضرت یعقوب (ع) کا وارث بن سکے۔”
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ میراث پوری امت سے تعلق رکھتی ہے، لیکن اسے رسول خدا (ص) کے جانشین اور (معصوم) اماموں کے سپرد کیا گیا ہے۔ آسمانی کتب کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں:
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا[3]
اور پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے جن کو منتخب کیا تھا، انھیں (آسمانی) کتاب ورثے میں عطا فرمائی۔
اور اسی انداز میں، رسول خدا (ص) کی معروف حدیث میں بیان ہوا ہے:
الْعُلَمَا وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاء[4]
صاحبان علم و دانش، انبیاء کے وارث ہیں۔
اس حقیقت کا ایک زندہ ثبوت ظاہری حیات حضرت امام علی (ع) کی منہ بولتی تاریخ ہے۔ امام علی (ع) نے گفتار و کردار دونوں لحاظ سے ثابت کر دکھایا کہ نہ تو مال و دولت میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ مقام، عہدہ اور خلافت، یعنی ایسی خلافت جس کا خدا کی شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو اور صرف دنیاوی اقتدار ہو تو اس کی اہمیت امام علی (ع) کی نظر میں ایک پرانی اور پھٹی ہوئی نعلین یا بکری کی چھینک سے باہر آنے والے مادے سے بھی کم تھی۔
جب ظاہری خلافت بلافصل امام علی (ع) کی ںظر میں اتنی حقیر ہے تو پھر کیسے ممکن تھا کہ خلافت ہاتھ سے جانے کی وجہ سے آپ بطور شکایت یہ فرمائیں کہ ” آنکھیں گویا خس و خاشاک سے پر تھیں اور حلق میں ہڈی اٹک گئی تھی۔”
احتمال دوم
بعض افراد کا خیال ہے کہ ’’لٹی ہوئی میراث‘‘ سے مراد ’’فدک‘‘ ہے کہ جسے رسول خدا (ص) نے اپنی اکلوتی بیٹی حضرت زہرا (س) کو عطا فرمایا تھا اور کیونکہ زوجہ کا مال شوہر کے مال کا حکم بھی رکھتا ہے لہذا امام علی (ع) نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔[5] لیکن یہ خیال بہت ضعیف ہے، کیونکہ یہ پورا خطبہ مسئلہ خلافت بلافصل کے گرد گھوم رہا ہے اور یہ جملہ بھی اسی موضوع کی جانب ایک اہم اشارہ ہے۔
۳- حضرت امام علی (ع) کی گوشه نشینی کے نقصانات
امام علی (ع) نے خلافت بلافصل نہ ملنے پر گوشہ نشینی اختیار کی تو سوال یہ ہے کہ امام علی (ع) کی گوشہ نشینی سے عالم اسلام کو کیا نقصان پہنچا؟
جواب
حضرت امام علی (ع) کو گھر میں گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کیے جانے کا کتنا بڑا نقصان عالم اسلام کو پہنچا ہے۔ صرف علمی لحاظ سے کتنا نقصان ہوا، اس کا اندازہ اس وقت کیا جا سکتا ہے جب ہم نہج البلاغہ کے خطبات، آپ کے اپنے عاملوں کو لکھے ہوئے فرامین اور کلمات قصار کا مطالعہ کرتے ہیں، جو حضرت نے اپنے مختصر دور خلافت میں دیے جبکہ یہ مختصر سا عرصہ بھی حوادث، مسلسل جنگوں اور دردناک واقعات سے بھرا ہوا تھا۔
غور کیجیے کہ اگر ان ۲۵ برسوں میں بھی جو امام نے گوشہ نشینی میں گزارے، امام (ع) کو امت کی رشد و ہدایت کا موقع ملتا اور علم و دانش کے متلاشی اس علم کے خزینے سے استفادہ کر سکتے تو کتنے عظیم علمی خزینے نہ صرف مسلمانوں بلکہ عالم انسانیت کے لئے یادگار رہ جاتے۔ لیکن کیا کیا جا سکتا ہے کہ اس فیض عظیم کو مسلمانوں اور انسانیت سے چھین لیا گیا اور اتنا بڑانقصان جو کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا، وہ تاریخ میں باقی رہ گیا۔
۴۔ امام علی (ع) نے خلافت بلافصل کے مسئلے کو کیوں اٹھایا؟
