حضرت فاطمہ (س) کا خطبہ فدکیہ اسلامی تاریخ میں عدل، حق اور ولایت کی دفاع کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ یہ خطبہ ان کی بصیرت، جرات اور حق گوئی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں، آپ نے انصار مدینہ کو مخاطب کیا اور ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی۔ انصار مدینہ کو آپ نے انصاف، حمایت اور وعدوں کی پاسداری کی دعوت دی۔ ان کے سامنے اہل بیت (ع) کی قربانیوں کو بیان کرتے ہوئے، آپ نے اسلام کے اصولوں کو مضبوط رکھنے کی اہمیت اجاگر کی۔
یہ خطبہ ایک زندہ پیغام ہے جو انصاف اور سچائی کی حمایت کا درس دیتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اپنے خطبہ فدکیہ میں انصار کو مخاطب کرتے ہوئے مختلف اہم موضوعات پر روشنی ڈالی۔ ان موضوعات کی تفصیل اور متعلقہ عربی متون کے ساتھ تراجم درج ذیل ہیں:
۱۔ انصار مدینہ کے کردار اور ذمہ داریوں کی یاد دہانی
حضرت فاطمہ (س) نے انصار کی خدمات اور ان کے اسلامی جدوجہد میں مقام کو یاد دلایا۔ انصار مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’يا مَعْشَرَ الْبَقِيَّةِ، وَ اَعْضادَ الْمِلَّةِ، وَ حَضَنَةَ الْاِسْلامِ!‘‘
"اے ملت کی باقیات! اے دین کے معاونین! اے اسلام کے محافظو!”
آپ نے انصار مدینہ کے ایمان، قربانی، اور اسلام کے تحفظ کے لئے ان کی قربانیوں کا ذکر کیا اور انہیں ان کے عظیم مقام کی یاد دہانی کروائی کہ انصار کی ذمہ داری محض ماضی میں رسول اللہ (ص) کی خدمت تک محدود نہیں بلکہ ان پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ حق کا دفاع کریں اور ظالم کے مقابلے میں مظلوم کا ساتھ دیں۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اپنی خطبے میں انصار کو مخاطب کرکے ان کے ایمان، قربانیوں اور اسلام کی خدمت میں ان کے کردار کو اجاگر کیا۔ آپ نے انہیں "ملت کی باقیات"، "دین کے معاونین"، اور "اسلام کے محافظ” کہہ کر ان کی عظمت اور ان کے تاریخی کردار کو یاد دلایا۔
الف: ایمان اور استقامت کی یاد دہانی
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کو ان کے ایمان کی گہرائی اور ان کے عہد کی پاسداری کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے کردار کو سراہا۔ انصار نے ابتدائی دور میں اسلام کی دعوت کو قبول کیا اور رسول اللہ (ص) کی مدینہ میں مدد کی۔ آپ نے انہیں یاد دلایا کہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کو پناہ دی اور رسول اللہ (ص) کی حفاظت کی۔
ب: قربانیوں کا ذکر
آپ نے انصار کے اس کردار کی طرف اشارہ کیا کہ جب اسلام مکہ میں کمزور تھا اور دشمنوں نے رسول اللہ (ص) کو نشانہ بنایا ہوا تھا، تو انصار نے نہ صرف رسول اللہ (ص) کو مدینہ میں خوش آمدید کہا بلکہ ہر قسم کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنی جان و مال کو دین کے لئے پیش کیا۔
ج: اسلام کی خدمت اور محافظت
آپ نے انصار مدینہ کو "حضنۃ الاسلام” یعنی "اسلام کے محافظ” کہہ کر ان کی عظیم ذمہ داری کی یاد دہانی کروائی۔ انصار کی یہ خدمت نہ صرف ماضی کا حصہ ہے بلکہ اسلام کے استحکام میں ان کے کردار کی مستقل اہمیت ہے۔
د: یاد دہانی کا مقصد
آپ نے انصار مدینہ کو یہ سب یاد دلانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان کی موجودہ خاموشی اور بے عملی پر غور کریں۔ آپ نے سوال کیا کہ جو لوگ ایک زمانے میں اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار تھے، آج کیوں خاموش ہیں اور آپ کے حق کی حمایت میں آگے کیوں نہیں بڑھ رہے۔
۲۔ نصرت سے غفلت پر سوال
