مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے جدائی کا سوال

مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے جدائی کا سوال

2025-02-04

7 بازدید

رسول اکرم (ص) وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے دنیا کو ایک نیا راستہ دکھایا۔ آپ صرف ایک نبی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم حکمران بھی تھے۔ مدینہ منورہ میں آپ نے ایک ایسی ریاست قائم کی جس میں انسانیت، عدل و انصاف اور بھائی چارے کے اصولوں کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ آپ کی حکمرانی کی ایک منفرد بات یہ تھی کہ، آپ نے مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا بلکہ مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر ایک ایسا نظام قائم کیا، جس میں دین اور دنیا دونوں کی بہتری کا خیال رکھا گیا۔ آپ کی حکمرانی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ قرآن مجید پیغمبر (ص) کو مسلمانوں کی جانوں سے اولیٰ قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے: ’’النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ‘‘۔[1]

بیشک نبی تمام مؤمنین پر ان کی جانوں سے زیادہ اولیٰ ہے۔

2۔ قرآن مجید پیغمبر (ص) کو حاکم و قاضی قرار دیتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان الٰہی قوانین کے تحت فیصلے کرے، چنانچہ اس سلسلے میں فرماتا ہے: ’’فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ‘‘۔[2]

آپ ان کے درمیان تنزیلِ خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق سے الگ ہوکر ان کی خواہشات کی اتباع نہ کریں۔

3۔ پیغمبر (ص) لوگوں میں نہ صرف خود حاکمیت کے فرائض انجام دیتے تھے بلکہ ہر علاقے کو فتح کرنے کے بعد، وہاں پر خود ایک شائستہ شخص کو بعنوان حاکم، دوسرے کو قاضی کی حیثیت سے اور تیسرے کو قرآن و احکام الٰہی کی تعلیم دینے کے لئے دینی معلم کی حیثیت سے مقرر فرماتے تھے۔ اور بعض اوقات یہ تینوں عہدے ایک ہی فرد کو سونپتے تھے۔ پیغمبر (ص) کے زمانے میں ہی امیر المؤمنین علی (ع)، عبد الله ابن مسعود، ابی ابن کعب اور زید بن ثابت وغیرہ قضاوت اور حاکمیت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔[3]

جب پیغمبر (ص) نے مکہ اور یمن کو فتح کیا تو ”عتاب بن اسید“ کو مکہ کا گورنر اور ”بازان“ کو یمن کا حاکم منتخب فرمایا:

کتاب ”التراتیب الاداریہ“ کے مؤلف ”عبدالحی کتانی“ نے اپنی کتاب میں ان مسلمان گورنروں کی فہرست ذکر کی ہے، جنہیں پیغمبر (ص) نے اپنے زمانے میں مختلف علاقوں کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی امور کی ذمہ داری سنبھالنے کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے پیغمبر (ص) اسلام کے ذریعے تشکیل دی گئی اسلامی حکومت کے طریقہ کار کا اشارہ ملتا ہے۔[4]

جہاد کی دعوت اور ترویج اسلام

اسلام نے جہاد کی دعوت دے کر، دینِ الٰہی کو پھیلانے کے لئے جہاد کے خصوصی قوانین بیان کئے ہیں۔ اور مسلمانوں میں جنگی اور دفاعی تربیت کو وسیع پیمانے پر رائج کیا ہے۔ ساتھ ہی پیغمبر (ص) نے 27 جنگوں میں بذات خود حصہ لیا اور 55 ”سریہ“ میں لشکر کے سردار معین کئے۔

آپ (ع) کی دعوت حضرت عیسی (ع) کی دعوت کی مانند فقط روحانی اور معنوی دعوت نہیں ہے۔ اور مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا نہیں سمجھا، بلکہ آپ کی رہبری، احکام بیان کرنے اور تبلیغ دین کے لئے صرف وعظ و نصیحت تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ آپ کی دعوت و معنوی رہنمائی ایک طاقتور حکومت کی تشکیل کے ہمراہ تھی تاکہ اپنے پیروکاروں کو دشمنوں کے گزند سے محفوظ رکھ سکیں، کتاب خدا اور دین اسلام کو ان سے بچا سکیں اور یہ حکومت انسانی سماج میں الٰہی قوانین کے نفاذ کی ضامن بن سکے۔