بعض لوگوں کا نظریہ تھا کہ بہتر یہ ہے کہ حضرت علی (ع) خلافت کے مسئلے کو کبھی نہیں چھیٹرتے، کیونکہ وہ مسئلہ ماضی سے متعلق تھا۔ لہذا اس کو بھلا دینا چاہیے تھا، کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات مزید بڑھ جائیں؟ آج بھی بعض گروہ یہ سوچ رکھتے ہیں اور جیسے ہی حضرت امام علی (ع) کی خلافت بلافصل کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ خاموشی اختیار کیجیے تاکہ مسلمانوں کی وحدت کو نقصان نہ پہنچے۔
سوال کی مزید وضاحت
آج ہمیں خلافت بلافصل جیسے موضوعات کو بھلا دینا چاہیے، ہمارا دشمن بہت طاقتور ہے اور ماضی کے مسائل من جملہ خلافت بلافصل کو زیر بحث لانے سے مشترک دشمن کے ساتھ مقابلہ کمزور پڑ جائے گا۔ اصولی بات یہ ہے کہ ایسے موضوعات پر بحث و گفتگو کا فائدہ ہی کیا ہے؟ اور پھر ہر مذہب کے ماننے والے اپنے طے شدہ راستوں پر گامزن ہیں۔ بہت بعید ہے کہ خلافت بلافصل پر بحث و گفتگو کسی نئی وحدت کا باعث بنے۔
جواب
اس سوال کے جواب میں ضروری ہے کہ دو نکات کو مد نظر رکھا جائے:
الف: موجودہ حقائق کو نظر انداز کر دینے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کو بھلایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کی خلافت بلافصل کی تاکید کی تھی۔ نیز خلافت بلافصل کے لئے حضرت علی (ع) سے زیادہ کوئی اہلیت نہیں رکھتا تھا۔ اب کون سے ایسے حالات پیش آئے اور کیونکر یہ تبدیلی رونما ہوئی، یہ بالکل ایک الگ بات ہے۔
ادھر حضرت علی (ع) جو ہر موقع پر حق کے طرفدار ہیں اور ہر اس چیز سے مقابلہ کرتے ہیں جو حقیقت سے تعلق نہیں رکھتی۔ آپ حق بجانب ہیں کہ رسول خدا (ص) کے بعد خلافت بلافصل سے مربوط حقائق کو واضح کریں تا کہ صدیوں اور ہزاروں سال بعد کے محققین انصاف سے کام لیں۔ اگر کوئی حقائق سے کام لے تو وہ یقیناً صراط مستقیم پر گامزن ہو سکے گا۔
بہر حال کسی کو حقیقت بیان کرنے سے روکا نہیں جا سکتا اور اگر فرض کر لیا جائے کہ روکنا ہمارے لئے ممکن بھی ہو تو ہمیں ہرگز اس بات کا حق نہیں، کیونکہ یہ ایک بہت بڑے نقصان کا باعث بنے گا اور پھر ہمارے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اور جو کچھ ہونا چاہیے، ان دونوں میں اکثر مطابقت نہیں پائی جاتی اور کبھی تو ان دونوں میں بہت زیادہ فاصلہ ہوتا ہے۔
عام طور سے جو کچھ ہوا کرتا ہے، ہمیشہ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ وہی کچھ ہے جو ہونا چاہیے، بلکہ اسلام تو ہم کو یہ اصول گفتار و کردار دے رہا ہے کہ انسان کو ہمیشہ اس چیز کے لئے سرگرم عمل رہنا چاہیے جو کہ ہر مسئلے میں واقعاً ہونا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) کے بعد خلافت بلافصل، دینی مباحثوں کا ایک نہایت اہم اور بنیادی موضوع رہا ہے۔ اب چاہے اسے اصول دین کا حصہ سمجھا جائے، جیسا کہ مکتب اہل بیت (ع) کی پیروی کرنے والے اس بات کے قائل ہیں یا اس موضوع کو فروع دین کا حصہ سمجھ لیا جائے، جو کچھ بھی سمجھیے لیکن خلافت بلافصل ایک تاریخ ساز موضوع ہے۔
یہ کوئی ذاتی مسئلہ نہیں اور نہ ہی عمومی تاریخ کا ایک معمولی واقعہ ہے، جس کا تعلق ماضی سے ہے، جیسا کہ بعض حقیقت سے نا آگاہ لوگ ایسا سوچتے اور سمجھتے ہیں، بلکہ نسل در نسل اصول اور فروع سے مربوط مسائل پر اثر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی (ع) نے اپنے دور خلافت میں بار بار اس موضوع کو بیان کیا۔