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے ان کے رویے پر تنقید کی: ’’ما هٰذِهِ الْفَتْرَةُ عَنْ نُصْرَتِى وَ الْوِنْيَةُ عَنْ مَعُونَتِى؟‘‘
"یہ کیسی سستی ہے میری نصرت سے؟ اور یہ کیسی کوتاہی ہے میری مدد میں؟”
یہ سوال انصار مدینہ کو ان کے اخلاقی اور دینی فریضے کی طرف متوجہ کرنے کے لئے تھا کہ وہ اہل بیت (ع) کے حقوق کا دفاع کیوں نہیں کر رہے۔
الف: خاموشی پر سوال
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کی خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ان کی اخلاقی اور دینی ذمہ داری کی یاد دہانی کروائی۔ آپ نے سوال کیا کہ جو قوم اسلام کے دفاع کے لئے اپنے گھر بار، جان و مال قربان کرنے سے نہیں ہچکچائی، وہ آج کیوں خاموش ہے؟ آپ نے ان کے رویے کو "سستی” اور "کوتاہی” کے طور پر بیان کیا، جو ایک زبردست اخلاقی جھنجھوڑا تھا۔
ب: دینی فریضے کی یاد دہانی
یہ سوال انصار مدینہ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے تھا تاکہ وہ سمجھیں کہ اہل بیت (ع) کا دفاع کرنا درحقیقت اسلام کا دفاع کرنا ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے واضح کیا کہ اگر انصار، اہل بیت (ع) کے حقوق کی پامالی پر خاموش رہیں گے تو یہ ان کی دینی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہوگی۔
ج: انصاف کا تقاضا
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے تقاضا کیا کہ وہ اپنے اعمال پر غور کریں اور دیکھیں کہ کیا وہ عدل و انصاف کے اصولوں پر عمل کر رہے ہیں یا اپنے فرائض سے غافل ہو چکے ہیں۔
۳۔ رسول اللہ (ص) کی تعلیمات کا حوالہ
آپ نے رسول اللہ (ص) کی تعلیمات کی طرف اشارہ کیا اور انصار مدینہ یاد دلایا کہ اہل بیت (ع) کی محبت اور احترام واجب ہے: ’’أَما كانَ رَسُولُ اللّهِ أَبِى صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يَقُولُ: {الْمَرْءُ يُحْفَظُ فى وُلْدِهِ}؟‘‘
"کیا رسول اللہ (ص) نے نہیں فرمایا تھا کہ انسان اپنے اولاد کے ذریعے محفوظ رہتا ہے؟” یہ قول انصار مدینہ کو متوجہ کرنے کے لئے تھا کہ اہل بیت (ع) کو وہی مقام دیا جائے جو رسول اللہ (ص) نے ان کے لئے مقرر کیا تھا۔
الف: رسول اللہ (ص) کی تعلیمات کی طرف توجہ دلانا
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کو یہ یاد دلایا کہ رسول اللہ (ص) نے اہل بیت (ع) کو مسلمانوں کے لئے ہدایت اور محبت کا مرکز قرار دیا تھا۔ آپ نے رسول اللہ (ص) کے فرمان کا حوالہ دے کر یہ واضح کیا کہ آپ (ص) کے بعد ان کی اولاد کا احترام اور ان کے حقوق کی پاسداری کرنا امت کی ذمہ داری ہے۔
ب: اخلاقی اصول
رسول اللہ (ص) کے قول "المَرْءُ يُحْفَظُ فى وُلْدِهِ” کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کے مقام، عزت، اور کارنامے اس کی اولاد کے ذریعے محفوظ رہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کو مخاطب کر کے ان کے ضمیر کو جھنجھوڑا کہ اگر وہ رسول اللہ (ص) کی محبت کے دعویدار ہیں تو ان کی اولاد (اہل بیت (ع)) کے حقوق اور مقام کی حفاظت ان پر واجب ہے۔
ج: اہل بیت (ع) کی مرکزیت
رسول اللہ (ص) کی متعدد احادیث، مثلاً حدیثِ ثقلین اور حدیثِ کساء، میں اہل بیت (ع) کو امت کے لئے ہدایت کا سرچشمہ اور محبت کا محور قرار دیا گیا ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے انصار کو یہ یاد دلایا کہ اہل بیت (ع) کی محبت اور ان کے حقوق کی پاسداری نہ صرف رسول اللہ (ص) کے حکم کی تعمیل ہے بلکہ خود اسلام کی بقا کا ذریعہ ہے۔
د: انصار کی ذمہ داری