اسلام کا اقتصادی نظام، حکومتی آمدنی جیسے، انفال وغیرہ اور عوامی آمدنی جیسے زکات و خمس و غیرہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اسلام ایک جامع و کامل نظام ہے جس نے انسانوں کی سماجی زندگی کے تمام پہلوؤں میں ایک مکمل اور ہمہ گیر نظریہ پیش کیا ہے۔ اور صرف محدود پیمانے پر خشک مذہبی مراسم، وہ بھی ہفتہ میں ایک روز کی عبادت پر اکتفاء نہیں کیا ہے اور ثابت کیا کہ مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔

لیکن اس جملے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ حقیقی عیسائی دین کی بنیاد یہی تھی، بلکہ مسیحیت کے خودغرض مدعیوں نے قیصر و پاپ کے روپ میں دین مسیحیت کو رفتہ اس صورت میں تبدیل کیا ہے اور حضرت عیسی (ع) کے دین کو سماجی میدان سے خارج کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مذہب اور سیاست دو مختلف چیزیں ہیں۔ جبکہ حقیقت میں بہت سے پیغمبر اس مقام و منصب کے مالک تھے۔

قرآن مجید بالکل واضح طور پر حضرت لوط (ع) اور حضرت یوسف (ع) کے بارے میں کہتا ہے:

”کہ ہم نے انہیں حکومت اور فرما روائی دی“[5]

خود حضرت یوسف بارگاہ الٰہی میں حمد و ثنا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ[6]

پروردگارا! تو نے مجھے ملک عطا کیا۔

قرآن مجید نے حضرت داؤد (ع) کی قضاوت اور ان کی حکومت، اور حضرت سلیمان (ع) و طالوت (ع) کی فرما روائی اور حکومت کے لئے ان کی امتیازی حیثیتوں کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح پیغمبروں کو الٰہی حکومت کے بانی اور حکم الٰہی نافذ کرنے والوں کی حیثیت سے پہچنوایا ہے۔ اور ہمیشہ یہی تأثر دیا ہے کہ مذہب اور سیاست قابل جدا نہیں۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وسیع ابواب جو حکومت اسلامی کے نفاذ کی عملی بنیادوں میں سے ایک ہیں اور اسی طرح معاملات، حدود، دیات اور فقہ کے دیگر ابواب کے تمام قوانین کے مطالعے سے پیغمبر اسلام (ص) کی طرف سے قائم کی گئی حکومت کا طریقہ کار ہر شخص کے لئے واضح و روشن ہوتا ہے۔

یہ مسئلہ اس قدر واضح ہے اور خود پیغمبر (ص) کی زندگی اور خلفاء کی حکومت، خصوصاً امیر المؤمنین علی (ع) کی الٰہی حکومت کے ادوار اس امر کے اتنے نمایاں گواہ ہیں کہ، ہم مذہب اور سیاست کے متعلق، مزید وضاحت سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتے ہیں۔

پیغمبر (ص)، مذہب اور سیاست کی فرما روائی کے علاوہ احکام الٰہی کو بیان کرنے والے الٰہی قوانین کے مفسر اور قرآن مجید کی آیات کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کے عہدہ دار بھی تھے۔

قرآن مجید نے آپ کا مندرجہ ذیل آیہ شریفہ میں کتابِ خدا کے عالی مفاہیم بیان کرنے والے کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے:

’’وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ‘‘[7]

اور آپ کی طرف ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے تاکہ لوگوں کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں۔

آیہ شریفہ میں کلمہ ”لِتُبَیِّنَ“ تاکہ آپ بیان کریں، سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر (ص) قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے علاوہ اس امر پر بھی مامور تھے کہ ان آیات کے مفاہیم اور مضامین کی وضاحت فرمائیں۔ اگر آپ کا فریضہ صرف آیات الٰہی کو پڑھنا ہوتا تو کلمہ ”لِتُبَیّنَ“ کے بجائے ”لِتُقْرَا“ یا ”لِتُتْلٰی“ ہوتا۔

بیشک قرآن مجید کے حکم کے مطابق آنحضرت کتابِ خدا اور اس کے حکیمانہ احکام کے معلم ہیں، جیسا کہ فرماتا ہے:

’’هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ‘‘[8]

اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انہیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔

بیانِ احکام اور لوگوں کی رہنمائی

پیغمبر (ص)، مذہب اور سیاست کے ان دو عہدوں (حاکمیت اور الٰہی احکام کے نفاذ) نیز احکام کی رہنمائی و تبلیغ پر بھی فائز تھے اور یقیناً آپ کی رحلت کے بعد بھی، اسلامی معاشرے کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ان منصبوں کا حامل ہو۔

اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ان خصوصی شرائط کا حامل کون شخص ہے جو ان دو امور میں معاشرے کی باگ ڈور سنبھال سکے؟

واضح ہے کہ احکام بیان کرنا اور لوگوں کو حلال و حرام بتانا، اخلاقی فضائل اور ان کی فطری خوبیوں کی رہنمائی کرنا یعنی ایک جملے میں یوں کہا جائے کہ: دینی رہبری اور معنوی امور کی قیادت کے لئے عصمت اور خطا و گناہ سے پاک ہونے اور وسیع علم کے مالک ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ لوگوں پر مکمل قیادت، جس میں پیشوا کا قول و فعل لوگوں کے لئے ہادی و رہنما ہو، اس کی مکمل پرہیز گاری (جسے عصمت کہتے ہیں) اور وسیع علم پر منحصر ہے۔

دوسرے الفاظ میں اسلامی معاشرے کے قائد کو احکام اور اصول و فروع دین پر مکمل دسترس ہونی چاہئے، اس کے بغیر وہ لوگوں کے لئے مکمل رہنما اور الٰہی رہبر نہیں بن سکتا۔

حکومتِ طالوت (ع)

قرآن مجید اللہ تعالٰی کی طرف سے طالوت (ع) کو فرما روائی کے عہدے کے لئے منتخب کرنے کا سبب دو چیزیں بیان فرماتا ہے:

1۔ علم و دانش میں برتری۔

2۔ جسمانی لحاظ سے طاقتور ہونا۔

جس کی وجہ سے دن رات، وقت بے وقت قوم کے لئے کام کرسکے اور قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکے (حکام کے لئے دوسری شرط زمانہ قدیم سے تجربے کے ذریعے ثابت ہوچکی ہے، حتی یہ بات ضرب المثل بن گئی ہے کہ: صحیح عقل و فکر صحت مند بدن میں ہوتی ہے) اب یہ آیہ شریفہ ملاحظہ فرمائیں:

’’إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ‘‘[9]

انہیں (طالوت کو) الله نے تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور ان کے علم و جسم میں وسعت عطاء فرمائی ہے۔

امیر المؤمنین (ع) جب اپنے سپاہیوں اور افسروں کو خطاب فرماتے تھے اور انہیں خدا کی راہ میں جہاد کرنے کی ترغیب و دعوت دیتے تھے تو اسلامی معاشرے کو ہر جہت سے چلانے کی اپنی صلاحیت اور شائستگی بیان کرنے کے لئے اسی آیہ شریفہ سے استدلال کرتے تھے اور فرماتے تھے:

لوگو! اس قرآن مجید کی پیروی کرو اور اس سے نصیحت حاصل کرو جسے اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبر (ص) پر نازل کیا ہے ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے حضرت موسیٰ (ع) کی وفات کے بعد اپنے پیغمبر (ص) سے درخواست کی کہ خداوند عالم ان کے لئے ایک حاکم و فرمان روا منتخب کرے جس کی رہبری میں وہ خدا کی راہ میں جہاد کریں۔

اللہ تعالٰی نے حضرت طالوت (ع) کو ان کی فرما روائی کے لئے منتخب فرمایا، لیکن بنی اسرائیل نے ان کی اطاعت نہیں کی، اور اس کام کے لئے ان کی صلاحیت اور شائستگی میں شک کرنے لگے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبر (ص) کو حکم دیا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ اس منصب کے لئے طالوت کے انتخاب کا سبب علمی لحاظ سے ان کی برتری اور جسمی توانائی ہے۔

لوگو! ان قرآنی آیات میں تم لوگوں کے لئے پند و عبرت پوشیدہ ہے۔ اللہ نے اس لئے طالوت کو ان کے لئے حاکم اور فرمانروا قرار دیا تھا کہ وہ علم و جسمی توانائی میں ان سے برتر تھے اور وہ ان خصوصیات کی بنا پر جہاد و جد و جہد کرسکتے تھے۔[10]

حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع) بھی اہل بیت رسول (ص) کی خلافت و امامت کے لئے شائستگی ثابت کرنے کے لئے تمام الٰہی احکام اور امت کی تمام ضرورتوں کے بارے میں ان کے علم پر تکیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

لوگو! امت کے پیشوا ہمارے خاندان سے ہیں اور پیغمبر (ص) کی جانشینی کی صلاحیت ہمارے علاوہ کوئی نہیں رکھتا، اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر (ص) کے ذریعے ہمیں اس منصب کے لئے شائستہ قرار دیا ہے، کیونکہ علم و دانش ہمارے پاس ہے، اور ہم قیامت تک رونما ہونے والے ہر حکم، حتی بدن پر لگی ایک معمولی خراش کے حکم سے بھی آگاہ ہیں۔[11]