ب: مسلمانوں کی وحدت اور ان کی صفوں کو درہم برہم کرنے والی جو چیز ہے، وہ تعصب آمیز مسائل کو ہوا دینا، فتنہ انگیزی اور خلاف حقیقت چیزوں کی بے جا حمایت نیز جارحانہ رویہ اختیار کرنا ہے، لیکن اگر دو مخالف نظریوں اور مسالک کے افراد علمی اور منطقی انداز میں اصول اور آداب گفتگو کا خیال رکھتے ہوئے تبادلہ خیال کریں تو ایسی گفتگو اور بحث و مباحثہ نہ صرف یہ کہ وحدت مسلمین کے لئے نقصان دہ نہیں ہے، بلکہ بہت سے موقعوں پر ایسی گفتگو باہمی غلط فہمیوں کو دور کرتی اور قلبی کدورت صاف ہونے کا باعث بنتی ہے۔ خلافت بلافصل پر علمی گفتگو بھی کچھ ایسا مسئلہ ہی ہے۔
حقیقت گوئی کے مثبت اثرات
ایران کے ایک صوبے میں ہفتہ وحدت کی مناسبت سے ایک کانفرنس میں شیعہ اور سنی صاحبان علم و دانش کا ایک اجتماع ہوا۔ ان علماء کے درمیان علمی لحاظ سے، شیعہ و سنی کے اہم اختلافی موضوعات پر گفت و شنید ہوئی، جس کا نتیجہ قابل قدر اور قابل ستائش تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ اور سنی نظریات بہت حد تک ایک دوسرے کے نزدیک ہیں اور اختلافات بہت کم ہیں۔ اگر اس انداز میں ایسی بحث اور گفتگو جاری رہے تو اختلافات کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں گے؛ ’’وحدت مسلمین‘‘ کو چار چاند لگیں گے نیز ان کی صفوں میں مزید نظم و ضبط میں اضافہ ہوگا۔[6]
خاتمہ
امام علی (ع) نے خلافت بلافصل کی راہ میں صبر و تحمل کو دین کی بقا کے لئے ترجیح دی، آپ نے خلافت بلافصل کی خاطر لڑنے کے بجائے امت کی وحدت کو برقرار رکھنے اور دین کی اصل روح کو بچانے کو اہمیت دی۔ آپ کا خلافت بلافصل کو میراث قرار دینا اس کی روحانی اور خدائی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے، اور آپ نے حقائق کو بیان کرنے میں اپنے فریضہ کو نبھایا۔ آپ کا گوشہ نشینی اختیار کرنا امت کے علمی اور دینی نقصان کا سبب بنا، مگر آپ کی قربانی اصول دین کی حفاظت کے لئے تھی۔
حوالہ جات
[1]۔ ابن ہشام، سیرۃ امام ہشام، ج۴، ص۳۱۶۔
[2]۔ سورہ مریم: آیات ۵ و ۶۔
[3]۔ سورہ فاطر، آیت ۳۲۔
[4]۔ کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۲ تا ۳۴۔
[5]۔ خوئی، منہاج البراعۃ (شرح نہج البلاغہ)، ج۳، ص۴۵۔
[6]۔ ان نشستوں (کانفرنسز) میں زیر بحث آنے والے اہم موضوعات اور باہمی اتفاق کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرنے کے لیے مجلہ پیام حوزہ، پیش شماره (آفیشنل نمبر شروع ہونے سے پہلے) کو دیکھیے۔
منابع و مآخذ
۱۔ قرآن مجید۔
۲۔ ابن ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویۃ، تصحیح مصطفی السقا و ابراهیم الأبیاری و عبدالحفیظ شلبی، بیروت لبنان، دارالوفاق، ۱۳۷۵ھ۔
۳۔ خوئی، حبيب الله بن محمد، منہاج البراعۃ، تهران ایران، مکتبة الاسلامية، ۱۴۰۰ھ۔
۴۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الاصول من الکافی، تهران ایران، دار الکتب الإسلامیة، ۱۳۶۳ش۔
۵۔ مجلہ پیام حوزہ پیش شماره (نمبر شروع ہونے سے پہلے)، قم ایران، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، بغیر تاریخ کے۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
مکارم شیرازی، ناصر اور دیگر علماء اور دانشور، کلام امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نہج البلاغہ کی جدید، جامع شرح اور تفسیر)، ترجمہ سید شہنشاہ حسین نقوی (زیر نگرانی)، لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، ۲۰۱۶ء، ج۱، ص۲۷۱ تا ص۲۷۶۔