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ سے تقاضا کیا کہ وہ رسول اللہ (ص) کی تعلیمات پر غور کریں اور دیکھیں کہ وہ اپنے فرائض سے غافل تو نہیں ہو گئے۔ رسول اللہ (ص) کی محبت کا تقاضا یہ تھا کہ ان کی اولاد کو وہی مقام دیا جائے جس کا حکم خود رسول اللہ (ص) نے دیا تھا۔
۴۔ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت پر امت کی گمراہی
حضرت فاطمہ (س) نے پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد امت میں پیدا ہونے والی گمراہی کا ذکر کیا: ’’وَ ماتَ الْحَقُّ، فَتِلْكَ وَ اللّهِ النّازِلَةُ الْكُبْرىٰ، وَ الْمُصِيبَةُ الْعُظْمىٰ، لا مِثْلُها نازِلَةٌ وَ لا بائِقَةٌ عاجِلَةٌ۔‘‘
"حق مر گیا، اور یہ خدا کی قسم سب سے بڑی آفت اور عظیم ترین مصیبت ہے، ایسی کہ اس جیسی نہ پہلے آئی اور نہ آئے گی۔”
یہ الفاظ امت کی گمراہی اور اہل بیت (ع) کے حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج تھے۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) کے یہ الفاظ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد امت کی حالت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے کلمات امت کے ایمان، اتحاد، اور اہل بیت (ع) کے حقوق کی پامالی کے تناظر میں گہرے معانی رکھتے ہیں۔
الف: حق کا خاتم
حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: "حق مر گیا” یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد امت نے دین کے اصل اصولوں اور تعلیمات سے انحراف شروع کر دیا۔ حق کا مرنا صرف ایک علامتی جملہ نہیں بلکہ حقیقت میں وہ عدل و انصاف، سچائی، اور راہِ ہدایت جو رسول اللہ (ص) کے ذریعے روشن ہوئی تھی، اسے پسِ پشت ڈال دیا گیا۔
کیوںکہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے فوراً بعد خلافت کا معاملہ حق سے ہٹ کر طاقت اور سازش کی شکل اختیار کر گیا، اور اہل بیت (ع) کو ان کا جائز حق نہیں دیا گیا اور امت نے قرآن اور رسول اللہ (ص) کی تعلیمات کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کے مطابق دین کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا شروع کر دیا۔
ب: سب سے بڑی مصیبت
"یہ خدا کی قسم سب سے بڑی آفت اور عظیم ترین مصیبت ہے” حضرت فاطمہ (س) نے رسول اللہ (ص) کی وفات کو ایک غیر معمولی سانحہ قرار دیا، جس کے اثرات امت کے تمام طبقات پر پڑے۔ کیونکہ رسول اللہ (ص) کی موجودگی امت کے لئے ہدایت، علم، اور اتحاد کا ذریعہ تھی۔ آپ (ص) کی رحلت کے بعد امت فرقہ بندی، انتشار، اور گمراہی کا شکار ہو گئی۔
اہل بیت (ع) کو ان کے حق سے محروم کیا گیا اور امت کے درمیان عداوت، طاقت کی سیاست، اور ناانصافی کا آغاز ہوا، جو اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف تھا۔
ج: انحراف کی نوعیت
"نہ اس جیسی کوئی آفت پہلے آئی اور نہ آئے گی” یہ الفاظ اس انحراف کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں جو رسول اللہ (ص) کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ امت نے اہل بیت (ع) کی رہبری کو چھوڑ کر دنیاوی معاملات اور طاقت کو دین پر ترجیح دی، جو مستقبل میں کئی مصائب اور اختلافات کا سبب بنا۔
حق کی موت کا مطلب یہ تھا کہ معیار حق کو پس پشت ڈال دیا گیا اوراہل بیت (ع)، جو علم و ہدایت کا سرچشمہ تھے، کو نظرانداز کر دیا گیا، جس سے امت کو فکری اور روحانی نقصان پہنچا۔
د: احتجاج کی آواز
حضرت فاطمہ (س) کے یہ الفاظ درحقیقت ایک پرزور احتجاج تھے، جن کے ذریعے انہوں نے امت کو متوجہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنی روش کو بدلیں اور اہل بیت (ع) کے حقوق کو تسلیم کریں۔ حضرت فاطمہ (س) نے اپنے خطبے میں بارہا امت کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور انہیں رسول اللہ (ص) کی تعلیمات کی طرف لوٹنے کی دعوت دی۔