مذہب اور سیاست ناقابل جدا ہیں

حاکمیت کو معنوی قیادت کے منصب سے جدا کرنا ایسی چیز نہیں ہے جو اہل سنت علماء کی تازہ فکری کی پیداوار ہو بلکہ یہ بہت پرانی تاریخ ہے۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ سقیفہ کا ماجرا ختم ہوا اور ابوبکر نے امور اپنے ہاتھ میں لئے اور ظاہراً حکومت کی باگ ڈور سنبھالی، رسول خدا (ص) کے صحابیوں میں ایک گروہ ایسا تھا، جو امیرالمؤمنین (ع) کو خلافت کے عہدے سے محروم کرنے پر سخت ناراض تھا، کیونکہ جنگ تبوک کے لئے مدینے سے باہر نکلتے وقت، غدیر کے دن اور اپنی بیماری کے ایام میں پیغمبر (ص) اسلام کے ارشادات بھی ان کے کانوں میں گونج رہے تھے۔

اس لئے کچھ حق پسند افراد اس ڈرامائی انداز میں خلافت کے غصب کرنے پر سخت غصے میں آئے، یہ لوگ کسی فریق کی طرفداری کئے بغیر خلیفہ کے پاس جا کر علی (ع) کے بارے میں سوال کرتے تھے، خلیفہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں تھا کہ دو منصبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ضروری ہے وہ کہتے تھے کہ ”منصب حکومت اور معنوی قیادت ہرگز ایک ساتھ ایک خاندان میں جمع نہیں ہوسکتے“

رسول خدا (ص) کا ایک صحابی بریدہ بن خصیب، پیغمبر (ص) کی رحلت کے وقت مدینہ سے باہر مأموریت پر گیا تھا۔ وہ پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد واپس مدینہ آیا اور اس نے حالات کو دگرگوں پایا، تو ایک پرچم حضرت علی (ع) کے دروازے پر نصب کرکے غصہ کی حالت میں مسجد میں داخل ہوا اور خلیفہ اور ان کے ہم فکروں کے ساتھ بحث کرتے ہوئے کہنے لگا:

کیا تم لوگوں کو یاد نہیں ہے کہ ایک دن پیغمبر (ص) نے ہم سب کو حکم دیا تھا کہ حاکم اور امیر المؤمنین کی حیثیت سے حضرت علی (ع) کو سلام کرو اور کہو: ’’اَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِين‘‘ اب کیا ہوا ہے کہ تم لوگ پیغمبر (ص) کی وصیت اور سفارش کو فراموش کربیٹھے؟

خلیفہ نے ”بریدہ“ کے سوال کے جواب میں دونوں منصبوں کو جدا کرنے کا اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالٰی ہر دن ایک کام کے بعد دوسرا کام انجام دیتا ہے اور ایک خاندان میں نبوت (معنوی قیادت) اور حکمرانی کو جمع نہیں کرتا۔

یعنی پیغمبر (ص) کے اہل بیت (ع) یا امت کے معنوی پیشوا ہوں گے تاکہ احکام و شریعت الٰہی کو بیان کریں یا حکمران، یہ دونوں منصب ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے،

خلیفہ کی بات پر ذرا دقت سے غور کریں ان کا مقصد یہ نظر نہیں آتا کہ یہ دو منصب ہرگز کبھی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے، کیونکہ پیغمبر (ص) ان دونوں منصبوں کے مالک تھے۔ آپ مسلمانوں کے حاکم بھی تھے اور معنوی قائد بھی۔ پیغمبر (ص) کے علاوہ حضرت سلیمان (ع) جیسے دوسرے پیغمبر (ص) بھی ان دونوں عہدوں پر فائز تھے۔

یقیناً ان کا مقصد یہ تھا کہ پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد یہ دو منصب آنحضرت (ص) کے خاندان میں جمع نہیں ہوں گے، لیکن یہ نظریہ باطل اور بے بنیاد ہے۔ لہٰذا جب حضرت امام محمد باقر(ع) اصحاب سقیفہ کے اس نظریے ”جدائی“ کو نقل کرتے تھے تو فوراً مندرجہ ذیل آیہ شریفہ، جو فرزندان ابراہیم میں ان دونوں منصبوں کے جمع ہونے کی حکایت کرتی ہے، سے اس نظریے کو باطل قرار دیتے تھے۔