۵۔ انصار مدینہ کی خاموشی پر ملامت
حضرت فاطمہ (س) نے انصار کی خاموشی اور ان کے دفاعی کردار کے ختم ہونے پر افسوس کا اظہار کیا: ’’أَلا تُقاتِلُونَ قَوْماً نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ وَ هَمُّوا بِاِخْراجِ الرَّسُولِ؟‘‘
"کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنے عہد کو توڑا اور رسول کو نکالنے کا منصوبہ بنایا؟” آپ نے انصار مدینہ کو اس آیت کے ذریعے ان کے دینی فریضے کی یاد دہانی کروائی کہ وہ اہل بیت (ع) کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔
الف: آیت کا سیاق و سباق
حضرت فاطمہ (س) نے قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیا جس میں ان لوگوں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جنہوں نے اپنے عہد توڑے، سازشیں کیں، اور رسول اللہ (ص) کو نکالنے کا منصوبہ بنایا: "أَلا تُقاتِلُونَ قَوْماً نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ وَ هَمُّوا بِاِخْراجِ الرَّسُولِ؟” (سورہ توبہ: ۱۳) یہ آیت ان منافقین اور کفار کے خلاف جنگ کے حکم سے متعلق ہے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے توڑ دیے اور اسلام کے خلاف سازشیں کیں۔
ب: انصار کے ماضی کی یاد دہانی
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کی توجہ ان کے ماضی کی طرف دلائی جب انہوں نے رسول اللہ (ص) کی نصرت اور دین کی حمایت کے لئے جان و مال قربان کیا تھا۔ انصار نے بیعتِ عقبہ کے موقع پر عہد کیا تھا کہ وہ رسول اللہ (ص) کی حفاظت کریں گے اور ان کے مشن کو کامیاب بنانے میں مدد کریں گے۔
ج: خاموشی پر ملامت
حضرت فاطمہ (س) کی ملامت اس بات پر تھی کہ انصار، جو کبھی اسلام کے دفاع کے لئے پیش پیش تھے، اب خاموش ہو گئے اور اہل بیت (ع) کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے سے قاصر رہے۔ انصار نے ان لوگوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جنہوں نے اہل بیت (ع) کے حقوق کو پامال کیا اور رسول اللہ (ص) کی وصیت کو نظرانداز کیا۔ حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کو یاد دلایا کہ ان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ حق کا دفاع کریں اور باطل کے خلاف کھڑے ہوں۔
د: دینی فریضے کی یاد دہانی
حضرت فاطمہ (س) نے اس آیت کے ذریعے انصار مدینہ کو ان کے دینی فریضے کی یاد دہانی کروائی کہ انصار کو رسول اللہ (ص) اور اہل بیت (ع) کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدے کو پورا کرنا چاہیے تھا۔ انصار کو ظالموں کے خلاف کھڑا ہونا اور مظلوموں، یعنی اہل بیت (ع)، کا دفاع کرنا چاہیے تھا۔ حضرت فاطمہ (س) نے انصار کو یاد دلایا کہ اسلام میں خاموشی اور ظلم کو برداشت کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ ظالموں کے خلاف آواز اٹھانا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔
ھ: انصار کی خاموشی کے نتائج
حضرت فاطمہ (س) کی ملامت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انصار مدینہ کی خاموشی کے نتائج امت کے لئے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ خاموشی سے ظالموں کو طاقت ملے گی اور معاشرے میں عدل و انصاف کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اہل بیت (ع)، جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کا مرکز ہیں، کی حمایت نہ کرنے سے دین کے حقیقی اصول متاثر ہوں گے۔ انصار کی خاموشی سے امت میں انتشار پیدا ہوا۔
۶۔ انصار کی توانائیوں کی طرف اشارہ
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کی توانائیوں اور وسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان سے عملی قدم اٹھانے کی توقع کی: ’’تَشْمَلُكُمُ الْخَبْرَةُ، وَ فِيكُمُ الْعُدَّةُ وَ الْعَدَدُ، وَ لَكُمُ الدّارُ وَ الْجُنَنُ‘‘
"تمہیں تجربہ حاصل ہے، تمہارے پاس افراد کی کثرت ہے، تمہارے پاس طاقت اور سامانِ دفاع موجود ہیں۔” آپ نے ان کی قوت، وسائل، اور تجربے کا ذکر کرتے ہوئے یہ یاد دلایا کہ وہ اسلام کے دفاع اور اہل بیت (ع) کے حقوق کے تحفظ میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
الف: انصار کی قوت اور تجربہ
حضرت فاطمہ (س) نے انصار کے پاس موجود طاقت اور صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ کیونکہ انصار نے مختلف جنگوں میں رسول اللہ (ص) کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے اسلام کے لئے بے مثال قربانیاں دیں۔ ان کا تجربہ جنگی حکمتِ عملی اور دفاعی امور میں بے نظیر تھا۔
مدینہ میں انصار کی بڑی تعداد موجود تھی جو نہ صرف تعداد میں زیادہ تھے بلکہ بہادری اور ایمان میں بھی نمایاں تھے۔ انصار کے پاس مدینہ جیسے مضبوط مرکز کے ساتھ دفاعی وسائل اور طاقت موجود تھی جو کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی تھی۔
ب: عملی قدم اٹھانے کی توقع
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کی موجودہ صورتحال کو ان کے ماضی کے کردار سے موازنہ کرتے ہوئے ان سے عملی قدم اٹھانے کی توقع کی اور آپ نے انصار کو ان کی قربانیوں اور خدمات کی یاد دلائی جو انہوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں انجام دیں۔
انہوں نے رسول اللہ (ص) کے حکم پر جنگوں میں حصہ لیا اور اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ اس کے برعکس، حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کی حالیہ خاموشی اور ان کے وسائل کے باوجود عملی قدم نہ اٹھانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
ج: انصار کی ذمہ داری
حضرت فاطمہ (س) کے کلمات انصار مدینہ کو ان کے ایمان اور وعدوں کی یاد دہانی کرانے کے ساتھ ان کی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ آپ نے انصار کو متوجہ کیا کہ ان کے پاس جو وسائل اور صلاحیتیں ہیں، ان کا استعمال اہل بیت (ع) کے حقوق کی حفاظت اور حق کے دفاع میں ہونا چاہیے۔
د: انصار کے کردار کی اہمیت
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کو یہ باور کروایا کہ ان کی خاموشی یا عمل نہ کرنے کا فیصلہ امت کے لئے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر انصار اپنے وسائل اور طاقت کو استعمال نہیں کریں گے تو اسلام کے حقیقی اصولوں کو نقصان پہنچے گا۔ انصار کی خاموشی اہل بیت (ع) کے حقوق کی پامالی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔
حضرت فاطمہ (س) کے یہ الفاظ انصار کے اندر ایک تحریک پیدا کرنے کے لئے تھے۔ آپ نے ان کی توانائیوں کو اجاگر کیا اور ان سے امید ظاہر کی کہ وہ اپنے ایمان اور وعدوں پر قائم رہیں گے۔
۷۔ اہل بیت (ع) کی عظمت اور قربانیوں کا تذکرہ
آپ نے اہل بیت (ع) کی قربانیوں کو یاد دلاتے ہوئے انصار مدینہ کو متوجہ کیا: ’’وَ دارَتْ لَكُمْ بِنا رَحَى الْاِسْلامِ‘‘
"اسلام کی چکی ہمارے ذریعے تمہارے لئے گھومتی رہی۔” یہ الفاظ اہل بیت (ع) کی قربانیوں اور خدمات کی یاد دہانی کرواتے ہیں اور انصار مدینہ کو ان کا دینی فریضہ سمجھانے کے لئے کہے گئے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کے یہ الفاظ اہل بیت (ع) کی اسلام کے لئے قربانیوں، خدمات، اور مرکزی حیثیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ آپ نے انصار کو یاد دلایا کہ اسلام کے قیام، اس کی حفاظت، اور اس کے فروغ میں اہل بیت (ع) نے ایک محور کی حیثیت سے کام کیا ہے۔ اس بیان میں انصار کو ان کے دینی فریضے اور ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا گیا کہ وہ اہل بیت (ع) کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کریں اور ان کے حقوق کی حفاظت کریں۔
الف: اہل بیت (ع) کا اسلام میں مرکزی کردار
"اسلام کی چکی ہمارے ذریعے گھومتی رہی۔” یہ جملہ علامتی طور پر اہل بیت (ع) کی قربانیوں اور جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے۔
چکی کے دو پتھروں کے بغیر آٹا نہیں پیسا جا سکتا، اسی طرح اسلام کی بقا اور کامیابی اہل بیت (ع) کی جدوجہد، صبر، اور قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
ب: انصار کے لئے یاد دہانی
حضرت فاطمہ (س) نے انصار مدینہ کو اہل بیت (ع) کی خدمات یاد دلاتے ہوئے ان سے عملی قدم اٹھانے کی توقع کی۔ آپ نے انصار مدینہ کو ان کے ایمان کی بنیاد پر مخاطب کیا کہ اگر وہ اسلام کی حفاظت کے دعوے دار ہیں، تو انہیں اہل بیت (ع) کے حقوق کی پامالی پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ انصار نے رسول اللہ (ص) کے زمانے میں اسلام کے دفاع کے لئے قربانیاں دیں اور اہل بیت (ع) سے محبت اور وفاداری کے عہد کئے تھے۔ حضرت فاطمہ (س) نے انہیں ان وعدوں کی یاد دہانی کرائی۔
ج: اسلام کی بقا میں اہل بیت (ع) کا حصہ
جس طرح ایک چکی کے پتھر اپنی جگہ نہ ہوں تو چکی کا نظام رک جاتا ہے، اسی طرح اہل بیت (ع) کے بغیر اسلام کا نظام مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اہل بیت (ع) نے امت کو دینی اصولوں اور اخلاقی قدروں کی رہنمائی فراہم کی اور ہر موقع پر دین کی سربلندی کے لئے جدوجہد کی۔ اہل بیت (ع) نے اپنے خون سے اسلام کے اصولوں کو محفوظ رکھا اور امت کو یہ سبق دیا کہ حق کی حفاظت کے لئے جان بھی قربان کرنی پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
د: اسلام کے لئے قربانی کا جذبہ
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے انصار کو اہل بیت (ع) کی خدمات اور قربانیوں کی یاد دہانی کرواتے ہوئے ان سے یہ امید ظاہر کی کہ وہ اپنے ایمان، وسائل، اور وعدوں کا حق ادا کرتے ہوئے اہل بیت (ع) کا دفاع کریں گے۔ ان الفاظ کا مقصد انصار کو ان کے دینی فرائض کی یاد دہانی کروانا اور ان کے ضمیر کو بیدار کرنا تھا تاکہ وہ خاموشی توڑ کر حق کے لئے کھڑے ہوں اور باطل کا مقابلہ کریں۔
خاتمہ
حضرت فاطمہ (س) کا انصار مدینہ دیا گیا خطبہ، ایک تاریخی، مذہبی اور اخلاقی پیغام کا حامل ہے جو ہر دور کے انسانوں کو عدل و انصاف کی حمایت کی دعوت دیتا ہے۔ انصار مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے اسلامی اقدار کی حفاظت اور امت مسلمہ کے حقوق کی پاسداری پر زور دیا۔ اہل بیت (ع) کی قربانیوں اور انصار مدینہ کے کردار کی یاد دہانی نے ایک ایسا نقوش چھوڑا جو قیامت تک رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔ یہ خطبہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دین اسلام کی بقاء اور ترقی کے لئے عدل و انصاف اور ولایت اہل بیت (ع) کا دامن تھامے رکھنا ناگزیر ہے۔
مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
خطبات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، ترجمہ اقبال حیدر حیدری، قم ایران، موسسہ امام علی علیہ السلام (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