’’أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا‘‘[12]

یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا کیا ہے تو پھر ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم (بڑی فرما روائی) سب کچھ عطا کیا ہے۔

امام باقر (ع) نے مذکورہ آیہ شریفہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: فَكَيْفَ يُقِرُّونَ فِي آلِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَ يُنْكِرُونَهُ فِي آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ

پس یہ لوگ کس طرح ان دونوں منصبوں کے خاندان ابراہیم (ع) میں جمع ہونے کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن اسی چیز کے خاندان محمد میں جمع ہونے کا انکار کرتے ہیں۔

مذہب اور سیاست و عیسائی تفکر

حقیقت میں مذہب اور سیاست کا ایک دوسرے سے جدا ہونا، ایک قسم کا عیسائی تفکر ہے جو اس نظریہ (مذہب اور سیاست دو الگ منصب ہیں) کے ہم فکروں کی زبان پر جاری ہوا ہے۔ کیونکہ یہ موجودہ تحریف شدہ عیسائی دین ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں اس امر پر مامور ہوں کہ امورِ قیصر کو، خود قیصر کو سونپ دوں، لیکن دین اسلام کے تمام قوانین ایک مکمل مادی و معنوی ضابطہ حیات کی حکایت کرتے ہیں کہ جو بشر کی تمام سماجی، اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔

دین اسلام، جس کی بنیاد اور احکام و قوانین کے تانے بانے انسانی سیاست یعنی اسلامی سماج کے امور کی تدبیر کو تشکیل دیتے ہیں اس میں مذہب اور سیاست کی فرما روائی سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔

امیر المؤمنین (ع) حکومت کو احیائے حق کا وسیلہ جاننے کے بجائے خود حکومت کو مقصد قرار دئیے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

دُنْيَاكُمْ هَذِهِ أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ![13]

یعنی تم لوگوں کی دنیا اور یہ حکومت جس کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہو، میری نظر میں بکری کی ناک سے بہنے والے پانی کے برابر بھی قدر و قیمت نہیں رکھتے۔

نتیجہ

حضرت سلیمان (ع)، طالوت (ع)، داؤد (ع) اور خود، پیغمبر اکرم (ص) سے متعلق قرآنی اور تاریخی حقائق، اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ، مذہب اور سیاست ہمیشہ سے ایک دوسرے سے جڑے رہے ہیں۔ انبیاء کرام نہ صرف روحانی رہنما تھے بلکہ حکمران بھی تھے۔ لیکن آج کل بعض لوگ مذہب اور سیاست کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے اسلام کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب اور سیاست کو الگ کرنا غلط، اور امت میں اختلافات ایجاد کرنے کا سبب ہے۔

حوالہ جات

[1]۔ سورہ احزاب، آیت۶۔

[2]۔ سورہ مائدہ، آیت۴۸۔

[3]۔ کتانی، التراتیب الإداریة، ج۱، ص۲۸۵۔

[4]۔ کتانی، التراتیب الإداریة، ج۱، ص۲۸۵۔

[5]۔ سورہ انبیاء، آیت۷۲؛ سورہ یوسف، آیت۲۲۔

[6]۔ سورہ یوسف، آیت۱۰۱۔

[7]۔ سورہ نحل، آیت۴۴۔

[8]۔ سورہ جمعہ، آیت۲۔

[9]۔ سورہ بقرہ، آیت۲۴۷۔

[10]۔ طبرسی، احتجاج طبرسی، ج۱، ص۳۵۳۔

[11]۔ طبرسی، احتجاج طبرسی، ج۳، ص۶۔

[12]۔ سورہ نساء، آیت۵۴۔

[13]۔ شریف رضی، نھج البلاغہ، ج۱، ص۴۸۔

فہرست منابع

1۔ قرآن کریم۔
2۔ شریف رضی، محمد بن حسین، نهج البلاغة، بیروت، دار الرسول الاکرم صلی الله عليه و آله و سلم، ۱۴۱۸ھ ق۔
3۔ طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، بیروت، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، ۱۴۲۱ھ ق۔
4۔ کتانی، محمد عبدالحی بن عبدالکبیر، التراتيب الإدارية و العما‌لات‌ و الصنا‌عا‌ت‌ و المتا‌جر و الحا‌لة‌ العلمیة، بیروت، دار البشائر الإسلامیة، ۱۴۳۲ھ ق۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، چودھویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ ھ ش

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے